Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 91
وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَهَا وَ تُخْفُوْنَ كَثِیْرًا١ۚ وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنْتُمْ وَ لَاۤ اٰبَآؤُكُمْ١ؕ قُلِ اللّٰهُ١ۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِیْ خَوْضِهِمْ یَلْعَبُوْنَ
وَمَا : اور نہیں قَدَرُوا : انہوں نے قدر جانی اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق قَدْرِهٖٓ : اس کی قدر اِذْ قَالُوْا : جب انہوں نے کہا مَآ : نہیں اَنْزَلَ : اتاری اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر بَشَرٍ : کوئی انسان مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کس اَنْزَلَ : اتاری الْكِتٰبَ : کتاب الَّذِيْ : وہ جو جَآءَ بِهٖ : لائے اس کو مُوْسٰي : موسیٰ نُوْرًا : روشنی وَّهُدًى : اور ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَجْعَلُوْنَهٗ : تم نے کردیا اس کو قَرَاطِيْسَ : ورق ورق تُبْدُوْنَهَا : تم ظاہر کرتے ہو اس کو وَتُخْفُوْنَ : اور تم چھپاتے ہو كَثِيْرًا : اکثر وَعُلِّمْتُمْ : اور سکھایا تمہیں مَّا : جو لَمْ تَعْلَمُوْٓا : تم نہ جانتے تھے اَنْتُمْ : تم وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ دادا قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ ثُمَّ : پھر ذَرْهُمْ : انہیں چھوڑ دیں فِيْ : میں خَوْضِهِمْ : اپنے بیہودہ شغل يَلْعَبُوْنَ : وہ کھیلتے رہیں
اور انہوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں پہچانی ‘ جبکہ یہ کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر بھی کوئی چیز نہیں اتاری۔ ان سے پوچھو ! وہ کتاب کس نے اتاری ‘ جس کو موسیٰ روشنی اور لوگوں کیلئے ہدایت کی حیثیت سے لے کر آئے ‘ جن کو تم ورق ورق کر کے کچھ کو ظاہر کرتے ہو اور زیادہ کو چھپاتے ہو اور تم کو ان باتوں کی تعلیم دی گئی ‘ جن کو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا ؟ کہہ دو ! اللہ ہی نے۔ پھر ان کو ان کی کج بحثیوں میں چھوڑ دو ‘ کھیلتے رہیں
تمہید سورة الانعام میں باقی مکی سورتوں کی طرح بنیادی انسانی مفاسد کی اصلاح پر زور دیتے ہوئے اسلام کے تینوں عقائد کو مسلسل بیان کیا جا رہا ہے اور ان میں چونکہ عقیدہ توحید سب سے بنیادی عقیدہ ہے ‘ اس لیے سب سے زیادہ اس کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ مشرکینِ مکہ کو چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اپنے نسبی اور دینی تعلق کی بنیاد پر یہ دعویٰ تھا کہ ہم تو انہی کے طریقے پر ہیں اور یہی طریقہ ہدایت کا طریقہ ہے ‘ لہٰذا ہم اس سے کسی طرح دستبردار نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ آیات میں ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کی دعوت کو پوری تفصیل سے بیان فرمایا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ ان کی دعوت کا اساسی پہلو ‘ جس پر وہ زندگی بھر اپنی قوم سے لڑتے رہے ‘ وہ عقیدہ توحید تھا اور پھر اس عقیدہ کو واضح کرنے کے لیے انھوں نے جو دلائل اپنی قوم کو دیئے ‘ ان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس بات کو مزید مؤکّد کرنے کے لیے ان کے آبائو اجداد اور ان کی اولاد میں سے کئی انبیاء و رسل کا ذکر کیا گیا اور یہ دکھایا گیا کہ جو دعوت رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ہیں ‘ یہی دعوت حضرت ابراہیم اور ان تمام رسولوں کی تھی۔ اس لیے اگر تم ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اپنی نسبت میں سچے ہو تو پھر تمہیں آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی پیش کردہ دعوت کو قبول کرنے میں تأمل نہیں ہونا چاہیے۔ اب پیش نظر آیات میں اس دعوت کے حوالے سے اور بالخصوص قرآن کریم کے نزول اور اس کی حقانیت کے حوالے سے مشرکینِ مکہ جو کچھ کہتے اور جو اعتراضات کرتے تھے ‘ ان کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اہل کتاب ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے اور ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے ‘ جو کچھ ان کو سکھاتے پڑھاتے تھے ‘ اس کا تذکرہ کر کے اہل کتاب پر ایک جامع تنقید فرمائی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا : وَمَا قَدَرُوا اللہ َ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہ ُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍ ط قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآئَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّ ھُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَھَا وَ تُخْفُوْنَ کَثِیْرًا ج وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْآ اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَآؤُکُمْ ط قُلِ اللہ ُ لا ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ ۔ (الانعام : 91) (اور انھوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں پہچانی ‘ جبکہ یہ کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر بھی کوئی چیز نہیں اتاری۔ ان سے پوچھو ! وہ کتاب کس نے اتاری ‘ جسکو موسیٰ روشنی اور لوگوں کے لیے ہدایت کی حیثیت سے لے کر آئے ‘ جنکو تم ورق ورق کر کے کچھ کو ظاہر کرتے ہو اور زیادہ کو چھپاتے ہو اور تم کو ان باتوں کی تعلیم دی گئی ‘ جن کو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا ؟ کہہ دو ! اللہ ہی نے۔ پھر ان کو ان کی کج بحثیوں میں چھوڑ دو کھیلتے رہیں) رسالتِ محمدی کے بارے میں اہل کتاب کا جھوٹ یہ سورة اگرچہ مکی ہے ‘ اس لیے اس میں بار بار اہل مکہ ہی سے خطاب ہو رہا ہے۔ لیکن اس آیت کریمہ میں جس اعتراض کا تذکرہ کیا گیا ہے اور پھر پروردگار کی جانب سے اس کا جو جواب دیا گیا ہے ‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ میں تھے اور ابھی آپ کی دعوت کو اہل کتاب سے واسطہ نہیں پڑا تھا ‘ اس وقت بھی اہل کتاب اسلامی دعوت سے بالکل بیخبر نہیں تھے۔ انھیں اہل مکہ کی طرف سے برابر اس کی اطلاعات پہنچتی رہتی تھیں اور وہ آہستہ آہستہ اس دعوت میں دلچسپی لینے لگے تھے اور رفتہ رفتہ ان کی تشویش یہ دیکھ کر بڑھتی جا رہی تھی کہ جس طرح اس دعوت میں ملت ابراہیمی اور مرکز ابراہیم کو مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے ‘ اس کے نتیجے میں اس دعوت کی ہمہ گیری کو دیکھتے ہوئے ‘ ہماری حیثیت کا باقی رہنا کسی طرح ممکن نہیں۔ اس لیے انھیں اچھی طرح سے اندازہ ہوگیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ آخری پیغمبر ہیں اور ان کی دعوت وہ آخری دعوت ہے ‘ جس کا ہدف پوری نوع انسانی ہے اور جس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس دعوت کے حاملین دنیا کی امامت و سیادت کے منصب پر فائز کیے جائیں گے۔ اور اگر ہم نے اس دعوت کو کامیاب ہونے کا موقع دے دیا تو اس کی کامیابی یقینا ہماری موت اور تباہی ثابت ہوگی۔ اس لیے وہ دور بیٹھ کر بھی اہل مکہ کی پیٹھ ٹھونکتے اور حتی الامکان ان کی پشت پناہی کرتے تھے۔ یہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہ نے جب آنحضرت ﷺ کی نبوت اور قرآن کریم کے نزول کے بارے میں ان سے استفسار کیا کیونکہ خود مشرکینِ مکہ اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ ہم مذہب کے بارے میں بالکل امی اور جاہل لوگ ہیں اور اہل کتاب چونکہ ایک مذہب اور ایک کتاب رکھتے ہیں ‘ اس لیے اس نئی بعثت اور نئے نازل ہونے والے مذہب کے بارے میں وہ ہماری بہتر راہنمائی کرسکتے ہیں۔ چناچہ انھوں نے جب راہنمائی کی غرض سے ان کی طرف رجوع کیا تو وہ عجیب مشکل میں پڑگئے۔ انھوں نے سوچا کہ اگر ہم نے مشرکینِ مکہ کو یہ بتایا کہ تم میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ کی وحی اترتی ہے اور مجھ پر ایک کتاب نازل ہو رہی ہے ‘ یہ بالکل غلط بات ہے کیونکہ نبی ہمیشہ بنی اسرائیل میں آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اگر نبوت آئے گی تو بنی اسرائیل میں آئے گی ‘ تم میں یا کسی اور قوم میں ہرگز نہیں آسکتی تو اس سے اندیشہ تھا کہ مشرکینِ مکہ اور عرب ‘ جو قومی عصبیت میں سب سے بڑھے ہوئے تھے اور معمولی معمولی باتوں پر ان کی حمیت قومی بھڑک اٹھتی اور پھر وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجاتے تھے۔ ہوسکتا تھا کہ وہ اہل کتاب کا یہ جواب سن کر کہ نبوت تو بنی اسرائیل ہی کا ورثہ ہے ‘ بنی اسماعیل اس سے مشرف نہیں ہوسکتے ‘ حمیت میں مبتلا ہوجاتے اور بھڑک کر نہ چاہتے ہوئے بھی رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان لے آتے۔ اہل کتاب نے یہ خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان کو جو جواب دیا وہ خود بھی جانتے تھے کہ یہ جواب غلط ہے۔ لیکن انھوں نے متذکرہ خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اپنے ذہنی تحفظات کے ساتھ یہ کہا کہ یہ صاحب جنھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور وہ قرآن کریم کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کہتے ہیں ‘ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز بھی آج تک نہیں اتاری کیونکہ کسی بشر کی یہ مجال نہیں کہ وہ اللہ کے کلام یا اس کی نازل کردہ وحی کا تحمل کرسکے۔ کہاں پروردگار عالم اور کہاں یہ زمین پر بسنے والا معمولی انسان۔ اس لیے یہ بالکل ناممکن بات ہے کہ کسی انسان پر اللہ کی جانب سے کوئی چیز اترے۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں ان کی اس بات پر قرآن کریم نے مختلف پہلوئوں سے گفتگو فرمائی ہے۔ اہلِ کتاب دینی بصیرت سے بےبہرہ ہیں سوال کا اصل جواب دینے سے پہلے ایک تمہید اٹھائی گئی ہے ‘ جس میں ان کی ذہنی نارسائی اور دینی نا پختگی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ چناچہ انھیں خطاب کیے بغیر ‘ بالواسطہ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ جو بات انھوں نے کہی کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری ‘ اگر یہ بات مشرکینِ مکہ کہتے تو چنداں تعجب کی بات نہ تھی کیونکہ وہ مذہب اور مذہبی متعلقات سے بالکل بیخبر اور نابلد لوگ ہیں۔ ایک جاہل محض اپنی جہالت کی وجہ سے کوئی بھی ایسی ویسی بات کہہ دے تو اس کی جہالت کی وجہ سے قابل معافی اور قابل درگزر سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اہل کتاب کی طرف سے اس بات کا کہا جانا ‘ یہ نہایت تکلیف دہ اور قابل اعتراض بات ہے کیونکہ وہ خود اپنے پاس ایک کتاب رکھتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ اس دعوے کے باوجود ان کا یہ کہنا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری ‘ آخر اس میں کیا صداقت ہوسکتی ہے ؟ اس لیے وہ خود بھی جانتے تھے کہ یہ بات غلط ہے۔ لیکن اب جبکہ انھوں نے یہ بات کہی ہے تو ان کی بات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باوجود اہل کتاب ہونے کے ابھی تک وہ دینی احساسات اور دینی بصیرت سے کوسوں دور ہیں۔ وہ اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں ‘ لیکن اللہ کی صفات اور اس کی حکمتوں کو بالکل نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ جانتے ہوتے تو ایسی بات کہنے کی کبھی جسارت نہ کرتے۔ ان کی اس بات کے دو ہی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ اہلِ کتاب کے انکار کی دو ممکنہ وجوہ ایک تو یہ کہ اللہ نے کسی شخص پر بھی کوئی چیز اس لیے نہیں اتاری کہ یہ بات اللہ کی قدرت سے بعید ہے۔ وہ اس بات پر قادر نہیں کہ کسی انسان پر اپنا کلام اتارے اور کسی کو کتاب سے نوازے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی قدرت کے بارے میں نجانے کیا تصور رکھتے ہیں۔ جس پروردگار کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوقات میں سے چھوٹی سے چھوٹی مخلوق ‘ جنھیں غیر مسلح آنکھ سے دیکھنا بھی شاید ممکن نہ ہو ‘ وہ انھیں بھی زندگی گزارنے اور ضروریات کے حصول کا طریقہ القا فرماتا ہے۔ وہ شہد کی مکھی کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ شہد کس طرح تیار کرے ‘ کس طرح جڑی بوٹیوں اور پھلوں کا رس چوسے ‘ کس طرح اسے موسمی آلودگیوں سے محفوظ رکھے اور کس طرح اس چھتے کے قریب بھی کسی دوسرے جانور کو نہ آنے دے ‘ جس میں شہد تیار کیا جا رہا ہے۔ تاکہ یہ خالص شہد کسی مضر اثر کا شکار نہ ہو سکے۔ زمین اور پانی میں پھیلی ہوئی بیشمار مخلوقات جی رہی ہیں۔ ان کو جینے کا طریقہ ‘ حفاظت کے اسباب ‘ توالد و تناسل کا فہم ‘ اولاد کی نمود و پرداخت کا جذبہ ‘ گھر بنانے کی ترکیب اور شام کو اپنے گھر لوٹ کے آنے کی ترغیب جیسی باتوں سے کون آشنا کرتا ہے ؟ جس ذات خداوندی نے دلوں میں القا کے ذریعہ ان ضرورتوں کو پورا کیا ہے ‘ اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ انسانوں کے دل و دماغ میں اپنا کلام نازل فرمائے اور اپنی تعلیم کا انھیں ذریعہ بنائے۔ اس طرح کی بات ‘ جیسے اہل کتاب نے کہی ہے ‘ صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے ‘ جسے اللہ کی قدرت پر یقین نہ ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے یہ بات اس خیال سے کہی ہے کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری کیونکہ کسی بشر پر کسی چیز کا اتارنا ‘ یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ اگر انھوں نے واقعی یہ بات اس خیال سے کہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی عظمت کو اور اس کی حکمت کو نہیں پہچانا۔ جس پروردگار کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر ودیعت کردہ ہر طلب اور ہر تقاضے کا بہتر سے بہتر جواب دے ‘ اس سے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ انسان کے سب سے بڑے تقاضے ” طلب ہدایت “ کا کوئی جواب نہ دے۔ اس نے ہمارے اندر پیاس کا ایک تقاضہ پیدا کیا تو اس کا جواب دینے اور اس کی تسکین کے لیے ‘ اس نے زمین کے اندر پانی کی سوتیں جاری کردیں اور آسمان سے چھم چھم پانی برسایا۔ پہاڑوں پر برف کی تہیں جما دیں تاکہ وہ پگھل پگھل کر ہماری ضرورت کو پورا کرتی رہیں۔ پھر زمین کے مختلف اطراف میں اس نے سمندروں کے ذخیرے پھیلا دیئے۔ اسی طرح اس نے ہمیں بھوک کا احساس دیا تو اسے پورا کرنے کے لیے زمین کو روئیدگی کے خزانوں سے مالامال کردیا۔ عناصر قدرت کو ہماری یہ ضرورت پورا کرنے پر اس طرح لگا دیا کہ وہ شب و روز اس میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کے جتنے بھی احساسات ہمیں عطا کیے گئے ‘ ان میں سے کوئی ایسا نہیں ‘ قدرت نے جس کا جواب دینے میں کمی فرمائی ہو۔ ہمیں اس نے جمالیاتی ذوق بخشا تو ہمارا گردو پیش ‘ اس نے حسن و جمال سے مالامال کردیا۔ پھولوں کی دلکشی اور رعنائی ‘ پرندوں کے خوبصورت نغمے ‘ پہاڑوں سے گرتی ہوئی آبشاریں ‘ میدانوں میں بل کھاتی ہوئی جدولیں ‘ کھیتوں میں نقرئی لباس پہنے ہوئے کھڑی فصلیں ‘ برسات میں اٹھتی ہوئی گھنگھور گھٹائیں اور زمین پر پھیلا ہوا سبزے کا مخملی فرش ‘ خوبصورت نین نقشوں والے چہرے ‘ دل فریب اور فتنہ خیز ادائیں ‘ یہ سب اسی جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان ہیں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح اس نے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لیے حسن آرائی فرمائی ہے ‘ اسی طرح حسن کی عزت افزائی کے لیے پگھلنے والا دل اور نظر نوازنگاہیں بھی عطا کی ہیں۔ وہ حسن کو اگر شوخیاں دیتا ہے تو عشق کو گرمیاں بھی عطا کرتا ہے اور اس کو سوز و گداز دے کر سرتاپاحسن کا جواب بنا دیتا ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ جس پروردگار کی حکمت نے ایک ایک تقاضے کو جواب عنایت فرمایا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ طلب ہدایت ‘ جو زندگی کا سب سے بڑا تقاضا اور سب سے بڑی ضرورت ہے ‘ قدرت اس سے صرف نظر فرما لے اور اس کا کوئی جواب نہ دے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہاں کھانے پینے والے حیوانات تو زمین پر چلتے پھرتے دکھائی دیتے ‘ لیکن انسانیت دم توڑ جاتی اور یہاں بسنے والا انسان ‘ اسی طرح زندگی گزارتا یا زندگی نما کوئی چیز گزارتا ‘ جس طرح جنگل میں حیوان زندگی گزارتے ہیں۔ جس میں طاقت ہوتی ہے ‘ وہ جنگل میں گھومتا پھرتا ہے اور جو کمزور ہوتا ہے ‘ وہ اپنے بھٹ میں چھپ کر وقت گزارتا ہے اور یا پھر طاقتور کے ہاتھوں مارا جاتا ہے اور اس کی خوراک بن جاتا ہے۔ اگر کوئی بھی ہوش و خرد رکھنے والا شخص ‘ اس نتیجے کو قبول نہیں کرسکتا تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ جیسی علیم و حکیم ذات ‘ وہ کبھی بھی طلب ہدایت جیسی بنیادی ضرورت کو نظر انداز فرما کر انسان کو اس سے محروم نہیں کرسکتی تھی چناچہ اس نے محروم نہیں کیا۔ کیا حضرت موسیٰ بشر نہیں تھے ؟ اہل کتاب نے یہ بات کہہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اہل کتاب ہو کر بھی اللہ کی قدر و عظمت سے واقف نہیں۔ اگر وہ اس کی قدرت اور حکمت سے آگاہ ہوتے تو وہ کبھی اس طرح کی بےسروپا بات نہ کہتے۔ اس طرح پہلے ہی جملے میں ان کی علمی بےمائیگی ‘ دینی بےبصیرتی اور عقلی کوتاہی کو ذکر فرمانے کے بعد پھر ان کی بات کا جواب دیا۔ فرمایا : اے پیغمبر ان سے پوچھئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی چیز نازل نہیں کی تو موسیٰ (علیہ السلام) بھی تو ایک بشر اور ایک انسان تھے اور تمہارا یہ ایمان ہے کہ ان پر کتاب تورات نازل ہوئی تھی۔ بتائو ! یہ کتاب ان پر کس نے نازل کی تھی ؟ ظاہر ہے کہ اہل کتاب نہ تو یہ کہہ سکتے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سرے سے بشر ہی نہ تھے اور نہ اس بات کا انکار کرسکتے تھے کہ اللہ نے ان پر کتاب نازل کی تھی۔ جب یہ دونوں باتیں تاریخ کا حصہ ہیں اور انھیں تسلیم بھی ہیں تو پھر انھوں نے کس حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔ اس جواب کے ضمن میں تورات کی حیثیت اور شان کو بیان کرتے ہوئے ‘ یہ بھی واضح فرما دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر جو کتاب اتاری گئی تھی ‘ اس کی دو صفتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ نور تھی اور دوسرا یہ کہ وہ لوگوں کے لیے ہدایت تھی۔ اس میں دراصل اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ دنیا میں جو بھی کتاب انسانی ہدایت کے لیے نازل ہوئی ہے ‘ اللہ نے یہ دونوں صفتیں اس کتاب میں ضرور رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انجیل کے لیے بھی ‘ ان دونوں صفتوں کا ذکر کیا گیا اور قرآن کریم کے لیے بھی۔ کیونکہ یہی دونوں چیزیں ‘ انسانی زندگی کے لیے بنیادی ضرورتیں ہیں۔ انسان اپنی سوچ اور اپنے خیال میں ہمیشہ ٹھوکریں کھاتا ہے۔ وہ جب اپنی دماغی قوت سے کام لے کر انفرادی یا اجتماعی فیصلے کرتا ہے تو بہت دفعہ اس میں ایسی ایسی غلطیاں کرجاتا ہے جو انسانی خرابی ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ تباہی پر منتج ہوتی ہیں۔ اس لیے انسانی زندگی کو اس تباہی سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے ایک ایسا نور اور روشنی عطا کی جائے ‘ جو اس کی ذہنی اور فکری الجھنوں میں اس کی راہنمائی کرسکے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ جب بھی کسی پیغمبر پر کوئی کتاب نازل فرماتا ہے تو اس کتاب کے ذریعے اس قوم کی ذہنی الجھنوں اور فکری نارسائیوں کا علاج کرتا ہے۔ وہ عالم مابعد الطبیعات ‘ عالم الہیات ‘ زندگی کے اجتماعی تہذیبی اور تمدنی مسائل ‘ انسانی نفسیات پر مبنی حقوق و فرائض ‘ طاقت مل جانے کے بعد اس پر ضبط کی طاقت اور کمزوری اور ناتوانی میں صبر کی قوت ‘ تنہائیوں میں پاکیزہ رہنے کی صلاحیت ‘ یہ سب چیزیں انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور یہ اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتیں ‘ جب تک کہ دماغی اور قلبی فیصلے صحیح حوالوں سے کرنے کی توفیق نصیب نہ ہو۔ اس لیے ہر کتاب کو اس راہنمائی کے لیے نور بنا کر نازل کیا گیا۔ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون کماحقہٗ انسانی ضروریات کو پورانھیں کرتا انسان کی دوسری ضرورت اس کی انفرادی اور اجتماعی معاملات میں ہمواری پیدا کرنے کے لیے ایسا آئین اور قانون ہے یا زندگی کے ایسے عدالتی اور اخلاقی ضوابط ہیں ‘ جن کی راہنمائی اور جن کی نگرانی میں انسانی زندگی کا سفر محفوظ اور خوشگوار گزرے۔ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون اور کوئی آئین بھی کماحقہ اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا۔ اس لیے اللہ کتاب اتار کر اور اپنا پیغمبر بھیج کر ‘ اس راہنمائی اور ہدایت کا سامان کرتا ہے۔ کہا یہ وہ انسانی ضرورتیں ہیں جن کے لیے کتابیں اترتی ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) بھی اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ کی طرف سے جو کتاب لائے تھے ‘ وہ انہی صفات کی حامل تھی۔ اے اہل کتاب آج اگر انہی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے محمد کریم ﷺ مبعوث ہوئے ہیں اور وہ انسانوں کے پاس اللہ کی عطا کردہ کتاب لے کر آئے ہیں تو تم آخر اس سے انکار کیوں کر رہے ہو۔ یہاں تک جو کچھ فرمایا گیا ‘ یہ اہل کتاب کو جواب دینے کی حد تک تو کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کا جواب دینے سے قاصر رہے اور ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئیں اور قرآن کریم نے خود ہی اس کا جواب دیا۔ آنحضرت ﷺ سے کہا گیا کہ یہ تو کیا جواب دیں گے ‘ آپ فرما دیجئے کہ تورات کو موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ ہی نے نازل فرمایا تھا۔ اسی طرح آج قرآن بھی اسی نے نازل فرمایا ہے۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعض مذہبی رہنمائوں نے کہنے کو تو یہ بات کہہ دی ‘ لیکن قرآن کریم نے جب ان پر تنقید فرمائی ‘ جس کی وجہ سے خود اپنی قوم کو بھی انھیں منہ دکھانا مشکل ہوگیا تو ان کے بعض دوسرے مذہبی رہنمائوں نے اپنے ان علماء پر شدید گرفت کی اور پھر انھیں مذہبی سربراہی سے الگ کردیا۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہو۔ لیکن جہاں تک ان کی اس بات کا تعلق ہے۔ محض دفع الوقتی کے لیے کچھ لوگوں نے اگر اسے ناپسند کیا ہے تو یہ ان کا قومی طرز عمل نہیں ‘ قومی طرز عمل وہی ہے جو ان کی اس بات سے جھلکتا ہے۔ کیونکہ اہل کتاب آنحضرت ﷺ ‘ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر غلط سے غلط کام اور غلط سے غلط بات کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ جھوٹ بولنا ان کے لیے معمولی بات تھی اور ان کا انفرادی اور اجتماعی کردار دینی حوالوں سے بھی اس قدر بگڑ چکا تھا کہ ان سے کسی بھی غلط سے غلط بات کی توقع کی جاسکتی تھی۔ اہلِ کتاب نے تورات کو ورق ورق کردیا اس لیے اسی آیت کریمہ میں اسی جواب کے ساتھ ان سے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم اگرچہ اپنے پاس ایک کتاب رکھتے ہو اور دعویٰ تمہارا یہ ہے کہ کسی اور قوم میں نہ کوئی نبی آسکتا ہے ‘ نہ کوئی کتاب اتر سکتی ہے۔ لیکن خود اس کتاب کے ساتھ تمہارا طرز عمل کیا ہے ؟ اللہ نے تمہیں ایک ایسی کتاب عطا فرمائی ‘ جو سرتاپا نور اور لوگوں کے لیے ہدایت تھی۔ لیکن تم نے اسے قراطیس بنا کر رکھ دیا۔ قراطیس جمع ہے قرطاس کی۔ قرطاس کا معنی ہے کاغذ۔ کاغذ سے مراد یہ کاغذ نہیں ‘ جو ہم آج استعمال کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد اس کاغذ سمیت ہر وہ چیز ہے ‘ جس پر لکھا جاسکے۔ چاہے وہ جھلی ہو ‘ چاہے وہ اونٹ کے شانے کی ہڈی ہو ‘ چاہے کوئی صاف سپاٹ پتھر کی سل۔ محاورے کو دیکھتے ہوئے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ قران کریم ان سے یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے اس عظیم کتاب کو بھی ورق ورق کر کے رکھ دیا ہے۔ یعنی تم نے اس کے پرزے اڑا دیئے۔ لیکن ہمارے علماء اس کا مطلب یہ مراد لیتے ہیں کہ آج جس طرح ہمارے ہاتھوں میں قرآن پاک دو گتوں میں بند (مابین الدفتین) ایک محفوظ کتاب کی شکل میں ہے ‘ انھوں نے تورات کو اس طرح محفوظ نہیں رکھا۔ بلکہ اس کو الگ کاغذوں کی شکل میں ‘ مختلف حصوں میں تقسیم کر کے رکھا۔ جس کے نتیجے میں انھیں اس کتاب کے بعض حصوں کو چھپانے میں آسانی پیدا ہوگئی اور یہ آسانی اس وجہ سے بھی پیدا ہوئی کہ کتاب عام ہاتھوں میں نہیں تھی۔ بلکہ مخصوص لوگ اس کو اپنے پاس رکھتے تھے اور وہی اس کی مدد سے لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔ جس طرح ہندوئوں میں صرف برہمن اپنی مذہبی کتاب پڑھ سکتا ہے اور وہی اپنی مذہبی کتابوں کا عالم ہوتا ہے۔ ان میں بھی بالعموم حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد یہ خدمت انجام دیتی تھی اور ان کا مذہبی طبقہ ‘ جو اس کتاب کے علماء پر مشتمل تھا ‘ وہ اس سازش میں اس کا شریک رہتا تھا۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے جابجا ان پر اخفائے کتاب کا الزام عائد کیا۔ انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان پر یہی الزام عائد کیا تھا۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ یہ چراغ تمہیں اس لیے دیا گیا تھا کہ تم کسی اونچے طاق پر اسے رکھو تاکہ پورے گھر میں اس کی روشنی پھیلے لیکن تم نے اس کو پیمانے کے نیچے ڈھانک کے رکھ دیا۔ یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے کتاب کو کاغذوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تم کتاب کے زیادہ حصے کو چھپاتے ہو اور اس کے کم حصے کو ظاہر کرتے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کا یہ طرز عمل ‘ اللہ کی کتاب کے ساتھ ان کی زندگی کا وہ بگاڑ تھا ‘ جس کے وہ اس حد تک عادی ہوگئے تھے کہ ان کی پوری دینی زندگی اس سے متاثر ہو کر رہ گئی تھی۔ اور تورات کی شکل میں جو ان کو قانون ملا تھا ‘ وہ ان کی عدالتوں سے رخصت ہوگیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ جب بھی انھیں کوئی مشکل پیش آتی تو وہ اللہ کی کتاب میں کمی بیشی کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک دفعہ دو یہودی زنا کے جرم میں پکڑے ہوئے حضور ﷺ کی عدالت میں لائے گئے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ بتائو ! تمہاری کتاب میں زنا کی سزا کیا ہے ؟ انھوں نے کہا کوڑے مارنا اور منہ کالا کر کے شہر میں گھمانا۔ ان کا ایک مشہور عالم ابن صوریا اس مجلس میں موجود تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اے ابن صوریا میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ کو نبوت دی اور تورات جیسی کتاب اس پر اتاری اور جس اللہ نے بنی اسرائیل کو بحر قلزم سے پار اتارا۔ تم مجھے بتائو کہ کیا تورات میں زنا کی یہی سزا ہے جو بیان کی گئی ہے ؟ اس نے کہا کہ اگر آپ مجھے اتنی سخت قسم نہ دیتے تو میں کبھی آپ کو نہ بتاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب یہ زنا جیسی برائی ہمارے بڑے لوگوں میں پھیل گئی تو ان میں شادی شدہ لوگوں کو سنگسار کرنا ہمارے لیے مشکل ہوگیا کیونکہ وہ اپنے اثر و رسوخ کے باعث اس سزا سے بچ نکلتے تھے تو پھر ہمارے یہاں یہ قانون ٹھہرا کہ اگر کوئی غریب پکڑا گیا تو اس پر حد جاری کردی گئی اورا گر کوئی امیر پکڑا گیا تو اس طرح معمولی سزا پا کر چھوٹ گیا۔ ایک اور موقع پر یہودی عالم جو اصل بات کو چھپا کر غلط بات بتارہا تھا اور عبد اللہ ابن سلام جو یہودی عالم تھے اور اب مسلمان ہوچکے تھے ‘ وہ پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اس شخص سے کہا کہ او اللہ کے دشمن ! ذرا تورات کے اس ورق سے ہاتھ اٹھا ‘ جس میں تم نے اصل حکم چھپا رکھا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں قرآن کریم ان کے جس جرم کا ذکر کر رہا ہے ‘ وہ کس طرح ان کے علماء میں پھیل چکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں نے قرآن پاک کی حفاظت کا انتظام کیا اور جس طرح قرآن پاک کے ساتھ مسلمانوں نے والہانہ تعلق رکھا۔ پہلی امتوں میں دور دور تک ہمیں اس کا تصور نہیں ملتا۔ آنحضرت ﷺ روزانہ جہری نمازوں میں بلند آواز سے لمبی لمبی سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے۔ جنھیں سن سن کر مسلمان یاد بھی کرتے اور اپنے حفظ کی اصلاح بھی کرتے۔ صدیق اکبر نے اپنے دور خلافت میں پہلی فرصت میں قرآن پاک کو ایک مجلد کتاب کی شکل میں محفوظ کردیا۔ حضرت عثمان غنی نے اس کی متعدد نقلیں تیار کروائیں اور پورے عالم اسلام میں اسے پھیلا دیا۔ پھر مسلمانوں کے قرآن کریم کے ساتھ شغف کے نتیجے میں جو مختلف قرآنی علوم وجود میں آئے ‘ وہ تو ایک مستقل داستان ہے۔ لیکن صرف اس کی کتابت کے حوالے سے مسلمانوں کا اس سے ایسا والہانہ تعلق رہا ہے کہ ایک طرف تو کتابت کے فن نے حیرت انگیز حد تک ترقی کی اور دوسری طرف بادشاہ اور حکمران بھی قرآن پاک کی کتابت کرنا ‘ اپنے لیے باعث فخر وسعادت سمجھنے لگے۔ دور نہ جایئے ‘ ہندوستان کا سب سے بڑا نیک دل حکمران اور نگ زیب عالمگیر باقاعدہ قرآن کریم کی کتابت کرتا تھا اور اتنا بڑا بادشاہ ہونے کے باوجود خزانے سے اپنے لیے تنخواہ لینا جائز نہیں سمجھتا تھا۔ اس لیے ٹوپیاں سی کر اور قرآن پاک لکھ کر اپنی گزر بسر کا انتظام کرتا تھا۔ مختصر یہ کہ ان اہل کتاب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تمہارا اپنی کتاب سے یہ رویہ رہا کہ تم نہ صرف اس کی حفاظت میں مخلص نہیں رہے ‘ بلکہ قصداً اس کے احکام کو چھپاتے رہے ہو۔ اس لیے آج اگر اللہ نے نوع انسانی پر کرم فرمایا اور بنی اسماعیل میں اس نے اپنا آخری پیغمبر مبعوث کیا اور اس پر اپنی آخری کتاب اتاری تو تم بجائے اس کے کہ اپنے طرز عمل پر نادم ہوتے اور آگے بڑھ کر اس تحریک کا ہر اول دستہ بنتے ‘ تم جھوٹ بول بول کر لوگوں کو ایمان قبول کرنے سے روکتے اور اس قافلے کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بنتے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم زندگی کو ایک کھیل سمجھتے ہو۔ اگر تمہیں ذرا بھی اس میں سنجیدگی کا احساس ہوتا تو تم کبھی اس طرح کی بےسروپا حرکتیں نہ کرتے۔ اس لیے حضور سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان پر بات واضح کرنے کے بعد ان کو چھوڑ دیجئے کہ جو یہ کھیل کھیل رہے ہیں اس میں لگے رہیں اور پھر اس کا انجام دیکھیں۔ اگلی آیت کریمہ میں قرآن پاک کی اصل حیثیت اور اس کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس پر مختلف دلائل ذکر فرمائے گئے ہیں۔
Top