Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے تو تم بھی انہی کے طریقے کی پیروی کرو ‘ اعلان کردو میں اس پر تم سے کسی صلہ کا طالب نہیں یہ تو بس عالم والوں کیلئے ایک یاد دہانی ہے
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہ ُ فَبِھُدٰھُمْ اقْتَدِہْ ط قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا ط اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ۔ (الانعام : 90) (یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے تو تم بھی انہی کے طریقے کی پیروی کرو ‘ اعلان کردو میں اس پر تم سے کسی صلہ کا طالب نہیں یہ تو بس عالم والوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے ) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ‘ ان کے آبائو اجداد اور ان کی ذریت میں سے جن جن لوگوں کو نبوت و رسالت سے مشرف فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی ہدایت نازل ہوئی۔ باقی لوگوں نے جتنے طریقے نکال رکھے ہیں وہ اللہ کی ہدایت نہیں بلکہ اس سے بغاوت ہے۔ اب یہی اللہ کی ہدایت رسول اللہ ﷺ پر نازل کی جا رہی ہے۔ اس لیے اس ہدایت اور سابقہ پیغمبروں کی ہدایت میں اتصال اور یک رنگی دکھانے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں کی ہدایت کی پیروی کریں مقصود یہ ہے کہ ان کی ہدایت کے تین پہلو ہیں آپ بھی اپنی ہدایت میں انہی تین پہلوئوں کی پابندی فرمائیں۔ 1 اللہ نے انھیں فروع میں اختلاف کے باوجود جو اصول دین عطا فرمائے تھے آپ بھی انہی اصول کو اختیار کریں اور اپنی ہدایت کا مدار انہی اصول کی تبلیغ و دعوت اور اس کے بروئے کار لانے پر رکھیں وہ اصول ِدین وہی ہیں جنھیں ہم عقائد کہتے ہیں یعنی توحید ‘ رسالت اور آخرت۔ اللہ نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے وہ انہی تینوں اصولوں کی دعوت دینے کے لیے تشریف لائے اور انہی بنیادوں پر انھوں نے زندگی کی عمارت استوار کی۔ آپ سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ بھی انہی اصولوں پر شریعت کی عمارت اٹھائیں اور انہی تینوں کو دل و دماغ میں راسخ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی پر زندگی کی اصلاح اور بقاء کا دارومدار ہے۔ سابقہ شریعتوں کی پیروی کا حکم 2 سابقہ پیغمبروں نے جب بھی اپنی قوموں کے سامنے اللہ کے دین کو پیش کیا تو ان قوموں نے کبھی بھی ان کی دعوت کو آرام سے قبول نہیں کیا۔ ایک طویل کشمکش کا سلسلہ جاری رہا اور اس سفر میں زندگی کا کوئی دکھ ایسا نہیں جس سے ان پیغمبروں کو واسطہ نہ پڑا ہو گویا اس راہ میں اللہ کے نبیوں کا ستایا جانا اس راستے کی ایک ایسی لازمی سنت ہے جس سے ہر پیغمبر کو گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اے محمد ﷺ آپ بھی چونکہ انہی کی طرح اللہ کے دین کی دعوت دینے کے لیے تشریف لائے ہیں تو آپ کو اپنی قوم کی طرف سے ایسی ہی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے آپ سے پہلے پیغمبروں کو کرنا پڑا جیسے ان کا کبھی کوئی دن آرام سے نہیں گزرا اور کبھی کوئی رات چین سے نہیں کٹی۔ آپ کو بھی انہی دکھوں سے واسطہ پڑے گا۔ کیونکہ یہ اس راستے کی لازمی سنتیں ہیں جن سے گزرے بغیر کبھی تبلیغ و دعوت کا عمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی کشمکش میں جس طرح پہلے اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا اور استقامت دکھائی آپ بھی اسی طرح استقامت دکھا کر ان کی سنت کی پیروی فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ جو دین پیش کرتے ہیں اس میں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں 3 اللہ تعالیٰ کی عادت یہ رہی ہے کہ جب بھی وہ اپنا کوئی نیا رسول بھیجتا ہے اور اس پر نئی شریعت اتارتا ہے تو شریعت کے احکام میں کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ سابقہ شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کر