Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 84
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ١ؕ كُلًّا هَدَیْنَا١ۚ وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَۙ
وَ
: اور
وَهَبْنَا
: بخشا ہم نے
لَهٗٓ
: ان کو
اِسْحٰقَ
: اسحق
وَيَعْقُوْبَ
: اور یعقوب
كُلًّا
: سب کو
هَدَيْنَا
: ہدایت دی ہم نے
وَنُوْحًا
: اور نوح
هَدَيْنَا
: ہم نے ہدایت دی
مِنْ قَبْلُ
: اس سے قبل
وَ
: اور
مِنْ
: سے
ذُرِّيَّتِهٖ
: ان کی اولاد
دَاوٗدَ
: داود
وَسُلَيْمٰنَ
: اور سلیمان
وَاَيُّوْبَ
: اور ایوب
وَيُوْسُفَ
: اور یوسف
وَمُوْسٰي
: اور موسیٰ
وَهٰرُوْنَ
: اور ہارون
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
نَجْزِي
: ہم بدلہ دیتے ہیں
الْمُحْسِنِيْنَ
: نیک کام کرنے والے
اور ہم نے اس کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے ان میں سے ہر ایک کو ہدایت بخشی اور نوح کو بھی ہم نے ہدایت بخشی اس سے پہلے اور اس کی ذریت میں سے دائود ‘ سلیمان ‘ ایوب ‘ یوسف ‘ موسیٰ اور ہارون کو بھی اور ہم خوب کاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں
وَوَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ ط کُلّاً ھَدَیْنَا ج وَ نُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاؤدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰے وَ ھٰرُوْنَ ط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۔ (الانعام : 74) (اور ہم نے اس کو اسحاق اور یعقوب عطا کیے ‘ ان میں سے ہر ایک کو ہدایت بخشی ‘ اور نوح کو بھی ہم نے ہدایت بخشی اس سے پہلے اور اس کی ذریت میں سے دائود ‘ سلیمان ‘ ایوب ‘ یوسف ‘ موسیٰ اور ہارون کو بھی ‘ اور ہم خوب کاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں) اولادِ حضرت ابراہیم سب سے پہلے یہاں حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہما السلام) کا ذکر فرمایا گیا۔ درحقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹوں میں سے دو بیٹے سب سے زیادہ نامور ہوئے ‘ حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق۔ حضرت اسماعیل سب سے بڑے اور حضرت اسحاق ان سے چھوٹے ہیں۔ قریش حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ نبی کریم ﷺ انہی کی اولاد میں سے ہیں اور ان کا ذکر آگے آرہا ہے اور حضرت اسحاق یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے ہیں اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا خطاب اسرائیل تھا۔ اسرائیل عبرانی لفظ ہے اسکا معنی ہے عبد اللہ۔ بنی اسرائیل کا مطلب جس قوم کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے وہ حضرت یعقوب کی اولاد ہیں کیونکہ بنی اسرائیل کا معنی ہے حضرت یعقوب کی اولاد۔ ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب کی اولاد حضرت اسحاق کی اولاد ہے اور حضرت اسحاق کی اولاد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہے اس لحاظ سے اسماعیل اور اسحاق دونوں کی اولادیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل ہیں۔ قریش مکہ کو یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ تم جانتے ہو کہ جس طرح تم حضرت اسماعیل کے واسطے سے حضرت ابراہیم کی نسل سے تعلق رکھتے ہو اسی طرح بنی اسرائیل بھی حضرت ابراہیم کی نسل سے ہیں۔ چناچہ تم دونوں کے جو جد امجد ہیں یعنی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق ذرا اندازہ کرو وہ کیسے تھے اور آگے ان کی اولاد کیسی تھی کیا وہ لوگ شرک کرتے تھے یا وہ صرف اللہ کی توحید کی قائل تھے اور اس کی بندگی میں کسی اور کو شریک کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی بھی اسی توحید پر قائم رہ کر گزاری اور اپنی قوم اور اپنی اولاد کو اسی کی تعلیم دیتے رہے اور جو ان پر ایمان نہ لائے زندگی بھر اسی توحید ہی کی وجہ سے ان کے ساتھ ان کی کشمکش جاری رہی اور جب ان کا آخری وقت آیا تو بجائے اس کے کہ انھیں یہ فکر ہوتی جیسا کہ دنیا میں ہر باپ کو ہوتی ہے کہ میرے بعد میرے بچے کس طرح جئیں گے اور ان کی زندگی کی ضروریات کا کیا بنے گا۔ اس بارے میں وہ انھیں ہدایات دیتے اور نصیحتیں کرتے لیکن قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ آخری وقت میں بھی انھیں اگر فکر تھی تو صرف اس بات کی کہ یہ کہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک تو نہیں ٹھہرائیں گے۔ چناچہ سورة بقرہ کے سولہویں رکوع میں حضرت یعقوب جو حضرت ابراہیم کے پوتے اور بنی اسرائیل کے جدامجد ہیں کے بارے میں بتایا گیا ہے : اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآئَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ لا اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ م بَعْدِیْط قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھِمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا ج صلے وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ (کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے اس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا بچو میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے ان سب نے جواب دیا ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم اسماعیل اور اسحاق نے خدا مانا ہے اور ہم اسی کے مسلم ہیں ) (البقرہ : 133) حضرت یعقوب نے اپنی اولاد سے صرف اللہ کی بندگی کا عہد لیا تھا اس سے آپ اندازہ کریں کہ حضرت یعقوب آخری وقت میں اپنی اولاد کے بارے میں کسی اور بات کی فکر مندی کا اظہار نہیں فرما رہے انھیں اس بات کی کوئی فکر معلوم نہیں ہوتی کہ ان کے بعد ان کی ضرورتوں کا کیا بنے گا ‘ انھیں صرف فکر اس بات کی ہے کہ یہ میرے بعد کسی اور کی بندگی شروع نہ کردیں یعنی کسی اور کے سامنے سر نہ جھکائیں ‘ کسی اور کی نماز نہ پڑھنے لگیں ‘ کسی اور کو سجدہ نہ کریں ‘ کسی اور سے مدد نہ مانگیں ‘ کسی اور کی غیر مشروط اطاعت نہ کریں ‘ کسی اور کو اللہ کی کسی صفت میں شریک نہ بنائیں۔ کیونکہ یہ سارے حقوق اللہ کے ہیں ‘ اس کے سوا کسی کے ساتھ یہ معاملات نہیں کیے جاسکتے۔ بچوں نے اپنی اس تربیت کے مطابق جو انھیں اپنے باپ سے ملی تھی جو جواب دیا ہے وہ یہود اور قریش مکہ کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ ہم تو اسی ایک اللہ کی بندگی اور عبادت کریں گے اور ہم اسی ایک معبود کے عبد بن کے رہیں گے جو آپ کے بزرگوں یعنی حضرت ابراہیم ‘ حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق کا خدا ہے اور ہم اپنی پوری زندگی اسی کے مسلم بن کر اسی کے سپرد کردیں گے اور ہماری زندگی کا کوئی شعبہ اس سے آزاد نہیں ہوگا اور ہمارا کوئی فیصلہ اس کے احکام سے ہٹا ہوا نہیں ہوگا اس سے پہلے کی آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم ‘ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت کی تھی کہ دیکھنا جس طرح تمہاری زندگی صرف ایک اللہ کی بندگی میں گزرے اس طرح تمہاری موت بھی اسی طریقے پر آنی چاہیے۔ اس قدر واضح تاریخی شواہد کے بعد آخر اس بات کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ قریش یا یہود جو اپنے آپ کو حضرت ابراہیم سے نسبی اور دینی وراثت میں شریک سمجھتے ہیں وہ کسی اور کو اللہ کی ذات وصفات میں شریک کریں اور پھر اس بات کا بھی کیا جواز ہے کہ وہ اپنی دنیا کے بارے میں اور دنیوی ضرورتوں کے حوالے سے ہمیشہ پریشان بھی رہیں اور اس کے لیے ہر ممکن مساعی بھی بروئے کار لائیں۔ لیکن انھیں اس بات کی کبھی فکر نہ ہو کہ جس دین اور جس توحید اور جس صراط مستقیم کی دعوت حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد نے اپنی اولاد اور لوگوں کے سامنے رکھی تھی اور مرتے وقت بھی جس کی فکر کی تھی اس کی انھیں کبھی کوئی فکر نہ ہو۔ اہلِ ایمان ہمیشہ آخرت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی اور ان کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک جس بات کی فکر میں ہمیشہ ڈوبے رہتے ہیں وہ دنیا نہیں بلکہ آخرت ہوتی ہے۔ ضروریات دنیا نہیں بلکہ دین ہوتا ہے۔ وہ وسائل دنیا کو ضرورت کی حد تک حاصل کرتے ہیں لیکن ان کا مقصد زندگی ہمیشہ دین ہوتا ہے اور وہ مرتے ہوئے بھی اپنی اولاد کو اسی کی وصیت کرتے ہیں اور یہی ان کے نزدیک سب سے بڑا سرمایہ ہے جو اپنی اولاد کے سپرد کر کے جاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ تو ایسی مثالوں سے مالا مال ہے۔ ہمارے خلفائے راشدین کی زندگیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن میں یہاں صرف پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ذکر کروں گا کہ جب ان کا آخری وقت آیا تو انھوں نے اپنے گیارہ بیٹوں کو بلایا۔ سب آکر سامنے کھڑے ہوگئے۔ فرمایا بیٹو میں تمہارے لیے دنیا چھوڑ کر نہیں جا رہا۔ میرے پاس جو کچھ تھا تم پر خرچ کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا لیکن یہ میں کبھی نہ کرسکا کہ بیت المال میں سے تمہیں وہ کچھ دے دوں جو تمہارا حق نہیں۔ لیکن یہ بات میری یاد رکھنا کہ اگر تم نے اپنے اندر نیکی پیدا کی اور اللہ سے لو لگائی اور اس سے وفاداری کا ثبوت دیا تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا اس لیے تمہیں بھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ تمہیں دنیا بھی دے گا اور آخرت بھی۔ چناچہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ان بچوں نے باپ کی نصیحت پلے باندھی۔ دنیا بھی کمائی لیکن ترجیح ہمیشہ دین کو دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بڑے بیٹے کو لوگوں نے اس حال میں دیکھا کہ انھوں نے ایک دن میں سو غلام خرید کے آزاد کیے۔ اگر ایک غلام چند ہزار کا بھی سمجھا جائے تو اندازہ لگایئے کہ اللہ نے انھیں کتنی بڑی دولت عطا کی تھی حالانکہ اپنے باپ سے انھیں صرف پانچ درہم وراثت میں ملے تھے۔ اس کے برعکس حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد آنے والے خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے بھی گیارہ بیٹے تھے اور وہ اپنے پیچھے لاکھوں کی صورت میں وراثت چھوڑ کر گیا تھا اس لیے ہر ایک کے حصے میں ایک بڑی دولت آئی تھی۔ لیکن انقلابات زمانہ ملاحظہ فرمایئے کہ ہشام کے بیٹوں کو لوگوں نے بازار میں بھیک مانگتے دیکھا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تم نے اپنے شرک کے لیے حضرت ابراہیم کو حوالہ بنایا حالانکہ ان کی اور ان کی اولاد کی سوچ کا عالم تو یہ تھا کہ وہ اپنی زندگیوں میں بھی اور مرتے ہوئے بھی صرف اللہ کے دین کی وصیت کرتے تھے اور اسی پر قائم رہنے کی تلقین کرتے تھے اور اللہ کے دین کی بنیاد کلمہ توحید ہے جس میں شرک کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) حضرت ابراہیم کے آبائو اجداد میں سے تھے۔ تورات میں اگرچہ اس کا ذکر نہیں لیکن تالمود سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح نے حضرت ابراہیم کی تربیت فرمائی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ براہ راست ان سے نسبی اور اصلاحی رشتہ رکھتے تھے۔ تالمود کی یہ روایت میں نہیں کہہ سکتا کہاں تک صحیح ہے یہ زمانہ چونکہ قبل از تاریخ کا زمانہ کہا جاتا ہے اس لیے کوئی حتمی بات کہنا بہت مشکل ہے۔ البتہ ! قرآن کریم کے اس انداز بیان سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اجداد میں سے تھے۔ جہاں تک نوح (علیہ السلام) کی زندگی اور دعوت کا تعلق ہے قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتابوں نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ انھوں نے لمبی عمر پائی اور سینکڑوں سالوں تک وہ لوگوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دیتے رہے اور جب قوم کی اکثریت نے نو سو سال کی کشمکش کے بعد بھی اسے ماننے سے انکار کردیا تو بالآخر طوفانِ نوح نے اس قوم کو تباہ کردیا اور پھر حضرت نوح اور جو ان پر ایمان لائے تھے ان کی اولاد سے دوبارہ دنیا آباد ہوئی۔ اس سے قریش مکہ کو یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ حضرت ابراہیم ہی نہیں بلکہ ان کے آبائو اجداد بھی توحید ہی کی دعوت اور خدمت کے لیے دنیا میں بھیجے گئے تھے اور ان کی دعوت کو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں دنیا ایک بہت بڑی تباہی کا سامنا کرچکی ہے۔ لیکن تمہاری جسارت کی انتہاء ہے کہ تم اب تک شرک پر اصرار کر رہے ہو اور اپنے شرک کا جواز حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کو بناتے ہو حالانکہ اللہ نے ان سب کو اسی صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی جس کی طرف رسول اللہ ﷺ تمہیں بلا رہے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم کی اولاد میں چند بڑے بڑے نام لیے جا رہے ہیں جن سے قریش مکہ اور یہود دونوں واقف تھے اور جن میں قدر مشترک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کسی نہ کسی صورت میں دینی اور دنیوی دونوں طرح کی سیادت سے نوازا تھا۔ ان میں سب سے پہلے حضرت دائود (علیہ السلام) کا ذکر ہے جو حضرت طالوت کے جانشین بنے اور پھر بالآخر اللہ نے انھیں رسالت دی اور ایک بڑی حکومت سے نوازا۔ پھر ان کے جانشین ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہوئے وہ اللہ کے نبی بھی ہیں اور ایک بہت بڑے تاجدار بھی۔ اللہ نے ان کو ایسی حکومت عطا فرمائی جیسی نہ اس سے پہلے کسی کو ملی تھی نہ اس کے بعد کسی کو عطا ہوئی۔ اسی طرح حضرت ایوب (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے قبیلے کے سربراہ اور خاندانی وجاہت رکھتے تھے اور اللہ نے دینی قیادت و سیادت کے ساتھ ساتھ دنیوی امارت سے بھی نوازا تھا۔ اس کے بعد یوسف (علیہ السلام) کا ذکر ہے ان کا واقعہ تو قرآن کریم نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے فرزند ارجمند ‘ اللہ کے نبی اور مصر کے تاجدار گزرے ہیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا تذکرہ ہے یہ دونوں اللہ کے نبی تھے اور بنی اسرائیل جیسی بہت بڑی قوم کے دینی اور دنیوی سربراہ بھی تھے۔ اللہ نے ان سب سے بندوں کی ہدایت کا کام لیا انھیں بڑی عظمتیں بخشیں۔ اہل دنیا میں بھی سر بلند رہے اور آخرت میں بھی اللہ کے یہاں ان کا بڑا مقام و مرتبہ ہے اور تاریخ میں ہمیشہ اپنے کارناموں اور اپنی دینی ہدایت کے باعث زندہ و تابندہ رہیں گے۔ لیکن یہ جو کچھ انھیں عطا ہوا قریش مکہ کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ اس وجہ سے عطا نہیں ہوا تھا کہ وہ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے اور اس وجہ سے اللہ نے انھیں دنیوی اور اخروی سعادتوں سے بہرہ ور فرمایا بلکہ یہ سب کچھ انھیں اس لیے عطا ہوا کہ وہ محسنین میں سے تھے اور اللہ محسنوں کو اسی طرح بدلہ دیتا ہے۔ محسن سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ان کو مقصد زندگی سے بہرہ ور فرمایا اپنی شریعت ان پر نازل فرمائی ‘ اپنے احکام سے انھیں آگاہ کیا ‘ صراط مستقیم ان پر کھول دی اور ان پر اس کے حوالے سے ذمہ داریاں ڈالی گئیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور اللہ سے وفاداری کا حق ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی بلکہ وہ ہمیشہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ وفاداری ‘ جاں سپاری اور ایثار و قربانی سے کام لیتے رہے جو کچھ ان کے بس میں تھا انھوں نے سب کچھ اس راستے میں جھونک دیا اللہ کی رضا کے حصول میں اپنی ہمت و استطاعت سے بڑھ کر اطاعت و عبدیت کا حق ادا کرنا ‘ اسے احسان کہتے ہیں اور یہ لوگ اس صفت احسان کے حامل تھے۔ اسی وجہ سے اللہ نے ان کو سارے مرتبے عطا فرمائے۔ تمہیں ان کی زندگیوں سے سبق لینا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ تم بھی اگر چاہتے ہو کہ تمہیں اللہ کے یہاں آخرت میں سرخرو ہونے کا موقع ملے اور اللہ دنیا میں بھی تمہیں اپنے انعامات سے نوازے تو وہ راستہ اختیار کرو جو انھوں نے اختیار کیا تھا کہ صرف اللہ ہی سے اپنا تعلق جوڑا اور اسی کی اطاعت میں زندگی گزاری اور اس کی عبادت اور بندگی میں کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرایا۔ لیکن تم اس سے سرکشی اختیار کر کے شرک کا ارتکاب کرتے ہو اور غضب یہ کہ اسے حضرت ابراہیم کی طرف منسوب بھی کرتے ہو یہ ایک ایسی ڈھٹائی ہے جس سے دنیا بھی تباہ ہوسکتی ہے اور آخرت بھی۔ اس کے بعد کچھ مزید انبیاء کا تذکرہ کیا گیا۔
Top