Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 73
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ یَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ١ؕ۬ قَوْلُهُ الْحَقُّ١ؕ وَ لَهُ الْمُلْكُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ١ؕ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ؕ وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ
وَ : اور هُوَ : وہی الَّذِيْ : وہ جو جس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : ٹھیک طور پر وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْلُ : کہے گا وہ كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجائے گا قَوْلُهُ : اس کی بات الْحَقُّ : سچی وَلَهُ : اور اس کا الْمُلْكُ : ملک يَوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور عٰلِمُ : جاننے والا الْغَيْبِ : غیب وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر وَهُوَ : اور وہی الْحَكِيْمُ : حکمت والا الْخَبِيْرُ : خبر رکھنے والا
اور وہی ہے ‘ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ‘ غایت کے ساتھ۔ جس دن کہے گا ہوجا تو ہوجائے گا ‘ اس کی بات شدنی ہے اور اسی کی بادشاہی ہوگی ‘ جس دن صور پھونکا جائے گا وہ غائب و حاضر سب کا علم رکھنے والا اور وہ حکیم وخبیر ہے
ارشاد فرمایا : وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ط وَ یَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ 5 ط قَوْلُہٗ الْحَقُّ ط وَ لَہٗ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ ط عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ط وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ ۔ (الانعام : 71) (اور وہی ہے ‘ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ‘ غایت کے ساتھ۔ جس دن کہے گا ہوجا تو ہوجائے گا ‘ اس کی بات شدنی ہے اور اسی کی بادشاہی ہوگی ‘ جس دن صور پھونکا جائے گا۔ وہ غائب و حاضر سب کا علم رکھنے والا اور وہ حکیم وخبیر ہے ) اللہ نے یہ دنیا بےمقصد نہیں بنائی اس آیت کریمہ میں حکمت و دانش کے پہلو سے اور فکری کج روی کے علاج کے طور پر اور مشرکینِ مکہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کے ازالے کے لیے مختلف باتیں ارشاد فرمائی گئیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ آسمان و زمین میں خالق کی قدرت ‘ حکمت اور ربوبیت کے جو آثار و دلائل موجود ہیں ‘ وہ اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ یہ کارخانہ کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ‘ جو اس نے محض اپنا جی بہلانے کے لیے بنایا ہو۔ یہ ایشور جی کی لیلا نہیں ہے۔ دراصل یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے ‘ جو حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ ایک مقصد عظیم اس کے اندر کارفرما ہے اور اس کا ایک دور گزر جانے کے بعد ناگزیر ہے کہ خالق اس پورے کام کا حساب لے جو اس دور میں انجام پایاہو اور اسی دور کے نتائج پر دوسرے دور کی بنیاد رکھے۔ یہی بات ہے جو دوسرے مقامات پر یوں بیان کی گئی ہے : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا (اے ہمارے رب ! تو نے یہ سب کچھ فضول پیدا نہیں کیا) (اٰل عمران : 191) اور وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ (ہم نے آسمان و زمین اور ان چیزوں کو جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے) (الانبیاء : 16) اور اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرجَعُوْنَ (المومن : 115) (تو کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جاؤ گے ؟ ) دنیا میں کوئی معمولی عقل کا آدمی بھی کسی ایسی چیز کے بنانے میں محنت ‘ دولت اور ذہانت صرف نہیں کرتا ‘ جس کا مقصد کوئی نہ ہو اور اگر کوئی شخص ایسا کرے تو دیکھنے والا یقینا اس کی دماغی صحت کے بارے میں شبہ کرے گا۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی شخص کو بنانے والے اور کسی چیز کو ایجاد کرنے والے کے متعین کردہ مقصد سے اختلاف ہو اور وہ مقصد کو زیادہ اہمیت نہ دیتا ہو۔ لیکن سرے سے یہ بات کہ کوئی بےمقصد ایجاد ‘ کوئی بےمقصد صنعت اور کوئی بےمقصد تخلیق کبھی کسی صاحب فن اور کبھی کسی دانشور سے وجود میں آئی ہو ‘ ایسا کبھی نہیں ہوتا اور اگر ایسا ہو تو اسے بےعقلی اور حماقت کی بات سمجھا جاتا ہے تو وہ پروردگار جو قدیر ‘ علیم ‘ حکیم اور رحمان و رحیم ہے اور جس کی حکمتوں کو سمجھنے کے لیے بڑے بڑے دانشوروں کی دانشیں بےمایہ ثابت ہوتی ہیں ‘ اس کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ اس نے یہ کارخانہ قدرت اور یہ طویل و عریض کائنات اور خود اس میں حضرت انسان کو بےمقصد پیدا کیا ہوگا ‘ یہ سراسر ایک ایسی ناقابل قبول بات ہے ‘ جسے کبھی انسانی عقل قبول نہیں کرسکتی۔ سورج چمکتا ہے ‘ چاند دمکتا ہے ‘ ستارے جھلملاتے ہیں ‘ پانی بہتا ہے ‘ کلیاں چٹکتی ہیں ‘ بادل گرجتے ہیں ‘ ندی نالے روشوں کی صورت میں جاری وساری ہیں ‘ دریائوں میں طوفان اٹھتے ہیں ‘ گھنگور گھٹائیں امڈ کے آتی ہیں۔ تخلیق کا یہ حیرت انگیز کارخانہ ہے ‘ جو ہمارے ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس میں ہر مخلوق کے پیدا کیے جانے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ تو یہ حضرت انسان جو اس کائنات کا گل سرسبد ہے اور جسے تمام کائنات میں غیر معمولی صلاحیتوں اور عقل و شعور کی دولت سے نوازا گیا ہے۔ جس کی دماغی رعنائی کا حال یہ ہے کہ اس نے لوہے میں قوت پرواز پیدا کردی ہے اور مختلف دھاتوں کو جوڑ کر کمپیوٹر اور روبوٹ کی شکل میں انسانی دماغ کا متبادل پیدا کردیا ہے۔ خود اس کے اندر کی صلاحیتیں بعض دفعہ انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ اس کے دل کی گہرائیاں ‘ سمندروں کی گہرائیوں کو شرمندہ کرتی ہیں۔ اس کے ارادوں کی بلندیاں ‘ پہاڑوں کی بلندیوں پر غالب آجاتی ہیں۔ اس کا سوز و گداز ‘ سورج کی روشنی اور بجلی کی تیزی کو ماند کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس کے احساسات کی نرمی ‘ پھول کی پنکھڑی کی نرمی سے زیادہ نازک ہے تو کیا ایک ایسی مخلوق ‘ جس کے سر پر پروردگار نے عظمت و تکریم کا تاج سجایا ہے ‘ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ؟ یہ دنیا میں اچھائی کرے یا برائی ‘ ظلم کرے یا رحم ‘ یہ دنیا کو بےحیائی سے بھر دے اور انسانیت کا دامن تارتار کر دے یا چیتھڑوں میں لپٹ کر اور پیٹ پر پتھر باندھ کر عظمت انسانیت کے نقوش ثبت کر دے۔ ہرحال میں وہ خود رو پودوں کی طرح ‘ ایک نہ ایک دن موت کا شکار ہو کر مل دل کے رہ جائے اور اس کے اعمال پر نہ کوئی جزا ہو ‘ نہ سزا تو اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ اس کائنات اور خود حضرت انسان کو پیدا کرنے والے کے نزدیک نیکی اور بدی میں کوئی فرق نہیں۔ ظلم اور عدل اس کی نگاہ میں یکساں ہیں۔ جس خالق کی خلقت کے ہر گوشے میں اس کی حکمت قدرت رحمت اور ربوبیت کے آثار موجود ہیں اور اتنی کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ انسان کسی طرح ان کا احاطہ نہیں کرسکتا ‘ اس کی نسبت کوئی انسان کس طرح یہ باور کرسکتا ہے کہ اس کے نزدیک نیکی بدی اور عدل اور ظلم سب برابر ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ سراسر اللہ کی حکمت و دانش اور اس کی صفت عدل و علم سے انحراف کے مترادف ہوگا اور پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی قربانی کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور کسی برائی میں کوئی بری بات نہیں۔ پیغمبر دنیا میں انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے زندگی کا اثاثہ تک قربان کر گئے اور انھوں نے جیتے جی ایک لمحہ بھی چین کا نہیں گزارا۔ اسی طرح ان کے راستے پر چلنے والے لوگوں نے ہمیشہ زندگی کے نذرانے پیش کیے ‘ دولت والوں نے دولت لٹائی ‘ محنت کرنے والوں نے محنت کا پھل پیش کیا ‘ کوئی غم ایسا نہیں ‘ جو اس راستے میں نہیں اٹھایا گیا۔ اگر یہ تصور قبول کرلیا جائے تو آخر ان قربانیوں اور محنتوں کا مفہوم کیا ہوگا اور اسی طرح ایسے ظالم بھی اس دنیا میں گزرے ‘ جنھوں نے کھوپڑیوں کے مینار بنوائے اور آج بھی ایسے ظالم موجود ہیں ‘ جو شہروں اور قوموں کو تباہ کرچکے اور کر رہے ہیں۔ کیا کوئی دن ایسا نہیں آئے گا ‘ جب ان کے ظلم کی ان کو سزا ملے گی ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کائنات نے ظلم کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور برائی سے اسے کوئی تعرض نہیں تو پھر تو یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس کائنات کا وجود واقعی ایک کھیل تماشہ ہے بلکہ صرف کھیل ہی نہیں ‘ ایک ظالمانہ کھیل ہے۔ لیکن اس تصورکو انسانی احساس اور انسانی عقل و دانش کبھی قبول نہیں کرسکتے۔ اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ نے یہاں توجہ دلائی ہے کہ تم خود جب ان باتوں پر غور کرو گے تو تم اسی نتیجے پر پہنچو گے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو برحق اور ایک غایت اور مقصد کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ اسی طرح اے انسانو ! تمہیں بھی ایک بامقصد زندگی دے کر یہاں دنیا میں بھیجا گیا ہے اور اسی مقصد کے حوالے سے ایک دن آئے گا جب تم سے پوچھا جائے گا کہ بتائوتم نے اس کے مطابق زندگی گزاری یا نہیں ؟ قیامت کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں اس کے بعد مزید ایک شبہ کا ازالہ فرمایا جا رہا ہے۔ مشرکینِ مکہ ہمیشہ مذاق اڑاتے ہوئے یہ بات کہتے تھے کہ اتنی بڑی کائنات کا ایک ہی وقت میں دفعتاً تباہ ہوجانا ‘ جسے قیامت کہا جاتا ہے ‘ آخر یہ کیسے ممکن ہے ؟ ایسی طاقت کہاں سے وجود میں آئے گی ‘ جو ایک حکم کے ذریعے پوری کائنات کا فانوس گل کر کے رکھ دے ؟ بادشاہ ملکوں کو تباہ کرتے ہیں تو انھیں کس قدر قوت فراہم کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ان کی ساری تگ و تاز کا ہدف صرف زمین میں بسنے والے ہوتے ہیں۔ آسمان کی رفعتوں کو کون چھوسکتا ہے ؟ انھیں آخر کون توڑ ڈالے گا ‘ ستارے آخر کیوں بےنور ہو کر گرجائیں گے ؟ چلیے اگر اسے مان بھی لیا جائے کہ یہ کائنات ایک دن تباہ ہوجائے گی ‘ لیکن یہ ماننے کی تو کوئی وجہ نہیں کہ دوبارہ یہ کائنات پھر وجود میں آجائے گی۔ نئی زمین ہوگی ‘ نیا آسمان ہوگا ‘ ایک محشر بپا ہوگا اور تمام لوگ قبروں سے نکل نکل کر اس محشر کی طرف جا رہے ہوں گے۔ یہ سراسر تصوراتی باتیں ہیں ‘ جن کا وقوع بالکل ناممکن سی بات ہے۔ اس شبے کے ازالے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے اللہ کی قدرت کو بھی اپنی قوتوں پر قیاس کر رکھا ہے۔ تم یہ سمجھتے ہو جس طرح تمہیں ہر کام کرنے کے لیے اس کے اسباب فراہم کرنے پڑتے ہیں ‘ شاید اللہ بھی انہی چیزوں کا محتاج ہے۔ اس لیے تمہیں قیامت کا وجود سمجھ میں نہیں آرہا حالانکہ اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کو وجود دینا چاہتا ہے یا کسی چیز کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو صرف حکم دیتا ہے کہ ہوجا۔ یعنی وجود میں آجا یا تباہ ہوجا تو جیسا حکم دیا جاتا ہے ‘ وہ چیز فوراً ویسی ہی ہوجاتی ہے۔ جب ہر چیز کا وجود اور اس کی بقاء کا دارومدار اللہ کے حکم پر ہے تو پھر قیامت کے آنے میں آخر کیا استبعاد اور کیا مشکل ہے ؟ جب وہ حکم دے گا تو کائنات ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور جب وہ اس کے وجود میں آنے کا حکم دے گا تو کائنات وجود میں آجائے گی۔ مزید فرمایا کہ یہ مت سمجھو کہ اس کا قول اور اس کا حکم شرمندہ تعمیل نہیں ہوتا اور کام کرنے والے اس کے حکم کی تعمیل میں شاید پس و پیش کرتے ہوں۔ فرمایا ایسا نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس کا قول شدنی ہے ‘ یعنی اس کا ہر حکم ہو کے رہتا ہے۔ کیونکہ اس کی حکومت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ آج بھی تکوینی طور پر سورج کے کرہ سے لے کر معمولی ذرے تک پر اس کی حکومت ہے۔ ایک ایک چیز کی زندگی اور موت اور اس کی بقاء اور امکانات ‘ سب اس کے قبضے میں ہیں۔ لیکن آج اس کے تکوینی عمل کی کاروائی اور کارفرمائی پوری طرح ہماری نگاہوں میں نہیں۔ ہم اس کے تخلیقی اظہار کو تو دیکھ رہے ہیں ‘ لیکن اس کے تخلیقی عمل ‘ اس کی کنہ ‘ اس کے تہہ منظر اور اس کی حقیقت سے ہم آگاہ نہیں اور پھر اس نے اپنی مخلوقات میں سے بعض مخلوقات کو جو کسی حد تک عمل کی آزادی دے رکھی ہے ‘ اس نے بھی ہماری نگاہوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ لیکن قیامت کے دن پوری طرح اس کی حکومت اور اس کے احکام کا نفاذ اور اس کی صورت ہماری نگاہوں کے سامنے ہوگی۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن اسی کی حکومت ہوگی حالانکہ آج بھی اسی کی ہے۔ لیکن اس دن پوری طرح ہم اس کی جلوہ گری دیکھیں گے۔ تب ہمیں کسی حد تک احساس ہوگا کہ اس کی قدرت کی بےپناہی کا عالم کیا ہے۔ یہی بات قرآن کریم نے دوسری جگہ بھی ذکر فرمائی ہے اور وہاں اس کے تیور بہت تیکھے ہیں۔ وہاں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ بتائو آج کس کی حکومت ہے ؟ دنیا میں نام نہاد تخت و تاج کے دعوے دارو ! تم نے اپنی جہاں پناہی کے دعوے کر رکھے تھے اور تمہیں اپنی طاقتوں اور حکومتوں کا بڑا گھمنڈ تھا۔ بتائو ! آج کس کی حکومت ہے ؟ کس کی مجال ہوگی کہ وہ اس کا جواب دے سکے۔ پھر خود ہی ارشاد فرمائے گا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّار ” آج اسی اللہ کی حکومت ہے ‘ جو واحد بھی ہے اور قہار بھی “۔ اگرچہ اللہ کی قدرت اور اس کی حکومت کا تصور اور اس کا یقین قیامت کے وقوع میں پیدا ہونے والے تمام شبہات کا ازالہ کردیتا ہے۔ لیکن محض آسانی کے لیے ایک سبب کا ذکر بھی فرمایا دیا جس سے معلوم ہو سکے کہ قیامت کا وقوع کیسے ہوگا اور کس سبب سے ہوگا۔ اس دن صور پھونکا جائے گا۔ اس کی صحیح کیفیت کیا ہوگی ؟ اس کی تفصیل تو ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ قرآن سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوتا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور سب ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر نہ معلوم کتنی مدت کے بعد جسے اللہ ہی جانتا ہے۔ دوسرا صور پھونکا جائے گا اور تمام اولین و آخرین ازسرنو زندہ ہو کر اپنے آپ کو میدان حشر میں پائیں گے۔ پہلے نفخ صور پر سارا نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا اور دوسرے نفخ صور پر ایک دوسرا نظام نئی صورت اور نئے قوانین کے ساتھ قائم ہوجائے گا۔ جس کی ایک مخلوق حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کی پھونک میں یہ طاقت ہے کہ وہ سینگ جیسے ایک آلے میں پھونکیں گے تو یہ انقلاب برپا ہوجائے گا۔ یعنی ہر چیز پہلے تباہ ہوجائے گی اور پھر وجود میں آجائے گی تو خود خالق کائنات کی قوت اور قدرت کا کون اندازہ کرسکتا ہے ؟ اگر اس کا یقین نصیب ہوجائے تو دین کی کسی بات میں شبہ پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مشرکینِ مکہ ایک اور اعتراض بھی کیا کرتے تھے یا شبے کا اظہار کرتے تھے کہ چلیئے اگر قیامت آبھی گئی تو یہ تو ہرگز ممکن نہیں کہ ہمارے ایک ایک عمل سے پروردگار واقف ہو اور پھر اس طرح کا انتظام کیا جائے کہ اربوں کھربوں مخلوق کا اس طرح حساب لیا جائے کہ ایک ایک عمل ان کے سامنے ہو اور ایک ایک بات کی جواب طلبی کی جائے ؟ ہر آدمی ایک دن میں ہزاروں اعمال کرتا ہے۔ ایک آدمی کی پوری زندگی کے اعمال کا حساب لیناممکن نہیں۔ چہ جائیکہ قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوق کا حساب لے لیا جائے۔ اس کے ازالے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ پروردگار غیب اور شہادت کا عالم ہے یعنی جو کچھ سامنے ہوتا ہے ‘ وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو ہزار پردوں میں چھپ کے ہوتا ہے وہ اس سے بھی آگاہ ہے۔ جو چیزیں انسانی علم میں ہیں ‘ وہ بھی اس کے علم میں ہیں ‘ لیکن جو چیزیں انسانی علم کی دسترس سے باہر ہیں ‘ پروردگار انھیں بھی جانتا ہے۔ جب اس کے علم کی وسعتوں کا عالم یہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی قدرتوں کی وسعتوں کا ذکر تو پہلے پڑھ چکے ہو تو پھر آخر اس شبے کی کیا بنیاد باقی رہ جاتی ہے کہ وہ ہمارے اعمال کو کیونکر جانے گا اور کیسے سب کا حساب لے لے گا۔ اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے یہاں سفارش اور شفاعت کا جو غلط تصور مشہور ہوگیا ہے ‘ اس کا بھی شاید اس میں ازالہ فرمایا جارہا ہے۔ جہاں تک صحیح شفاعت کا تعلق ہے ‘ وہ تو یقینارسول اللہ ﷺ بھی فرمائیں گے اور اللہ کے نیک بندے بھی۔ اگرچہ اس کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ لیکن شفاعت کا یہ تصور ‘ جیسا ہم دنیا میں سفارش کا مفہوم جانتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب اقتدار ‘ کسی مجرم کو کوئی سزا دیتا ہے تو اس کے کسی دوست سے سفارش کروائی جاتی ہے اور اس کا دوست جا کر اسے یہ کہتا ہے کہ آپ نے جو اس کو سزا دی ہے ‘ وہ بالکل حق ہے۔ لیکن بات اصل میں یہ ہے کہ آپ تک جو اطلاعات پہنچی ہیں اور جو چیزیں آپ کے علم میں لائی گئی ہیں ‘ وہ صحیح نہیں ہیں۔ ظاہر ہے ‘ ان کی بنیاد پر دی جانے والی سزا بھی صحیح نہیں ہوسکتی۔ میں چونکہ اس شخص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اور اس کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتا ہوں ‘ اس لیے میں اپنے علم کی بنیاد پر آپ سے یہ گزارش کرنے آیا ہوں کہ صحیح حالات یہ ہیں۔ آپ کو محض غلط اطلاع دے کر ‘ آپ سے غلط فیصلہ کروایا گیا ہے۔ آپ میرے بیان کردہ حالات پر یقین کریں اور اپنا فیصلہ بدل لیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں فرما رہے ہیں کہ تمہارا پروردگار غیب و شہادت کا عالم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ حکیم بھی ہے۔ اس کا کوئی فیصلہ کبھی حکمت کے خلاف نہیں ہوتا اور اس کے کسی فیصلے میں کبھی عدل مجروح نہیں ہوتا۔ اسی طرح وہ خبیر بھی ہے ‘ وہ ہر ایک کے بارے میں ذاتی طور پر مکمل علم رکھتا ہے۔ اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ علم میں کمی کی وجہ سے یا حالات کو نہ جاننے کے باعث کوئی غلط فیصلہ کر دے۔ اگر حقیقی قوت کا سرچشمہ اللہ ہے تو پھر آج مسلمانوں کی ایسی حالت کیوں ؟ آخر میں ایک بات کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اوپر جو فرمایا گیا کہ نفع و نقصان کا حقیقی مالک اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جبکہ آج جن حالات سے ہمیں سابقہ درپیش ہے ‘ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ جیسی منہ زور قوت ‘ پوری مسلمان امت کو خطرے کی زد میں لے چکی ہے اور ہم مسلسل حوادث کا شکار ہو رہے ہیں اور ہماری گزشتہ کئی صدیوں کی تاریخ میں پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں کہ ُ اس دور کی بڑی قوتوں نے مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچایا تو اگر واقعی اللہ کے سوا کوئی اور نقصان پہنچانے والی قوت نہیں تو پھر یہ کافر قوتیں مسلمانوں کو کیوں نقصان پہنچاتی رہی ہیں اور آج بھی پہنچا رہی ہیں ؟ بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی ہم بظاہر نفع و نقصان پر قادر قوتوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ غلط فہمی ہونے لگتی ہے ‘ جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اگر ایک حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو پھر یہ غلط فہمی ختم ہوجاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کو ماننے والی امتیں اور اس کے دین کی علمبردار قوتیں ‘ جب اپنے اصل مشن کو چھوڑ دیتی ہیں اور اللہ سے تعلق توڑ کر اور اس کے دین سے بےوفائی کرتے ہوئے وہ بھی اپنی زندگی کے مقاصد وہی بنا لیتی ہیں جو کافر امتوں کے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بڑی بڑی کافر قوتوں کو ان کو سزا دینے کے لیے متعین کردیتا ہے۔ ہم بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ظالم اور کافر قوتیں ‘ شاید اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے طور سے ایسا کر رہی ہیں۔ لیکن حقیقت میں قدرت ان سے وہی کام لیتی ہے جو ایک ڈاکٹر کسی مریض کے ناکارہ عضو کو کاٹنے کے لیے خنجر اور نشتر سے کام لیتا ہے۔ بظاہر خنجر اور نشتر کاٹتے ہیں اور دیکھنے والا انہی کی کاٹ پر نظریں جما کر رہ جاتا ہے۔ لیکن حقیقت بین نگاہ اس بات کو سمجھتی ہے کہ کاٹنے والا ڈاکٹر کا ہاتھ ہے۔ یہ خنجر اور نشتر تو محض ایک ذریعہ اور آلہ کار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی جابر اور ظالم قوتوں کے ساتھ بالآخر قدرت کیا سلوک کرتی ہے ؟ اس کے لیے اس کا الگ قانون ہے۔ لیکن اپنے ماننے والوں سے جو اس کے ساتھ بےوفائی اور انحراف کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ‘ وہ ایسی ہی جابر قوتوں سے ان کو سزا دیتا ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا ع تقدیر کے نشتر ہیں تیمور ہوں یا چنگیز بظاہر یہ سمجھا گیا کہ چنگیز اور تیمورنے کس قدر مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اللہ نے ان کے ذریعے سے ہمارے اجتماعی جسم کا فصد کھولا اور ہمارے گناہوں کی سزا دی۔ اس طرح جب ہم سے گندا خون نکل گیا اور ہم نے اس سے کسی حد تک عبرت پکڑی تو بالآخر چنگیز کی اولاد کو مخلص علماء کی کاوشوں کے نتیجے میں اسلام کی دولت سے مشرف فرمایا اور اسلامی تاریخ نئی توانائی سے ہمکنار ہوئی۔ اب بھی اگر مسلمانوں نے اپنی دینی کج رویوں کو نہ پہچانا تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ آج کے چنگیز کے ہاتھوں امت مسلمہ کو کیسی کیسی سزائیں ملیں گی۔ لیکن پھر ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ انہی میں سے کسی کو اسلام کی علمبرداری کی توفیق دے دے گا۔ اس لیے کہ اسلام کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ اس کے ماننے والے ‘ جب اس کی علمبرداری چھوڑ کر اپنے آپ کو مغلوب کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی علمبرداری کے لیے کسی اور کو چن لیتا ہے اور ان نام نہاد مسلمانوں کو تباہ کردیتا ہے۔ تاریخ سے بھی اسی حقیقت کی تائید ہوتی ہے ؎ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے گزشتہ کئی رکوعوں سے اسلام اور کفر ‘ قریش مکہ اور آنحضرت ﷺ میں جو کشمکش جاری ہے ‘ اس کی ہم نے تفصیل دیکھی ہے۔ جس میں کفار مکہ کی جانب سے آنحضرت ﷺ اور آپ کے متبعین کو دی جانے والی اذیتوں ‘ دعوت اسلامی کا راستہ روکنے کی کوششوں ‘ بعض دفعہ آنحضرت ﷺ کی جان لینے کی سازشوں اور آپ کی دعوت کو نشانہ تضحیک بنانے کے لیے مختلف قسم کے مطالبوں کی ایک سرگزشت ہے ‘ جو گزشتہ رکوعوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ مشرکینِ مکہ کو ان کے اعتراضات و شبہات کے جواب میں مطمئن کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ کی تبلیغی مساعی کو بھی پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور عقائد حقہ کو واضح کرنے کے لیے علمی ‘ فطری ‘ آفاقی ‘ انفسی اور استخراجی دلائل کی قوت سے کام لیا گیا ہے۔ اب آنے والی آیات میں ایک ایسے تاریخی کردار کے وجود سے استشہاد کیا جا رہا ہے ‘ جس کی قدر و قیمت اور عظمت نہ صرف بنی اسرائیل ‘ بلکہ قریش مکہ میں بھی مسلم ہے۔ ان کا سارا سرمایہ غرور ہی یہ تھا کہ جس طرح ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں ‘ اسی طرح ہم ان کی ملت پر بھی قائم ہیں۔ ہمارا طریقہ وہی ہے جو ہمارے جد ابجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر وہ یہ الزام لگاتے تھے کہ انھوں نے دین ابراہیم چھوڑ دیا ہے اور نئے دین کے نام پر وہ معاشرے میں بےدینی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اب ان کے سامنے یہ بات واضح کی جا رہی ہے کہ تم جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر ہونے کے دعویدار ہو ‘ تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اصل دعوت کیا تھی اور تمہارا طرز عمل کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب نے مصنوعی خدائوں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالک کائنات کے آگے سرِاطاعت خم کردیا ہے ‘ اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم (علیہ السلام) بھی کرچکے ہیں اور جس طرح آج محمد ﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں سے تم لوگ جھگڑ رہے ہو ‘ اسی طرح کل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی ان کی قوم یہی جھگڑا کرچکی ہے اور کل جو جواب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دیا تھا ‘ آج محمد ﷺ اور ان کے پیرؤوں کی طرف سے تمہارے لیے بھی وہی جواب ہے۔ محمد ﷺ اس راستہ پر ہیں جو نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) اور نسل ابراہیمی کے تمام انبیاء کا راستہ رہا ہے۔ اب تم جو ان کی پیروی سے انکار کر رہے ہو ‘ تمہیں معلوم ہوجانا چاہیے کہ تم انبیاء کے طریقہ سے ہٹ کر ضلالت کی راہ پر جا رہے ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے معاشی ‘ سماجی اور تمدنی حالات لیکن یہ بات واضح رہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کی قوم کی نزاع کی حقیقت کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے مذہبی و تمدنی حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ جدید اثری تحقیقات کے سلسلہ میں نہ صرف وہ شہر دریافت ہوگیا ہے ‘ جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے بلکہ دور ابراہیمی میں اس علاقے کے لوگوں کی جو حالت تھی ‘ اس پر بھی بہت کچھ روشنی پڑی ہے۔ سر لیونارڈ وولی (Sir Leonard Wolley) نے اپنی کتاب ("Abraham," London, 1935) میں ان تحقیقات کے جو نتائج شائع کیے ہیں ‘ ان کا خلاصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ 2100 ؁ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ‘ جسے اب عام طور پر محققین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ظہور کا زمانہ تسلیم کرتے ہیں ‘ شہر ” اُر “ کی آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب تھی اور بعید نہیں کہ پانچ لاکھ ہو۔ یہ ایک بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا۔ ایک طرف پامیر اور نیلگری تک سے وہاں مال آتا تھا اور دوسری طرف اناطولیہ تک سے اس کے تجارتی تعلقات تھے۔ جس ریاست کا یہ صدر مقام تھا ‘ اس کی حدود موجودہ حکومتِ عراق سے شمال میں کچھ کم اور مغرب میں کچھ زیادہ تھیں۔ ملک کی آبادی بیشتر صنعت و تجارت پیشہ تھی۔ اس عہد کی جو تحریرات آثار قدیمہ کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی ہیں ‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں ان لوگوں کا نقطہ نظر خالص مادہ پرستانہ تھا۔ دولت کمانا اور زیادہ سے زیادہ آسائش فراہم کرنا ‘ انکا سب سے بڑا مقصد حیات تھا۔ سود خوری کثرت سے پھیلی ہوئی تھی۔ سخت کاروباری قسم کے لوگ تھے۔ ہر ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور آپس میں بہت مقدمہ بازیاں ہوتی تھیں۔ اپنے خدائوں سے ان کی دعائیں زیادہ تر درازیِ عمر ‘ خوش حالی اور کاروبار کی ترقی سے متعلق ہوا کرتی تھیں۔ آبادی تین طبقوں پر مشتمل تھی۔ 1 عمیلو : یہ اونچے طبقے کے لوگ تھے ‘ جن میں پجاری ‘ حکومت کے عہدہ دار اور فوجی افسر وغیرہ شامل تھے۔ 2 مِشکینو : یہ تجار ‘ صنعت اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔ 3 اَردو : یعنی غلام۔ ان میں سے پہلے طبقہ ‘ یعنی عمیلو کو خاص امتیازات حاصل تھے۔ ان کے فوجداری اور دیوانی حقوق دوسروں سے مختلف تھے اور ان کی جان و مال کی قیمت ‘ دوسروں سے بڑھ کر تھی۔ یہ شہر اور یہ معاشرہ تھا ‘ جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آنکھیں کھولیں۔ ان کا اور ان کے خاندان کا جو حال ہمیں تَلمُوو میں ملتا ہے ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے اور ان کا باپ ریاست کا سب سے بڑا عہدہ دار تھا۔ ” اُر “ کے کتبات میں تقریباً 5 ہزار خدائوں کے نام ملتے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں کے الگ الگ خدا تھے۔ ہر شہر کا ایک خاص محافظ خدا ہوتا تھا ‘ جو ربُّ البلد ‘ مہادیو ‘ یا رئیس الآلہہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا احترام دوسرے معبودوں سے زیادہ ہوتا تھا۔ اُر کا رب البلد ” نَنّار “ (چاند دیوتا) تھا اور اسی مناسبت سے بعد کے لوگوں نے اس شہر کا نام ” قمرینہ “ بھی لکھا ہے۔ دوسرا بڑا شہر لرسہ تھا ‘ جو بعد میں اُر کے بجائے مرکز سلطنت ہوا۔ اس کا رب البلد ” شماس “ (سورج دیوتا) تھا۔ ان بڑے خدائوں کے ماتحت بہت سے چھوٹے خدا بھی تھے ‘ جو زیادہ تر آسمانی تاروں اور سیاروں میں سے اور کم تر زمین سے منتخب کیے گئے تھے اور لوگ اپنی مختلف فروعی ضروریات ان سے متعلق سمجھتے تھے۔ ان آسمانی اور زمینی دیوتائوں اور دیویوں کی شبیہیں بتوں کی شکل میں بنا لی گئی تھیں اور تمام مراسم عبادت ‘ انہی کے آگے بجا لائے جاتے تھے۔ ” ننار “ کا بت اُر میں سب سے اونچی پہاڑی پر ایک عالی شان عمارت میں نصب تھا۔ اسی کے قریب ” ننار “ کی بیوی ” نن گل “ کا معبد تھا۔ ننار کے معبد کی شان ایک شاہی محل سرا کی سی تھی۔ اس کی خواب گاہ میں روزانہ رات کو ایک پوجارن جا کر اس کی دلہن بنتی تھی۔ مندر میں بکثرت عورتیں دیوتا کے نام پر وقف تھیں اور ان کی حیثیت دیوداسیوں (Religious Prostitutes) کی سی تھی۔ وہ عورت بڑی معزز خیال کی جاتی تھی جو ” خدا “ کے نام پر اپنی بکارت (عزت) قربان کر دے۔ کم از کم ایک مرتبہ اپنے آپ کو ” راہ خدا “ میں کسی اجنبی کے حوالے کرنا ‘ عورت کے لیے ذریعہ نجات خیال کیا جاتا تھا۔ اب یہ بیان کرنا کچھ ضروری نہیں کہ اس مذہبی قحبہ گری سے مستفید ہونے والے زیادہ تر پجاری حضرات ہی ہوتے تھے۔ ننار محض دیوتا ہی نہ تھا بلکہ ملک کا سب سے بڑا زمیندار ‘ سب سے بڑا تاجر ‘ سب سے بڑا کارخانہ دار اور ملک کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم بھی تھا۔ بکثرت باغ ‘ مکانات اور زمینیں اس مندر کے لیے وقف تھیں۔ اس جائیداد کی آمدنی کے علاوہ کسان ‘ زمیندار ‘ تجار ‘ سب ہر قسم کے غلے ‘ دودھ ‘ سونا ‘ کپڑا اور دوسری چیزیں لا کر مندر میں نذر بھی کرتے تھے ‘ جنھیں وصول کرنے کے لیے مندر میں ایک بہت بڑا اسٹاف موجود تھا۔ بہت سے کارخانے مندر کے ماتحت قائم تھے۔ تجارتی کاروبار بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ سب کام دیوتا کی نیابت میں پوجاری ہی انجام دیتے تھے۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت مندر ہی میں تھی۔ پوجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے ” خدا “ کے فیصلے سمجھے جاتے تھے۔ خود شاہی خاندان کی حاکمیت بھی ننار ہی سے ماخوذ تھی۔ اصل بادشاہ ننار تھا اور فرماں روائے ملک اس کی طرف سے حکومت کرتا تھا۔ اس تعلق سے بادشاہ خود بھی معبودوں میں شامل ہوجاتا تھا اور خدائوں کے مانند اس کی پرستش کی جاتی تھی۔ اُر کا شاہی خاندان جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں حکمران تھا ‘ اس کے بانیٔ اول کا نام ” اُرنَمُوّ “ تھا۔ جس نے 2300 برس قبل مسیح میں ایک وسیع سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے حدود مملکت مشرق میں سوسہ سے لے کر مغرب میں لبنان تک پھیلے ہوئے تھے۔ اسی سے اس خاندان کو ” نَمُوّ “ کا نام ملا جو عربی میں جا کر ” نمرود “ ہوگیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت کے بعد اس خاندان اور اس قوم پر مسلسل تباہی نازل ہونی شروع ہوئی۔ پہلے عیلامیوں نے اُر کو تباہ کیا اور نمرود کو ننار کے بت سمیت پکڑ کرلے گئے۔ پھر لرسہ میں ایک عیلامی حکومت قائم ہوئی ‘ جس کے ماتحت اُر کا علاقہ غلام کی حیثیت سے رہا۔ آخر کار ایک عربی النسل خاندان کے ماتحت بابل نے زور پکڑا اور لرسہ اور اُر دونوں اس کے زیر حکم ہوگئے۔ ان تباہیوں نے ننار کے ساتھ اُر کے لوگوں کا عقیدہ متزلزل کردیا کیونکہ وہ ان کی حفاظت نہ کرسکا۔ تعین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ بعد کے ادوار میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کا اثر اس ملک کے لوگوں نے کہاں تک قبول کیا۔ لیکن 1910 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ حمورابی (بائیبل کے اَمُرافیل) نے جو قوانین مرتب کیے تھے ‘ وہ شہادت دیتے ہیں کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ‘ ان کی تدوین میں مشکوٰۃ نبوت سے حاصل کی ہوئی روشنی کسی حد تک ضرور کار فرما تھی۔ ان قوانین کا مفصل کتبہ 1902 بعد مسیح میں ایک فرانسیسی مفتش آثار قدیمہ کو ملا اور اس کا انگریزی ترجمہ C.H.W. John نے 1903 بعد مسیح میں (Theoldest Codeof Law) کے نام سے شائع کیا۔ اس ضابطہ قوانین کے بہت سے اصول اور فروع موسوی شریعت سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ اب تک کی اثری تحقیقات کے نتائج اگر صحیح ہیں تو ان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم میں شرک محض ایک مذہبی عقیدہ اور بت پرستانہ عبادات کا مجموعہ ہی نہ تھا ‘ بلکہ درحقیقت اس قوم کی پوری معاشی ‘ تمدنی ‘ سیاسی اور معاشرتی زندگی کا نظام ‘ اسی عقیدے پر مبنی تھا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) توحید کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے ‘ اس کا اثر صرف بتوں کی پرستش ہی پر نہ پڑتا تھا ‘ بلکہ شاہی خاندان کی معبودیت اور حاکمیت ‘ پوجاریوں اور اونچے طبقوں کی معاشرتی ‘ معاشی اور سیاسی حیثیت اور پورے ملک کی اجتماعی زندگی اس کی زد میں آجاتی تھی۔ ان کی دعوت کو قبول کرنے کے معنی یہ تھے کہ نیچے سے اوپر تک ساری سوسائٹی کی عمارت ادھیڑ ڈالی جائے اور اسے ازسرنو توحید الہٰ کی بنیاد پر تعمیر کیا جائے۔ اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز بلند ہوتے ہی عوام اور خواص ‘ پوجاری اور نمرود ‘ سب کے سب بیک وقت اس کو دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔
Top