Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 88
ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ لَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ هُدَى : رہنمائی اللّٰهِ : اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے بِهٖ : اس سے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَلَوْ : اور اگر اَشْرَكُوْا : وہ شرک کرتے لَحَبِطَ : تو ضائع ہوجاتے عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو کچھ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
یہ اللہ کی ہدایت ہے اس سے وہ سرفراز فرماتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اور اگر وہ شرک کرتے تو ان کا سارا کیا دھرا اکارت ہو کر رہ جاتا
ذٰلِکَ ھُدَی اللہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (الانعام : 88) (یہ اللہ کی ہدایت ہے اس سے وہ سرفراز فرماتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اور اگر وہ شرک کرتے تو ان کا سارا کیا دھرا اکارت ہو کر رہ جاتا) اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے ھُدَی اللہِ پر زور دیا گیا ہے ” یہ اللہ کی ہدایت ہے “ یعنی زندگی کا طریقہ جس پر چل کر دنیا اور آخرت دونوں سنور سکتی ہیں اور زندگی صحیح رخ پر رواں دواں رہ سکتی ہے اور انفرادی اور اجتماعی مصالح ٹھیک ٹھیک بروئے کار لائے جاسکتے ہیں اور انسانی تہذیب و تمدن افراط وتفریط سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور حقوق و فرائض کی تقسیم اپنے صحیح محمل میں رہ کر جاری وساری رہ سکتی ہے۔ کیونکہ یہ طریقہ اور یہ راہنمائی اللہ کی عطا کردہ اور اس کی نازل کردہ ہے۔ پروردگار چونکہ ہماری فطرت کو پیدا کرنے والا اور ہماری ضرورتوں سے آشنا ہے۔ وہ ہمارے حسن و خوبی سے بخوبی واقف اور ہمارے احساسات سے خم و پیچ سے کما حقہ شناسا ہے اس لیے جب زندگی گزارنے کا طریقہ وہ عطا فرما رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیش نظر ہماری زندگی کی تمام ضرورتیں اور تمام تقاضے ہیں۔ جب ہم اس ہدایت پر عمل کریں گے اور جب ایک ایک ضرورت کو پورا ہونے کا موقع ملے گا اور ایک ایک تقاضہ اپنا جواب پائے گا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کہیں اشتعال پیدا ہو یا کہیں تشنگی کا احساس پریشان کرے یا کہیں محرومی کے سائے پڑنے کا اندیشہ ہو اس لیے اگر انسانی قافلہ خود اپنا دشمن نہیں تو اسے یہ بالکل سامنے کی بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ یہی زندگی کا طریقہ اور یہی انسانی سدھار کا نسخہ ہے جس سے مجھے بہرصورت فائدہ اٹھانا ہے تاکہ میں خسارے میں نہ پڑوں ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زندگی کے بیشمار راستے ہیں اور زندگی کی راہنمائی دینے والے لاتعداد رہنما ہیں ہر ایک نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں کہ جو آدمی کسی مشین کو پوری طرح نہیں سمجھتا وہ اس کے مقاصد سے واقف نہیں وہ اسے آپریٹ کرنا نہیں جانتا ‘ اسے نہیں معلوم اس سے کون سی پیداوار لی جاسکتی ہے ‘ یہ کس کس خرابی کا شکار ہوسکتی ہے ‘ وہ اس کے بارے میں گائیڈ بک تیار کرنے بیٹھ جائے تو اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوگی لیکن عجیب بات ہے کہ ہم ہر مشین کو چلانے کے لیے اس کے ماہر انجینئرکو تلاش کرتے ہیں اور ہر کام کرنے سے پہلے اس کام کے سمجھنے والے کو ڈھونڈتے ہیں لیکن انسانی مشین اور انسانی زندگی جو سب سے نازک اور سب سے پیچیدہ ہے یہ نجانے ہم نے کس کس اناڑی کے سپرد کر رکھی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صدیوں تک انسانی قافلہ ٹھوکریں کھاتا ہے لیکن اس کو یہ بالکل جانی پہچانی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب تک تم وہ راہنمائی قبول نہ کرو گے جو انسانی زندگی کے خالق اور اس کے عالم نے مہیا کی ہے اس وقت تک تم ان ٹھوکروں سے کبھی نہیں بچ سکو گے۔ اس لیے یہاں بڑا زور دے کر فرمایا گیا کہ ہدایت تو صرف اللہ کی ہدایت ہے۔ نقصانات سے یا ناکامیوں سے بچنا چاہتے ہو اور کامیابیوں سے ہمکنار ہونا چاہتے ہو تو سیدھے طریقے سے اس ہدایت کو اختیار کرلو لیکن ساتھ ہی یہ بات یاد رکھو کہ یہ ہدایت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی یہ اسے ملتی ہے جسے اللہ چاہتا ہے۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک تو یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے اسے نبوت کے منصب پر فائز کرتا ہے پھر اس پر اپنی ہدایت نازل فرماتا ہے اور اس کے واسطے سے باقی انسانوں کو ملتی ہے۔ اگر انسان از خود چاہیں کہ وہ اللہ سے اس راہنمائی کو طلب کرلیں تو یہ ان کے لیے ممکن نہیں، اس لیے جتنے رسول دنیا میں آئے ہیں وہی منارہ نور ہیں۔ انسان کو رہنمائی کے لیے انہی کی طرف دیکھنا چاہیے۔ روشنی کا آخری منبع ومصدر محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جن پر سلسلہ نبوت کو ختم کردیا گیا اور قیامت تک کے لیے انسانی ضرورتوں کی رہنمائی کے لیے ان پر آخری کتاب اتار دی گئی اور انھیں منبع نور بنا کر قیامت تک کے لیے انسانوں کو ان سے اکتسابِ فیض کرنے کا حکم دیا گیا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اس ہدایت کو اختیار کرنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس ہدایت کے حتمی اور صحیح ہونے کا یقین پیدا کرے اور پھر کامل اخلاص کے ساتھ ہر طرح کے ذہنی تحفظات سے آزاد ہو کر اسی راہنمائی کو اپنا مقصود بنائے اور پھر اس راستے پر چلنے کا عزم لے کر اللہ سے اس کی توفیق مانگے۔ یہ وہ صحیح طریقہ ہے جس کے نتیجے میں اللہ کی ہدایت نصیب ہوتی ہے اور یہاں یہ جو فرمایا گیا کہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اس کا یہی مفہوم ہے۔ اگر اللہ کے برگزیدہ بندے بھی شرک کرتے تو ان کے سب نیک اعمال اکارت جاتے تیسری بات اس آیت میں یہ کہی گئی ہے کہ سابقہ آیات میں جن برگزیدہ افراد کا ذکر کیا گیا ہے اور جن کے بارے میں بتایا گیا کہ اللہ نے ان کو بڑے بڑے مقامات سے نوازا اور یہ اللہ کے نہایت برگزیدہ بندے تھے۔ اگر یہ بھی اللہ کی ذات وصفات میں کسی کو شریک ٹھہراتے جس طرح اے مشرکو تم اس کے ساتھ شریک ٹھہرا رہے ہو تو یاد رکھو باوجود اس کے کہ یہ لوگ بڑے بڑے مقامات کے حامل اور اللہ کے یہاں قرب خاص کے مستحق ہیں اور انھوں نے زندگی بھر اللہ کی اطاعت اور اپنے فریضہ کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہیں کی اگر یہ بھی کہیں اس جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے تو انھوں نے اپنی زندگی میں جو بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے اور اطاعت وفدویت کی جو اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور جو نمونہ کے اعمال کیے وہ سب دھرے رہ جاتے اور اللہ کا غضب ان پر ایسا نازل ہوتا کہ ان کی یہ ساری کاوشیں اور ان کے یہ تمام اعمال ان کے کسی کام نہ آتے اور یہ قیامت کے دن نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جو کچھ بھی اللہ کی جانب سے عطا ہوا اس کا سبب صرف یہ تھا کہ انھوں نے موحد بن کر زندگی گزاری۔ اپنی عبادت اطاعت اور بندگی میں کبھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا۔ لیکن اگر یہ تمہاری طرح کہیں یہ جرم کر بیٹھتے تو یہ مقامات تو کیا اللہ کی معمولی رضا کو بھی کھو دیتے اور یہ بات ان کے کسی کام نہ آتی کہ وہ حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں کیونکہ اللہ کے یہاں نسب کام نہیں آتا بلکہ اعمال کام آتے ہیں اور اعمال بھی وہ جو خالصتاً اللہ کے لیے کیے جائیں اگر ان میں کہیں شرک کا شائبہ بھی شامل ہوجائے تو اللہ کبھی انھیں قبول نہیں کرتا۔ اس آیت کریمہ میں جسے اللہ کی ہدایت کہہ کر اس کے اتباع پر زور دیا گیا ہے ‘ اگلی آیت کریمہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس ہدایت کو حاصل کرنے کا اصل ذریعہ کیا ہے۔
Top