Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 70
وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ ذَكِّرْ بِهٖۤ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ١ۖۗ لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ١ۚ وَ اِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا١ۚ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۠   ۧ
وَذَرِ : اور چھوڑ دے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنا لیا دِيْنَهُمْ : اپنا دین لَعِبًا : کھیل وَّلَهْوًا : اور تماشا وَّغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَذَ كِّرْ : اور نصیحت کرو بِهٖٓ : اس سے اَنْ : تاکہ تُبْسَلَ : پکڑا (نہ) جائے نَفْسٌ : کوئی بِمَا : بسبب جو كَسَبَتْ : اس نے کیا لَيْسَ : نہیں لَهَا : اس کے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : سوائے اللہ وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : کوئی سفارش کرنیوالا وَاِنْ : اور اگر تَعْدِلْ : بدلہ میں دے كُلَّ : تمام عَدْلٍ : معاوضے لَّا يُؤْخَذْ : نہ لیے جائیں مِنْهَا : اس سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُبْسِلُوْا : پکڑے گئے بِمَا كَسَبُوْا : جو انہوں نے کمایا (اپنا لیا لَهُمْ : ان کے لیے شَرَابٌ : پینا (پانی) مِّنْ : سے حَمِيْمٍ : گرم وَّعَذَابٌ : اور عذاب اَلِيْمٌ : دردناک بِمَا : اس لیے کہ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : وہ کفر کرتے تھے
ان لوگوں کو چھوڑو ‘ جنہوں نے اپنے دین کو ایک کھیل اور تماشہ بنا رکھا ہے اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور اسی کے ذریعے سے یاد دہانی کرو ایسا نہ ہو کہ کوئی جان اپنے کئے کی پاداش میں ہلاکت کے حوالے کی جائے۔ اللہ کے آگے نہ اس کا کوئی کارساز ہوگا اور نہ سفارشی اور اگر وہ ہر معاوضہ بھی دے تو بھی اس سے قبول نہ کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں ‘ جو اپنے کئے کی پاداش میں ہلاکت کے حوالے کئے جائیں گے۔ ان کے لئے کھولتا پانی پینے کو اور ایک دردناک عذاب ہوگا ‘ ان کے کفر کی پاداش میں
ارشاد ہوتا ہے : وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَھُمْ لَعِبًا وَّ لَھْوًا وَّ غَرَّتْھُمْ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ ذَکِّرْ بِہٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْ صلیق لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِیٌّوَّ لَا شَفِیْعٌج وَاِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْھَا ط اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْا ج لَھُمْ شَرَابٌمِنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌاَلِیْمٌم بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ ۔ (الانعام : 70) (ان لوگوں کو چھوڑو ‘ جنھوں نے اپنے دین کو ایک کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور اسی کے ذریعے سے یاد دہانی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی جان اپنے کیے کی پاداش میں ہلاکت کے حوالے کی جائے۔ اللہ کے آگے نہ اس کا کوئی کارساز ہوگا اور نہ سفارشی اور اگر وہ ہر معاوضہ بھی دے تو بھی اس سے قبول نہ کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں ‘ جو اپنے کیے کی پاداش میں ہلاکت کے حوالے کیے جائیں گے۔ ان کے لیے کھولتا پانی پینے کو اور ایک دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی پاداش میں ) قیامت کے دن کافروں کی طرف سے نہ کوئی سفارش قبول ہوگی نہ کوئی معاوضہ قبول ہوگا اس آیت کا پہلا لفظ وَذَر نہیں ہے بلکہ وائو الگ ہے اور ذر الگ ہے جس کا معنی ہے چھوڑ دو ۔ یہ وَذَرَ سے امر ہے۔ اس میں آنحضرت ﷺ کو تسلی بھی دی جا رہی ہے اور مشرکینِ مکہ اور اس دور کے کافر معاشرے کے اسلام قبول نہ کرنے کی وجہ بھی بیان کی جا رہی ہے۔ چناچہ فرمایا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجئے اور آپ ان کے لیے نہ پریشان ہوں اور نہ ان کا تعاقب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انھوں نے جو رویہ اختیار کرلیا ہے اس میں اصلاح کو قبول کرنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ اللہ کا رسول دنیا میں لوگوں کی اصلاح کے لیے آتا ہے وہ انھیں سمجھاتا ہے کہ تمہاری زندگی غلط رخ پر چل رہی ہے جس کا نتیجہ تباہی اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوگا تمہیں یہ تو معلوم ہے کہ تمہارا ایک خالق ہے ‘ لیکن تمہارا خالق تم سے کیا چاہتا ہے وہ کن باتوں میں راضی ہوتا ہے اور کن باتوں میں ناراض ہوتا ہے تمہیں اس کی کوئی فکر نہیں اسی طرح اس نے تمہیں بیشمار نعمتیں دے رکھی ہیں جن میں تمہاری اولاد بھی شامل ہے اور تمہارے اپنے جسم و جان ‘ تمہاری صلاحیتیں اور تمہاری توانائیاں بھی۔ تمہیں انکے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ تمہارے خالق اور تمہارے پروردگار نے ان نعمتوں کے حوالے سے تم پر کیا فرائض عائد کیے ہیں۔ تم زندگی سے متمتع ہو رہے ہو۔ لیکن تمہیں بالکل ہوش نہیں کہ اس زندگی کے تمہارے پروردگار نے کیا مقاصد مقرر کیے ہیں ‘ جنھیں حاصل کرنے اور جن کے مطابق زندگی گزارنے کی تمہیں فکرہونی چاہیے۔ چناچہ انہی باتوں کو لے کر اور انہی کی بنیاد پر تمہاری اصلاح کے لیے اللہ کا رسول تم میں مبعوث ہوا۔ لیکن تم نے بجائے اس اصلاحی عمل سے فائدہ اٹھانے اور ان باتوں کے قبول کرنے کے جس سے تمہاری زندگی کی نہج درست ہوسکتی ہے اور تم اپنی منزل مراد تک پہنچ سکتے ہو تم نے اس دین کو کھیل تماشہ بنا لیا۔ چناچہ ان کا طرز عمل یہ ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ جن بنیادی عقائد کو پیش کرتے ‘ یہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے ‘ مسلمان نمازیں پڑھتے یہ ان کی نقلیں اتارتے۔ قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے اذان کو ایک مذاق بنا رکھا تھا۔ اس کی نقلیں بھی اتارتے اور اسکا تمسخر بھی اڑاتے۔ جب انھیں قیامت کی بازپرس سے ڈرایا جاتا تو وہ عجیب و غریب طریقے سے اسکا تمسخر اڑاتے اور جب قرآن کریم انکے سامنے پڑھا جاتا تو چونکہ وہ عربی زبان کے تیور شناس تھے اور اس کے ذوق سے بھی بہرہ ور تھے اس لیے انکے بڑے بڑے لوگوں کی یہ کوشش ہوتی کہ یا تو قرآن کریم کسی کو پڑھنے نہ دیا جائے اور اگر اسے روکا نہ جاسکے تو پھر اسے سننے نہ دیا جائے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ جب بھی کسی مجلس میں جاتے تو آپ ان کے سامنے قرآن کریم پڑھتے۔ بعض دفعہ ان کے اندر سے گزرتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ ایک تو کلام خداوندی کا اپنا اعجاز اور پھر لحن پیغمبر کا اپنا سحر۔ لوگ دل تھام کے رہ جاتے کیونکہ کہ اگر کلام عمدہ ہو اور سننے والا ذوق آشنا ہو تو اس کے اثر سے بالکل بےبہرہ رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ یہاں سے اگر کوئی خوبصورت آواز میں کلام اقبال پڑھتا ہوا گزرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ چلتے ہوئے قدم نہ رک جائیں اور قرآن کریم تو کلام اللہ ہے۔ اس لیے قرآن کریم ہی نے ہمیں بتایا کہ اشراف قریش یہ کہتے تھے کہ اس قرآن کریم کو مت سنو اور جب یہ پڑھا جائے تو شور مچائو ‘ اسطرح ممکن ہے کہ تم اس کی تاثیر پر غالب آجاؤ ورنہ تم لوگوں کو اس کے اثر سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر ( رض) نے اپنے گھر سے باہر ایک چبوترہ سا بنا لیا تھا جس میں وہ نماز کے دوران بلند آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کرتے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے رقت قلبی سے نوازا تھا اس لیے تلاوت کرتے ہوئے خوب روتے۔ ان کی تلاوت سننے کے لیے عورتیں بچے اور بوڑھے جمع ہوجاتے۔ چناچہ اشرافِ قریش فکر مند ہوئے اور حضرت صدیق اکبر ﷺ کو مجبور کیا کہ آپ اپنی نماز اپنے گھر میں پڑھیں ‘ ورنہ ہمارے لوگوں کو آپ گمراہ کردیں گے۔ اس بات کو یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن ان کی اصلاح کے لیے آیا ہے اور پیغمبر ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہے اور وہ ان کے سامنے ایک دین پیش کر رہا ہے جس میں ان کی دنیوی اور اخروی کامیابیاں ہیں۔ لیکن یہ بجائے اس کے کہ سنجیدگی سے اس کو سمجھیں اور پھر کوئی فیصلہ کریں انھوں نے تو اسے کھیل تماشہ بنا لیا ہے۔ ہر اصلاحی کوشش اور ہر دعوتی عمل ان کے مذاق کا نشانہ بن رہا ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ ان کی اصلاح کی فکر چھوڑ دیں کیونکہ جب تک یہ دین کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوں گے اس وقت تک آپ کی کاوشیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتیں۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ یہی نہیں کہ انھوں نے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے کھیل تماشے کو اپنا دین بنا لیا ہے۔ دین کا معنی ہے طرز زندگی ‘ اسلوبِ حیات ‘ مقاصدِ زندگی ‘ تہذیبِ زندگی اور نظام زندگی یہ سب کچھ ان کے نزدیک کھیل تماشے کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی صرف عیش و عشرت اور کھانے پینے کا نام ہے جو جی میں آئے کرو۔ زندگی کی ہر خواہش کو زندگی کا مقصد سمجھو اور اسی زندگی کی راحتوں اور خوشیوں کو زندگی کی منزل بنا لو ‘ اس بات پر کبھی مت غور کرو کہ زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوسکتا ہے بلکہ اس بات پر یقین رکھو کہ زندگی ایک ہی دفعہ ملتی ہے اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ آدمی اس میں جس قدر عیش و عشرت کرسکتا ہے اور جس قدر نعمتوں سے شادکام ہوسکتا ہے اور جس قدر بڑے بڑے مناصب حاصل کرسکتا ہے اور جس قدر دولت جمع کرسکتا ہے بس اسے اسی کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ یہ بات صحیح ہے اور یہ غلط اور یہ ہونا چاہیے اور یہ نہیں ہونا چاہیے یہ سراسر جذباتی باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی نفسانی خواشہات کی تسکین کس طرح ہو۔ کہا یہ ان کا دین ہے جب کوئی قوم انہی باتوں کو اپنا دین بنا لے تو ظاہر ہے اللہ کی طرف سے آنے والا دین ان کی زندگیوں میں کوئی جگہ نہیں بنا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فرد اور کسی بھی قوم کو بگاڑنے میں جس چیز نے سب سے زیادہ موثر رول ادا کیا ہے وہ یہی تصور ہے کہ آمی زندگی کی اصل منزل عیش و عشرت کو بنا لے۔ اس کے بعد کوئی محنت طلب کام ‘ کوئی جان توڑ کوشش ‘ ایثار و قربانی کی کوئی صورت ‘ فرائض کی بجاآوری کا کوئی اسلوب اس کے لیے اجنبی ہو کر رہ جاتا ہے اس کے دماغ پر تو صرف ایک دھن سوار رہتی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ اپنی ناتمام آرزوئوں کو کیسے پورا کرسکتا ہوں۔ میری ناآسودہ تمنائیں کس طرح آسودہ ہوسکتی ہیں۔ اسے عیش و عشرت اور جنسی تعیش کی کسی سطح پر بھی قرار نصیب نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک ایسی جوع البقر کا شکار ہوتا ہے جس میں ہل من مزید کے نعرے اور نئی سے نئی طلب کے سوا اس کی اور کوئی منزل نہیں ہوتی۔ ایسے آدمی یا ایسے معاشرے کو زندگی کے سنجیدہ مقاصد کی طرف موڑنا نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ پیغمبر دنیا میں سب سے موثر شخصیت لے کر آتا ہے اور اس پر نازل ہونے والی کتاب اپنی اثر آفرینی میں صفت اعجاز سے متصف ہوتی ہے اور اس کا لایا ہوا دین اپنی دانش و حکمت میں بجائے خود سب سے بڑی اپیل رکھتا ہے۔ لیکن انھیں بھی کہا جا رہا ہے کہ آپ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ یہ اب اس قابل نہیں ہیں کہ آپ کی اصلاحی کاوشوں کو قبول کریں کیونکہ انھیں ایک ایسی بیماری لگ گئی ہے کہ جب بھی کسی قوم کو وہ بیماری لگتی ہے تو وہ قوم ناقابل اصلاح ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کا ذکر اسی آیت کے اگلے حصے میں کیا جا رہا ہے۔ فرمایا : غَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا انھیں حیات دنیا نے دھوکہ دے رکھا ہے یا دھوکے میں ڈال رکھا ہے یعنی ان مشرکینِ مکہ نے اپنی دنیوی زندگی کے بارے میں بعض تصورات اختیار کر رکھے ہیں ‘ جن کی وجہ سے ان کی پوری زندگی غلط راستے پر پڑگئی ہے اور یہ تصورات ان کے لیے ایسا فریب نظر ثابت ہوئے ہیں کہ ان کی زندگی کا زاویہ ٹیڑھا ہو کر رہ گیا ہے۔ انکے دیکھنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ایسی کجی کا شکار ہوئی ہیں کہ کوئی چیز ان کو صحیح صورت میں نظر نہیں آتی۔ انکے وہ تصورات جس نے ان کی ہر چیز کو بدل کے رکھ دیا ہے بنیادی طور پر دو ہیں۔ پہلا تصور یہ ہے کہ وہ اپنی دنیوی زندگی کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی از اول تا آخر یہی ہے اس کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ موت مکمل فنا ہوجانے کا نام ہے۔ یہیں کی خوشیاں اصل خوشیاں ہیں اور یہیں کے غم اصل غم ہیں۔ جو یہاں محروم رہا وہ ایک مکمل محروم آدمی ہے اور جسکو یہاں خوشیاں مل گئیں اس نے زندگی کے اصل پھل کو پا لیا۔ یہاں کی محرومیوں کے بارے میں یہ سوچنا کہ کسی دوسری دنیا میں اس کی تلافی ہو سکے گی اور یہاں کی قربانی اور ایثار کا بدلہ کسی اور جہان میں مل سکے گا یہ سراسر احمقانہ باتیں ہیں۔ زندگی کے بارے میں انکے اس تصور نے ان کو مادی زندگی ‘ دولت دنیا کی طلب ‘ اپنے سر پر کلغی سجانے کی ہوس ‘ اپنے محل کو استوار کرنے کی خواہش ‘ اپنی ہی ذات کا پندار اور ہوائے نفس پر اصرار نے انکو ایسا اندھا کیا تھا کہ وہ حقوق و فرائض کے ہر طرح کے تصور سے بالکل محروم ہوگئے تھے۔ صحیح اور غلط ‘ اچھائی اور برائی انکے نزدیک محض تصوراتی باتیں بن کے رہ گئی تھیں۔ جب کوئی فرد یا کوئی قوم ان تصورات کو بنیاد بنا کر زندگی کی تعمیر کرتی ہے تو اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی زندگی میں اخلاقی قدروں اور روحانی عظمتوں کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار ہوسکتی ہے ‘ محض ایک خواب و خیال ہے۔ یہ لوگ چونکہ اس بنیادی تصور کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔ اس لیے قرآن کریم آنحضرت ﷺ سے کہہ رہا ہے کہ جب تک یہ لوگ اپنے اس بنیادی تصور کے دھوکے سے باہر نہیں نکلتے اور اپنی حیات دنیا کی صحیح حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے اس وقت تک آپ ان سے اپنی اصلاح و دعوت کے نتیجے میں کسی تبدیلی کی امید مت کیجئے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور ان کے انجام کے بارے میں آپ فکر مند نہ ہوں۔ دوسرا تصور جس نے ان کی زندگی کو بالکل گہنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ یہ تھا وہ دیکھ رہے تھے کہ مکہ معظمہ اور تمام باقی دنیا کے رہنے والے کافر ایک ایسی زندگی گزار رہے تھے جس میں اللہ کی حاکمیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ وہ یا تو دوسری دنیا کے تصور سے ہی ناآشنا تھے اور اگر قیامت کا ان کے یہاں کوئی تصور تھا بھی تو وہاں ایک ایک عمل کی جواب دہی ان کے لیے ایک ناقابل فہم بات تھی اس لیے ان کی پوری زندگی اللہ کی بغاوت میں گزر رہی تھی اور پوری زمین ایک فساد سے بھر چکی تھی جس میں ظلم ہو رہا تھا ‘ بےحیائی سرعام ناچ رہی تھی ‘ نچلے طبقے پسے جا رہے تھے ‘ مراعات یافتہ طبقے نے اپنی خدائی کے آستانے بنا رکھے تھے اور یہ بگاڑ پر مبنی نظام صدیوں سے چل رہا تھا اور کہیں بھی اس میں رخنہ اندازی نظر نہیں آتی تھی۔ دولت کی ریل پیل تھی لیکن صرف مراعات یافتہ طبقہ کے گھروں میں ‘ طاقت اور قوت تھی تو صرف ظالموں اور اللہ کے نافرمانوں کے ہاتھوں میں ‘ زندگی کی تمام آسائشیں ان کے پاس تھیں جو آخرت کی زندگی سے یکسر منکر تھے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اگر کہیں اللہ کا تصور باقی تھا اور کچھ لوگ ایمان کے دعوے دار بھی تھے اور اس کے مطابق اللہ کی فرمانبرداری بھی کر رہے تھے اور بالخصوص مکہ معظمہ میں تو اللہ کا ایک رسول مبعوث ہوچکا تھا اور اس کے ماننے والے شب و روز اللہ کی رضا کے حصول میں لگے ہوئے تھے۔ لیکن ان کے گھروں میں فقر و فاقہ کے پہرے تھے۔ زندگیاں ان کی محرومیوں کی تصویر تھیں ‘ مظلومیت ان کا مقدر بن چکی تھی۔ یہ لوگ یقینا حق پر تھے لیکن دنیا کی کوئی آسائش ان کے پاس نہ تھی۔ مشرکینِ مکہ اور دوسرے کافر یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارا رویہ غلط ہے اور زندگی کے بارے میں ہمارے تصورات باطل ہیں تو پھر ہمیں یہ زندگی کی نعمتیں کیوں حاصل ہیں ؟ ہم زندگی کی آسائشوں سے بہرہ ور کیوں ہیں ؟ دولت اور طاقت ہمارے پاس کیوں ہے ؟ اگر ہم واقعی غلط راستے پر چل رہے ہیں تو یہ چیزیں ہم سے چھن جانی چاہئیں بلکہ ہم پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑنا چاہیے اور تم اگر برسرحق ہو تو ہماری جیسی آسائش کی زندگی تمہیں میسر آنی چاہیے اور قوت و طاقت تمہارے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ لیکن ہماری اور تمہاری صورتحال بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہم صحیح راستے پر ہیں اور اللہ ہم سے راضی ہے۔ اس لیے اس نے ہمیں اچھے حالوں میں رکھا ہے اور تم غلط راستے پر ہو اس لیے تم سے ناراض ہے اور اس نے تمہیں یہاں مصیبتوں میں مبتلا کر رکھا ہے اور تمہارے بقول اگر واقعی قیامت آنے والی ہے تو وہاں بھی ہم دنیا کی طرح آسودہ حال ہوں گے اور تم وہاں بھی اپنی دنیا کی طرح برے حالوں میں رکھے جاؤ گے۔ یہ وہ تصور ہے جس نے ان کو ایک فریب میں مبتلا کر رکھا ہے یعنی دنیا اور دولت دنیا اور دنیا کی آسائشوں کی چمک دمک یہاں کی لطف و لذت کی چکا چوند اور یہاں کے تخت و تاج کے کرو فر نے انھیں ایسا فریب دے رکھا ہے کہ وہ اپنے آپ کو برسرحق سمجھتے اور اسی حالت میں رہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ فریب نظر اس دور کے ساتھ مخصوص نہیں اور دنیا نے دھوکہ دہی کی یہ واردات صرف ان لوگوں کے ساتھ نہیں کی تھی بلکہ آج بھی پوری دنیا اس فریب میں مبتلا ہے۔ امت مسلمہ جس نے اس فریب کا پردہ چاک کرنا تھا اور جس کے ہاتھوں میں قرآن و سنت کی شمع آج بھی روشن ہے وہ اسے کسی بند کوٹھڑی میں بند کر کے اپنی اور لوگوں کی نگاہوں سے اس طرح چھپا کے بیٹھی ہے کہ خود اس مرض کا شکار ہو کے رہ گئی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ زندگی کے بارے میں یہ تصور غلط ہے۔ لیکن جب ہم ان کے مجموعی رویے کو دیکھتے ہیں تو ان کی ایک بڑی اکثریت کو اسی فریب کا شکار پاتے ہیں۔ نچلے طبقے کو جانے دیجئے ‘ اس لیے کہ زندگی کے فیصلوں میں انھیں کبھی کوئی جگہ نہیں ملتی۔ فیصلے ہمیشہ بالادست طبقہ کرتا ہے اور زندگی کی راہوں کا تعین ہمیشہ ان کی صوابدید سے ہوتا ہے۔ اس لیے جب ہم اپنے بالا دست طبقے کو دیکھتے ہیں جن میں ہمارا مقتدر طبقہ اور اصحاب علم و دانش دونوں شامل ہیں ان کے رویے کو دیکھ لیجئے کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا کہ ان کے یہاں کہیں آخرت کا تصور پایا جاتا ہے اور یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی اس زندگی کے کچھ اہداف اور کچھ مقاصد بھی ہیں اور قیامت کے دن اس زندگی کے بارے میں باز پرس بھی ہوگی۔ اس کی ایک بڑی آسان مثال جس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی آدمی کو دیکھ لیجئے اگر اس نے اپنی زندگی کا کوئی ہدف مقرر کرلیا ہے تو وہ زندگی کی تفریحات اور تمدنی تقریبات کے لیے جب بھی وقت نکالے گا تو یہ سوچ کے نکالے گا کہ میرے ہدف کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ جب وہ یہ دیکھے گا کہ اس سے میرا ہدف متاثر ہو رہا ہے تو وہ فوراً اپنی ان غیرضروری مصروفیات میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے گا یا سرے سے انھیں قربان کر دے گا۔ آپ کسی تاجر ہی کو دیکھ لیجئے اگر اس کے بیرونی دنیا سے تجارتی روابط ہیں تو عموماً ہفتے کے پانچ دن جس طرح اس کے مصروفیت میں گزرتے ہیں کہ دوسری کسی مصروفیت کے لیے اس کے پاس بڑی مشکل سے وقت نکلتا ہے۔ اس لیے کہ ایک ہدف اس کے سامنے ہے وہ اپنے تمام اوقات کی تقسیم اسی ہدف کو سامنے رکھ کر کرتا ہے۔ اب اگر ہمارے زندگی کا بھی کوئی ہدف ہے تو پھر آخر ہماری زندگی میں یہ بڑے بڑے جھول کیوں ہیں کہ ہم ایک غریب ملک کے باسی ہیں اور اب تک ہم پسماندگی کا شکار ہیں۔ ہمیں اس صورت حال سے نکلنے کے لیے شدید محنت کی ضرورت ہے۔ ہمارا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک شخص جب تک اس محنت کی نذر نہیں ہوجائے گا اس وقت تک ہم اس پسماندگی سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے لوگ حتیٰ کہ ہمارے حکمران اس بات کو سننے کے بھی روادار نہیں کہ کھیلوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور جوئے پر مشتمل سکیمیں ‘ بڑھتی ہوئی فضول خرچی کی عادتیں اور راتوں رات دولت مند بننے کی خواہشیں وہ چیزیں ہیں جو محنت کے جذبے کو مار دیتی ہیں۔ لیکن ہم یہ بات کبھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہم نے کرکٹ جیسے کھیل کو قومی کھیل کا درجہ کیوں دے رکھا ہے۔ بعض دفعہ پانچ پانچ دن کے میچ مسلسل ٹیوی پر دکھائے جاتے ہیں اور یہ صرف اپنے ملک کے نہیں بلکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی میچ ہو رہا ہے ہم اسے اپنے نوجوانوں کو دکھانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ان کے شوق فضول میں کہیں کمی نہ آجائے۔ نتیجہ اس کا کیا ہوتا ہے کہ دفتروں میں کام برائے نام رہ جاتا ہے ‘ کارخانوں میں پروڈکشن کم ہوجاتی ہے۔ بعض دفعہ اپنے ملک میں ہونے والے بڑے میچوں میں کئی کئی ارب روپے کا نقصان ملک کو برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن جب اس پر توجہ دلائی جاتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ صاحب یہ کرکٹ ٹیم ہمارے ملک کے تعارف کا سب سے بڑا ذریعہ ہے حالانکہ کرکٹ ٹیم کے اکثر کھلاڑی باہر جا کر جو ہمارا تعارف دوسری قوموں کو کراتے ہیں وہ ایک بد چلن ‘ آوارہ ‘ بدقماش نوجوانوں کا ہوتا ہے وہ تمام عیوب جو مغربی دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب ان نوجوانوں میں پائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ جوئے تک میں ان کا ملوث ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ ہم اگر مسلمان ہیں تو کیا ہمارا یہ تعارف ہے جو دنیا کو کرانا چاہتے ہیں۔ دنیا کی محبت کے اسیر اور دولت دنیا کے فریب کا نشانہ تو اہل دنیا ہمیشہ رہے ‘ لیکن آج کی مہذب دنیا نے ‘ جس طرح دولت دنیا کو باقاعدہ ایک فن بنا کر علمی اور تہذیبی انداز میں پیش کیا ہے بلکہ جس طرح قوموں کے مقاصد زندگی میں اسے سب سے بڑا درجہ دے دیا گیا ہے یہ وہ صورت حال ہے کہ دو ‘ تین صدیاں پہلے کی دنیا کم از کم اس کا شکار نہیں تھی۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ آج تمام دنیا کا مرکز ثقل اور مطاف معدہ بن کر رہ گیا ہے۔ ساری دنیا اس قبلہ مقصود کا طواف کر رہی ہے۔ دنیا کی ترقی اور پسماندگی کے فیصلے اسی حوالے سے ہوتے ہیں اور مشکل یہ ہے کہ اسلام کے دیئے ہوئے بنیادی تصورات بالکل اس سے میل نہیں کھاتے۔ بات طویل ہوتی جا رہی ہے کہنا صرف یہ ہے کہ وہ اس فریب نظر کا شکار تھے کہ ہم چونکہ ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہے اور ہم برسر حق ہیں۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ انھیں اصلاً جس چیز نے فریب دیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کے بارے میں اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے دارالجزاء نہیں۔ یہاں ہمیں اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے بھیجا گیا ہے اس لحاظ سے یہ دنیا دارالعمل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے دین اور اس کی شریعت کے حوالے سے ابتلاء ‘ آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں آدمی اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کی جزاء اسے یہاں نہیں ملتی اور اگر کوئی برائی کرتا ہے تو اس کی سزا بھی یہاں نہیں ملتی۔ یہاں تو نعمت دے کر بھی آزمایا جاتا ہے اور تکلیف پہنچا کر بھی آزمایا جاتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑی آزمائش یہ ہے کہ ہمیں زندگی گزارنے کے طریقے سکھا کر اور بنیادی ایمانیات کا علم دے کر ہمارا امتحان لیا گیا ہے کہ کیا ہم اس پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ اگر اس راستے پر چلتے ہوئے ہمیں کسی کشمکش سے واسطہ پڑتا ہے تو کیا اس میں محنت ‘ اولوالعزمی اور صبر کا ثبوت دیتے ہیں یا نہیں اگر یہاں ہم اپنا فرض ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید ہماری پشت پناہ ہوگی اور اگر کمزوری دکھائیں گے تو غالب قوتوں کی آماجگاہ بننا پڑے گا۔ لیکن رہی یہ بات کہ کافر قوموں یا کافر افراد کو ان کے جرائم کی سزا کب ملے گی تو اس کی جگہ یہ دنیا نہیں اس کی جگہ آخرت ہے۔ بعض دفعہ کافر کو نعمتیں دے کر خوب گراں بار کردیا جاتا ہے ‘ لیکن اصلاً اس کی یہ آزمائش ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ اس فریب میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ یہ نعمتیں شاید اللہ کے یہاں میرے مقبول ہونے کی علامتیں ہیں تو وہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ بعض دفعہ کفار کی سرکشی حد سے گزر جاتی ہے تو دنیا میں ان کو مٹا کر دوسری قوموں کو لایا جاتا ہے۔ لیکن یہ اللہ کی وہ سنت ہے جو تفصیل طلب ہے جس کا ذکر پھر کبھی آئے گا۔ اس وقت تو صرف یہ کہنا ہے کہ مشرکینِ مکہ کو جس فریب نے تباہ کیا وہ یہ بات تھی کہ ان کی خوشحالیاں شاید ان کے راہ راست پر ہونے کی دلیل ہیں حالانکہ ایسا نہیں یہ تو ان کے لیے آزمائش ہے کیونکہ یہ دنیا دارلابتلاء ہے اور جہاں تک جزاء و سزا کا تعلق ہے وہ آخرت میں ہوگی۔ ان کی اس اصل بیماری کا ذکر کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ جس مہلک بیماری کا شکار ہیں اس سے جانبر ہونے کی تو کوئی امید کرنا مشکل ہے۔ اس لیے آپ ان کی فکر کرنا چھوڑ دیں۔ البتہ ! جب بھی آپ اس کا موقعہ مناسب پائیں تو انھیں نصیحت ضرور کریں اور انھیں برابر اس بات سے آگاہ کرتے رہیں کہ تم اپنے ان تصورات سے نکلو یا نہ نکلو لیکن میں تمہیں برابر اس بات سے آگاہ کرتا رہوں گا کہ قیامت ہرحال میں آئے گی۔ تمہیں وہاں اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ پروردگار کو یہ منظور نہیں ہے کہ تم کل کو وہاں جا کر یہ کہہ سکو کہ ہمیں کسی نے آنے والے انجام سے آگاہ نہیں کیا اور تم یہ سمجھو کہ ہم اپنے اعمال کی پاداش میں محض اس لیے پکڑے گئے ہیں کہ ہمیں اس کے بارے میں بتایا نہیں گیا تھا اور مزید یہ فرمایا کہ انھیں اس بات سے بھی آگاہ کرو کہ دنیا میں جب کوئی آدمی پکڑا جاتا ہے تو عموماً اس کے حمایتی اور اس کے مددگار اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں کبھی اس کے سفارشی اسے سفارش کر کے چھڑا لیتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ معاوضہ دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن قیامت کے دن ان میں سے کوئی ذریعہ تمہارے کام نہیں آئے گا۔ وہاں اللہ کے سامنے نہ تمہارا کوئی حمایتی اور کارساز ہوگا نہ تمہارا کوئی سفارشی ہوگا اور نہ وہاں تم سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور اگر تم ہر وہ معاوضہ جس کا تصور کیا جاسکتا ہے وہ بھی دے ڈالو تو اسے بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب یہ کافرلوگ اپنی بداعمالیوں کے نتیجے میں پکڑے جائیں گے تو ایک ایک کافر یہ چاہے گا کہ اگر میری اولاد بھی فدیہ میں قبول کرلی جائے تو میں اسے بھی دینے کو تیار ہوں تاکہ میں اس انجام سے بچ سکوں۔ لیکن وہاں کوئی معاوضہ اور کوئی فدیہ نہیں چل سکے گا۔ بالآخر یہ لوگ اپنے گناہوں کی پاداش میں ہلاکت کی نذر ہو کر رہیں گے اور پھر جب انھیں جہنم پر لایا جائے گا تو اللہ فرماتا ہے کہ سب سے پہلے انھیں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ معلوم ہوتا ہے یہ کھولتا ہوا پانی جو انھیں پینے کو ملے گا ‘ یہ جہنم کے اندر نہیں ہوگا بلکہ جب یہ لوگ جہنم کے پاس لائے جائیں گے تو پیاس سے بدحال ہوں گے اور بار بار پانی مانگتے ہوں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم یہاں مہمان بن کے آئے ہو اس لیے جیسی پہلی مہمانی ہر آنے والی مہمان کی مشروبات سے کی جاتی ہے اور اس کے بعد کھانا پیش کیا جاتا ہے انھیں بھی پہلی مہمانی کے طور پر کھولتا ہوا پانی پیش کیا جائے گا اور پھر جہنم کے اندر ان کو عذاب الیم میں مبتلا کردیا جائے گا جو دردرساں بھی ہوگا اور دردناک بھی۔
Top