Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 57
قُلْ اِنِّیْ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ كَذَّبْتُمْ بِهٖ١ؕ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ یَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْ : بیشک میں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّيْ : اپنا رب وَكَذَّبْتُمْ : اور تم جھٹلاتے ہو بِهٖ : اس کو مَا عِنْدِيْ : نہیں میرے پاس مَا : جس تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کر رہے ہو بِهٖ : اس کی اِنِ : صرف الْحُكْمُ : حکم اِلَّا : مگر (صرف) لِلّٰهِ : اللہ کیلئے يَقُصُّ : بیان کرتا ہے الْحَقَّ : حق وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہتر الْفٰصِلِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
کہہ دو ! میں اپنے رب کی جانب سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے وہ چیز میرے پاس نہیں ہے ‘ جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے ہو اس کا فیصلہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے وہی حق کو واضح کرے گا اور وہ بہترین فیصلہ کرنے کہہ دو !
مشرکین مکہ کی جانب سے آنحضرت ﷺ سے نئے نئے مطالبات کیے جا رہے تھے۔ آنے والی آیت کریمہ میں انہی میں سے ایک مطالبے کا اشارۃً ذکر ہو رہا ہے اور نہایت موثر انداز میں اس کا جواب ارشاد فرمایا جا رہا ہے : قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ کَذَّبْتُمْ بِہٖ ط مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ ط اِنِ الْحُکْمْ اِلَّا لِلّٰہِ ط یَقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ ۔ (الانعام : 57) (کہہ دو ! میں اپنے رب کی جانب سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے۔ وہ چیز میرے پاس نہیں ہے ‘ جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے ہو۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہی حق کو واضح کرے گا اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے) رسول ﷺ کا کام اللہ کا پیغام کھول کر بیان کرنا ہے اس آیت کریمہ میں نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ چند باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ میں تمہاری اصلاح کے لیے اللہ کی طرف سے پیغمبر بن کے آیا ہوں اور تمہاری زندگی کی راہنمائی کے لیے اس نے مجھ پر جو کتاب اتاری ہے میں وہ بلا کم وکاست تم تک پہنچا رہا ہوں اور تمہاری ہدایت و اصلاح کے لیے جو کوشش بھی مجھ سے ممکن ہے ‘ میں اپنی ہمت سے بڑھ کر اسے ادا کر رہا ہوں۔ گویا میرے اور تمہارے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے وہ یہ ہے کہ تمہارے عقائد تمہارے معاملات اور تمہارے اخلاق میں جو فساد پیدا ہوچکا ہے میں اس نسخہ کیمیا سے کام لے کر جو اللہ نے مجھ پر اتارا ہے تمہاری اصلاح کی کوشش کر رہا ہوں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اس دعوت و تبلیغ یا اصلاح و ہدایت کے عمل میں تمہیں کسی بات پر اعتراض ہے یا تمہیں کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تو سنجیدگی سے اسے پیش کرو میں پوری متانت اور توجہ سے اسے واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ اپنی زندگی کی اصلاح کرلو اس سے تمہاری دنیا بھی بہتر ہوجائے گی اور آخرت میں بھی کامیاب و کامران ٹھہرو گے۔ تم بجائے میری بات پر توجہ دینے کے مجھ سے عذاب کا مطالبہ کرنے لگتے ہو اور کبھی نئی نئی نشانیاں دیکھنا چاہتے ہو حالانکہ کسی بات کو سمجھنے یا اس کو باور کرنے کے لیے بینات اور دلائل کی ضرورت ہوتی ہے میں تمہارے سامنے ایک سے ایک بڑھ کر بینہ پیش کرچکا ہوں۔ حتیٰ کہ میں تمہیں بتاچکا ہوں کہ میرے پیغمبر ہونے اور میری دعوت و تبلیغ کے برسر حق ہونے کی سب سے بڑی گواہی خود اللہ کی ذات ہے۔ اس نے اپنی یہ گواہی قرآن کریم کی صورت میں پیش فرمائی ہے اور یہ بات بھی دلائل سے واضح ہوچکی کہ قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی عقل کا اندھا ہی شک کرسکتا ہے۔ اب بجائے اس بینہ کو قبول کرنے اور اس پر غور کرنے کے تم نے صاف صاف اسے ماننے سے انکار کردیا اور جب بینہ ہی قابل تسلیم نہ ٹھہرا تو جس کے ثبوت کے لیے وہ بینہ آیا ہے وہ خود قابل تسلیم کیسے ٹھہرے گا۔ اس لیے تم نے میری یعنی اللہ کے رسول کی تکذیب کردی اور بار بار عذاب کا مطالبہ کرنے لگے کہ اگر تم واقعی اللہ کے نبی ہو تو اللہ کا عذاب ہمیں دکھائو اور تم اتنی بات نہیں سمجھتے کہ عذاب تو تباہی اور ہلاکت کا ذریعہ ہے اس کے آجانے کے بعد مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے اور یہ عذاب قوم کی کمر توڑ کے رکھ دینا ہے۔ لیکن تم نے اسے ایک مذاق سمجھ رکھا ہے اور بار بار اس کا مطالبہ کر رہے ہو اگر تم اس بات پر غور کرو تو شاید تمہیں اپنی نامعقولیت کا خود ہی احساس ہونے لگے۔ عذاب کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کرتا ہے دوسری بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ کہ تم عقل سے اس حد تک عاجز ہو اور یا شاید تم سنجیدگی سے سوچنا نہیں چاہتے کہ میں تمہارے سامنے اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ رسول کا کام رسالت یعنی اللہ کا پیغام پہنچانا ہے اور اس کی عطا کردہ بصیرت کے مطابق لوگوں کی اصلاح کرنی ہے۔ اس کے لیے رسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمہارے سامنے علمی استدلال ‘ اخلاقی بلندی اور عملی پاکیزگی سے اپنی بات اور اپنے مؤقف کو پوری طرح ثابت کرے اور اس میں کوئی کمی نہ رہے۔ رہی یہ بات کہ اگر تم اسے قبول نہیں کرتے ہو تو پھر تم پر خدا کا عذاب آتا ہے یا نہیں یہ اختیار تو صرف اللہ کا ہے۔ اللہ کا رسول تو دنیا میں عذاب لانے یا عذاب لانے کا اختیار لے کر نہیں آتا۔ چناچہ جس چیز کا اختیار میرے پاس نہیں اور جس کا میں نے دعویٰ بھی نہیں کیا۔ تم اس کا مطالبہ مجھ سے کیوں کرتے ہو میں تو اگر عذاب کا ذکر کرتا ہوں تو تمہارے سامنے تمہاری بھلائی اور تمہاری عافیت کے لیے سنت اللہ کو ذکر کرتا ہوں کہ پہلی قوموں کی تاریخ تمہارے سامنے ہے۔ دیکھ لو ان کی ہدایت کے لیے جب بھی رسول آئے اور انھوں نے جب ان کی تکذیب کی تو پھر اللہ کے عذاب نے انھیں تباہ کردیا۔ تم اللہ کی مملکت میں انہی کی طرح ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہو۔ تم بھی اگر اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی دعوت کی تکذیب کرو گے تو یقینا تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک ہوگا۔ میری اس بات کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ تم میری دعوت پر غور کرو اور اللہ کے عذاب سے ڈر کر اللہ کے سامنے عاجزی اور ایمان کا راستہ اختیار کرو لیکن تم بار بار مجھ ہی سے عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو۔ خود اندازہ کرو کہ یہ بات عقل کے کس قدر خلاف ہے۔ اس لیے کہ اپنی تمام خرابیوں کے باوجود تم اتنی بات تو سمجھتے ہو کہ کسی قوم کو مہلت عمل دینایا کسی قوم پر عذاب بھیجنا اور ان کو ہلاک اور تباہ کردینا اس کا تعلق سراسر ایک حکم اور اختیار سے ہے اور تم جانتے ہو کہ اس طرح کے ہر حکم اور اختیار کا مالک صرف اللہ ہے۔ میں تو اس کا فرستادہ ہوں میں خود بھی اسی کے حکم کا پابند ہوں۔ جب تک اس نے تمہیں مہلت عمل دے رکھی ہے میں پابند ہوں کہ تم تک اس کا دین پہنچائوں اور تم اس بات کے پابند ہو کہ میری دعوت کو غور سے سنو اور اسے قبول کرو۔ تیسری بات جس کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی رسول کسی قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے اور وہ قوم اس رسول کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے انکار اور تکذیب کا راستہ اختیار کرتی ہے تو کیا اس قوم کو یونہی چھوڑ دیا جائے اور وہ مسلسل تکذیب کرتی رہے اور آنے والی نسلیں ان کے اسی تکذیبی عمل کی وارث بنیں یا یہ ہونا چاہیے کہ اس قوم کو سزا کے طور پر تباہ کردیا جائے اور اس طرح حق کے حق ہونے کو واضح کر کے دنیا پر اس کی برتری اور سچائی کو ظاہر کردیا جائے۔ اگر پہلی صورت پر عمل کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کائنات کا کوئی حاکم نہیں یہ اپنے تئیں خود ہی پیدا ہوئی ہے اور اس میں رہنے والے خود رو پودوں کی طرح اپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں آزاد ہیں اور اگر واقع میں ایسا نہیں تو پھر اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تکذیب کرنے والی قومیں ہمیشہ کے لیے تکذیب میں آزاد نہیں چھوڑی جاتیں بلکہ ایک خاص حد تک پہنچ کر ان کی گرفت ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ خاص حد کیا ہے اور قوموں کے بارے میں اس طرح کے فیصلے کرنے کا اختیار کسے ہے ؟ اور کس کا علم اتنا وسیع ہے ؟ جو قوموں کے بارے میں اس طرح کے صحیح فیصلے کرسکتا ہے مشرکین مکہ کو یہ توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تم اپنی تمام تر جہالت کے باوجود اتنا تو سمجھتے ہو کہ یہ اختیار اور علم کی یہ وسعت اور پاکیزگی اللہ کی صفت ہے اس لیے یہاں آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ وہی حق کو واضح کرے گا۔ کیونکہ وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو ایک اور پہلو اور ایک مختلف انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔
Top