Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 85
وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ
وَزَكَرِيَّا : اور زکریا وَيَحْيٰى : اور یحییٰ وَعِيْسٰي : اور عیسیٰ وَاِلْيَاسَ : اور الیاس كُلّ : سب مِّنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیک بندے
اور زکریا ‘ یحیٰ ‘ عیسیٰ اور الیاس کو بھی ‘ یہ سب نیکوکاروں میں سے تھے
وَزَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَ عِیْسٰی وَ اِلْیَاسَ ط کُلٌّمِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ وَاِسْمٰعِیْلَ وَ الیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا ط وَ کُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الانعام : 75۔ 86) (اور زکریا ‘ یحیٰ ‘ عیسیٰ اور الیاس کو بھی ‘ یہ سب نیکوکاروں میں سے تھے اور اسماعیل ‘ یسع ‘ یونس اور لوط کو بھی اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے عالم والوں پر فضیلت بخشی) بنی اسماعیل و بنی اسرائیل کے آبائو اجداد ایک اللہ کو ماننے والے تھے یہ چاروں اللہ کے مشہور اور عظیم پیغمبر ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) تو عیسائی امت کی وجہ سے بہت ممتا زشخصیت کے مالک ہیں۔ ان کو اللہ نے غیر معمولی معجزات سے نوازا تھا۔ ان کی دنیوی زندگی کا بظاہر اختتام بھی غیر معمولی طریقے سے ہوا اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق وہ قرب قیامت میں آنحضرت ﷺ کے خلیفہ کی حیثیت سے دوبارہ تشریف لائیں گے اور غلبہ اسلام کو مکمل کریں گے۔ حضرت یحییٰ انہی کے ہمعصر ‘ پیش رو اور عزیزوں میں سے ہیں۔ حضرت زکریا حضرت یحییٰ کے والد گرامی اور حضرت الیاس وہی پیغمبر ہیں جنھیں تورات ایلیا کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان چاروں میں قدر مشترک ان کا زہد ‘ فقر اور دنیا سے بےرغبتی ہے۔ یہ دنیا اور اہل دنیا سے بےنیاز خالصتاً اللہ کی رضا میں شاکر ‘ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے اور انہی صفات کے اشتراک کے باعث انھیں ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ ان کی غیر معمولی شخصیتوں کے حوالے سے لوگوں نے ان کے بارے میں بہت کچھ افراط وتفریط سے بھی کام لیا ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی شخصیتوں میں صفات کے اعتبار سے کتنا بھی غیر معمولی پن ہو لیکن اپنی ذات میں وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے تھے خدا نہیں تھے۔ جیسے لوگوں نے ان میں سے بعض کی پوجا شروع کردی اور عیسائی صرف ان کی وجہ سے گمراہ ہوئے اور ان کو جو کچھ معجزات عطا ہوئے اور ان کی شخصیتوں میں جو ایک جاذبیت عظمت اور غیر معمولی پن نظر آتا ہے وہ صرف اس ہدایت اور اس صلاح وتقویٰ کے باعث ہے جو اللہ سے تعلق کے باعث ان کی شخصیتوں کا امتیازی پہلو تھا۔ وہ اپنی تمام تر عظمتوں میں اللہ پر ایمان رکھنے والے اس کی شریعت پر چلنے والے اللہ کی ذات وصفات میں شریک نہ کرنے والے اور قوم کو توحید کی دعوت دینے والے اللہ کے نیک بندے تھے ‘ جنھوں نے دنیا میں ہر طرح سے شرک کی جڑ مارنے کی کوشش کی اور لوگوں کو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے کی ترغیب دی اے مشرکینِ مکہ اور اے امت نصاریٰ تم نے نجانے یہ شرک کا مرض کہاں سے پال لیا ہے۔ دیکھو جہاں جہاں بھی عظمتیں نظر آتی ہیں وہ سب اللہ کی بندگی کے باعث اور اللہ کی توحید سے وابستگی کا نتیجہ ہیں۔ اگلی آیت میں مزید چار پیغمبروں کا ذکر فرمایا گیا۔ جن میں پہلے نمبر پر حضرت اسماعیل ہیں جو قریش کے جد امجد اور حضرت ابراہیم کے بڑے صاحبزادے ہیں اس رکوع کے آغاز میں جہاں انبیاء کا ذکر شروع ہوا وہاں سب سے پہلے حضرت اسحاق جو حضرت اسماعیل کے بھائی ہیں ان کا ذکر کیا گیا اور پھر ان کی اولاد میں اٹھنے والے جستہ جستہ پیغمبروں کا ذکر ہے۔ اب آخر میں حضرت اسماعیل کا ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ سلسلہ ابراہیمی کو مکمل کرتے ہوئے یہ بتایا جائے کہ وقت کی سب سے بڑی قومیں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں کے آبائو اجداد توحید کے علمبردار تھے اور وہ دنیا میں اسی کی تعلیم اور ترغیب کے لیے تشریف لائے تھے اور اسی بنیاد پر ان کی اپنی قوموں سے کشمکش جاری رہی۔ لیکن نجانے ان دونوں قوموں نے شرک کا جواز کہاں سے پیدا کرلیا۔ حضرت اسماعیل کے بعد حضرت یونس کا ذکر ہے جو اللہ کے مشہور پیغمبر ہیں جو نینوا میں مبعوث ہوئے اور ایک لاکھ انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے اور اس کے بعد حضرت لوط کا ذکر ہے یہ حضرت ابراہیم کے بھتیجے ہیں انہی کے زیر تربیت رہے۔ اللہ نے انھیں نبوت سے نوازا انھوں نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی ‘ بری عادتوں کو چھوڑنے کا حکم دیا ‘ مکارم اخلاق کی تعلیم دی۔ لیکن قوم نے بجائے قبول کرنے کے جب انتہائی دشمنی اور کمینگی کا ثبوت دیا تو اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا اور آج بھی وہ قوم بحر مردار کے نیچے ابدی نیند سو رہی ہے اور اس کے گرد و پیش میں ان کے کھنڈرات پھیلے ہوئے ہیں۔ درمیان میں حضرت یسع کا ذکر آیا ہے یہ ہماری تاریخ کے لیے ایک غیر معروف نام ہے لیکن پہلی آسمانی کتابوں میں الیسع سے ملتے جلتے دو نبیوں کے ناموں کا ذکر ہے ایک الیشع جن کا زمانہ 713 قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ دوسرے یسعیاہ جن کا زمانہ 620 قبل مسیح کہا جاتا ہے۔ پہلا نام قرآن کے تلفظ کے زیادہ قریب ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ شاید یہی پیغمبر مراد ہیں۔ یہاں جن پیغمبروں کا ذکر ہوا ہے صرف یہی نسل ابراہیمی سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ جیسے اس سے پہلے عرض کیا جا چکا کہ مشرق وسطیٰ میں آنے والے بیشتر انبیاء حضرت ابراہیم ہی کی اولاد سے تھے۔ ان میں سے اس مختصر تعداد کا ذکر کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ وہ پیغمبر ہیں جن سے اس وقت کی قومیں متعارف تھیں۔ یہ مقصود نہیں ہے کہ تمام انبیاء کا ذکر کیا جائے بلکہ صرف یہ توجہ دلانا ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم کی نسل سے جتنے پیغمبر اٹھائے جن میں سے چند ایک یہ ہیں وہ سب اسی سلسلہ ہدایت کے افراد تھے جس ہدایت کو لے کر رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے ہیں اور وہ دنیا کو صرف اللہ کے آستانے پر جھکانے کے لیے آئے تھے اور باقی ہر آستانے سے ان کا تعلق توڑ کر صرف ایک اللہ سے وابستگی ان کا مقصود تھا تاکہ مشرکینِ مکہ کو اپنے غلط طرز عمل کا احساس ہو سکے۔ البتہ ایک بات جو یہاں قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ یہاں چونکہ ان انبیاء کا تذکرہ ہو رہا ہے جو حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے لیکن ان میں دو پیغمبر ایسے ہیں جنھیں حضرت ابراہیم کی ذریت قرار دینا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ ان میں سے ایک تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں آپ کو اللہ نے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور سلسلہ نسب چونکہ باپ سے چلتا ہے۔ تو ان کو حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے کیسے کہا جاسکتا ہے اور دوسرے حضرت لوط (علیہ السلام) ہیں وہ حضرت ابراہیم کے بھتیجے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں بھی یہ کہنا کہ وہ آپ کی اولاد میں سے ہیں یہ صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھتیجے کو بیٹا کہنا اور چچا کو باپ کہنا یہ عرب کی طرح تقریباً ہر قوم میں ایک معروف بات رہی ہے اس لیے یہاں اسی عرف کے مطابق حضرت لوط کو آپ کی اولاد میں شامل کیا گیا۔ جہاں تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تعلق ہے انھیں یقینا اللہ نے اپنی قدرت سے بغیر باپ کے پیدا کیا لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی والدہ محترمہ حضرت ابراہیم کی نسل سے تھیں۔ اس لحاظ سے وہ حضرت ابراہیم کی دختری اولاد تھے اور دختری اولاد کو اپنی اولاد کہنا اور اپنے سلسلہ نسب میں شامل کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ خود نبی کریم ﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کی اولاد نسب کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہے۔ سیدوں کو حضور کی اولاد میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ وہ آپ کی صاحبزادی کی اولاد ہیں۔ آخر میں تمام انبیاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ان سب کو جہان والوں پر فضیلت دی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں کتنے ایسے پیغمبر گزرے ہیں کہ اہل دنیا نے جن کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ ان میں ایک خاصی تعداد انہی کی نافرمان امت کے ہاتھوں قتل بھی ہوئی اور ایک معتد بہ تعداد ایسے پیغمبروں کی بھی ہے جن کو گنتی کے پیروکار ملے وہ ساری زندگی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں مبتلا رہے۔ لیکن ان کی تمام تر تبلیغی مساعی کے باوجود قوم کی غالب اکثریت ان کی دعوت کو قبول کرنے سے منکر رہی۔ ظاہر ہے ایسے پیغمبر جو لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوئے یا ان کی دعوت کو قبول عام نہ مل سکا ان کے بارے میں یہ کہنا کہ اللہ نے انھیں اہل جہان پر فضیلت عطا فرمائی تھی یہ کہاں تک صحیح ہے۔ انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے جہان والوں پر فضیلت دی ہے بات اصل میں یہ ہے کہ وہ فضیلت جس کا تعلق نبوت سے ہے وہ سراسر اللہ کی عطا ہے وہ ایک منصب ہے جسے اہل دنیا نہیں بلکہ اللہ عطا فرماتے ہیں اور یہ منصب جسے مل جاتا ہے وہ اپنی اس منصب کی عظمت کے باعث تمام دنیا سے بالابلند ہوجاتا ہے دنیا چاہے اسے قبول کرے یا نہ کرے وہ اپنی اس منصبی فضیلت کے باعث ہرحال میں عزت و شرف کا مالک رہتا ہے۔ کسی چمن میں اگر پھول کھلتا ہے تو اس کی شادابی اور رعنائی اور اس کی دلکشی اور عطر بیزی اس بات کی محتاج نہیں کہ اس کے گردوپیش میں رہنے والے اس سے اپنے مشام جان کو معطر کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ بےذوقوں کے ہجوم میں رہ کر بھی پھول ہی رہتا ہے اور اس کی انفرادیت میں کبھی کمی پیدا نہیں ہوتی۔ اندھوں کا کوئی ہجوم اگر پتھروں کے ڈھیر پر زندگی گزار رہا ہو اور ان کے سامنے اگر ہیرے رکھ دیئے جائیں تو وہ اپنی بصارت سے محرومی کے باعث ان ہیروں کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو وہ پتھروں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ وہ بیشک انھیں اٹھا کر پھینک دیں یا انھیں توڑ پھوڑ دیں کیونکہ وہ دیکھ نہیں پاتے کہ ان کی آب و تاب کا عالم کیا ہے لیکن ان کی اس ناقدری کے باوجود ہیرے کی عظمت اور اس کی آب و تاب میں کبھی کمی نہیں آتی۔ اسی طرح پیغمبر اپنی قوم کی جانب سے چاہے کسی بھی سلوک کا مستحق سمجھا جائے لیکن وہ اپنی ذاتی وجاہت ‘ شخصی عظمت ‘ تعلیم کی کشش ‘ مقصد کی شناخت ‘ مکارم اخلاق کی انفرادیت اور انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کے باعث ہرحال میں ایسی ہی چمک دمک کا مالک رہتا ہے جیسے گھٹاٹوپ اندھیرے میں ایک جلتی ہوئی شمع یا بادلوں میں گھرا ہوا چاند۔ وقت کے حالات کا تنائو ‘ غلط رویوں کا چلن ‘ بگڑی ہوئی قوم کی ضد اور انانیت کا غبار ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر اس سورج کی چمک کو دبائے رکھے لیکن تاریخ بالآخر ان کی عظمت کو سلام کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اور وہ چند افراد جو پیغمبر کی زندگی میں مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں وہ بڑھتے بڑھتے ایک امت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک کی زندگیوں کو دیکھ لیجئے۔ ان کی قوموں نے انکے ساتھ کیا سلوک کیا وہ اپنے پیچھے گنتی کے چند متبعین چھوڑ کے گئے لیکن آج دنیا کی بڑی بڑی قومیں انکے نقوش قدم کو تلاش کر رہی اور ان کی عظمتوں کو سلام کر رہی ہیں۔ اس سے قرآن پاک کا یہ کہنا ایک حقیقت بن کر ابھرتا ہے کہ ہم نے ان کو جہانوں پر فضیلت دی تھی۔ یہاں چونکہ ایک بہت مختصر تعداد کا ذکر ہوا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ غلط فہمی پیدا ہو کہ کیا دنیا کو ہدایت کے راستے پر چلانے کے لیے صرف یہی ایک مختصر سا گروہ بھیجا گیا تھا کیا یہی توحید کے پرستاروں کا قافلہ ہے جو چندنفوس قدسیہ پر مشتمل ہے جبکہ دنیا اہل شرک سے بھری ہوئی ہے اس لیے اگلی آیت میں اس غلط فہمی کا ازالہ فرمایا گیا۔
Top