Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 67
لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْتَقَرٌّ١٘ وَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ
لِكُلِّ : ہر ایک کے لیے نَبَاٍ : خبر مُّسْتَقَرٌّ : ایک ٹھکانہ وَّسَوْفَ : اور جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے
ہر بات کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور تم عنقریب جان لو گے
لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسْتَقَرٌّز وَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۔ (الانعام : 67) (ہر بات کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور تم عنقریب جان لو گے) دنیا کا ہر کام اللہ تعالیٰ جل جلالہٗ کے علم اور مشیت سے ہوتا ہے نَبَائٌکسی اہم حادثہ کی خبر کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد اس عذاب کی خبر ہے جو قرآن دے رہا ہے۔ مُسْتَقَر موضع استقرار اور وقت استقرار دونوں مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی مصدر کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی کام اتفاق سے نہیں ہوتا بلکہ ہر کام اور ہر واقعہ اللہ کے علم اور اس کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا واقعہ چاہے وہ پتہ گرنے کا ہو یا ایٹم بم گرنے کا ‘ اللہ کے علم سے باہر نہیں۔ پیچھے ہم پڑھ چکے ہیں کہ پروردگار فرماتا ہے کہ جنگل میں کوئی پتہ نہیں گرتا ‘ مگر اللہ اسے جانتا ہے اور کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جو اللہ کے علم میں نہ ہو زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ نہیں گرتا مگر اللہ کی کتاب علم میں وہ محفوظ ہوتا ہے۔ جس طرح دنیا کا ہر واقعہ اور دنیا کی ہر بات اللہ کے علم میں ہے اسی طرح اس کی قدرت میں بھی ہے۔ اس لیے اللہ خوب جانتا ہے کہ کسی قوم پر عذاب آنا چاہیے یا نہیں اور اگر عذاب آنا ہے تو اس کا وقت کونسا ہے اور اس کی جگہ کونسی ہے کیونکہ دنیا کے ہر واقعہ کا وقت اور اس کی جگہ اللہ کی تقویم میں پہلے سے طے ہے۔ اے مشرکینِ مکہ تم پر اگر ابھی تک عذاب نہیں آیا اور تم مجھ سے بار بار اس کا مطالبہ کر رہے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عذاب لانا میرا کام نہیں کیونکہ میں اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں ‘ دنیا میں عذاب لانے کے لیے تو نہیں آیا۔ میری تمام مساعی کا حاصل تمہیں عذاب سے بچانا ہے۔ لیکن تم اگر اپنی کرتوتوں سے مسلسل عذاب کو دعوت دے رہے ہو تو یقینا وہ اللہ کے علم میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ اس کے آنے کا وقت کیا ہے۔ لیکن تمہیں اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ اگر علم خداوندی میں اس کا فیصلہ ہوچکا ہے تو اس کا آنا اٹل ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ اب رہی یہ بات کہ وہ وقت کونسا ہوگا تو اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ تمہیں اللہ نے جو مہلت عمل دے رکھی ہے جب تک اس کی آخری گھڑی نہیں آجاتی یعنی تمہارے اندر جو قدرت نے ایمان قبول کرنے کی جو استعداد رکھی ہے جب تک اس کا آخری ٹان کہ نہیں ٹوٹ جاتا اس وقت تک عذاب نہیں آئے گا۔ لیکن جیسے ہی وہ مقررہ گھڑی پہنچ جائے گی ‘ جس میں تم اپنی مہلت عمل کھو بیٹھو گے تو پھر تمہارے عذاب کے آنے میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔ سلسلہ بیان جہاں تک پہنچ چکا ہے ‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کی دعوتی اور تبلیغی کاوشیں ایک خاص مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔ ایک طرف تو آنحضرت ﷺ اپنے جانثاروں کی معیت میں تبلیغ و تذکیر کے بھرپور عمل سے مکہ معظمہ میں رہنے والے لوگوں کو دولت ایمان سے منور کردینا چاہتے ہیں اور آپ کی شدید خواہش ہے کہ مکہ معظمہ اللہ کا گھر اور مہبط وحی ہونے کی وجہ سے اس کا حق رکھتا ہے کہ یہ مرکز اسلام بنے اور یہیں سے اسلام کا نور پوری دنیا میں پھیلے اور وہ اسی صورت ممکن ہے کہ یہاں کے رہنے والے اسلام کی دعوت قبول کریں اور اس کے دست وبازو بن کر اس تحریک کو پوری دنیا میں پھیلا دیں اور دوسری طرف مشرکینِ مکہ کا حال یہ ہے کہ وہ دعوت و تبلیغ پر تو کیا کام کریں گے وہ تو عذاب کی دھمکیوں کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس دعوت اور اس دین کا مذاق اڑانا ایک معمول بنا لیا ہے۔ حضور جس کسی مجلس میں بھی جاتے ہیں اور جس قبیلے کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہیں۔ آپ کو نہایت ناگوار صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور بعض دفعہ ایسی ناگفتنی باتیں سننی پڑتی ہیں کہ جن کا برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چناچہ اسی صورتحال کے حوالے سے آنحضرت اور مسلمانوں کو خاص ہدایات دی جا رہی ہیں۔ ارشاد فرمایا :
Top