Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 71
قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰىنَا اللّٰهُ كَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ١۪ لَهٗۤ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَا١ؕ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰى١ؕ وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قُلْ : کہہ دیں اَنَدْعُوْا : کیا ہم پکاریں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : سوائے اللہ مَا : جو لَا يَنْفَعُنَا : نہ ہمیں نفع دے وَلَا يَضُرُّنَا : اور نہ نقصان کرے ہمیں وَنُرَدُّ : اور ہم پھرجائیں عَلٰٓي : پر اَعْقَابِنَا : اپنی ایڑیاں (الٹے پاؤں) بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىنَا : جب ہدایت دی ہمیں اللّٰهُ : اللہ كَالَّذِي : اس کی طرح جو اسْتَهْوَتْهُ : بھلادیا اس کو الشَّيٰطِيْنُ : شیطان فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (جنگل) حَيْرَانَ : حیران لَهٗٓ : اس کے اَصْحٰبٌ : ساتھی يَّدْعُوْنَهٗٓ : بلاتے ہوں اس کو اِلَى : طرف الْهُدَى : ہدایت ائْتِنَا : ہمارے پاس آ قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک هُدَى : ہدایت اللّٰهِ : اللہ هُوَ : وہ الْهُدٰي : ہدایت وَاُمِرْنَا : اور حکم دیا گیا ہمیں لِنُسْلِمَ : کہ فرمانبردار رہیں لِرَبِّ : پروردگار کے لیے الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
کہہ دو ! کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو پکاریں ‘ جو نہ تو ہمیں نفع پہنچاتی ہیں ‘ نہ نقصان اور ہم پیٹھ پیچھے پھینک دیئے جائیں ‘ بعد اس کے کہ اللہ نے ہمیں ہدایت بخشی اس شخص کے مانند جس کو شیطانوں نے بیابان میں سرگشتہ و حیران چھوڑ دیا ‘ اس کے ساتھی اسے سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہیں کہ ہماری طرف آجائو ؟ کہہ دو ! اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم اپنے آپ کو عالم کے رب کے حوالے کریں
تمہید گذشتہ آیات میں مشرکینِ مکہ کے طرز عمل کی پوری تفصیل ہم پڑھ چکے ہیں۔ اس میں ہم نے ان کے مطالبات اور آئے دن ان کی نئی نئی نشانیاں مانگنے کی تفصیلات بھی پڑھی ہیں اور پھر جس طرح وہ آنحضرت ﷺ کی تبلیغ و دعوت کی کوششوں کا مسلسل مذاق اڑا رہے تھے ‘ اسے بھی ہم نے دیکھا ہے۔ اس سے مجموعی طور پر ان کا جو رویہ سامنے آتا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ وہ زندگی کے بارے میں بالکل سنجیدہ نہیں ہیں۔ بلکہ دنیوی کھیل تماشے کو انھوں نے زندگی کا مقصود بنا لیا ہے اور کسی طور بھی اسے چھوڑنے اور بدلنے کے لیے وہ تیار نہیں۔ اس لیے گزشتہ آیت میں پروردگار نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے ‘ جو طرز عمل یہ اختیار کرچکے ہیں ‘ اس میں آپ کی دعوت کی قبولیت کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس لیے اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ کو اس سے آزردہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ ! جب بھی کوئی موافق لمحہ ملے تو انھیں نصیحت کے انداز میں ان کے انجام سے ضرور ڈرانا چاہیے تاکہ یہ کل کو اللہ کے یہاں یہ حجت نہ لاسکیں کہ ہمیں تو کسی نے ہمارے انجام کے بارے میں آگاہ ہی نہیں کیا۔ اب جو آیت کریمہ ہم پڑھ رہے ہیں ‘ اس میں ہم ایک نئی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے بین السطور میں ان کے نئے طرز عمل کی ہمیں خبر دی جا رہی ہے کہ صرف یہی بات نہیں کہ وہ دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو ان کے دین سے پھیر کر پرانے دین پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو کچھ بھی ان سے بن پڑتا ہے ‘ اس سے وہ دریغ نہیں کرتے اور بار بار ان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم اپنا تعلق اللہ سے توڑ کر ان چیزوں سے قائم کرو ‘ جن سے ہم قائم کرچکے ہیں یعنی جن قوتوں کو ہم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے ‘ تم بھی انھیں اللہ کے شریک مانو اور ان کے ساتھ وہی معاملہ کرو جو ہم کر رہے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہو رہا ہے : قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَلَا یَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰیٓ اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ھَدٰنَا اللہ ُ کَالَّذِیْ اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ ص لَہٗٓ اَصْحٰبٌیَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْھُدَی ائْتِنَا ط قُلْ اِنَّ ھُدَی اللہِ ھُوَ الْھُدٰی ط وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الانعام : 71) (کہہ دو ! کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو پکاریں ‘ جو نہ تو ہمیں نفع پہنچاتی ہیں ‘ نہ نقصان اور ہم پیٹھ پیچھے پھینک دیئے جائیں ‘ بعد اس کے کہ اللہ نے ہمیں ہدایت بخشی اس شخص کی مانند جس کو شیطانوں نے بیابان میں سرگشتہ و حیران چھوڑ دیا ‘ اس کے ساتھی اسے سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہیں کہ ہماری طرف آجاؤ ؟ کہہ دو ! اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم اپنے آپ کو عالم کے رب کے حوالے کریں) اللہ حاکم مطلق ہے مشرکینِ مکہ کی ان کاوشوں کے جواب میں جو وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے کر رہے تھے ‘ آنحضرت ﷺ کو یہ جواب دینے کا حکم دیا جا رہا ہے کہ تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اللہ سے رشتہ توڑ کر ان چیزوں سے جوڑ لیں اور ان کو پکارنا شروع کردیں جن کو تم پکار رہے ہو یعنی جن سے تم مدد طلب کرتے ہو ‘ جن سے تم مرادیں مانگتے ہو ‘ جن کے سامنے تم سر جھکاتے ہو اور مشکل وقتوں میں جن کو تم یاد کرتے ہو ‘ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم بھی تمہاری طرح یہ احمقانہ رویہ اختیار کرلیں ؟ کہ ایک طرف تو وہ خداوند ذولجلال ہے ‘ جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے۔ انسان کو نہ صرف وجود بخشا بلکہ اسے کائنات کا گل سرسبد بنایا۔ اس کے سر پر عزت و تکریم کا تاج سجایا اور جو ہرحال میں انسانی زندگی میں رہنمائی دیتا ہے ‘ مشکلات میں کام آتا ہے ‘ جو ہماری ایک ایک ادا سے واقف ہے اور ہمارے ایک ایک عمل کا نگران ہے ‘ جس کے سہارے یہ زندگی کا رشتہ قائم اور جس کی عطا و بخشش سے ہماری ضرورتیں پوری ہوتیں اور ہماری الجھنیں دور ہوتی ہیں ‘ اس سے تعلق توڑ کر کیا ان ناچیز چیزوں یا ان نام نہاد قوتوں سے ہم اسی طرح کا رشتہ قائم کرلیں کہ ان کے سامنے عبودیت کا سر جھکائیں ‘ ان سے مرادیں مانگیں ‘ ان سے ہر آن مدد طلب کریں حالانکہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ نہ کسی کو نفع دینے پر قادر ہیں اور نہ کسی کو نقصان پہنچانے پر۔ اس آیت کریمہ میں اشارہ کئی طرح کی چیزوں کی طرف ہے ‘ جس میں بت بھی شامل ہیں اور باقی مشرکینِ مکہ کے بنائے ہوئے اللہ کے شرکاء بھی۔ جہاں تک بتوں کا تعلق ہے ان کی بےبسی تو ہر معمولی عقل والے آدمی کے سامنے بھی عیاں ہے۔ وہ نہ بول سکیں ‘ نہ دیکھ سکیں۔ ان کے چہرے پر مکھی بیٹھ جائے تو وہ اسے اڑا نہ سکیں۔ کوئی چیز ان سے چھین لی جائے تو وہ اسے بچا نہ سکیں۔ خود پتھر سے ان کا سر کچل ڈالو ‘ وہ اپنا بچائو نہ کرسکیں۔ ایسے بےبس اور بےکس خدائوں کو خداوند ذوالجلال کے مقابلے میں حقیقی خدا کا درجہ دینا یا اس کا شریک ٹھہرانا دنیا کا سب سے بڑا عجوبہ ہے۔ لیکن مشرک قومیں ہمیشہ اس کا ارتکاب کرتی رہی ہیں اور اگر اس سے دوسرے شرکاء مراد لیے جائیں ‘ جن میں مظاہر فطرت بھی ہیں اور ان کے نام نہاد دیوتا بھی اور قدرت کی وہ طاقتیں بھی ہیں ‘ جنھیں ہمارے لیے مسخر کیا گیا ہے۔ لیکن بظاہر ان کی طاقت اور قوت کو دیکھتے ہوئے مشرکین نے ہمیشہ ان کو بھی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اور اسی طرح انسانی زندگی میں کتنے تخت و تاج کے ایسے مالک گزرے ہیں ‘ جنھوں نے اپنی سلطنت اور دولت کے زور پر لوگوں سے اپنی بندگی کروائی اور اپنی ربوبیت کے دعوے کیے۔ یہ بظاہر لوگوں کو نفع پہنچاتے بھی ہیں اور بگڑ جائیں تو نقصان بھی دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ بھی نفع اور نقصان پر قادر نہیں ہیں۔ اگر کسی کو نفع پہنچاتے ہیں یا نقصان تو وہ بھی صرف اللہ کی مشیت کے تحت ہوتا ہے۔ اگر اللہ نہ چاہے تو ان کی ساری ربوبیت دھری رہ جاتی ہے اور ان کی ساری قوتیں بےکار ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ان تمام کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ تم یہ چاہتے ہو کہ جو خود محتاج ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی احتیاج دوسری نوعیت کی ہے اور خود ذاتی طور پر نفع و نقصان پر قادر نہیں ہیں تو کیا اللہ کے مقابلے میں ہم ان کو پکارنا شروع کردیں ؟ یہ تم نے جو فطرت اور قدرت کے مظاہر کو اللہ کے شریک بنا رکھا ہے ‘ آخر ان کے پاس کیا قدرت ہے ‘ یہ کسی کا کیا بنا سکتے ہیں اور کیا بگاڑ سکتے ہیں ؟ یہ سورج ‘ چاند ‘ ستارے ‘ جن کو مختلف قوموں نے اللہ کے شریک بنا کر ان کی پوجا کی ہے یہ بیچارے تو خود آسمان کی وسعتوں میں اللہ کے حکم کے مطابق اپنا فرض انجام دینے میں شب و روز لگے ہوئے ہیں اور کبھی اس میں سرمو انحراف نہیں کرسکتے۔ یہ خود سب سے بڑے غلام ہیں ‘ وہ ہمیں کیا دے سکتے ہیں ؟ اقبال مرحوم نے ٹھیک کہا ؎ ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا جو خود فراخیِٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں رہے یہ دنیا کے تاجدار ‘ یہ اپنے آپ کو ہزار ان داتا یا لکھ داتا کہیں اور چاہے تو عالمگیر اور شاہجہاں بن کے بیٹھ جائیں اور چاہے اپنے آپ کو عالم پناہ سمجھیں۔ لیکن یہ بھی اپنی ذات میں وہ تمام کمزوریاں رکھتے ہیں ‘ جو دوسرے انسانوں میں ہیں بلکہ ان کا دست سوال ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ دور تک پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی کشکول پھیلاتا ہے جبکہ یہ زبردستی ٹیکس اور خراج وصول کرتے ہیں حالانکہ دونوں میں کیا فرق ہے ع مانگنے والا گدا ہے ‘ صدقہ مانگے یا خراج البتہ ! یہ فرق ضرور ہے کہ ایک گداگر گدائی کرتا ہے تو شرماتا بھی ہے اور اپنے آپ کو گداگر سمجھتا ہے۔ لیکن ایک طاقتور اور بادشاہ وسیع پیمانے پر گدائی کرتا ہے ‘ لیکن ساتھ ساتھ اپنے آپ کو عالم پناہ بھی سمجھتا ہے۔ اسی لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ حقیقت میں نفع و نقصان کے مالک یہ بھی نہیں ‘ یہ قوت سراسر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ پر توکل کرنے والوں کی شان اسلامی تاریخ کے بیشمار واقعات ہیں ‘ جو اس حقیقت پر شاہد و عادل ہیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ حضور ﷺ ایک سفر میں صحابہ کرام کے ہمراہ تھے ‘ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لیے صحابہ دور دور تک سائے کی تلاش میں پھیل گئے تو حضور نے بھی ایک درخت پر اپنی چادر ڈالی اور اس کے سائے میں لیٹ گئے۔ نجانے کیسے وہاں دبے پائوں ایک کافر آپہنچا۔ آنحضرت ﷺ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اس نے وہ تلوار اتاری اور بےنیام کر کے کہنے لگا کہ محمد ﷺ ! اب تم بتائو ‘ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے اطمینان سے جواب دیا ‘ اللہ۔ اس سے اس پر ایک ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اس نے کانپتے ہوئے تلوار نیام میں داخل کردی اور آپ کے پاس بیٹھ کر معافیاں مانگنے لگا۔ عہد نبوت اور عہد صحابہ میں تو آپ کو قدم قدم پر ایسے واقعات ملیں گے ‘ لیکن ہم اپنی قریبی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی کبھی اللہ والوں نے ‘ اللہ کو راضی کر کے اس پر اعتماد کرلیا ہے اور اسی کے توکل پر دین کی خدمت میں جت گئے ہیں تو اللہ کی قوتیں ہمیشہ ان کے ہم رکاب رہی ہیں اور اس راستے میں اگر کبھی انھیں بادشاہوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے تو یہ مخالفتیں ان کے سامنے جھک گئی ہیں اور اللہ نے انھیں ہمیشہ سرخرو فرمایا ہے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ( رح) کے خلیفہ حضرت نظام الدین اولیاء ( رح) ، جنھیں آپ نے دہلی میں سلطان الہند بنا کر بھیجا۔ تغلق خاندان کا کوئی بادشاہ ‘ ان سے بگڑ گیا اور اس نے اپنے سفر کے دوران راستے ہی سے پیغام بھیجا کہ میرے دہلی پہنچنے سے پہلے پہلے آپ دہلی سے نکل جایئے۔ حضرت نظام الدین ( رح) نے سن کر فرمایا ” ہنوز دلی دور است “ کہ ابھی دلی دور ہے یعنی تم یقینا اس ملک کے بادشاہ ہو اور تمہارے پاس قوت ہے ‘ تم جب بھی چاہو مجھے نکال سکتے ہو۔ لیکن تمہیں کیا خبر کہ اصل قوتوں کا مالک تو کوئی اور ہے اور تم کیا جانو کہ تم دلی پہنچ بھی سکتے ہو یا نہیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ دلی پہنچنا اس کے نصیب میں نہ ہوا اور وہ راستے ہی میں دم توڑ گیا۔ مغلیہ دور میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ‘ جن کا نام تو احمد تھا۔ لیکن وہ ” ملا جیون “ کے نام سے مشہور تھے۔ اور نگ زیب عالمگیر ( رح) ان کے شاگرد تھے۔ شاہجہان ان کے عقیدت مندوں میں تھا۔ ایک دفعہ نجانے کیا بات ہوئی کہ شاہجہان نے بگڑ کر انھیں دارالخلافہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ آپ سن کے خاموش رہے ‘ لیکن اسی دن ظہر کے وقت وزیر اعظم حاضر خدمت ہوا تو حضرت ملا جیون بیٹھے ظہر کی نماز کے لیے وضو کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں بادشاہ کی طرف سے معذرت پیش کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ بادشاہ سلامت کو اپنے حکم دینے پر افسوس ہے۔ وہ حکم واپس لیتے ہیں اور آپ سے معافی کے طلبگار ہیں۔ حضرت ملا جیون نے فرمایا کہ بادشاہ خوش نصیب ہے کہ بچ گیا۔ ورنہ وضو کرنے کے بعد ‘ دو نفل نماز پڑھ کر ‘ اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی دیر تھی کہ بادشاہ تباہ ہوجاتا۔ ہماری یہی فوجیں ہیں جس سے ہم بادشاہوں کی فوجوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بادشاہ کو اپنی فوجوں پر ناز ہے ‘ لیکن اسے معلوم نہیں کہ اصل قوت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کو صرف مان لینا ہی کافی نہیں ‘ اصل چیز مکمل سپردگی ہے چناچہ مشرکینِ مکہ کو اس آیت کریمہ میں یہی بات سمجھائی جا رہی ہے کہ تمام قوتوں کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تم جہاں کہیں تھوڑی بہت قوت کی رمق دیکھتے ہو ‘ اسے اللہ کا شریک بنا کر پوجنے لگتے ہو۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے ‘ جیسے کوئی نالائق سمندر کو نظر انداز کرے ‘ جہاں سے پانی بھاپ بن کے اٹھتا ہے ‘ فضا میں ابر کی چادروں کی صورت میں پھیل جاتا ہے ‘ پھر مختلف علاقوں میں چھم چھم برستا ہے ‘ ندی نالوں کو سیراب کرتا ہے اور کہیں کہیں جوہڑوں کو بھر دیتا ہے۔ اب کوئی آدمی اگر کسی جوہر کے کنارے یہ سمجھ کے بیٹھ جائے کہ یہی پانی کا حقیقی سرچشمہ ہے اور یہیں سے مجھے سیرابی ملے گی اور وہ بالکل نہ سمجھ سکے کہ اصل سرچشمہ کوئی اور ہے ‘ یہ ندی نالے اور یہ جوہڑ اس کی عطا سے زندہ اور سیراب ہیں۔ یہ مشرکین بھی اصل زندگی اور قوت کے سرچشمے سے تعلق توڑ کر اس کی چھوٹی بڑی نمود سے فریب کھا کر ‘ اصل قوت سے رشتہ جوڑنے کی بجائے ‘ مسلمانوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ تم بھی اپنا تعلق اصل سرچشمے سے توڑ لو۔ آنحضرت ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ نادانو ! تم نے تو یہ احمقانہ حرکت کر کے اپنی قسمت پھوڑ لی ‘ لیکن ہم تو یہ حماقت نہیں کرسکتے۔ اگر ہم یہ حماقت کریں کے تو یہ تو بالکل ایسا ہی ہوگا کہ ایک آدمی اپنی منزل کی طرف سیدھے راستے پر چلتا ہوا جب منزل آشنائی کے مرحلے میں داخل ہو تو وہ الٹے پائوں چلنا شروع کر دے۔ ظاہر ہے کہ یہ طرز عمل اس کی سرگرانی اور سرگشتگی میں اضافہ تو کرسکتا ہے ‘ لیکن اسے منزل کا وصل کبھی نصیب نہیں ہوسکتا۔ وہ زندگی بھر سفر ہی میں رہے گا اور اسی سرگرانی میں بالآخر زندگی کا خاتمہ کر بیٹھے گا۔ ظاہر ہے یہ طرز عمل کسی سلیم الفطرت اور صحیح الدماغ کا نہیں ہوسکتا۔ یہ حرکت وہی کرسکتا ہے ‘ جسے فکری بےشعوری ‘ فکری نا پختگی اور خواہشوں کی اسیری اور غلط راہنمائی اور باطل صحبتوں نے بائولا کردیا ہو۔ اس لیے قرآن کریم اس کی مثال دیتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے کہتا ہے کہ اگر ہم دوبارہ شرک کی اس آلودگی کو قبول کرلیں اور دوبارہ اس گندگی میں داخل ہوجائیں جبکہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم شرک کی گندگی سے نکل کر توحید کے صراط مستقیم پر آگئے تو یہ ہمارا طرز عمل ایسا ہی ہوگا ‘ جیسے اس آدمی کا جو اپنی سواری پر سوار لق و دق بیابان میں سیدھے راستے پر منزل کی طرف رواں دواں ہو ‘ لیکن کچھ بیابانی شیطانی قوتیں اسے بائولا کردیں اور وہ دل و دماغ کی سلامتی سے محروم ہو کر صحیح راستہ چھوڑکر ادھر ادھر بھٹکنے لگے۔ اس کے ساتھی اس کو برابر پکاریں کہ راستہ وہ نہیں جدھر تم جا رہے ہو سیدھا راستہ وہ ہے جس پر ہم چل رہے ہیں۔ لیکن وہ ان کی بات سن کے نہ دے بلکہ سمجھنے سے بھی معذور ہوجائے۔ وہ اول فول بکتا اور منہ سے جھاگ نکالتا ‘ صحرا کی وسعتوں میں بھٹکتا ہی چلا جائے تو اس کے بارے میں یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ کہا اے مشرکین مکہ ! تمہارا حال اسی شخص جیسا ہے کہ زندگی کے صحرا میں اللہ کے رسول نے تمہارے لیے ایک صراط مستقیم واضح کی ‘ جو لوگ اس پر ایمان لائے وہ اس راستے پر تمہارے سامنے چل رہے ہیں۔ تم انھیں دیکھو ‘ وہ فکری طور پر مطمئن ‘ قلبی طور پر شاداں وفرحاں اور زندگی کی تلخیوں کے باوجود اپنے مقاصد سے نہایت مخلص اور آخرت کے سفر میں رواں دواں اور سیرت و تعمیر کے اجلے پن میں دوسروں کے لیے نمونہ بن کر زندگی گزار رہے ہیں اور تمہیں برابر پکار رہے ہیں کہ دیکھو ! زندگی کے راز کو اور اس کی آسودگی کو ہم نے پا لیا ہے ‘ تم جس صحرا میں خواہشات اور مصنوعی خدائوں کو اللہ کے شریک بنا کر زندگی کی اکائی کو مسلسل تشتت و افتراق کی نذر کر کے جس طرح زندگی گزار رہے ہو اس سے سوائے اس کے کہ تم بکھر کے رہ گئے ہو اور تمہارے معاملات اور تمہارے اخلاق زندگی کے مقاصد سے عاری ہونے کی وجہ سے انسانیت کے لیے ایک تہمت بن کے رہ گئے ہیں۔ نہ تمہاری کوئی منزل ہے ‘ نہ تمہارا کوئی راستہ ‘ اب بھی اپنی غلطی کو سمجھو اور اس بات کو تسلیم کرلو کہ انسانی زندگی کے سفر میں اگر کوئی حقیقی راہنمائی ممکن ہوسکتی ہے تو وہ اس کے سوا ہرگز کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ اللہ کی دی ہوئی راہنمائی کو قبول کیا جائے کیونکہ جس نے ہمیں پیدا کیا ‘ وہ ہماری فطرت کو جانتا ہے ہماری طبعی خصوصیات کو سمجھتا ہے ہمارے طبعی عوامل اس کے سامنے ہیں ہماری خواہشات اور ہمارے انفعالات پوری طرح اس کے سامنے واضح ہیں۔ وہ ہمارے بگاڑ اور سنوار کے تمام راستوں سے واقف ہے ‘ ہماری کمزوریوں کو بھی جانتا اور ہماری خوبیوں کو بھی سمجھتا ہے۔ اس لیے جب وہ مکمل علم رکھنے والی ذات ہمیں کوئی راہنمائی دے گی تو وہی ہمارے لیے حقیقی راہنما ہوگی۔ یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ یعنی وہی حقیقی راہنمائی ہے ‘ وہی صحیح اور سیدھا راستہ ہے۔ اس لیے اے مشرکینِ مکہ ہمیں تو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس راہنمائی کو قبول کر کے اپنے آپ کو رب العالمین کے سپرد کردیں۔ یہی ہمارے لیے عافیت اور خیریت کا راستہ ہے اور اسی سے ہم حقیقی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تم ہم سے جو مطالبہ کر رہے ہو کہ ہم جانتے بوجھتے اپنے صحیح راستے کو چھوڑ کر غلط راستے پر چل نکلیں۔ ظاہر ہے ایسا فیصلہ وہی شخص کرسکتا ہے ‘ جس کی شیطانی قوتوں نے مت مار دی ہو ‘ عقل مفلوج کردی ہو اور دماغ معطل کردیا ہو۔ ہم بفضلہ تعالیٰ ‘ اللہ کی رحمت کے سائے میں جی رہے ہیں۔ اس لیے ہم یہ لغو فیصلہ کبھی نہیں کرسکتے۔ اللہ کو کس طرح مانیں اس آیت کریمہ کے آخری جملے پر غور فرمایئے کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو رب العالمین کے سپرد کردیں۔ اس میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ہمیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے ‘ بلکہ لِنُسْلِمَ کا لفظ استعمال ہوا۔ جس کا مصدر اسلام ہے اور اسلام کا معنی ہے سپرد کردینا یعنی اپنی ذات ‘ اپنی قوتیں ‘ اپنی توانائیاں ‘ اپنا اثر و رسوخ ‘ اپنا عہدہ و منصب ‘ اپنا سب کچھ اس کے حوالے کردینا۔ اس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ صرف اس کا مان لینا کافی نہیں ہے کیونکہ اللہ کو مانتے تو مشرکین بھی تھے ‘ وہ بھی اس کو سب سے بڑا رب تسلیم کرتے تھے اسے خالق کائنات سمجھتے تھے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس کے دوسروں کو شریک بھی کرتے تھے اور پھر اللہ کو ماننے کا ان کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں تھا۔ اس لیے یہاں دو باتیں فرمائی جا رہی ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ اللہ کو اس طرح مانو کہ ماننے کے جتنے سابقے اور لاحقے ہوسکتے ہیں ‘ وہ سب اللہ کے حوالے کردو۔ اس میں کسی اور شریک کی گنجائش نہیں اور دوسری یہ بات کہ زندگی ایک اکائی ہے اسے تقسیم مت کرو۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سر اللہ کے سامنے جھکایا جائے اور حکم کسی اور کا مانا جائے۔ عبادت گاہوں میں بندگی اللہ کی ہو ‘ لیکن گھروں میں بازاروں میں اجتماعی اداروں میں عدالت گاہوں میں حتیٰ کہ حکومت کے ایوانوں میں ‘ کسی اور کی حکومت ہو اور کسی اور کا قانون چلے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی ایسا کرتا ہے ‘ اس نے اللہ کی ذات کی کبریائی اور اس کی حاکمیت کو عبادت گاہ کی چار دیواری میں محدود کردیا ہے۔ کہا ہم یہ تقسیم قبول نہیں کرسکتے۔ ہمیں تو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم زندگی کا ہر شعبہ اور زندگی کے تمام دائروں میں اسی کے حکم کو تسلیم کریں اور اپنی پوری زندگی اس کے قبضے میں دے دیں۔ ہمارا کوئی طرز عمل اور ہمارا کوئی فیصلہ ‘ اس کی حاکمیت سے آزاد نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ہم میں سے ہر ایک کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے ؎ میں تو کیا میرا سارا مال و منال میرا گھر بار میرے اہل و عیال میرے ان ولولوں کا جاہ و جلال میری عمر رواں کے ماہ و سال میرا سب کچھ مرے خدا کا ہے یہ تقسیم ہم اس لیے بھی قبول نہیں کرسکتے کہ ہمارا جو رب ہے ‘ جس پر ہم ایمان لائے اور جس سے ہم نے تعلق جوڑا ہے ‘ وہ کائنات کے کسی ایک حصے کا رب تو نہیں ‘ وہ تو رب العالمین ہے۔ جب اس کی ربوبیت اور اس کی حاکمیت تمام جہانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے احکام کی گرفت میں ہے اور اس کی قدرت کائنات کی ایک ایک چیز کو تھامے ہوئے ہے اور اس کی مخلوقات کا ایک ایک فرد اس کی وسعتوں کے حصار میں ہے تو ہم اپنی زندگی کا کوئی شعبہ اس سے آزاد کیسے رکھ سکتے ہیں اور رب العالمین کہہ کر ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ کیا جا رہا ہے کہ نادانو ! تم جن کے سامنے ہمیں جھکانا چاہتے ہو یا جن چیزوں کے بارے میں تم ہمیں مجبور کر رہے ہو کہ ہم بھی تمہاری طرح ان کو پوجنا اور ان کو پکارنا شروع کردیں جبکہ وہ نفع و نقصان پر بھی قادر نہیں تو تم ہی بتائو کہ اس سے بڑھ کر حماقت کی اور کیا بات ہوگی کہ ہم جس ذات پر ایمان لائے ہیں۔ وہ رب ہے اور رب اس ذات کو کہتے ہیں جو اپنی مخلوق کی ایک ایک ضرورت پر نظر رکھتا ہو ‘ اس کی زندگی کے تغیرات اور اس کی نوع بنوع ضرورتوں کو سمجھتا ہو اور جیسے جیسے ضرورت بدلتی ہو ویسے ویسے اس کی ربوبیت کی کارفرمائیاں بھی ساتھ بدلتی جاتی ہوں۔ مثلاً بچہ پیدا ہوتا ہے تو نہایت بےبسی اور بےکسی کی تصویر بن کے آتا ہے۔ لیکن اس کے پیدا ہونے سے پہلے ماں کے اندر مامتا کا جوش پیدا کیا جاتا ہے۔ باپ کے دل میں شفقت جوش مارنے لگتی ہے۔ اس کے کندھے اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے بےقرار ہونے لگتے ہیں۔ بچے کو ابھی نہایت نرم غذا چاہیے ‘ اس لیے ماں کا سینہ اس کی غذا کے لیے ابلنے لگتا ہے۔ پھر جیسے جیسے بچے کا معدہ مضبوط غذا کو ہضم کرنے کے قابل ہوتا جاتا ہے تو ماں کے دودھ میں بھی دھنیت کا اضافہ کردیا جاتا ہے اور جب بچہ روٹی کھانے کے قابل ہوتا ہے تو اس کا معدہ بھی ساتھ ساتھ اس کو ہضم کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور بچہ روٹی کھانا سیکھ جاتا ہے۔ جب تک وہ بیٹھ نہیں سکتا تو ماں کی بانھیں اس کے لیے پنگھوڑے کا کام دیتی ہیں۔ جب وہ چلنے لگتا ہے تو ماں انگلی پکڑ کے چلاتی ہے۔ اب اس کے اندر حواس کام کرنے لگتے ہیں کیونکہ اب اسے حواس کی ضرورت ہے اور جب وہ سکول کی عمر کو پہنچتا ہے تو شعور آنکھیں کھولنے لگتا ہے۔ جیسے جیسے اس کا جسم ترقی کرتا ہے ‘ ویسے ویسے اس کی صلاحیتیں ترقی کرتے کرتے عقل کی حدود میں داخل ہوجاتی ہیں۔ اب عقل اور تجربے کی روشنی زندگی میں اس کی راہنمائی کا کام دیتی ہیں۔ نئی نئی نعمتیں ‘ نئی نئی امنگیں ‘ نئی نئی ہمتیں اس کے ہم رکاب چلتی ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ وہ جدھر قدم اٹھاتا ہے ‘ ربوبیت اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے تو حضور ﷺ سے جو جواب دلوایا جا رہا ہے ‘ اس میں آخری بات یہ فرمائی جا رہی ہے کہ نادانو ! ہمارا رشتہ تو ایسی ذات کے ساتھ ہے ‘ جس کی کرم فرمائیاں ہمارے حال پر ربوبیت کی شکل میں اس طرح مہربان ہیں اور تم ہمیں ایسی ذات سے تعلق توڑنے اور ان نام نہاد قوتوں سے تعلق جوڑنے پر مجبور کر رہے ہو ‘ جو خود دوسروں کی محتاج ہیں۔ تم تو بائولے ہوئے ہو ‘ اس لیے تمہیں تو یہ سمجھ نہیں آرہی۔ لیکن ہم سے تو یہ توقع نہ رکھو کہ ہم کبھی اس بےہودگی کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم کے اس بیان اور انداز سے ایک قاری اور سامع کے دل میں اگر وہ قرآن کو قرآن میں ڈوب کے پڑھتا ہے تو یقینا یہ احساس مچلنے لگتا ہے کہ یا اللہ ! میں بھی اس بات کی خواہش رکھتا ہوں کہ میں اپنا سب کچھ تیری ذات کے حوالے کر دوں اور میں بھی قرن اول کے مسلمانوں کی طرح ایسا ہوجاؤں کہ میری زندگی پر صرف تیری شریعت کی چھاپ ہو اور میرا مقصد تیری رضا کے حصول کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ جب طبیعتوں میں بےساختہ یہ احساس ابلتا ہے تو اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ اب تک تو غیب کے صیغے سے ہدایات دی جا رہی تھیں ‘ اب براہ راست خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ اس لیے اسلوب غیب سے خطاب کی طرف ملتفت ہوجاتا ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ تم اگر اس راستے پر چلنا چاہتے ہو تو سب سے پہلا یہ کام کرو۔
Top