کے نئے احکام اتارے جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سابقہ شریعت کے احکام ہی جو پہلی شریعتوں کے حاملین نے نذر تغافل کیے ہوتے ہیں یا انھیں تحریف کا شکار بنا لیا جاتا ہے انھیں ازسر نو زندہ کر کے نازل کردیا جاتا ہے اور کبھی وہ احکام جن کا چلن سابقہ امت میں جاری ہوتا ہے انہی کو نئی شریعت کا حصہ بنادیا جاتا ہے آنحضرت ﷺ کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ کی شریعت میں اگر سابقہ شریعتوں کے احکام اتارے جائیں تو آپ ان کی پابندی کریں اور اگر کسی معاملے میں کوئی حکم نازل نہیں کیا جاتا لیکن سابقہ شریعت میں وہ حکم موجود ہے تو آپ کو اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ چناچہ آنحضرت کا یہ طریقہ تھا کہ جب تک کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوتا تھا آپ تورات کے احکام کی پابندی فرماتے تھے۔ یہاں اسی بات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کیونکہ مقصود تو صرف اس بات کی تعلیم دینا ہوتا ہے کہ اطاعت و عبادت کا مستحق صرف اللہ ہے۔ جس طرح اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اس کی اطاعت میں بھی کوئی اس کا ہمسر نہیں سابقہ شریعتیں اسی کے احکام تھیں اس لیے واجب التعمیل تھیں اور اب نئی شریعت بھی اسی کے احکام پر مشتمل ہے اس لیے اب اس کی تعمیل کرنا ہوگی اور جب تک کوئی نیا حکم نہیں آتا سابقہ شریعت قابل عمل رہے گی اور اگر اسی کے کسی حکم کو نئی شریعت میں اتار دیا جاتا ہے تو وہ دائمی شریعت کا حصہ بن جائے گا۔ آخر میں فرمایا جا رہا ہے کہ دیکھو میں تمہارے سامنے جو اللہ کا دین پیش کر رہا ہوں اس میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں بلکہ اللہ کا ہر پیغمبر امت کی بھلائی کے لیے آتا ہے اور میں بھی تمہاری بھلائی کے لیے اللہ کا دین تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں اور میں اس پر کسی اجر کا طالب نہیں مجھے یہ دولت اللہ کی طرف سے مفت ملی ہے اور میں اسے مفت بانٹ رہا ہوں۔ تم اگر اسے قبول کرلو گے تو اپنی دنیا اور عاقبت بنا لو گے اور قبول نہیں کرو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ میں کوئی کاروبار نہیں کر رہا کہ اگر تم نے میری دعوت قبول نہ کی تو میرا کاروبار بیٹھ جائے گا یہ کوئی دکانداری نہیں نبوت ہے جسے قبول کرنے پر تمہاری دنیا اور آخرت کا دارومدار ہے اور مزید فرمایا کہ یہ دین اور یہ شریعت جو میں لے کر آیا ہوں اس کی حیثیت ذکریٰ کی ہے۔ ذکریٰ کا معنی ہے یاد دہانی۔ یعنی وہ حقائق اور عوامل جو انسانی فطرت کے اندر ودیعت ہیں اور جنھیں تمہاری خواہشات نفس نے دبا رکھا ہے میں انہی کو ازسر نو زندہ کرنے اور تمہارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور یہود سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے تم دیکھ سکتے ہیں کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں ان میں سے کوئی بات نئی نہیں بلکہ یہ وہی ہدایت الٰہی ہے جسے حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام پیغمبر لے کر آئے۔ میں اسی کی یاد دہانی کرا رہا ہوں اور لوگوں نے اس میں جو گمراہیاں پیدا کرلی ہیں اور جن بدعات کو دین کا حصہ بنا لیا ہے اور جن گمراہ کن راستوں پر وہ چل نکلے ہیں میں خالص دین پیش کر کے ان تمام گمراہیوں کا علاج کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے ان میں کوئی نئی بات نہیں کہ جسے تم اچنبھا سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کردو۔ یہ تو تمہارے اپنے اندر کی یعنی فطرت کی وہ گمشدہ متاع ہے اور انبیاء کا وہ ورثہ ہے جسے تم نے بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور میں تمہارے سامنے اس کو اپنی اصلی شکل میں پیش کر رہا ہوں تو تمہیں تو آگے بڑھ بڑھ کر اسے قبول کرنا چاہیے نہ کہ میری مخالفت کرنی چاہیے۔
Top