Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 92
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ
وَهٰذَا : اور یہ كِتٰبٌ : کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے نازل کی مُبٰرَكٌ : برکت والی مُّصَدِّقُ : تصدیق کرنے والی الَّذِيْ : جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اپنے سے پہلی (کتابیں) وَلِتُنْذِرَ : اور تاکہ تم ڈراؤ اُمَّ الْقُرٰي : اہل مکہ وَمَنْ : اور جو حَوْلَهَا : اس کے ارد گرد وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِهٖ : اس پر وَهُمْ : اور وہ عَلٰي : پر (کی) صَلَاتِهِمْ : اپنی نماز يُحَافِظُوْنَ : حفاظت کرتے ہیں
اور یہ ایک کتاب ہے ‘ جو ہم نے اتاری بابرکت ‘ تصدیق کرنے والی اپنے سے پہلے کی چیز کی (تا کہ تو خوشخبری دے) اور تاکہ ہوشیار کر دے ام القریٰ اور اس کے ارد گرد والوں کو اور جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ‘ وہی اس پر ایمان لائیں گے اور وہی اپنی نماز کی حفاظت کریں گے
ارشاد ہوتا ہے : وَھٰذَا کِتٰبٌاَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌمُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا ط وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَھُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ (الانعام : 92) (اور یہ ایک کتاب ہے ‘ جو ہم نے اتاری بابرکت ‘ تصدیق کرنے والی اپنے سے پہلے کی چیز کی (تا کہ تو خوشخبری دے) اور تاکہ ہوشیار کر دے ام القریٰ اور اس کے ارد گرد والوں کو اور جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس پر ایمان لائیں گے اور وہی اپنی نماز کی حفاظت کریں گے) گزشتہ آیت کی تشریح کے ضمن میں یہ بات گزری ہے کہ یہود نے اہل مکہ سے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کبھی کوئی چیز نہیں اتاری۔ قرآن کریم نے ان کی اس لغو بات کا ذکر کرتے ہوئے مختلف پہلوئوں سے اس کا جواب دیا لیکن اس آیت کریمہ سے ان کی ایک اور بات کی طرف اشارہ معلوم ہو رہا ہے جس کا ذکر تمام احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے کہ وہ عموماً یہ بات کہا کرتے تھے کہ جب مسلمان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تورات اللہ کی کتاب ہے اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے سچے رسول تھے تو پھر اس کتاب کی موجودگی میں آخر نئی کتاب کے نزول کی ضرورت کیا ہے۔ تورات ہمارے ہاتھوں میں ہے اور خود قرآن کریم اس کی تصدیق بھی کرتا ہے اور وہ ہمیں زندگی کے تمام معاملات میں راہنمائی بھی مہیا کر رہی ہے تو پھر آنحضرت ﷺ کی بعثت اور قرآن کریم کا نزول محض تکلف کے سوا اور کیا ہے جس کے نتیجے میں البتہ ایک لڑائی ضرور چھڑ گئی ہے جس سے پورے مشرق وسطیٰ کے امن کو خطرہ ہے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا یہ مناسب نہیں کہ تورات کی راہنمائی پر اکتفا کرلیا جائے اور قرآن کریم اور آنحضرت کا انکار کر کے معاملات کو یکسو ہونے کا موقع دیا جائے اس آیت کریمہ میں پروردگار ان کی اس بےہودہ بات کا ذکر کیے بغیر اشارۃً جواب دے رہا ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب تک کوئی کتاب ‘ اس کا پیغام ‘ اس کی دعوت اور اس کی شریعت پوری طرح محفوظ رہتی ہے اللہ تعالیٰ کبھی نیا رسول مبعوث نہیں کرتا اور نئی کتاب نازل نہیں فرماتا اسی طرح جب تک موجود کتاب نئے مسائل کو حل کرنے کے قابل رہتی ہے اور اس کا فہم رکھنے والے اپنے اندر دعوت اسلامی کا ذوق اور پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے اجتہادی فکر کے حامل رہتے ہیں تو تب بھی نئی کتاب کا نزول نہیں ہوتا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ابھی نئی کتاب اور نئے رسول کا زمانہ نہیں آیا اور بلا ضرورت کسی رسول کو بھیج کر اور کسی کتاب کو اتار کر اللہ تعالیٰ کبھی بھی لوگوں میں خلفشار پیدا نہیں فرماتے۔ لیکن جب اس کی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے تو پھر محض اس خلفشار سے بچنے کے لیے انسانی ضرورت کے پورا کرنے کی بجائے انسان کو گمراہی اور فکری نارسائی میں چھوڑ دینا پروردگار کی حکمت کے خلاف ہے۔ جہاں تک یہود کی اس بات کا تعلق ہے کہ تورات کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے۔ گزشتہ آیت میں اسی حوالے سے ان کے سامنے آئینہ رکھا گیا ہے کہ وہ اس میں اپنے اصلی خدوخال پہچاننے کی کوشش کریں اور پھر بتائیں کہ خود انھوں نے آج تک تورات اور اس کی تعلیمات کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ اس کے احکام کو چھپانا ‘ انھیں تحریف کی نذر کرنا ان میں معنوی ترامیم کرنا ان میں عجیب و غریب تاویلیں کر کے ان کا مفہوم کچھ سے کچھ بنادینا اور حالات پر اس کے انطباق کو محض اپنی خواہشات کی وجہ سے اس حد تک مشکل بنادینا کہ لوگ اسے ناقابل عمل سمجھ کر چھوڑ دیں۔ یہ صدیوں سے ان کا وطیرہ ہے کیا اپنے اس طرز عمل اور تورات کے بیشتر حصے کو چھپا دینے اور ضائع کردینے کے بعد بھی یہود یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ تورات اب بھی دنیا کی رہنمائی کا فرض انجام دے سکتی ہے اور جہاں تک حامل تورات کا تعلق ہے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا جن کی بیان کردہ تشریح و تفسیر اور جن کا عمل اور جن کا برپا کردہ انقلاب ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے تو کی ایسی صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج بھی تورات دنیا کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کی دینی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے ؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے قرآن پاک کا نزول اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت ناگزیر ٹھہری اور پروردگار نے انسانوں پر اپنا فضل فرمایا کہ اس نے انسانیت کو گمراہی اور ضلالت کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکالنے کے لیے اپنا نبی بھیجا اور اپنی کتاب اتار کر اہل دنیا کو روشنی اور ہدایت سے مشرف فرمایا۔ یہ تو وہ بات ہے جو ان آیات کے بین السطور سے ہمیں سمجھ میں آتی ہے اور جس کے باعث قرآن پاک کی ضرورت ہم پر عیاں ہوتی ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن کریم جیسی کتاب کن صفات کی حامل ہے اور پہلی آسمانی کتابوں سے وہ کس طرح مربوط ہے اس کو سمجھنے کے لیے ہم اس آیت کریمہ کے ایک ایک لفظ پر غور کریں گے۔ سب سے پہلی بات جو اس آیت میں فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کو ہم نے نازل کیا ہے۔ ظاہر ہے جس کتاب کو اللہ تعالیٰ نازل فرمائیں گے وہی کتاب منزل من اللہ ہوگی اور وہی کتاب یہ حق رکھے گی کہ ساری دنیا اپنی فلاح اور نجات کے لیے اس کتاب کے مندرجات کی پیروی کرے البتہ یہ بات قابل توجہ ہوسکتی ہے کہ یہاں یہ جو دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کتاب کو ہم نے نازل کیا ہے اس کی دلیل کیا ہے ؟ قرآن کریم نے مختلف جگہوں میں تمام ان لوگوں کو جو قرآن کریم کو کتاب اللہ تسلیم نہیں کرتے چیلنج دیا ہے کہ اگر تمہاری نگاہ میں یہ کتاب اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ حضور نے اسے خود تصنیف کرلیا ہے یا کوئی اور آدمی اسے لکھ کر آپ کو دیتا ہے تو اس کو ثابت کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ جیسے رسول اللہ ﷺ ایک عرب ہیں تم بھی عرب ہو۔ جس ماحول میں انھوں نے تربیت پائی ہے اسی ماحول کے تم بھی پروردہ ہو۔ علم کے جن جن گوشوں تک رسائی آنحضرت کے لیے ممکن ہوسکتی ہے وہ گوشے تمہارے لیے بھی کھلے ہیں۔ عرب ہونے کی وجہ سے جو زبان وہ بولتے ہیں وہی زبان تم بھی بولتے ہو۔ قریش اور بنو سعد میں انھوں نے تربیت پائی ہے جس کی وجہ سے ان کی زبان فصیح ہوگئی ہے تو تم میں بھی قریشی اور بنو سعد کے ہزاروں لوگ موجود ہیں تو تم سب مل کر بڑی آسانی سے اس قرآن سے بہتر کتاب لاسکتے ہو۔ اگر یہ کتاب واقعی کتاب اللہ نہیں ہے تو پھر تم ایسا ضرور کر گزروتا کہ تم آسانی سے اپنی بات کا ثبوت پیش کرسکو۔ لیکن اگر تم ایسا نہ کرسکو اور ساتھ ہی یہ کہا کہ تم کبھی نہیں کرسکو گے تو پھر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب ‘ کتاب اللہ ہے۔ قرآن کریم نے یہ چیلنج اس وقت دیا تھا جب قرآن نازل ہو رہا تھا اس واقعہ کو آج تقریباً ساڑھے چودہ سو سال گزر گئے ‘ لیکن اس طویل تاریخ میں یہ چیلنج چیلنج ہی رہا اور آج بھی ہم اسے قرآن کریم میں پڑھتے ہیں اور آج کی دنیائے کفر بھی اس چیلنج کے جواب میں خاموش ہے یہ سب سے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کتاب کو اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے بعد اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کی چند صفات بیان کی گئی ہیں جن میں سے ہر صفت بجائے خود ایک دلیل کا درجہ رکھتی ہے۔ ان میں سب سے پہلی صفت جو بیان کی گئی ہے وہ ہے ” مبارک “ یعنی اس کتاب کو اللہ نے مبارک بنا کر نازل فرمایا۔ مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ایسی کتاب جس کے نزول کے بعد اس پر ایمان لانے والوں کو ایک ایسی زندگی نصیب ہوتی اور دنیا ایک ایسی نعمت سے سرشار ہوجاتی ہے جس میں انسانیت کو جلا ملتی ‘ دلوں کو سکون ملتا ‘ معاملات میں ہمواری پیدا ہوتی اور دنیا کی سب سے بڑی متاع ” امن “ سے دنیا ہمکنار ہوتی ہے۔ انسانیت کی ہر قدر روز بروز پھلتی پھولتی دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کے مقاصد بروئے کار آتے دکھائی دیتے ہیں انسانیت کا قافلہ آئے دن نئی منزلوں کی خبر لاتا ہے اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو قرآن کریم دو حوالوں سے کتاب مبارک ثابت ہوا ہے۔ پہلا حوالہ واقعاتی ہے یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی تعلیمات میں اللہ نے خیر و برکت بھر دی ہے۔ البتہ ان تعلیمات کا دارومدار اخلاص سے ان پر عمل کرنے اور اجتماعی زندگی میں ان کے نفاذ پر ہے پھر اس کتاب میں انسانی فلاح و بہبود کے ایسے اصول پیش کیے گئے ہیں کہ کوئی بھی غیر جانبدار غور و فکر کرنے والا شخص انسانی معاملات کی خوش اسلوبی اور انسانی بھلائی کو بروئے کار لانے کے لیے اس سے بہتر اصول کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انسانی احساسات کی اصلاح کے لیے صحیح عقائد کی ایسے اسلوب میں تعلیم دی گئی ہے جو دلوں کے دروازوں پر دستک دیتی ہے جس سے دلوں کی بند کلیاں کھلتیں اور دماغی الجھنوں کو سکون ملتا ہے۔ پھر اجتماعی زندگی کو ہمواری سے رواں دواں رکھنے کے لیے ایک ایسا آئین ‘ دستور اور قانون دیا گیا ہے جس میں انسانی طبقات کو نہیں بلکہ صرف انسانی بھلائی کو موضوع بنایا گیا ہے اور عدل و احسان کے سایہ تلے اس کے پروان چڑھنے کے سامان کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فلسفہ قانون کی گرہیں بھی کھولی گئی ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قانون کا رشتہ اخلاق سے باندھ دیا گیا ہے اور پھر اخلاقِ فاضلہ کی تلقین اس طرح فرمائی گئی ہے کہ جس کے ساتھ عملی شواہد بھی کارفرما دکھائی دیتے ہیں اور خود اخلاقی تفصیلات پوری وسعت کے ساتھ انسانی عمل کو متاثر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ انسانی زندگی کو علم کے نور سے روشن کرنے کے لیے علمی ترغیب کے ساتھ ساتھ علمی مبادیات اور اس کے اساسی موضوعات کو بھی چھیڑا گیا ہے اور علم کو ایک نور قرار دے کر جہالت کا ہر پہلو کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ غرضیکہ پوری انسانی زندگی کو اس کتاب میں اس ایجاز اور اعجاز کے ساتھ ڈسکس کیا گیا ہے کہ جیسے جیسے اہل علم اس میں غور کرتے ہیں ہر دفعہ ایک نئی علمی دنیا ان کے سامنے واشگاف ہوتی ہے۔ اس کتاب مبارک کے مبارک ہونے کا دوسرا پہلو تاریخی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تورات کی کتاب پیدائش باب نمبر 24 میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بشارت دی تھی۔ جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ” خداوند فرماتا ہے اس لیے کہ تو نے ایسا کام کیا اور اپنا بیٹا اپنا اکلوتا ہی بیٹا دریغ نہ رکھا میں نے قسم کھائی کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا اور تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تو نے میری بات مانی “۔ اس بشارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس برکت سے مراد ایک امت کا اٹھایا جانا ہے جو پوری نوع انسانی کی ہدایت کا باعث بنے اور جس کی سیاسی طاقت دنیا کے بیشتر حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور وہ دنیا کے بڑے بڑے پھاٹکوں پر اس طرح قابض ہوجائے کہ بڑی بڑی قومیں اس کی پناہ میں آجائیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اگرچہ بنی اسرائیل کو بھی بطور ایک امت کے اٹھایا گیا اور انھوں نے ایک طویل عرصے تک دنیا کی مذہبی راہنمائی کا جیسا کیسا فرض بھی انجام دیا۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور خاص اللہ کے گھر کی تعمیر کرتے ہوئے جس امت کے اٹھائے جانے کی دعا فرمائی تھی اس کا تعلق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے تھا اور مرکز اس کا وہی اللہ کا گھر تھا جسے حضرت ابراہیم تعمیر کر رہے تھے اور اسی امت میں آخری رسول کو بھیجے جانے کی دعا مانگی گئی تھی۔ چناچہ اس دعا کو اللہ نے قبول فرمایا اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سارے عرب میں پھلی پھولی۔ لیکن ان کا مرکز یہی مکہ معظمہ اور اللہ کا گھر رہا اور ان کی سیاسی طاقت کا سرچشمہ اسی شہر میں بسنے والے قریش بنے لیکن جب اس قوم کو اللہ نے برکت دینے کا فیصلہ فرمایا تو ان میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی۔ قریش اور دوسرے لوگوں نے اسلام قبول کیا اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس مرکز اسلام سے قوت کے اس طوفان کو نکالا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ربع صدی میں دنیا کی بڑی حکومتوں پر غلبہ حاصل کرلیا ‘ بڑی بڑی قوموں کے تخت الٹ دیئے ‘ دنیا سے جہالت اور شرک کے مرکزوں کو اس طرح ختم ہونے پر مجبور کردیا کہ پارسیوں کا آتش کدہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا ‘ رومیوں کا شرک کا مرکز تباہ و برباد ہوگیا۔ جہالت کو پائوں سمیٹنے پر مجبور کردیا گیا ‘ عدل و احسان کی ایسی بہار آئی کہ زمین کے بڑے حصے پر اللہ نے مسلمانوں کی ایک عادلانہ حکومت قائم فرما دی جس نے صدیوں تک زمین کے پھاٹکوں پر قوموں کی نگرانی کی اور انسانیت کی راہنمائی کا فرض انجام دیا۔ ان دونوں حوالوں سے جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ یہ سارے امکانات اور تمام اسباب قرآن کریم کی تعلیمات کے نتیجے میں اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کے ساتھ پیدا ہوئے اس لیے اس کتاب کو مبارک ٹھہرایا گیا۔ دوسری صفت اس کی بیان فرمائی ” مصدق “۔ مصدق کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی ہے تصدیق کرنے والا یعنی یہ قرآن کریم پہلی آسمانی کتابوں کی تمام محفوظ اور صحیح باتوں کی تصدیق کرتا ہے یہ ان کتابوں کے منزل من اللہ اور سچا ہونے کی تصدیق کرتا ہے وہ جن بنیادی عقائد کو بیان کرتی ہیں ان کی تصدیق کرتا ہے۔ لیکن ان کے ماننے والوں نے جیسی کچھ ان میں تحریفات کی ہیں اور جو کچھ خیانتیں کی ہیں ان کی نشان دہی بھی کرتا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کا ان کتابوں سے ایک مضبوط رشتہ ہے کہ وہ کتابیں جس سرچشمہ ہدایت سے نکلی ہیں اسی سرچشمہ ہدایت سے اس کا صدور ہوا ہے ان کتابوں نے جن عقائد اور تعلیمات کو پیش کیا انہی کو یہ پیش کرتا اور ساتھ ساتھ خیانتیں پکڑتا ہے اور غلطیوں کی اصلاح بھی کرتا ہے۔ اللہ کے جن رسولوں پر وہ کتابیں اتریں وہ اسی سلسلہ نبوت سے تعلق رکھتے تھے جس کی آخری کڑی رسول اللہ ﷺ ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن کریم پر ایمان ان کتابوں پر ایمان اور قرآن کریم کا انکار ان کتابوں کے انکار کے مترادف ہے کیونکہ یہ ایک ہی تاریخ اور ایک ہی حقیقت کا تسلسل ہیں۔ مصدق کا دوسرا معنی ” مصداق “ ہے۔ یعنی یہ قرآن کریم اور ذات رسالت مآب ﷺ وہ ہیں جن کی پہلی آسمانی کتابوں اور پہلے رسولوں نے بشارت دی تھی۔ ان کی نمایاں خصوصیات کو انھوں نے کھول کھول کر بیان کیا تھا حتیٰ کہ آنحضرت ﷺ کا نام مبارک بھی اور آپ کے وطن کا حوالہ بھی ان کتابوں میں موجود تھا۔ آپ کے عادات و خصائل کو بھی ان کتابوں میں ذکر کیا گیا تھا۔ آپ کی کامیابیوں کی خبر بھی ان کتابوں میں موجود تھی۔ حضور اور یہ قرآن جب آئے ہیں تو ٹھیک ان بشارتوں کی مصداق بن کے آئے ہیں۔ ان کی جیسی جیسی خصوصیات بیان کی گئی تھیں یہ بالکل اس کا عکس اور اس کا سراپا ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اہل کتاب نے ہمیشہ ان علامتوں کو مٹانے یا بگاڑنے کی کوشش کی ‘ لیکن جو کچھ ان کی نظر سے بچی رہ گئیں وہ بھی ایک غیر جانبدار مبصر کے لیے اس بات کو ثابت کرنے اور ہدایت حاصل کرنے کا کافی سامان اپنے اندر رکھتی ہیں۔ اور اہل کتاب میں سے جو علماء مسلمان ہوئے ان کی گواہیاں اور ان کی شہادتیں تاریخ کا حصہ ہیں جن سے اہل کتاب کے اس جرم کی تفصیل معلوم ہوتی ہے اور بہت ساری علامتوں کی حقیقت بھی ہمارے سامنے کھلتی ہے۔ ان دونوں حوالوں سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم تو دراصل اس ضرورت کی تکمیل ہے جس کے لیے پہلی آسمانی کتابیں اتاری گئی تھیں اور ان تمام تعلیمات کا اتمام ہے جس کی نوع انسانی کے قافلے کو قیامت تک ضرورت پیش آسکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو لوگ پہلے سے آسمانی کتابیں اپنے پاس رکھتے ہیں اور وہ شریعت خداوندی اور کتاب اللہ کے مزاج سے بھی شناسا ہیں وہ قرآن کریم کو آگے بڑھ کر قبول کریں اور رسول اللہ پر ایمان لائیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انھیں ضد ہے کہ اگر یہ کتاب اللہ کی جانب سے ہوتی اور حضور واقعی اللہ کے رسول ہوتے تو پھر انھیں بنی اسرائیل میں آنا چاہیے تھے یہ بنی اسماعیل میں کیسے آگئے۔ ظاہر ہے کہ اس ہٹ دھرمی کا تو دنیا میں کوئی علاج نہیں۔ تیسری صفت ” لِتُنْذِرَ “ سے بیان کی گئی ہے۔ یعنی یہ کتاب اسی مقصد کے لیے اتاری گئی ہے جس مقصد کے لیے پہلی کتابیں نازل کی گئی تھیں۔ ان کا مقصد بھی ایک ہی تھا کہ انسانوں کو یہ بتایا جائے کہ تم اگر صحیح راستہ اختیار کرو گے اور پیغمبر پر ایمان لا کر اللہ کی شریعت پر چلتے ہوئے اللہ کی رضا کے حصول کو اپنا مقصد بنا لو گے تو تمہارے لیے دنیوی اور اخروی کامیابی کی بشارتیں ہیں۔ لیکن اگر تم نے پیغمبر پر ایمان لانے اور کتاب اللہ کی دی ہوئی ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو یہ کتاب تمہیں تمہارے برے انجام سے ڈراتی ہے اور تمہیں وارننگ دیتی ہے کہ دنیا بھی تمہاری تباہ ہوجائے گی اور آخرت میں تم ایک ہولناک عذاب میں مبتلا کردیئے جاؤ گے۔ دنیا میں جتنے رسول آئے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں ان کا یہی مقصد رہا کہ نیک لوگوں کو وہ دنیوی اور اخروی کامیابیوں کی بشارت دیں اور بدچلن اور نافرمان لوگوں کو دنیوی ناکامیوں اور آخرت کے عذاب سے ڈرائیں۔ یہی مقصد اس قرآن کریم کا بھی ہے اس کو بھی اس لیے اتارا گیا ہے تاکہ یہ ام القریٰ کے رہنے والوں اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو اس بات سے انذار کرے کہ اگر تم رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائو گے اور قرآن کریم کی دی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کرو گے تو تمہارا انجام بہت برا ہوگا۔ اس لحاظ سے پہلی آسمانی کتابیں اور قرآن کریم ایک ہی مقصد کے حامل ہیں اور بنیادی ہدایت اور بنیادی مقصد میں ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ فلاح و کامرانی کے تصورات اور ناکامی اور نامرادی کی حقیقت دونوں کے نزدیک بالکل یکساں ہے۔ دونوں ایک ہی راستے کی خبر دیتے ہیں اور ایک ہی راستے سے ڈراتے ہیں۔ تمام کتابوں میں جو زندگی کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں اور جن بنیادی عقائد پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے وہی قرآن کریم میں بیان کیے جا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن کریم اس سند کے ساتھ اتصال رکھتا ہے جو سند تمام کتابوں کو اللہ کے ساتھ جوڑتی ہے۔ یہ سند کا اتصال اور مقصد کی ہم آہنگی اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم اسی سلسلہ ہدایت کی آخری کڑی ہے۔ جس کی پہلی کڑیاں تورات ‘ زبور ‘ انجیل اور دوسری آسمانی کتابیں رہی ہیں۔ اس حقیقت کے واضح ہونے کے بعد قرآن کریم کے انکار کرنے اور دوسری کتابوں کے ماننے کی کوئی وجہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں رہتی۔ اگر پہلی کتابیں صحیح ہیں تو قرآن پاک بھی صحیح ہے اور قابل قبول ہے اور اگر قرآن کریم غلط اور ناقابل قبول ہے تو پہلی آسمانی کتابوں سے کسی طرح کا رشتہ قائم رکھنا بھی ناقابل فہم بات ہے۔ مزید ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ معظمہ اور مَنْ حَوْلَھَا یعنی اس کے ارد گرد کے لوگوں کو ڈرائیں مَنْ حَوْلَھَا سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ حضور شاید اسی علاقے کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور تمام دنیا کی ہدایت کے لیے آپ کو نہیں بھیجا گیا تھا کیونکہ قرآن کریم میں کئی جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کے آیا ہوں اور ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اس کے ذریعے انذار کروں اور ان لوگوں کو بھی جن تک یہ قرآن کریم پہنچے۔ اس لیے یہاں مراد مکہ معظمہ کا ارد گرد نہیں بلکہ ساری دنیا ہے کیونکہ مکہ معظمہ کو پوری زمین کا نصف ہونے کی حیثیت حاصل ہے کہا جاتا ہے کہ یہ زمین کی ناف ہے اس لیے ساری دنیا کو اس کا حول یعنی اس کا ارد گرد قرار دیا گیا ہے۔ لیکن دوسری وجہ اس کی ایک اور بھی ہے وہ یہ کہ پہلے نبی بنی اسرائیل کی طرف آتے رہے اور بنی اسماعیل کی طرف حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آیا۔ اب ضروری تھا کہ بنی اسماعیل یعنی قریش کو اس دعوت کا ہدف اولین بنا کر ان پر اتمام حجت کیا جاتا اور پھر وہیں سے پوری دنیا کی ہدایت کا سروسامان کیا جاتا۔ کیونکہ قریش بنی اسماعیل کے سربراہ تھے اور ان کی مرکزی آبادی مکہ تھی۔ بنی اسماعیل کتاب و نبوت سے ناآشنا امی لوگ تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ اسماعیل کی نسل سے وہ ایک رسول اٹھائے گا جس سے تمام دنیا کی قومیں برکت پائیں گی۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے یہ وعدہ پورا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جس قوم کے اندر رسول کی بعثت ہوتی ہے وہ قوم اگر اس کو قبول کرلیتی ہے تو وہ قوموں کی امامت کے منصب پر سرفراز ہوتی ہے اور اگر اس کو رد کردیتی ہے تو چونکہ اس پر اللہ کی حجت پوری ہو چکتی ہے وہ تباہ کردی جاتی ہے۔ اس اتمام حجت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو بنی اسماعیل کے اندر مبعوث فرمایا۔ رسولوں کے باب میں سنت اللہ یہ بھی ہے کہ وہ جس قوم کے اندر بھیجے جاتے ہیں خاندانی اعتبار سے اس کے اشراف میں سے ہوتے ہیں اور وہ اپنی دعوت و انذار میں اول مخاطب قوم کے اعیان و اکابرہی کو بناتے ہیں۔ اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی بعثت مکہ میں ہوئی جو اہل عرب کا دینی و سیاسی مرکز اور قریش کا مستقر تھا۔ اسی اعتبار سے اس کو یہاں ام القریٰ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چوتھی صفت قرآن کریم کی جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب پر وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں یعنی اس کتاب کی دعوت نے انسانوں کے گروہ میں سے ایسے لوگوں کو سمیٹا ہے اور ان لوگوں کو متاثر کیا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ لوگ اس قرآن کی دعوت سے متاثر ہوتے ہیں جو اس بات کے قائل ہوچکے ہیں کہ اس دنیا کو ہمیشہ نہیں رہنا اور یہ ہماری زندگی ہمیشہ رہنے والی نہیں ‘ ہمیں بھی مرنا ہے اور ایک دن اس زندگی کی بساط بھی الٹنی ہے ‘ پھر قیامت برپا ہوگی اور ہم میں سے ہر شخص کو اللہ کے سامنے اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا۔ جو شخص اپنے اندر یہ فکرمندی پیدا کرچکا ہے وہ قرآن کریم کی دعوت سے متاثر ہوتا ہے۔ البتہ وہ لوگ جو دنیا پرست اور خواہش نفس کے بندے ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زندگی ہی مستقل زندگی ہے اس کے بعد کسی اور زندگی سے واسطہ پڑنے والا نہیں۔ ان کی نظر اس افق سے پار دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی وہ اسی زندگی کو اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی کی خوشیوں کو حاصل زندگی اور اسی کے غموں کو ہمیشہ کی محرومیاں سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی منزل اور ان کا ہدف خواہشات نفس کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے لوگوں میں مقاصد زندگی کا تصور اور مقاصد کی خاطر قربانی اور ایثار کرنے کا جذبہ ‘ دوسروں کے کام آنے کی خواہش اور اخلاقیات کے تصور کا دور دور تک وجود نہیں ہوتا۔ اس لیے قرآن کریم کی دعوت سے ان لوگوں کو ہمیشہ چڑ ہوتی ہے تو ایسے لوگ اس کی دعوت کو کیسے قبول کرسکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم آخرت کی تیاری کی بار بار ترغیب دیتا ہے اور یہ لوگ سرے سے آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے تو ایسے لوگ اس طرح کی باتوں کو وہم و گمان سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہیں ہوتے تو انھیں قبول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم کی دعوت سے جو لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ آخرت پر یقین رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا کی حرص میں ڈوبے رہنے والے لوگ کبھی قرآن پاک کے قریب نہیں آتے۔ اس لیے اس نے اپنی دعوت سے جن لوگوں کو متاثر کیا وہ خواہش نفس کے بندے نہیں بلکہ آخرت کے مسافر ہیں اور اس کی تعلیم کے نتیجے میں ان میں ایک ایسا کردار وجود میں آیا جس نے باقی تمام انسانوں سے ان کو ممتاز کردیا۔ دوسرے لوگ اگر صرف اپنی دنیا بنانے کے لیے دوسروں کی دنیا اجاڑنے سے دریغ نہیں کرتے تو یہ لوگ دوسروں کا گھربسانے کے لیے اپنا گھر بھی قربان کردیتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے پیش نظر صرف اپنی ذات کا تحفظ اپنے بچوں کے مستقبل اور اپنے مال و دولت میں اضافے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم سے متعلق لوگ اپنی ذات کو مٹا کر دوسروں کو زندگی دینا ‘ اپنی خوشیوں کو دوسروں پر نثار کرنا اور اپنے مال و دولت کو راہ حق میں لٹانا اور اپنے بچوں کو موہوم مستقبل کے لیے نہیں بلکہ اخروی زندگی کے لیے تیار کرنا ان کا ہدف بن جاتا ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے کئی جگہ دونوں طرح کی سیرت و کردار کو آمنے سامنے رکھ کر تقابل کیا اور بتایا کہ یہ وہ سیرت و کردار ہے جو کفر کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور یہ وہ کردار ہے جو قرآن کی دعوت نے پیدا کیا۔ مثال کے طور پر ہم سورة الفرقان کو دیکھ سکتے ہیں جس میں دونوں کردار آمنے سامنے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ان کا تقابل کر کے قرآن پھر سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ بتائو انسانی زندگی کی بقا اور انسانی خوشیوں کے دوام کے لیے کون سا کردار قبول کرنا چاہیے۔ ایک آدمی اگر اپنا دشمن نہیں ہوگیا یا کوئی معاشرہ اگر خود کشی کا فیصلہ نہیں کرچکا تو اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ کسی معاشرے کو زندہ رکھنے کے لیے بہتر ‘ خدا ترس اور پاکیزہ کردار کے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے یا بدچلن اور بدکردار لوگوں کی ؟ تو جو کتاب ایسے سیرت و کردار کے لوگوں کو پیدا کرتی ہے کہ جن کی سب سے نمایاں مثال یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں یعنی شب و روز انھیں سب سے زیادہ دلچسپی اور سب سے زیادہ لگائو نمازوں یعنی اللہ کی عبادت سے ہوتا ہے۔ ذکر اللہ ان کی خوراک بن جاتی ہے۔ ان کی طبیعت کا ہیجان صرف اللہ کے ذکر سے سکون پکڑتا ہے وہ اپنے غموں اور دکھوں میں صرف اللہ کے ذکر کے ذریعے غالب آتے ہیں ان کا کاروبار صرف اللہ کے ذکر سے ہر طرح کی خیانت سے محفوظ رہتا ہے ان کی شخصیتوں پر نمازوں اور اللہ کے ذکر کی چھاپ ایسی گہری رہتی ہے کہ یہی ان کی پہچان بن جاتی ہے۔ وہ فاتح بھی ہوتے ہیں تو ان میں غرور پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ان کی راتوں کی سجدہ ریزیاں انھیں اللہ کے حکم کے خلاف سر اٹھانے نہیں دیتیں۔ وہ اگر مفتوح ہوتے ہیں تو وہ ہراساں کبھی نہیں ہوتے کیونکہ نمازوں کا قیام ان کے اندر وہ اولوالعزمی پیدا کرتا ہے جو انھیں کسی کے سامنے جھکنے نہیں دیتی۔ کہا جاتا ہے کہ قیصر نے اپنے جاسوس مسلمانوں کے لشکر میں بھیجے کہ جا کر معلوم کرو مسلمانوں کی فتوحات کا سبب کیا ہے۔ یہ اپنے اسباب اور اپنے وسائل میں ہم سے بہت کمزور ہیں لیکن میدان جنگ میں ہمیشہ کیوں غالب رہتے ہیں۔ جاسوسوں نے مسلمانوں میں کئی دن گزارے اور واپس جا کر جو رپورٹ دی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ عجیب لوگ ہیں کہ دن کو جب ان کو گھوڑوں پر سوار دیکھو تو تم ان سے بڑھ کر کسی کو شاہسوار نہیں پائو گے ‘ لیکن راتوں کو جب ان کو مصلے پر کھڑا دیکھو تو ان سے بڑھ کر تم کسی کو درویش نہیں دیکھو گے۔ یہ دن کے شاہسوار ہیں اور رات کے درویش اور عبادت گزار۔ یہی بات یہاں فرمائی جا رہی ہے کہ قرآن کریم کی دعوت سے متاثر ہونے والے لوگ وہ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کی دعوت کا اصل ہدف آخرت ہے اور ان کے اندر جو سیرت و کردار پیدا ہوتا ہے اس کا نمایاں وصف اللہ کا ذکر ‘ اللہ کی عبادت اور اللہ سے لو لگانا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے پوری انسانی زندگی تطہیر کے عمل سے گزر کر پاکیزہ ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم کی یہ صفات بیان کرنے کے بعد فیصلہ ایک قاری پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جس کتاب کی یہ خصوصیات اور یہ صفات ہوں اور جس کی تعلیمات نے ایسے سیرت و کردار کے حامل لوگ پیدا کیے ہوں کیا وہ کتاب ایسی ہوسکتی ہے جسے کسی جھوٹے انسان نے گھڑ لیا ہو اور وہ جسارت کر کے یہ دعویٰ کر رہا ہو کہ یہ کتاب مجھ پر اللہ نے نازل کی ہے۔ جو آدمی بھی اللہ سے ڈر کر ان صفات پر غور کرے گا وہ یقینا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ ایسی کتاب سوائے کتاب اللہ کے اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس رکوع کی یہ دونوں آیتیں جو اس وقت ہمارے زیر مطالعہ ہیں ان میں اگرچہ روئے سخن یہود کی طرف ہے لیکن خطاب اصلاً مشرکینِ مکہ سے ہے کیونکہ مکی سورة ہونے کی وجہ سے اصل وہی مخاطب ہیں۔ یہود چونکہ اس نئی اٹھنے والی تحریک سے خوف زدہ تھے اس لیے درپردہ اس تحریک کو ناکام کرنے اور آنحضرت ﷺ کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے مشرکینِ مکہ کو تدابیر سجھاتے اور ان کی پیٹھ ٹھونکتے رہتے تھے اور مشرکینِ مکہ بھی مضمون واحد ہونے کی وجہ سے آنحضرت کی مخالفت کے حوالے سے بار بار ان سے رجوع کرتے تھے۔ چناچہ آنحضرت کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کے حوالے سے انھوں نے جو کچھ مشرکینِ مکہ سے کہا قرآن کریم نے اس کا جواب دیا۔ لیکن اس کی بنیاد اس بات پر رکھی کہ اہل کتاب نے جو کچھ اللہ کی وحی کے نزول کے سلسلے میں کہا ہے وہ اصلاً اس بات کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی قدر و منزلت سے اہل کتاب ہونے کے باوجود بھی آگاہ نہیں۔ اس پر ان کو تاریخی اور علمی انداز میں جو کچھ کہا گیا اس کے ضمن میں ان کے طرز عمل پر ان کو شرم بھی دلائی گئی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بالواسطہ ان کی اصلاح سے مایوسی کا اظہار بھی فرمایا گیا۔ آئندہ بننے والی تاریخ میں اور نئی اٹھتی ہوئی امت کے حوالے سے ہدایت کا سرچشمہ چونکہ قرآن کریم ہے اس لیے پھر قرآن کریم کی حقیقی قدر و عظمت کو واضح کرنے کے لیے قرآن کریم کی صفات بیان کی گئیں اور اس پر ایمان لانے والوں کا ایک سراپا بھی سامنے رکھ دیا گیا تاکہ علمی اور عملی دونوں نمونوں کو دیکھ کر راہ ہدایت اختیار کرنے والوں کو ایک اپیل بھی میسر آئے اور آسانی بھی محسوس ہو۔ اب اگلی آیات کریمہ میں روئے سخن پھر مشرکینِ مکہ کی طرف پلٹ گیا ہے کیونکہ اس سورة کے اصل مخاطب وہی ہیں اور ان کو انہی دونوں بنیادوں کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش فرمائی جا رہی ہے کہ اہل کتاب اس لیے گمراہ ہوئے کہ انھوں نے اللہ کی قدر و عظمت نہ پہچانی اور دوسرا ان کی گمراہی کا سبب یہ ہوا کہ وہ وحی خداوندی کی حیثیت اور بالخصوص قرآن کریم کی افادیت اور اہمیت کو صحیح طور پر ادراک نہ کرسکے۔ اے مشرکینِ مکہ تمہارا معاملہ اس سے بھی بدتر ہے کہ انھوں نے صرف معرفت حق میں کوتاہی کی اور اس کے نتیجے میں گمراہی کا شکار ہوئے تم سرے سے اللہ کے ساتھ شریک کرنے کا دعویٰ لے بیٹھے۔ حالانکہ علمی اور عملی اعتبار سے اس سے بڑا ظلم یا اس سے بڑی اندھیر نگری اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ وہ تو صرف وحی الٰہی کی اہمیت ہی کو نظر انداز کر رہے تھے تم نے تو وحی الٰہی حتیٰ کہ قرآن کریم کے نزول کو بھی ایک تمسخر بناکے رکھ دیا۔ ظاہر ہے یہ باتیں ایسے معمولی جرائم نہیں جن کو نظر انداز کیا جاسکے۔ اس لیے ہم تمہیں آگاہ کیے دیتے ہیں کہ تم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا تو تم اپنی موت کے وقت بھی اور قیامت کے بپا ہونے کے بعد بھی ایک ہولناک انجام سے دوچار کیے جاؤ گے۔ چناچہ یہ باتیں پیش نظر رہیں تو اگلی آیات کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔
Top