Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 59
وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَعِنْدَهٗ
: اور اس کے پاس
مَفَاتِحُ
: کنجیاں
الْغَيْبِ
: غیب
لَا
: نہیں
يَعْلَمُهَآ
: ان کو جانتا
اِلَّا
: سوا
هُوَ
: وہ
وَيَعْلَمُ
: اور جانتا ہے
مَا
: جو
فِي الْبَرِّ
: خشکی میں
وَالْبَحْرِ
: اور تری
وَمَا
: اور نہیں
تَسْقُطُ
: گرتا
مِنْ
: کوئی
وَّرَقَةٍ
: کوئی پتا
اِلَّا
: مگر
يَعْلَمُهَا
: وہ اس کو جانتا ہے
وَلَا حَبَّةٍ
: اور نہ کوئی دانہ
فِيْ
: میں
ظُلُمٰتِ
: اندھیرے
الْاَرْضِ
: زمین
وَلَا رَطْبٍ
: اور نہ کوئی تر
وَّلَا
: اور نہ
يَابِسٍ
: خشک
اِلَّا
: مگر
فِيْ
: میں
كِتٰبٍ
: کتاب
مُّبِيْنٍ
: روشن
اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اس کے سوا ‘ ان کو کوئی نہیں جانتا اور بر و بحر میں جو کچھ ہے ‘ اس سے وہ واقف ہے۔ کوئی پتہ نہیں گرتا ‘ مگر وہ اس کو جانتا ہے اور نہ زمین کی تہوں میں کوئی دانہ گرتا ہے اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر وہ ایک روشن کتاب میں مندرج ہے
ارشاد فرمایا : وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ ط وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ۔ (الانعام : 59) (اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اس کے سوا ‘ ان کو کوئی نہیں جانتا اور بر و بحر میں جو کچھ ہے ‘ اس سے وہ واقف ہے۔ کوئی پتہ نہیں گرتا ‘ مگر وہ اس کو جانتا ہے اور نہ زمین کی تہوں میں کوئی دانہ گرتا ہے اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے ‘ مگر وہ ایک روشن کتاب میں مندرج ہے) غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس آیت کریمہ میں مفاتح کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ مفتح اور مفتح دونوں کی جمع ہوسکتی ہے پہلی صورت میں اس کا معنی ہوگا خزانے اور دوسری صورت میں اس کا معنی ہوگا خزانوں کی کنجیاں یا چابیاں۔ بات ایک ہی ہے کہ اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں یا غیب کے خزانوں کی کنجیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس کے پاس کنجیاں ہوں گی خزانے بھی اسی کے پاس ہوں گے۔ پھر یہاں عِنْدَہٗ کے لفظ کو مقدم کر کے قواعد عربیت کے مطابق حصر اور اختصاص کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے یعنی ان خزائن غیب کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال مثلاً حیات ‘ علم ‘ قدرت ‘ سمع ‘ بصر ‘ ارادہ ‘ مشیت ‘ خلق اور رزق وغیرہ بہت ساری ہیں۔ وہ ان تمام صفات میں ایسا کامل ہے کہ اس کے سوا کوئی مخلوق کسی صفت میں اس کے برابر نہیں ہوسکتی۔ لیکن ان صفات میں دو صفتیں ایسی ہیں جن پر قرآن کریم نے سب سے زیادہ زور دیا ہے ایک صفت علم اور دوسری صفت قدرت ‘ اس کا علم تمام موجود اور غیر موجود ظاہر اور مخفی بڑے اور چھوٹے ہر ذرہ ذرہ پر حاوی اور محیط ہے۔ اسی طرح اس کی قدرت بھی ایک ایک چیز پر حاوی ہے۔ ان دونوں صفتوں کو قرآن کریم نے بار بار اس لیے بیان کیا ہے کہ اگر کوئی آدمی ان صفتوں کا یقین اور استحضار اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ کبھی گناہ کے قریب نہیں جاسکتا۔ اگر ایک آدمی کو اس بات کا یقین ہوجائے اور یہ یقین ہر وقت اس کے دل و دماغ میں مستحضر رہے کہ میرا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اللہ کے علم میں نہ ہو میں ہزار تاریکوں اور تنہائیوں میں چھپ کر بھی کوئی کام کروں لیکن میرا اللہ اس سے واقف ہے۔ میں برابر اس کی نگاہوں میں ہوں۔ اس کے علم سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح اس کی نافرمانی کرنے والا ایک عام فرد ہو یا کوئی وقت کا شہنشاہ یا وہ نافرمانی کرنے والے چند آدمی ہوں یا دنیا بھر کے لوگ اللہ کی قدرت ایسی بےپناہ ہے کہ اس کی گرفت اور پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ شہنشاہ بھی اس کے سامنے اسی طرح عاجز ہیں جیسے ایک عام بےیارو مددگار شخص اور جسطرح اس کی قدرت ایک آدمی کی گرفت کرسکتی ہے اسی طرح ساری دنیا کو اس کے لیے پکڑنا آسان ہے۔ جب اس کی ان دو صفات کا علم کسی کے رگ و پے میں اتر جاتا ہے تو پھر نہ تو وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور نہ کبھی وہ غیر خدا سے ڈرتا ہے اسے چونکہ اس بات کا یقین ہے کہ اللہ میرے حال سے واقف ہے اور میں اس کے دین کی خاطر بڑی قوتوں سے ٹکرا رہا ہوں اور اسے یقین ہے کہ اللہ سے بڑھ کر کسی کی قدرت نہیں تو پھر وہ وقت کے فراعنہ اور نماردہ کو بھی پتلیوں سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ بڑی بڑی حکومتوں کو ڈھلتے ہوئے سایوں کی طرح دیکھتا ہے۔ مفاتح الغیب کا مطلب اس آیت میں مفاتح الغیب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی غیب کے خزانے اس لیے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ غیب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو ابھی وجود میں نہیں آئیں یا وجود میں تو آچکی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر کسی کو مطلع نہیں ہونے دیا۔ پہلی قسم کی مثال وہ تمام حالات و واقعات ہیں جو قیامت سے متعلق ہیں یا کائنات میں آئندہ پیش آنے والے واقعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کوئی ستارہ یا سیارہ کب کیا شکل اختیار کرے گا۔ اس کی گردشیں اور اس کے آثار کائنات میں کیا نتائج پیدا کریں گے۔ یا سائنسدانوں کے بقول کائنات جو برابر وسعت پذیر ہوتی رہتی ہے اس کا انجام کیا ہوگا کیونکہ بقول اقبال ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں یا اس طرح کی باتیں کہ کون کب اور کہاں پیدا ہوگا ؟ کیا کیا کام کرے گا ؟ کتنی عمر ہوگی ؟ عمر میں کتنی دفعہ سانس لے گا ؟ کتنے قدم اٹھائے گا ؟ کہاں مرے گا ؟ کہاں دفن ہوگا ؟ وغیرہ۔ اور دوسری قسم کی مثال وہ حمل ہے جو عورت کے رحم میں وجود تو اختیار کرچکا ہے لیکن اس کے تغیرات سے کوئی واقف نہیں نہ اس کی جبلتوں سے کوئی آگاہ ہے، نہ کوئی یہ جانتا ہے۔ وہ کتنی عمر لے کر آئے گا شقی ہوگا یا سعید ہوگا ‘ نیک خصلت ہوگا یا بد خصلت ہوگا ‘ اس طرح کی چیزیں وجود میں آجانے کے باوجود بھی مخلوق کے علم و نظر سے غائب ہیں۔ یہ جو تفصیل عرض کی گئی ہے اگر اس کو پیش نظر رکھا جائے تو مسئلہ علم غیب پر سطحی نظر میں جو شبہات عوام کو پیش آیا کرتے ہیں خود بخود ختم ہوجائیں۔ لیکن عام طور پر لوگ غیب کے لغوی معنی لیتے ہیں کہ جو چیز ہمارے علم و نظر سے غائب ہو خواہ دوسروں کے نزدیک اس کا علم حاصل کرنے کے ذرائع موجود ہوں ‘ اس کو بھی غیب کہنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں طرح طرح کے شبہات سامنے آتے ہیں مثلاً علمِ نجوم یا پامسٹری وغیرہ سے جو آئندہ واقعات کا علم حاصل کیا جاتا ہے یا کشف والہام کے ذریعے کسی شخص کو آئندہ واقعات کا علم ہوجاتا ہے یا مون سون کا رخ اور اس کی قوت و رفتار کو دیکھ کر موسمیات کے ماہرین ہونے والے باد و باراں کے متعلق پیشین گوئیاں کرتے ہیں اور ان میں بہت سی باتیں صحیح بھی ہوجاتی ہیں اور یہ سب چیزیں عوام کی نظر میں علم غیب ہوتی ہیں ‘ اس لیے آیت مذکورہ پر یہ شبہات ہونے لگتے ہیں کہ قرآن کریم میں تو علم غیب کو ذات خداوندی کی خصوصیت بتلایا گیا ہے اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ جواب واضح ہے کہ کشف والہام یا وحی کے ذریعہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندہ کو کسی آئندہ واقعہ کی اطلاع دے دی تو قرآنی اصطلاح میں وہ علم غیب نہ رہا۔ اسی طرح اسباب و آلات کے ذریعہ جو علم حاصل کیا جاسکے وہ بھی اصطلاح قرآنی کے لحاظ سے علم غیب نہیں جیسے محکمہ موسمیات کی خبریں یا نبض دیکھ کر مریض کے مخفی حالات بتلا دینا یا علم نجوم یا پامسٹری کی مدد سے کچھ اندازے کرلینا۔ خلاصہ یہ ہے کہ علم کے متعلق دو چیزیں حق تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہیں ‘ جن میں کوئی فرشتہ یا رسول یا کوئی دوسری مخلوق شریک نہیں ‘ ایک علم غیب ‘ دوسرے موجودات کا علم محیط ‘ اس آیت کریمہ کے پہلے جملہ میں پہلی خصوصیت کا بیان ہے عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَا اِلَّا ھُوَ اور بعد کے جملوں میں تمام کائنات و موجودات کے علم محیط کا ذکر اس طرح فرمایا کہ پہلے ارشاد ہوا وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہر اس چیز کو جو خشکی میں ہے اور جو دریا میں ہے۔ مراد اس سے کل کائنات و موجودات ہے۔ جیسے صبح و شام کا لفظ بول کر پورا زمانہ اور مشرق و مغرب کا لفظ بول کر پوری زمین مراد لی جاتی ہے۔ اسی طرح بر و بحر یعنی خشکی اور دریا بول کر مراد اس سے پورے عالم کی وسعتیں ہیں ‘ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ جل شانہٗ کا علم تمام کائنات پر محیط ہے۔ آگے اس کی مزید تشریح و تفصیل اس طرح بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا تمام کائنات پر احاطہ علمی صرف یہی نہیں کہ بڑی بڑی چیزوں کا اس کو علم ہو بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی مخفی سے مخفی چیز بھی اس کے علم میں ہے۔ فرمایا : وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا یعنی سارے جہاں میں کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اس کے علم میں نہ ہو ‘ مراد یہ ہے کہ ہر درخت کا ہر پتہ گرنے سے پہلے اور گرنے کے وقت اور گرنے کے بعد اس کے علم میں ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ جو پتہ درخت پر لگا ہوا ہے کتنی مرتبہ الٹ پلٹ ہوگا اور کب اور کہاں گرے گا اور پھر وہ کس کس حال سے گزرے گا ‘ گرنے کا ذکر شاید اسی لیے کیا گیا ہے کہ اس کے تمام حالات کی طرف اشارہ ہوجائے کیونکہ پتہ کا درخت سے گرنا اس کے نشو و نما اور نباتی زندگی کا آخری حال ہے ‘ آخری حال کا ذکر کر کے تمام حالات کی طرف اشارہ کردیا گیا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ یعنی ہر وہ دانہ جو زمین کی گہرائی اور اندھیری میں کہیں پڑا ہے ‘ وہ بھی اس کے علم میں ہے۔ پہلے درخت کے پتہ کا ذکر کیا جو عام نظروں کے سامنے گرتا ہے اس کے بعد دانہ کا ذکر کیا جو کاشتکار زمین میں ڈالتا ہے یا خود بخود کہیں زمین کی گہرائی اور اندھیری میں مستور ہوجاتا ہے ‘ اس کے بعد پھر تمام کائنات پر علم باری تعالیٰ کا حاوی ہونا تر اور خشک کے عنوان سے ذکر فرمایا اور فرمایا کہ یہ سب چیزیں اللہ کے نزدیک کتاب مبین میں لکھی ہوئی ہیں ‘ کتاب مبین سے مراد بعض حضرات مفسرین کے نزدیک لوح محفوظ ہے اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد علم الٰہی ہے اور اس کو کتاب مبین سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ جیسے لکھی ہوئی چیز محفوظ ہوجاتی ہے اس میں سہو و نسیان کی راہ نہیں رہتی ‘ اسی طرح اللہ جل شانہٗ کا یہ علم محیط صرف تخمینی نہیں بلکہ یقینی ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں کہ اس طرح کا علم محیط جس سے کائنات کا کوئی ذرہ اور اس کا کوئی حال خارج نہ ہو صرف ذات حق جل شانہٗ کے ساتھ مخصوص ہے۔ سورة لقمان میں ہے : اِنَّھَا اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِھَا اللہ ُ ط اِنَّ اللہ َ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ (لقمٰن : 16) (یعنی اگر کوئی دانہ رائی کے برابر ہو پھر وہ پتھر کے جگر میں پیوست ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں ہو اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرلیں گے ‘ بیشک اللہ تعالیٰ لطیف اور ہر چیز سے خبردار ہے) جس طرح اللہ تعالیٰ جنگل میں گرنے والے ایک ایک پتے کو اور زمین کی تاریکیوں میں گرنے والے ایک ایک دانے کو جانتا ہے اور ہر رطب و یابس اس کے علم میں ہے اور وہ اپنے علم کے مطابق اپنی قوت کاملہ سے ان کی دیکھ بھال اور نمود و پرداخت فرما رہا ہے اسی طرح انسانی جنگل میں پیدا ہونے والا ہر شخص اور موت سے ہمکنار ہو کر دانے کی طرح زمین کی وسعتوں میں سما جانے والا ہر آدمی اللہ کے علم میں ہے اور اس کی قدرت کاملہ برابر اس کی دیکھ بھال بھی کر رہی ہے اور اسے حیات و موت کے تسلسل سے گزار بھی رہی ہے۔ چناچہ اسی سلسلے میں اگلی آیت میں فرمایا :
Top