Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 87
وَ مِنْ اٰبَآئِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْ١ۚ وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَ : اور مِنْ : سے (کچھ) اٰبَآئِهِمْ : ان کے باپ دادا وَذُرِّيّٰتِهِمْ : اور ان کی اولاد وَاِخْوَانِهِمْ : اور ان کے بھائی وَاجْتَبَيْنٰهُمْ : اور ہم نے چنا انہیں وَهَدَيْنٰهُمْ : اور ہم نے ہدایت دی انہیں اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور ان کے آبائو اجداد ‘ ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے بھی ہم نے ہدایت یافتہ بنائے اور ان کو برگزیدہ کیا اور ان کو ہم نے صراط مستقیم کی ہدایت بخشی
وَمِنْ اٰبَآئِہِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ اِخْوَانِہِمْ ج وَاجْتَبَیْنٰھُمْ وَ ھَدَیْنٰھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (الانعام : 87) (اور ان کے آبائو اجداد ‘ ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے بھی ہم نے ہدایت یافتہ بنائے اور ان کو برگزیدہ کیا اور ان کو ہم نے صراط مستقیم کی ہدایت بخشی) لوگوں کو ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے یہ نہ سمجھا جائے کہ توحید کے پرستار اور ہدایت پر چلنے والے یہی چند گنتی کے نفوس ہیں جن کا یہاں ذکر ہوا ہے بلکہ ان کے آبائو اجداد میں سے بھی ان کی اولاد میں سے بھی اور ان کے بھائی بندوں میں سے بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد کو نبوت کے شرف سے مشرف فرمایا اور پھر انھوں نے اللہ کی توحید کی دعوت دیتے ہوئے اور اس کی ہدایت کو عام کرتے ہوئے کتنے ملکوں اور کتنی قوموں کو فیض یاب کیا اور کہاں کہاں یہ ہدایت کا سلسلہ پھیلا اور کتنی نسلیں اس سے مستفید ہوتی رہیں اور اسی طرح اللہ نے ان کی اولادوں میں سے کتنے لوگ اور ان کی برادری میں سے کتنے افراد اور ان کے آبائو اجداد میں سے کتنے گروہ ایسے تھے جنھیں انبیاء کے راستے پر چلایا اور جو کام دنیا میں انبیاء کرام انجام دینے کے لیے آتے ہیں وہ ان کے ہاتھوں سے انجام دلوایا اور انھوں نے نبیوں ہی کی طرح جان جوکھوں میں ڈال کر مسلسل دکھ اٹھا کر اپنا سب کچھ اسی راستے میں جھونک کر اللہ کے دین کو سربلند کیا اور دنیا کو توحید سے آشنا کر کے اللہ سے ان کا ربط مستحکم کیا اور انسان جو اللہ سے کٹ کر اور شیطان سے جڑ کر خود اپنا دشمن ہوجاتا ہے اس کو اللہ کے راستے پر ڈال کر اس کی انسانیت کو زندہ کیا اور اس طرح انسانی قافلے کو اپنی اصل منزل کا مسافر بنایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے یہی دو راستے نکالے ہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے اپنے پیغمبر بھیجتا ہے اور پیغمبروں کی معیت اور ان کی نصرت کے لیے ان کے ماننے والوں کو مکلف بناتا ہے اور جب پیغمبر دنیا سے اپنا فرض انجام دینے کے بعد چلے جاتے ہیں تو ان پر ایمان لانے والے لوگ نئے آنے والے پیغمبر تک اس تبلیغ و دعوت کے فرض کو انجام دیتے رہتے ہیں۔ چناچہ چند انبیاء کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی سنت کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے آبائو اجداد اور ان کی اولاد اور ان کی برادریوں میں ہم نے دونوں طرح کے لوگ اٹھائے ‘ نبوت بھی صرف انہی پر محدود نہیں اور بھی نبی آتے رہے اور پھر یہ ہدایت کا کام نبیوں ہی پر منحصر ہو کر نہیں رہا بلکہ ان پر ایمان لانے والے اس فرض کی انجام دہی کو آگے بڑھاتے رہے اور یہ سفر جاری رہا کیونکہ جب تک زمین پر نوع انسانی باقی ہے اس کا ایک ایک فرد اس ہدایت کا مخاطب اور ذمہ دار ہے جس ہدایت کو لے کر اللہ کے نبی آتے ہیں جن میں سے سب سے پہلا نقطہ ‘ نقطہ توحید ہے۔ جس کے بارے میں سب سے پہلے سوال ہوگا۔ اس لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ نوع انسانی کے افراد کی موجودگی میں ہدایت کا یہ سلسلہ رک جائے ‘ نبی مبعوث نہ ہوں یا ان کے راستوں پر چلنے والے سلسلہ دعوت کو روک دیں اگر ایسا ہوجائے تو یہ کہا جائے گا کہ انسانوں کو ہدایت دینا اللہ نے اپنے ذمے لیا تھا کیونکہ قرآن کریم میں صاف فرمایا گیا ہے اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی ” بیشک ہدایت دینا ہماری ذمہ داری ہے “۔ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ دعوت کو روک کر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ یہ بات چونکہ ناممکن ہے اس لیے پروردگار نے اپنی ذمہ داری ادا فرماتے ہوئے اور انسانوں کی اس کمزوری کا لحاظ فرماتے ہوئے سلسلہ ہدایت کو کبھی رکنے نہیں دیا۔ ہر دور میں پیغمبر آتے رہے یا ان کے متبعین کام کرتے رہے۔ اب رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد چونکہ سلسلہ نبوت ختم کردیا گیا اور انسانوں کو ایک مرکز اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے بار بار تبدیلی کے عمل کو روک دیا گیا تو اب یہ ذمہ داری اس امت مسلمہ کی ٹھہری کہ وہ اس فرض کو انجام دے جو ہر دور میں انبیاء کے ذریعہ انجام دیا جاتا رہا اور اس صراط مستقیم کی طرف لوگوں کو بلائے جس پر چل کر آخرت کی کامیابیوں کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہی وہ اللہ کی ہدایت اور وہ راستہ ہے اس کے علاوہ کوئی ہدایت اور کوئی اور طریقہ اللہ کے یہاں قابل اعتبار نہیں۔ اگلی آیت میں اسی کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔
Top