Ruh-ul-Quran - As-Saff : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو لِمَ تَقُوْلُوْنَ : کیوں تم کہتے ہو مَا لَا : وہ جو نہیں تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو
یٰٓـاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ ۔ کَبُرَمَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالاَ تَفْعَلُوْنَ ۔ (الصف : 2، 3) (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ ) بنیادی اخلاقی کمزوری قول و عمل کا تضاد ہے الْمَقْتُ … اہل لغت اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں الْمَقْتُ اشدالابغاض۔ المقت بغض من امرقبیح رکیۃ ” یعنی حددرجہ کا بغض، خصوصاً وہ بغض جو کسی قبیح حرکت کے باعث ہو۔ انسان کی اخلاقی کمزوریوں میں سے یہ کمزوری بہت تکلیف دہ اور نقصان کا باعث ہے کہ انسان کے قول و عمل میں تضاد ہو۔ وہ جس بات کا دعویٰ کرے عمل کی دنیا میں اس پر پورا نہ اترے۔ اگر وہ ایک ایسا دعویٰ کرتا ہے جس پر وہ عمل کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا تو یہ تو ایک بدترین عیب ہے۔ لیکن اگر وہ دعویٰ کرتے وقت عمل کا ارادہ تو رکھتا تھا لیکن بعد میں عملی دشواریوں کو دیکھتے ہوئے اس نے عمل کا ارادہ بدل ڈالا۔ تو یہ چیز بھی بجائے خود ایک مسلمان کے لیے انتہائی قبیح حرکت ہے۔ جھوٹ بولنا، وعدے کی خلاف ورزی کرنا یا امانت میں خیانت کرنا یہ سب اسی خصلت کے ساخسانے ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ نے اسے منافق کی نشانیاں قرار دیا ہے۔ اور سیرت و کردار کی تعمیر میں اس کا جو حصہ ہے شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے ہر خطبہ جمعہ میں ہمیشہ اس کا ذکر ضرور فرماتے تھے۔ کبھی فرماتے لا ایمان لمن لاعہدلہ اور کبھی فرماتے لادین لمن اللہ امانۃ لہ کیونکہ جو شخص اپنے قول کا ایفاء کرنے والا ہے وہ نہ کبھی وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ کبھی امانت میں خیانت کرتا ہے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں اس عیب کے پیدا ہونے کا کبھی امکان بھی محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں اس عام اخلاقی کمزوری سے بڑھ کر ایک اور بات کہی جارہی ہے جو نہ صرف قبیح ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے انتہائی غضب کا باعث ہے۔ وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے لیے سب سے بہتر عمل کا دعویٰ کرے یا حق و باطل کے معرکے میں جسم و جان کا نذرانہ پیش کرنے کی تمنا کا اظہار کرے۔ لیکن جب موقع آئے تو اس سے بچ نکلنے کی کوشش کرے، موت کا خوف اسے آپکڑے یا دنیا کی محبت اس کا راستہ روک لے۔ تو یہ وہ اخلاقی کمزوری ہے جو اللہ تعالیٰ کے انتہائی غضب کو دعوت دیتی ہے۔ چناچہ مدینہ کے مسلمان معاشرے میں جہاں صحابہ اخلاص و ایثار کی تصویر تھے اور شہادت کو وہ زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے وہیں کچھ ایسے ضعیف الایمان مسلمان بھی تھے جو ابھی تک موت کے خوف سے نجات نہیں پا سکے تھے اور آخرت میں کامیابی ان کا مقصود نہیں بن سکی تھی۔ اور ایسے منافقین بھی تھے جو صرف سخن سازی پر گزارہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ انھیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سے ناپسندیدہ بات اور کوئی نہیں کہ تم بڑھ چڑھ کر سرفروشی کا دعویٰ کرو، لیکن وقت آنے پر کمزوری دکھائو۔ چناچہ اسی سلسلے میں سورة النساء آیت 77 میں فرمایا گیا ہے کہ تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روک کے رکھو، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔ اب جو انھیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے۔ یا اس سے بھی کچھ بڑھ کر، کہتے ہیں ” خدا یا ! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی۔ “ ان کی یہ روش اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اس لیے تھی کہ حق و باطل کی کشمکش میں ایسی کوئی کمزوری صرف شخصی کمزوری نہیں رہتی بلکہ اہل حق کی فیروزمندیوں اور فتح مندیوں میں صورتحال کے بدل جانے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ حق کی سربلندی، سرنگونی میں بدل جاتی ہے۔ اور یہ چند لوگوں کی کمزوری بعض دفعہ اجتماعی حادثہ ثابت ہوتی ہے۔
Top