Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 68
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ١ؕ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذَا
: اور جب
رَاَيْتَ
: تو دیکھے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو کہ
يَخُوْضُوْنَ
: جھگڑتے ہیں
فِيْٓ
: میں
اٰيٰتِنَا
: ہماری آیتیں
فَاَعْرِضْ
: تو کنارا کرلے
عَنْهُمْ
: ان سے
حَتّٰي
: یہانتک کہ
يَخُوْضُوْا
: وہ مشغول ہو
فِيْ
: میں
حَدِيْثٍ
: کوئی بات
غَيْرِهٖ
: اس کے علاوہ
وَاِمَّا
: اور اگر
يُنْسِيَنَّكَ
: بھلا دے تجھے
الشَّيْطٰنُ
: شیطان
فَلَا تَقْعُدْ
: تو نہ بیٹھ
بَعْدَ
: بعد
الذِّكْرٰي
: یاد آنا
مَعَ
: ساتھ (پاس)
الْقَوْمِ
: قوم (لوگ)
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں میں میکھ نکالتے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہوجائو یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مصروف ہوجائیں اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ان ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو
وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتیّٰ یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖط وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (الانعام : 68) ” اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں میں میکھ نکالتے ہیں ‘ تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مصروف ہوجائیں ‘ اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ان ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو “۔ گستاخان رسول ﷺ کی محفلوں میں نہیں جانا چاہیے اس آیت کریمہ کے پہلے جملے سے صورتحال کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں کفار مکہ کے جس طرز عمل سے واسطہ پڑ رہا تھا اس کی نمایاں بات یہ تھی کہ وہ اللہ کی آیات میں خوض کرتے تھے۔ خوض کا معنی کسی چیز میں گھس جانے کا ہے۔ اسی سے خوض فی الحدیث کا محاورہ نکلا ہے ‘ جس کے معنی ہیں ” بال کی کھال ادھیڑنا ‘ میں میکھ نکالنا ‘ کسی بات پر اعتراض ‘ نکتہ چینی اور کٹ حجتی کے نئے نئے پہلو پیدا کرنے کی کوشش کرنا “۔ قرآن کریم نے اس لفظ کو کئی جگہ استعمال کیا ہے اور ہر جگہ قریب قریب یہی مفہوم ہے۔ یعنی مخاطب جب کسی بات کو سنجیدگی سے لینے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے دل لگی اور مذاق میں اڑا دینا چاہے تو اسی کو خوض سے تعبیر کیا جاتا ہے اور آگے آنے والی تیسری آیت میں ان کے اس طرز عمل کو متعین کرتے ہوئے لہو و لعب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوض ہی کی تشریح ہے یعنی بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس ہدایت کی دولت لے کر آئے ہیں اور ان کی زندگی کو صحیح راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک ایسا استقرار ‘ ایک ایسی سنجیدگی ‘ ایک ایسا وقار ‘ ایک ایسی خوش اسلوبی اور حقوق و فرائض میں ایک ایسی پاسداری پیدا ہوگی کہ جس سے ان کی دنیا بھی جنت کا نمونہ بن جائے گی اور آخرت میں وہ اللہ کی رضا سے نوازے جائیں گے۔ لیکن ان کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس تھا کہ وہ حضور کی ذات کو مذاق کا نشانہ بناتے ‘ قرآن پاک کی آیات کا مذاق اڑاتے ‘ احکام خداوندی کو تعریض کی سان پر چڑھاتے اور ہر سیدھی بات کو بگاڑ کر پیش کرتے۔ حتی کہ ان کی حددرجہ بڑھی ہوئی زبانوں سے نہ اللہ کی عزت محفوظ تھی اور نہ اللہ کے احکام کی۔ یہ صورتحال واضح کرنے کے بعد حضور کو ایک بنیادی ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب کبھی آپ کو اس صورتحال سے واسطہ پڑے تو پھر آپ کو کیا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ آنحضرت ﷺ میں کفار کے ایمان لانے کی جو شدید خواہش پائی جاتی ہے اور آپ جس طرح ان کے ایمان کے لیے رات دن دعوت و تبلیغ میں لگے رہتے ہیں اور بار بار اللہ سے اس کی التجائیں بھی کرتے ہیں اور ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے دل و دماغ میں اللہ کے دین کو اتار دینا چاہتے ہیں اس کے پیش نظر یقینا اس بات کا ہرگز امکان نہیں تھا کہ آنحضرت ﷺ کفار مکہ کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے اپنی مساعی کو روک دیں گے کیونکہ آپ کے سامنے تو ایک ہی دھن تھی کہ ہر صورت میں اللہ کا دین ان تک پہنچانا ہے اور تبلیغی کاوشوں سے ان کو اللہ کے راستے کی طرف مائل کرنا ہے۔ رہی یہ بات کہ ان کا طرز عمل کیا ہے وہ ہزار تکلیف دہ ہو لیکن حضور تو اس سے رکنے والے نہیں تھے اور آپ کی تربیت کے نتیجے میں مسلمان بھی ہرگز اس سے اثر قبول کرنے والے نہیں تھے۔ اس لیے پروردگار نے بنفس نفیس اس میں مداخلت ضروری سمجھی اور آپ کو یہ ہدایت دی گئی کہ جب آپ ان کی یہ کیفیت دیکھیں تو آپ ان سے اعراض فرمائیں یعنی ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ علماء نے اس سے جو کچھ سمجھا ہے اور آپ اور ہم بھی جب اس میں غور کرتے ہیں تو جو حکمتیں سمجھ میں آتی ہیں ‘ ان میں سے چند ایک کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ اس میں خطاب براہ راست آنحضرت ﷺ سے ہے تو کیا یہ حکم صرف حضور کی ذات کے لیے تھا یا تمام ان لوگوں کے لیے ہے جو آپ کے طریقے پر چلتے ہوئے ایسے ناموافق حالات میں تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دیں۔ انھیں آیات کے سیاق کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے اسلوب میں ایک ارتقاء پایا جاتا ہے کہ شروع میں خطاب آنحضرت کی ذات گرامی سے ہے اور اگلی آیت میں یہی بات ایک دوسرے اسلوب سے تمام مسلمانوں سے کہی جا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات حضور کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے تبلیغ و دعوت کا کام کرنے والوں کو یہی ہدایت پیش نظر رکھنی چاہیے۔ اب رہی یہ بات کہ یہ ہدایت کیوں دی جا رہی ہے یا اس ہدایت کی صحیح صورت کیا ہے۔ اس کا یہ مفہوم تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ جہاں بھی کبھی ایسی صورت حال نظر آئے تو وہاں تبلیغی مساعی کو روک دیا جائے بلکہ اس کی صحیح صورت جو سمجھ میں آتی ہے اور جو ان آیات میں واضح ہے وہ وہ ہے جس کا ذکر قاضی عیاض ( رح) نے فرمایا کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ فلاں صاحب یا فلاں گروہ دین کے بارے میں معاندانہ روش رکھتے ہیں اور وہ اپنی تہذیب کے سارے دعو وں کے باوجود اس قدر غیر مہذب ہیں کہ داعی کے جذبات کی بھی انھیں پرواہ نہیں ہوتی اور وہ بےدھڑک اللہ اور رسول کے بارے میں بد زبانی کرنے لگتے ہیں تو ایے لوگوں کے پاس تو ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ البتہ ! اگر اس بات کا یقین نہ ہو اور آدمی حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یا بیخبر ی میں کسی ایسی تقریب یا ایسی مجلس میں چلا جائے جس میں وقتی طور پر ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ اس مجلس کے شرکاء اللہ اور رسول کے بارے میں بدزبانی کرنے لگیں ‘ دینی اقدار کا مذاق اڑائیں یا شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر بےحیائی کا ماحول پیدا کردیں تو پھر اس حکم کا مفہوم یہ ہے کہ آپ وہاں سے اٹھ جایئے کیونکہ حکمت تبلیغ کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ وہاں بیٹھ کر ان کے اس طرز عمل کو تقویت نہ پہنچائیں اور نہ انھیں روکنے اور سمجھانے کی کوشش کریں کیونکہ جب ایک آدمی کسی کی مخالفت میں ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کی کیفیت بخار میں مبتلا اس شخص جیسی ہوتی ہے جس کے سر کو بخار چڑھ جائے اور وہ دیوانگی میں اول فول بکنے لگے۔ اب اگر آپ اسے سمجھانے کی کوشش کریں گے تو وہ دیوانگی میں اور ناروا باتیں کہے گا اور اس کا طرز عمل پہلے سے زیادہ ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ اس لیے اگر آپ اس کی اصلاح چاہتے ہیں تو اب حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہاں سے خاموشی سے اٹھ جایئے البتہ ! صحیح اور مناسب موقع کی تلاش میں رہئے اور جب کبھی ایسا موقع ملے تو اپنی بات ان تک پہنچانے اور سمجھانے کی کوشش کیجئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اللہ کے دین کو اور انسانی اصلاح کو اپنا مشن بنا لیتا ہے اور اللہ کے نبیوں کی طرح ہر وقت اسی حوالے سے سوچتا ہے تو اس کے لیے ایسے ناموافق حالات میں بھی کوئی موقعہ تلاش کرلینا ناممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے ایک تو اپنے اندر فرض کی آگ لگی ہو اور دوسری گہری بصیرت سے اللہ نے بہرہ ور فرمایا ہو۔ ہماری قریبی تاریخ میں ایک بڑے نامور سکالر گزرے ہیں جن کا نام تھا مولانا عبدالماجد دریابادی جو ادیب ‘ مؤرخ ‘ صحافی اور تذکرہ نگار ہونے کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں جانے پہچانے اور ایک مفسر ہونے کی حیثیت سے علماء میں معروف ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ نئے نئے علی گڑھ سے پڑھ کر نکلے چونکہ ان کا بنیادی مضمون فلسفہ تھا اس کے بکھیڑوں میں ایسے الجھے کہ اسلام ہی سے نکل بھاگے اور اس کے بہت سارے بنیادی عقائد سے انکار کردیا۔ جن اللہ کے بندوں نے انھیں دوبارہ راہ راست پر لانے کی کوشش کی ان میں اکبر الٰہ آبادی مرحوم بھی تھے۔ مولاناعبدالماجد خود لکھتے ہیں کہ مجھ سے اکبر نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ تمہیں اسلامی عقائد اپیل نہیں کرتے اور قرآن کریم کی پیش کردہ تعلیمات سے تم مطمئن نہیں ہو ‘ لیکن تم چونکہ عربی زبان کے طالب علم ہو اتنا تو تم جانتے ہو کہ جہاں تک عربی ادب کا تعلق ہے۔ قرآن جیسی کوئی کتاب اس زبان میں موجود نہیں تو تم قرآن کریم کو عربی ادب عالیہ کی ایک اعلیٰ کتاب سمجھ کر پڑھ لیا کرو۔ اس کی تعلیمات سے تم کوئی غرض نہ رکھو۔ صرف اس کی عبارت سے اعلیٰ عربی سیکھنے کی کوشش کرو جو کسی اور کتاب سے ممکن نہیں۔ اب یہ ایک ایسا بےضرر سا مشورہ تھا کہ مولانا عبدالماجد کو اس سے کیا انکار ہوسکتا تھا۔ چناچہ انھوں نے قرآن کریم کو محض عربی زبان کی ایک کتاب سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تو اس کے کلام کے سحر میں ڈوبتے چلے گئے۔ اللہ نے دست گیری فرمائی ‘ دوبارہ اسلام کی آغوش میں آئے اور تفسیر ماجدی کے نام سے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی۔ یہی وہ بات ہے جو یہاں کہی جا رہی ہے کہ وقتی طور پر تو تم اس مجلس سے اٹھ جاؤ۔ لیکن اس انتظار میں رہو کہ کب وہ اس ناپاک مشغلے سے نکل کر کسی سنجیدہ مصروفیت میں مشغول ہوتے ہیں یا کب ان کا رویہ سنجیدہ ہوتا ہے ‘ تب اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔ رسول ﷺ کے بھول جانے میں بھی حکمت ہے دوسری بات جو اس آیت کریمہ میں فرمائی ہے وہ یہ کہ وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ‘ ان ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو) اس میں سب سے پہلے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس حکم میں یہاں تک شدت پائی جاتی ہے کہ اگر کسی وقت بھول کر بھی ایسے بےہودہ لوگوں کی مجلس میں آدمی پہنچ جائے یعنی ذہن میں اس وقت یہ خیال نہ رہے کہ یہ لوگ کیسے ہیں اور یا یہ بات یاد نہ رہے کہ اللہ نے ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ تو جیسے ہی یاد آئے تو فوراً وہاں سے اٹھ جاؤ اور ایسے ظالموں کے ساتھ مت بیٹھو۔ حکم کی یہ شدت اور ان کے لیے ظالم کے لفظ کا استعمال یہ ہمیں ایک اور بات کی طرف راہنمائی دیتا ہے۔ وہ یہ کہ ان کے ساتھ بیٹھنا جن کی زبانوں اور جن کے طرز عمل سے نہ اللہ اور رسول کی ذات محفوظ ہے اور نہ دینی اقدار ‘ سراسر ایک بےحمیتی کی بات ہے کیونکہ جس آدمی میں حمیت اور غیرت ہوتی ہے ‘ وہ کبھی کسی ایسی مجلس میں بیٹھنا گوارا نہیں کرتا جہاں اس کے بزرگوں اور واجب الاحترام چیزوں کا ادب اور احترام نہ کیا جاتا ہو بلکہ اس کی توہین کی جاتی ہو۔ جس طرح کوئی بھی با غیرت آدمی ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا کبھی گوارا نہیں کرتا جو اس کے ماں باپ کی توہین کے درپے ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کی عزت کا معاملہ تو اس سے کہیں زیادہ نازک ہے۔ اس لیے اگر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بیٹھنے والا اسلامی حمیت سے بالکل محروم ہے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی ایسی مجالس میں بیٹھتا ہے یا ایسے لوگوں سے ملتا ہے وہ شروع شروع میں تو بےحمیتی کا شکار ہوتا ہے ‘ لیکن رفتہ رفتہ وہ نفاق کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پھر اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اسلام کیا ہے اور کفر کیا ہے وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کے فوائد اور اس کے مفادات کہاں محفوظ ہیں۔ اس آیت کریمہ میں جو حکم دیا گیا ہے۔ سورة النساء نے اسی آیت کا حوالہ دے کر اس متذکرہ حقیقت کو نمایاں کیا ہے وہاں ارشاد فرمایا گیا ہے : بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمَا۔ نِالَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا۔ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللہِ یُکْفَرُبِھَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِٓہٖ ز صلے اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ط اِنَّ اللہ َ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعَا۔ (النساء : 138-140) (اور جو منافق اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں انھیں یہ مژدہ سنا دو کہ ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے۔ کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں ان کے پاس جاتے ہیں ؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو ‘ جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو ‘ یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے ) نفاق کی ایک صورت تو یہ ہے کہ آدمی دل سے تو کافر رہے لیکن زبان سے اسلام کا نام لے اور دوسری صورت یہ ہے کہ دل سے آدمی کافر تو نہ ہو ‘ لیکن اپنے مفادات کی حفاظت یا فوائد حاصل کرنے کے لیے اسے کفر اور کافر کی خدمت کرنے سے دریغ نہ ہو اور تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی اسلام اور کفر کے درمیان غیر جانبدار ہو کر رہ جائے کہ زبان سے بیشک کلمہ بھی پڑھے ‘ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہے ‘ لیکن اسلام کے اجتماعی تقاضوں کے حوالے سے یا اسلام اور کفر میں تصادم کے وقت وہ بالکل ایک غیر جانبدار آدمی ہو۔ کفر غالب آجائے تو وہ اس کے ساتھ ہو اور اسلام کو غلبہ ملے تو مسلمان ہونے کی وجہ سے اسلام سے فائدہ اٹھائے۔ لیکن اگر کبھی کفر کی خدمت میں اسلام کے کاشانے پر قیامت بھی گزر جائے اور مسلمان چاہے اپنی تاریخ سے بھی محروم ہوجائیں تو اسے تب بھی کوئی پرواہ نہ ہو۔ نفاق کی یہ تمام شکلیں ہم آج کے دور میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں میں اور بڑے بڑے صاحب منصب افراد میں دیکھتے ہیں۔ حقیقت میں ایسے لوگ ایک ہی آستانے پر جھکتے ہیں جس کو آستانہ اقتدار یا آستانہ دولت کہا جاتا ہے اور نفاق کی یہ لعنت صرف اس لیے مسلمانوں میں آئی ہے کہ فرنگی نظام تعلیم نے اسلام کے بارے میں ان کو غیر جانبدار بنادیا ہے۔ تعصب ‘ رجعت پسندی ‘ مذہبی انتہاپسندی ‘ اور پھر بنیاد پرستی ایسے الفاظ کی اوٹ میں مسلمانوں کو ایمانی غیرت و حمیت سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا نازک موضوع ہے کہ جس کا ذکر کرتے ہوئے شرم بھی آتی ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے۔ ایک طرف آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کا طرز عمل دیکھیے کہ قرآن کریم ایسی مجالس سے انھیں روکتا ہے کیونکہ وہ اسلام کی حمیت میں کہیں بھی جانے سے رکتے نظر نہیں آتے ‘ پیش نظر چونکہ اسلام کا غلبہ اور اس کی نشر و اشاعت ہے اس لیے وہ ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم انھیں حمیت کا سبق پڑھا رہا ہے کہ تمہارا زور تبلیغ اپنی جگہ اور تمہارا اخلاص بالکل بجا لیکن حکمت تبلیغ اور حمیت اسلامی کے اپنے تقاضے ہیں جن پر کان دھرنا ضروری ہے۔ اور دوسری طرف ہمارا حال ہے کہ ہم نے نفاق کو غیر جانبداری اور روشن خیالی کا نام دے کر آج کا چلن بنادیا ہے۔ ظفر علی خاں نے اسی کا ماتم کرتے ہوئے کہا تھا۔ تم سمجھتے ہو پرایوں نے کیا ہم کو تباہ یوں تو شرم پیمبر ہے انھیں بھی لیکن اس مسلمان سے سو بار ہے کافر اچھا بندہ پرور کہیں اپنوں کا یہ کام نہ ہو ان کو ڈر یہ ہے کہ ناراض کہیں ٹام نہ ہو جس مسلمان کے پیش نظر انجام نہ ہو اسی ہدایت کے ضمن میں جو اس آیت کریمہ کے آخری جملے میں دی گئی ہے ‘ ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں خطاب آنحضرت ﷺ کو براہ راست ہے کہ اگر آپ کو شیطان بھلا دے اور آپ کو یہ بات یاد نہ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے لوگوں میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے تو آپ یاد آنے کے بعد ان لوگوں میں مت بیٹھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ بھی اللہ کے احکام کو بھول جاتے تھے اور شیطان کا آپ پر اثر ہوجاتا تھا یا کم از کم یہ بات کہ آپ بھول سکتے تھے اور شیطان کا آپ پر اثر ہونا ممکن تھا۔ اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو اس سے بڑا خطرناک نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ یہ کہ اللہ کے جو احکام آپ نے اللہ کے بندوں تک پہنچائے ہیں ‘ ان کے محفوظ اور صحیح ہونے کی کیا ضمانت باقی رہ جاتی ہے۔ ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ان احکام کو محفوظ رکھنے میں نسیان کا شکار ہوئے ہوں یا شیطانی اثر کا تو پھر آخر ہم کس طرح اطمینان سے اللہ کی شریعت پر عمل کرسکتے ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان میں سے کون سا حکم صحیح ہے اور کونسا صحیح نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس شبے کے ازالے کے لیے چند باتیں گزارش کردی جائیں۔ سب سے پہلی بات جیسے میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ یہ خطاب آنحضرت ﷺ کو اس لیے ہے کہ آپ براہ راست اللہ کے رسول ہیں۔ اس لیے کلام خدا وندی کے آپ اولین مخاطب بھی ہیں۔ لیکن حقیقت میں پوری امت اسلامیہ کے ارباب علم اور تذکیر و دعوت کا کام کرنے والوں کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان آیات میں اسلوبِ کلام ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے اگلی آیت کریمہ میں جمع کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اور اس میں تمام متقی مسلمانوں کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ اگر اس بات کو سمجھ لیا جائے تو پھر آنحضرت ﷺ کے بارے میں پیدا ہونے والا اعتراض خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ دوسری بات جو اس حوالے سے پیش نظر رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں سرے سے احکام کے محفوظ یا غیر محفوظ ہونے کی کوئی بحث نہیں ہو رہی بلکہ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں سے جو بات کہی جا رہی ہے وہ یہ کہ آپ کو لوگوں کے ایمان سے جو گہری وابستگی ہے اور آپ ان کے بارے میں جس طرح ہمیشہ متفکر اور پریشان رہتے ہیں اور ان کے دل و دماغ میں ایمان اتارنے کے لیے جس طرح آپ کچھ بھی کر گزرنے کے لیے بےقرار رہتے ہیں۔ یقینا یہ جوش تبلیغ اور مخلوقِ خدا سے گہری ہمدردی اللہ سے تعلق کی ایک مضبوط دلیل ہے اور آپ اسی کی رضا کے حصول کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ یہ یقیناً ایک نیکی اور خیر کا کام ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے تھوڑی ہے۔ لیکن اللہ کا نبی چونکہ خیر اور نیکی کے معاملے میں بھی ایک نمونہ ہوتا ہے ‘ اس لیے نیکی کے راستے پر چلتے ہوئے اگر کبھی وہ مشیت ایزدی کو ذراسا بھی نظر انداز کرنے لگتا ہے یا سنت الٰہی سے اس کا طرز عمل معمولی سا بھی متصادم ہونے لگتا ہے تو وحی الٰہی آکر اسے روک دیتی ہے۔ مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ اللہ کا رسول دنیا میں خلق خدا کو اللہ کے راستے کی ہدایت دینے کے لیے آتا ہے اور پوری زندگی کا سرمایہ وہ اس راستے میں جھونک دیتا ہے۔ اس کی ہر قربانی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے راستے پر ڈال دے۔ ظاہر ہے ایمان کی یہ حرص اپنے قریبی عزیزوں کے بارے میں اور زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر اللہ کے نبی کا باپ یا کوئی قریبی عزیز کفر کی حالت میں مرجاتا ہے تو اس کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرنا بظاہر ایک کار خیر اور بہت بڑی نیکی ہے جو سراسر پیغمبر کی قلبی رقت اور خلق خدا سے گہری محبت کا نتیجہ ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے روک دیا کیونکہ اس کی موت کفر کی حالت میں ہوئی اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ کافر چاہے اللہ کے رسول کا باپ کیوں نہ ہو وہ اس کی مغفرت کبھی نہیں فرماتا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اللہ کا نبی چونکہ دینی حمیت اور محبت الٰہی کا کامل نمونہ ہوتا ہے اور ایک کافر کے لیے دعائے مغفرت چاہے وہ اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو محبت الٰہی اور دینی حمیت کے خلاف ہے۔ اس لیے پیغمبر کو اس سے روک دیا جاتا ہے حالانکہ کافر کے لیے دعائے مغفرت کرنا نہ گناہ ہے اور نہ کوئی غلط بات۔ اسی طرح یہاں بھی ہر حالت میں تبلیغ و دعوت سے کام لینا سراسر ایک نیکی ہے۔ لیکن اللہ نے اپنے دین کی نشر و اشاعت کے لیے جس حکمت تبلیغ کو پسند فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ جس اسلامی حمیت کا حکم دیا ہے یہ چیز چونکہ اس سے میل نہیں کھاتی۔ اس لیے نبی کریم ﷺ کو اس سے روک دیا گیا۔ لیکن کافروں کے ایمان لانے کے لیے آپ کی طبیعت میں جو شدید حرص پائی جاتی تھی اور آپ ان کو جہنم کے عذاب سے بچانے کے لیے جس طرح شدید خواہش مند رہتے تھے اس کی وجہ سے اس بات کا امکان ضرور تھا کہ شیطان اسی حرص اور محبت کو بڑھا کر اور اسے غلبہ دے کر آپ کی نگاہوں سے اس حکم کو اوجھل کردیتا اور یہ بات ظاہر ہے کہ اس کا مبدأ اور اس کا سبب سراسر تبلیغ و دعوت کا جوش ہے ‘ حکمِ الٰہی کی مخالفت نہیں اور نہ حکم الٰہی کو بھول جانا ہے۔ اس لیے اس کو احکام خداوندی کے بھول جانے پر محمول کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ لیکن اسی ضمن میں ایک اور بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے جسے علما نے کھول کر بیان کیا ہے کہ جہاں تک اللہ کے نبی کے بھول جانے کا تعلق ہے اس کا ہر وقت امکان ہے۔ البتہ ! اس کے بھولنے میں اور ہمارے بھولنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہ اگر بھولتا ہے تو اس کے پیچھے حکمت الٰہی کارفرما ہوتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ بھولتا نہیں بلکہ اس کو بھلایا جاتا ہے ‘ یہ بتانے کے لیے کہ ہر طرح کی بھول چوک سے پاک اور مبرا صرف اللہ کی ذات گرامی ہے۔ اللہ کے نبی چونکہ انسان ہوتے ہیں۔ اس لیے قدرت انھیں کبھی کبھی خود بخود بھلاتی ہے تاکہ لوگ کہیں ان کو خدا نہ بنا بیٹھیں۔ البتہ ! ان کا بھولنا یا قدرت کی طرف سے ان کا بھلانا سراسر وقتی ہوتا ہے۔ ہم جب بھولتے ہیں تو کبھی ہمیں دوبارہ ہوش آتا ہے اور کبھی نہیں آتا اور کبھی بھول ہی کو ہم اپنی زندگی کا سرمایہ بنا لیتے ہیں اور اگر کبھی بھول سے نکلتے ہیں تو بہت کچھ کھو دینے کے بعد۔ لیکن اللہ کے نبی کو اگر کبھی ایسا موقع پیش آتا ہے تو آسمان سے جبرائیل اترتے ہیں اور فوراً آکر آپ کی بھول کی اصلاح کرتے ہیں یعنی آپ کا بھولنا اس لیے تھا تاکہ لوگ آپ کو خدا نہ سمجھیں۔ لیکن وحی کا نازل ہو کر آپ کی بھول کی اصلاح کردینا یہ اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ ساری دنیا بھی اگر کسی بات کو بھول جائے تو اللہ ان کو یاد دلانے کی کبھی ذمہ داری قبول نہیں فرماتے۔ لیکن اللہ کا رسول اگر بھول جائے تو اولاً تو وہ بھولنا احکام خداوندی میں نہیں ہوتا بلکہ آداب اسلامی میں ممکن ہے لیکن اس کی بھی فوراً آکر اصلاح کردی جاتی ہے اور اسی سے پیغمبر اور غیر پیغمبر میں فرق واضح ہوتا ہے اور یہ بات نمایاں ہوجاتی ہے کہ اللہ کا نبی معصوم ہوتا ہے۔ اس سے کبھی کسی لغزش کا صدور نہیں ہوتا اور اگر کسی اجتہادی معاملے میں کوئی لغزش ہوجائے تو اللہ اس پر اسے باقی نہیں رہنے دیتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نبوت کے بعد کسی نبی کا غلطی کرنے یا احکام شریعت میں بھول جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ کا نبی تو نبوت سے پہلے بھی معصوم ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات ہمیشہ اس کی حفاظت فرماتی ہے اگر کبھی اس کی طبیعت میں ایسی کوئی خواہش پیدا ہو جو بظاہر پروردگار کو پسند نہ ہو تو پروردگار ایسے کام کو اس سے صادر نہیں ہونے دیتا۔ ارباب سیر نے لکھا ہے کہ آنحضرت کے لڑکپن کے زمانے میں جبکہ آپ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ حضور ﷺ خود فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے پتہ چلا کہ مکہ معظمہ میں کوئی ایسی تقریب ہو رہی ہے جس میں باہر سے قصہ گو حضرات کو بلایا جا رہا ہے۔ عرب میں تفریح کے لیے مختلف تقریبات میں جہاں موسیقی اور گانے بجانے کا اہتمام ہوتا تھا وہیں کہانیاں سنانے والوں کو قسم قسم کی کہانیاں سنانے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ جیسے آج کل ہمارے یہاں سٹیج شو یا اوپن ایئر تھیٹر چلتے ہیں اور اس میں مختلف ڈرامے دکھائے جاتے ہیں یا مختلف تمثیلی پروگرام کیے جاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ساتھ بکریاں چرانے والے ساتھی سے کہا کہ تم اگر میری بکریوں کا خیال رکھو تو میں جا کر اس تقریب میں شامل ہوجاؤں ! اس نے شوق سے اجازت دے دی۔ آپ مکہ معظمہ اپنے دوستوں کے ساتھ اس تقریب میں شامل ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو ابھی یہ تقریب شروع نہیں ہوئی تھی ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نیند طاری فرما دی اور جب میں نیند سے بیدار ہوا تو رات گزر چکی تھی اور سورج کی دھوپ میرے چہرے پر پڑ رہی تھی اور وہاں کسی تقریب کا نام و نشان نہ تھا اور لوگ نجانے کب سے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ یہ تو حضور کے بچپن کا واقعہ ہے لیکن آپ کے بھرپور جوانی کے دنوں میں جبکہ بیت اللہ کی تعمیر ہو رہی تھی اور آپ بھی دوسرے اشرافِ قریش کے ساتھ پتھر اٹھا رہے تھے چونکہ کندھے پر کرتے کے سوا کوئی اور کپڑا نہ تھا اس لیے پتھر کی رگڑ سے کندھے کے چھل جانے کا اندیشہ تھا۔ حضرت عباس ( رض) آپ کے چچا نے آپ سے کہا کہ بھتیجے سب لوگوں نے اپنے تہمند اتار کر اپنے کندھوں پر تہہ کر کے رکھے ہوئے ہیں تاکہ ان کے کندھوں پر زخم نہ آئیں تم بھی اپنا تہمند اتار کر کندھے پر رکھ لو عرب چونکہ تہمند باندھتے اور اس کے اوپر لمبا کرتہ پہنتے تھے۔ تہمند اتارنے سے اگرچہ ستر نہیں کھلتا تھا لیکن ستر کھل جانے کا امکان تو ہر وقت تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ آپ کے چچا نے آگے بڑھ کر آپ کا تہمند کھینچنے کی کوشش کی۔ محض اس تصور سے کہ ہوسکتا ہے اس طرح میرا ستر کھل جائے آپ شرم و حیا کے گہرے جذبات کے زیر اثر بےہوش ہو کر گرگئے۔ جیسے ہی آپ گرے حضرت عباس صنے گھبرا کر آپ کا تہمند چھوڑ دیا اور بعض روایات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر حضور نے کسی فرشتے کو بھی دیکھا۔ اس سے آپ اندازہ فرما لیجئے کہ اللہ کے نبی کی نبوت سے پہلے بھی کس طرح حفاظت کی جاتی ہے اور کس طرح عصمت ایک جزو غیر منفک کی طرح اس کے ساتھ رہتی ہے تو نبوت کے بعد تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ سے کبھی کسی ایسے عمل یا فکر کا صدور ہو جسے خلاف شریعت کہا جاسکتا ہے۔ البتہ ! جیسے کہ عرض کیا کہ اجتہادی لغزش کی اصلاح بھی وحی الٰہی کے ذریعے کردی جاتی ہے۔ بعض دفعہ آپ سے کوئی بھول اس لیے کرائی جاتی ہے تاکہ احکام شریعت کی وضاحت ہو سکے۔ یوں تو زبانی بھی احکام شریعت بیان ہوسکتے ہیں اور حضور بیان فرماتے بھی تھے۔ لیکن جن احکام کا تعلق عمل سے زیادہ گہرا ہو اسے عمل کے ذریعے ہی بیان کرنا زیادہ موثر ہوتا ہے۔ میں اس کی صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے ظہر یا عصر کی چار رکعت نماز پڑھائی لیکن دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ پیچھے نماز پڑھنے والے تمام صحابہ نے یقینا محسوس کیا ہوگا کہ چار رکعت کی بجائے آپ نے دو رکعت کیوں پڑھائی لیکن پوچھنے کی ہمت اس لیے نہ کرسکے کہ ایک تو ادب مانع تھا اور دوسری یہ بات کہ ہوسکتا ہے کہ یہ نماز چار کی بجائے دو رکعت کردی گئی ہو۔ لیکن صحابہ کرام میں ایک صحابی جو ہاتھوں میں معمولی طوالت کی وجہ سے زوالیدین کے نام سے معروف تھے وہ اٹھے اور انھوں نے ادب سے عرض کیا۔ اَقُصِرَتِ الصلوٰۃ ام نسیت یا رسول اللہ ” اے اللہ کے رسول کیا نماز مختصر ہوگئی یا آپ بھول گئے “۔ آپ نے فرمایا کل ذالک لم یکن ” کچھ بھی نہیں ہوا “ انھوں نے عرض کی کہ آپ نے دو رکعت نماز پڑھائی ہے۔ آپ نے صحابہ کی طرف دیکھا انھوں نے تائید کی ‘ تب حضور ﷺ نے کھڑے ہو کر مزید دو رکعت نماز پڑھا کر چار رکعت کی نماز مکمل فرما دی۔ یہ احکام کا ابتدائی زمانہ تھا جبکہ نماز میں بات کرلینا جائز تھا اور اس سے نماز ٹوٹتی نہیں تھی۔ پھر رفتہ رفتہ نماز کے احکام مکمل ہوتے گئے اور نماز کی ایک خاص تہذیب ہوتی گئی اور اس نے وہ صورت اختیار کی جیسے اب ہم نماز پڑھتے ہیں۔ اس واقعہ سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بھول کے ذریعے مسلمانوں کو یہ طریقہ سمجھایا کہ اگر تم کبھی چار رکعت کی بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دو تو پھر تمہیں کیا کرنا چاہیے اور اس میں ایک تسلی بھی ہے کہ اگر تم نماز میں بھول جاؤ تو یہ انسانی فطرت ہے اس پر دل گرفتہ ہونے کی ضروت نہیں۔ دیکھو ہم نے اپنے رسول کو بھلایا تاکہ تمہیں مسئلہ بھی معلوم ہوجائے اور تمہارے اطمینان کا باعث بھی ہو۔ اگر یہ نمونہ صحابہ کے سامنے نہ ہوتا تو میرا گمان یہ ہے کہ جب کبھی وہ نماز میں بھولتے تو نجانے کب تک اپنی غفلت پر اللہ کے سامنے روتے اور مغفرت طلب کرتے۔ اللہ کی وہ رحمت جس کی چادر ہمیشہ بندوں پر تنی رہتی ہے اس کی چند در چند شکلیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ اگلی آیت کریمہ سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ تبلیغ و دعوت کی یہ حکمت صرف آنحضرت ﷺ ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمان اس کے مخاطب ہیں۔ البتہ تبلیغ و دعوت کی فکر سے وہ کبھی بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَمَا عَلَی الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّلٰکِنْ ذِکْرٰی لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ ۔ (الانعام : 69) ” جو اللہ سے ڈرتے ہیں ‘ ان پر ان لوگوں کے حساب کی کوئی ذمہ داری نہیں ‘ بس یاد دہانی کردینا ہے ‘ تاکہ وہ بھی ڈریں “۔ اس آیت کریمہ میں ایک تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ گزشتہ آیت کریمہ میں واحد کے صیغے سے خطاب ‘ اگرچہ آنحضرت ﷺ و تھا۔ لیکن کلام کا رخ مسلمانوں کی طرف تھا اور اس آیت میں مسلمانوں کے لیے جمع کے صیغے لا کر اس بات کو واضح کردیا گیا ہے تاکہ یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ یہ ہدایت صرف آنحضرت ﷺ کو دی جا رہی ہے۔ لیکن اصلاً جس پر زور دیا جا رہا ہے وہ دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ اس دور کے مسلمان یعنی صحابہ کرام اس بات سے شدید لرزاں و ترساں رہتے تھے کہ اگر یہ کافر لوگ مسلمان نہیں ہوتے ‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تبلیغی کاوشوں میں کوئی کمزوری ہے اور اگر ایسا ہے تو یقینا کل کو یعنی قیامت کے دن ہم سے اس کا سوال ہوگا تو پھر ہم اس کا کیا جواب دے سکیں گے۔ اس خیال کے باعث جہاں وہ تبلیغی کاوشوں میں ہر وقت اضافے کی فکر میں رہتے تھے اور اسے زیادہ سے زیادہ موثربنانے کی کوشش کرتے تھے ‘ وہیں وہ اللہ سے اس کے لیے استغفار بھی کرتے رہتے تھے اس لیے انھیں تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کی تبلیغی مساعی میں بفضلہ تعالیٰ کوئی کمی نہیں ‘ کمی جو کچھ ہے وہ کافروں کی طلب میں ہے۔ جب تک ان کے اندر ایمان کی طلب پیدا نہیں ہوتی اور جب تک ان کے سامنے قیامت کی جواب دہی کا احساس توانا نہیں ہوگا اور جب تک وہ اللہ کے عذاب سے ڈرنا شروع نہیں کریں گے اور جب تک وہ اپنے انجام کی فکر نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کی مساعی مثمر نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے آپ کو اس بات کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کہ کل کو اللہ تعالیٰ آپ سے یہ سوال کریں گے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لائے تھے۔ ان کے ایمان نہ لانے کا سوال ان سے ہوگا اور وہی اس پاداش میں پکڑے جائیں گے۔ دوسری بات جس پر زور دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ یقینا ان کے ایمان کے بارے میں آپ سے سوال تو نہیں ہوگا لیکن کسی صورت بھی آپ کو اس حکمت تبلیغ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو گزشتہ آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے۔ البتہ ! یہ بات پیش نظر رہے کہ نصیحت کرنا یعنی تبلیغ و دعوت سے کام لینا ‘ یہ بہرحال آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بارے میں کل کو آپ سے ضرور باز پرس ہوگی۔ اس لیے آپ برابر اس فکر میں رہیں کہ جب بھی آپ کو سازگار موقع ملے اور آپ اس کی امید کرسکیں کہ اب ان سے بات کہی جاسکتی ہے تو آپ اس سے ہمیشہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ یہاں شاید ایک بات کی وضاحت ضروری ہو وہ یہ ہے کہ یہاں ذکرٰی کا لفظ آیا ہے جس کا معنی ہے نصیحت۔ اس کا ایک واضح مفہوم یہ ہے کہ اگر لوگ تبلیغ و دعوت پر کان نہ دھریں اور اسے قبول کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہ ہوں تو یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ پھر آپ کو اس فکر میں پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ میں ان کو کس طرح بدلوں اور کس طرح ان کو صاحب ایمان بنا دوں کیونکہ وہ وقت کی غالب قوت ہیں اور میں ان کو زور سے تو بدل نہیں سکتا۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے موقع پر ان کے تعاقب میں لگے رہنا اور بہرصورت ان کو دعوت دیتے رہنا یہ آپ کی ذمہ داری نہیں بلکہ آپ کا کام یہ ہے کہ جب بھی ناموافق حالات میں آپ کے لیے امید کی کوئی کرن روشن ہو اس میں آپ نصیحت کرنے کو کبھی نہ بھولیں۔ لیکن بعض لوگوں نے اس کا یہ مفہوم لے لیا ہے کہ اپنے حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنا اور حکومت کو غلط پالیسیوں سے روکنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان تمام ذرائع سے کام لینا جو حکومت کو مجبور کرنے کے لیے آج کے دور میں مروج ہیں اور اگر حکومت ظلم پر اتر آئے تو اس کے سامنے تن کے کھڑے ہوجانا اور اس راستے میں آنے والی مصیبتوں کو برداشت کرنا اس کی ضرورت نہیں بس آپ نے لکھ کر یا بول کر نصیحت کردی ہے تو آپ نے اپنا فرض ادا کردیا۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں زندگی کے بعض دوائر ایسے ہوتے ہیں جس میں اگر کوشش کی جائے تو قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی خیر کو غالب قوت بنایا جاسکتا ہے۔ اگر کہیں بھی مسلمانوں کے کسی گروہ کو ایسی ہی کسی جگہ میں غالب قوت حاصل ہے اور پھر وہاں بھی یہ سمجھنا کہ بس نصیحت کردینا کافی ہے اور اس سے آگے بڑھ کر کچھ کرنا وہ ہماری ہرگز ذمہ داری نہیں اور اس آیت کریمہ سے اس بات کو نکالنا یہ سراسر تحریف معنوی ہے۔ مثلاً ایک باپ کو اپنے گھر میں ایک غالب حیثیت حاصل ہے وہ اپنے بچوں کو اگر اسلامی احکام پر عمل کرنے کے لیے مجبور کرنے کی بجائے صرف نصیحت پر اکتفا کرتا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری سے تساہل برت رہا ہے۔ اسی طرح کسی بھی ادارے میں اگر شریعت اسلامی کے بنیادی احکام کی مخالفت ہو رہی ہے اور اس کا سربراہ صرف نصیحت پر اکتفا کر کے بیٹھ جاتا ہے لیکن اگر اس کے ادارتی احکام کی مخالفت ہوتی ہے تو اس میں وہ طاقت استعمال کرتا ہے تو یہ وہ طرز عمل ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ مختصر یہ کہ حالات اجازت نہ دیتے ہوں اور بگاڑ اس حد تک بڑھ جائے کہ خیر کی قوت مغلوب ہوجائے اور کسی سطح پر بھی خیر کو غلبہ میسر نہ آسکے تو پھر تو یقینا مسلمانوں کی ذمہ داری صرف نصیحت کرنا ہے اور خود شریعت اسلامی کی پابندی ہے لیکن اگر کہیں بھی قدم اس سے آگے بڑھایا جاسکتا ہو اور وہ شرعی احکام اور اسلامی مزاج کے عین مطابق ہو تو پھر اس آیت کا سہارا لے کر اپنے آپ کو الائونس دینا یہ سراسر ذمہ درایوں سے فرار اختیار کرنا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں ایسے ہی کافر معاشرے بلکہ معاند معاشرے کے بارے میں ایک دوسرے پہلو سے ہدایات دی جا رہی ہیں۔
Top