Ruh-ul-Quran - As-Saff : 8
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں لِيُطْفِئُوْا : کہ بجھادیں نُوْرَ اللّٰهِ : اللہ کے نور کو بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے مونہوں سے وَاللّٰهُ : اور اللہ مُتِمُّ : پورا کرنے والا ہے نُوْرِهٖ : اپنے نور کو وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ : اور اگرچہ ناپسند کرتے ہوں کافر
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھا دیں، حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُا نُوْرَاللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْـکٰفِرُوْنَ ۔ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ۔ (الصف : 8، 9) (یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھا دیں، حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے، اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ ) یہود کا ہدف اور اس میں ناکامی جزیرہ عرب کے رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگ اس بات پر متفق تھے کہ جس طرح بھی ہوسکے اس نور کو بجھا دیا جائے جو آنحضرت ﷺ اسلام کے نام سے پھیلا رہے ہیں۔ قرآن کریم نے اسے تشبیہ کی صورت دے کر ایک سعی لاحاصل قرار دیا ہے۔ یعنی ان کی یہ کاوشیں ایسے ہی ہیں جیسے سورج یا چاند کی روشنی کو کوئی شخص یا انسانوں کا کوئی گروہ اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھانے کی کوشش کرے۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص بھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اور پھر مزید یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کا دین جو اب ہلال کی شکل میں ہے، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اسے بدر بنا کر رہے گا۔ یعنی دین کی وہ روشنی جو چراغ کی صورت مسلمانوں کے دلوں میں جل رہی ہے اور ابھی تک مدینہ منورہ کے گھروں میں بھی پوری طرح پھیل نہیں سکی اور لوگ اسے بجھانے کی تدبیریں کررہے ہیں اور بہت حد تک اس کے لیے پرامید بھی ہیں۔ لیکن یہ حیرت انگیز پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس روشنی کو پہلے جزیرہ عرب کی حد تک اور اس کے بعد معلوم زمین کے بڑے حصے تک پھیلا کے رہے گا۔ دوسری آیت پہلی آیت کے مضمون کی مزید وضاحت ہے کہ جس پروردگار نے اپنے نور کو کامل کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے وہ نور درحقیقت وہ دین ہے نبی کریم ﷺ جسے دے کر بھیجے گئے ہیں اور پیش نظر یہ ہے کہ اس دین کو اس سرزمین کے تمام ادیان پر غالب کردے اور یہ فیصلہ تکمیل کو پہنچ کر رہے گا۔ اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ پہلی آیت کے آخر میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگرچہ یہ کفار پر کتنا ہی گراں گزرے اور دوسری آیت کے آخر میں فرمایا کہ اگرچہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے۔ پہلے کافرون کا لفظ ہے اور اس کے بعد مشرکون کا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافرون سے وہ تمام مخالفین مراد ہیں جو جزیرہ عرب میں پھیلے ہوئے تھے اور جن کا تعلق مختلف مذاہب سے تھا۔ اور مشرکین سے مشرکینِ قریش مراد ہیں۔ ان دو لفظوں کے استعمال سے تمام مخالف طاقتوں کا ذکر کردیا گیا ہے جو اس وقت عرب میں اسلام کی مخالفت کررہی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ تمام مخالفین کو چیلنج کردیا گیا ہے کہ تم مخالفت میں جتنا زور لگانا چاہو لگا لو، لیکن تم اللہ تعالیٰ کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس رسول کے ذریعہ سے اس دین حق کو تمام دینوں پر غالب کرکے رہے گا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیات جنگ احد کے بعد 3 ہجری میں نازل ہوئی ہیں جبکہ اسلام ابھی مدینہ منورہ تک محدود تھا اور مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی اور ابھی کچھ عرصہ پہلے احد کے معرکے میں جو مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ چکی تھی اور گردوپیش کے قبائل ان پر شیر ہوگئے تھے۔ ان حالات میں اس دین کا تمام دینوں پر غالب آنا اور اللہ تعالیٰ کے نور کا کامل ہو کے رہنا ایک ایسی پیشگوئی تھی جس کا اس وقت یقین کرنا آسان نہ تھا۔ لیکن آج اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ اور چند ہی سالوں میں اللہ تعالیٰ کا دین جزیرہ عرب پر غالب آگیا۔ اور پھر ربع صدی نہیں گزری تھی کہ معلوم زمین کی ایک تہائی کا وہ مقدر بن گیا۔
Top