Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 72
وَ اَنْ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
وَاَنْ : اور یہ کہ اَقِيْمُوا : قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ جس کی اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اکٹھے کیے جاؤگے
اور یہ کہ نماز قائم کرو اور اس سے ڈرتے رہو اور وہی ہے ‘ جس کے حضور تم سب اکٹھے کئے جائو گے
وَاَنْ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّقُوْہُ ط وَھُوَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ (الانعام : 72) (اور یہ کہ نماز قائم کرو اور اس سے ڈرتے رہو اور وہی ہے ‘ جس کے حضور تم سب اکٹھے کیے جاؤ گے) ” نماز “ سب سے بڑی مظہر عبودیت یعنی سب سے پہلا یہ کام کرو کہ نماز قائم کرو۔ نماز ایک ایسی عبادت ہے ‘ جس سے پوری طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو آدمی اپنی ذات اور اپنی ذات سے متعلق تمام علائق کو اللہ کے سپرد کرنا چاہتا ہے ‘ اس کی صورت کیا ہونی چاہیے۔ نماز کی کیفیت پر اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے کا کیا معنی اور مفہوم ہے ؟ آدمی جب نماز کا آغاز کرتا ہے تو سب سے پہلے ہاتھ اٹھاتا ہے اور انھیں کندھوں سے اوپر کانوں کے برابر تک اٹھا کر فی الحقیقت یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اللہ کی کبریائی کو تسلیم کرتے ہوئے اللہ سے غلامی کا عہد کرتا ہوں اور تمام دنیا اور اس میں بڑائی کے دعوے داروں کو اپنی پشت کے پیچھے پھینکتا ہوں اور پھر وہ ” اللہ اکبر “ کہتے ہوئے ‘ یعنی اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے ‘ ہاتھ باندھ کر سرتاپا غلام کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ دنیا میں دین اور بےدینی کی جو اصل جنگ ہے ‘ اس کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسانی زندگی اور پھر پوری کائنات میں اصل بڑائی کا مستحق کون ہے ؟ دنیا نے اس کبریائی اور عظمت کے تخت پر نجانے کس کس کو فائز کیا ہے۔ لیکن ایک نماز پڑھنے والا سب سے پہلے اسی بنیادی حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ میں دنیا میں ہر آستانے پر جھکنے اور ہر تخت کے سامنے سر جھکانے اور ہر قوت کے مظہر سے ڈرنے اور ہر جبروت کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ میرا آستانہ میری کبریائی کا مرکز میرے لیے قوت کا سرچشمہ اور میری نگاہ میں عظمت وکبریائی کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس لیے میں اس کے سوا کسی اور کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ یہ قول و اقرار اور یہ نعرہ دراصل پوری دنیا کی قوتوں سے تصادم اختیار کرنے والی بات ہے اور اس راستے پر چلنے کا حوصلہ وہی شخص کرسکتا ہے ‘ جس نے سوچ سمجھ کر اللہ سے اپنا رشتہ جوڑا ہو۔ چناچہ نماز کے آغاز ہی سے اس سفر کا آغاز ہوجاتا ہے اور پھر اعتراف و اقرار اور بندگی و غلامی کی جتنی صورتیں اور جتنے مظاہر ہوسکتے ہیں ‘ ایک نمازی ان تمام کو اختیار کرتا ہے۔ وہ زبان سے ثناء کرتا ہے ‘ پھر باربار اللہ کی عظمت کا نعرہ لگاتا ہے ‘ اللہ سے پناہ کی درخواست کرتا ہے سورة فاتحہ کی شکل میں حمد وثناء کے ساتھ ساتھ اللہ سے صراط مستقیم کا طلب گار ہوتا ہے پھر کبھی اس کے سامنے رکوع کی شکل میں جھکتا ہے اور کبھی سجدے کی صورت اپنا سب کچھ اس کے سامنے ڈھیر کردیتا ہے۔ اس طرح وہ علامتی طور پر روزانہ پانچ وقت اللہ سے وفاداری کا عہد و اقرار بھی کرتا ہے اور اپنی عبودیت کے تمام سرمائے کو اس کے حوالے کرنے کا اعلان بھی کرتا ہے۔ اس لیے یہاں سب سے پہلے نماز کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم سوچ سمجھ کے نماز پڑھو گے اور پھر پورے معاشرے میں نظام صلوٰۃ قائم کردو گے ‘ جس کے نتیجے میں نماز کے مراکز قائم ہوں گے ‘ اللہ کی عظمت اور اس کی کبریائی کے ہمہ پہلو اعلان کے لیے پانچ وقت اذانیں ہوں گی ‘ معاشرے کا ایک ایک فرد ہر نماز کے وقت میں مسجد کا رخ کرے گا ‘ اس طرح پوری آبادی میں پانچ وقت بار بار اللہ کے ساتھ لو لگانے اور ہر طرح اسی کو اپنی ذات کا مرجع و ماویٰ سمجھنے کی ایک مشق بھی ہوتی رہے گی اور ایک اظہار بھی جاری رہے گا۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ سے وابستگی اور اس سے مکمل تعلق اور خود سپردگی کی اور بہتر صورت کیا ہوسکتی ہے ؟ تقویٰ کیا ہے ؟ مزید فرمایا کہ نماز کے ذریعے جب تم نے اچھی طرح اللہ سے اپنا تعلق قائم کرلیا تو اب اجتماعی زندگی میں اس کو جاری وساری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر تقویٰ کی دولت پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ تقویٰ کیا ہے ؟ نہایت اختصار کے ساتھ اگر اسے الفاظ کا جامہ پہنایا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام شرعی حدود وقیود اور تمام شریعت کے عائد کردہ حقوق و فرائض کی نگہداشت کرنا اور اپنے آپ کو اس کا پابند بنا لینا ‘ اس کا نام تقویٰ ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس پابندی کے اظہار میں صرف جسم ہی شامل نہ ہو بلکہ اس کی جڑیں دل کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہوں۔ آدمی زندگی کے ہر عمل میں اس کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے کہ میں جو کچھ کرنے لگا ہوں کیا میرا یہ عمل شریعت کے احکام کے مطابق ہے یا نہیں ؟ اور کیا میرے دل و دماغ میں اللہ کی رضا کے حصول اور اللہ کے رسول کے کامل اتباع کے سوا کوئی اور جذبہ کارفرما تو نہیں ؟ بس اس صلاحیت کو اپنے اندر پیدا کرنا اور اپنی پوری زندگی کو اس کی تصویر بنادینا۔ یہ ہے وہ تقویٰ جس کا یہاں حکم دیا جا رہا ہے۔ جب آدمی اس تقویٰ کی زنجیر اپنی صلاحیتوں کو پہنا دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں اس نور کی روشنی اتر آتی ہے اور اس کا دل و دماغ اسی کی چمک دمک سے روشن ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت اسی کے پرتو میں ڈھلتی ہے تو پھر وہ ایک ایسا متقی انسان بن جاتا ہے ‘ جس کی پوری زندگی اللہ کے سامنے خودسپردگی کی علامت ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہی بات فرمائی جا رہی ہے کہ اگر تم واقعی اپنے آپ کو رب العالمین کے سپرد کرنا چاہتے ہو تو تمہیں یہ دو کام کرنے ہوں گے۔ ایک نماز کی پابندی اور دوسرا تقویٰ کا اہتمام۔ نماز کی پابندی اور تقویٰ کا حصول ‘ آخرت پر یقین کے بغیر ممکن نہیں عجیب بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے اس حد تک وابستہ ہیں کہ جب نماز سے آدمی محروم ہوجاتا ہے تو تقویٰ کا سررشتہ خود بخود اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور جب وہ نماز کی حقیقت سے وابستہ ہوجاتا ہے تو تقویٰ خود بخود اس کے اندر اترنے لگتا ہے۔ لیکن اس آیت کریمہ کے تیسرے جملے میں ایک اور حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی کی گئی ہے کہ تم اگر یہ دونوں دولتیں حاصل کرنا چاہتے ہو تو وہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تم اپنے دل و دماغ میں ایک تصور کو مستحکم نہ کرلو کیونکہ اس کے استحکام کے بغیر نماز اور تقویٰ کی فکر انسان میں پیدا نہیں ہوتی اور جب وہ تصور مستحکم ہوجاتا ہے تو پھر نماز اور تقویٰ سے دور رہنا اور زندگی کی تعمیر سے بےنیاز ہونا یہ تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے اور وہ تصور کیا ہے ؟ وہ یہ احساس ہے کہ مجھے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے کیونکہ کوئی بھی دنیا میں آنے والا اللہ کے پیغمبروں سمیت ایسا نہیں جسے یہاں سے کوچ نہ کرنا ہو۔ جو بھی اس دنیا میں آتا ہے ‘ وہ جانے کے لیے آتا ہے۔ یہ دنیا نہ ہمیشہ قائم رہے گی اور نہ کوئی اس دنیا میں آنے والا ہمیشہ باقی رہے گا۔ امیر مینائی نے بڑی سچی بات کہی ؎ جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا جب احمد مرسل نہ رہے ‘ کون رہے گا یعنی اگر کسی کو دنیا میں ہمیشہ رہنا ہوتا تو شاید وہ حضور ﷺ کی ذات مبارک ہوتی۔ کیونکہ یہ دنیا انہی کے لیے بسائی گئی اور وہ اللہ کے بعد اس دنیا پر سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ لیکن اللہ کا یہ قانون ایسا اٹل ہے کہ اللہ کے سوا ہر ایک کو یہاں سے جانا ہے اور ہر ایک کو موت آتی ہے۔ صرف ایک اللہ کی ذات ہے ‘ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اسی احساس اور تصور کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ صرف یہی بات کافی نہیں کہ مجھے ایک دن موت سے ہمکنار ہونا ہے بلکہ اس احساس میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہیے کہ مرنے کے بعد مجھے ایک طویل عرصے تک عالم برزخ میں رہنا ہے اور اس کے بعد مجھے میدان حشر میں اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ جہاں مجھ سے میری زندگی کا حساب مانگا جائے گا۔ پوچھا جائے گا کہ تم زندگی کیسے گزار کے آئے ہو ؟ اس کے ایک ایک لمحے کا حساب دو ‘ کیونکہ زندگی عطا کرنے والے نے زندگی تمہیں امانت کے طور پر دی تھی۔ تم یہ بتائو کہ تم نے اس امانت میں خیانت تو نہیں کی ‘ اس کو اسی طرح گزارا ‘ جس طرح اللہ نے اپنی کتابوں اور اپنے رسولوں کی معرفت تمہیں ہدایت بخشی تھی ؟ یہ دو باتیں کہ ایک دن مرنا ہے اور پھر ایک دن زندگی کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے ‘ اس سے زندگی میں وہ تبدیلی آتی ہے ‘ جس کے نتیجے میں نمازیں بھی قائم ہوتی ہیں اور تقویٰ کی زندگی بھی وجود میں آتی ہے۔ قیامت اور اس کی تفصیلات کے بارے میں ہمیشہ ہی اہل دنیا کو شبہات رہے ہیں۔ مشرکینِ مکہ بھی ایسے ہی شبہات کی گرفت میں تھے کوئی سرے سے اس کا منکر تھا کوئی مانتا تھا ‘ لیکن تفصیلات کو قبول کرنے سے انکاری تھا اور جو لوگ فکر و دانش کی دولت سے کسی حد تک مالامال بھی تھے ‘ ان کی فکر نارسائی بعض دفعہ ان کو یہ بات سمجھنے سے محروم رکھتی تھی کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے اور یہ کیوں ضروری ہے کہ ایک دن قیامت آجائے۔ چناچہ قیامت کے وجود پر عقل و دانش اور حکمت کے حوالے سے اگلی آیت کریمہ میں توجہ دلائی جا رہی ہے۔
Top