Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 53
وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا١ؕ اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح فَتَنَّا : آزمایا ہم نے بَعْضَهُمْ : ان کے بعض بِبَعْضٍ : بعض سے لِّيَقُوْلُوْٓا : تاکہ وہ کہیں اَهٰٓؤُلَآءِ : کیا یہی ہیں مَنَّ اللّٰهُ : اللہ نے فضل کیا عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْۢ بَيْنِنَا : ہمارے درمیان سے اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِاَعْلَمَ : خوب جاننے والا بِالشّٰكِرِيْنَ : شکر گزار (جمع)
اور اسی طرح ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے سے آزمایا ہے کہ وہ کہیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہمارے درمیان سے اپنے فضل کیلئے چنا کیا اللہ شکر گزاروں سے اچھی طرح واقف نہیں
ارشاد فرمایا : وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَھٰٓؤُلَآئِ مَنَّ اللہ ُ عَلَیْہِمْ مِّنْم بَیْنِنَا ط اَلَیْسَ اللہ ُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ ۔ (الانعام : 53) (اور اسی طرح ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے سے آزمایا ہے کہ وہ کہیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہمارے درمیان سے اپنے فضل کے لیے چنا کیا اللہ شکر گزاروں سے اچھی طرح واقف نہیں) اللہ کی رضا کا معیار سیم و زر اور دنیا کا ٹھاٹھ باٹھ نہیں بلکہ اس کی شکر گزاری ہے اس آیت کریمہ میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ ان کے ان تمام مطالبات کا سبب اور مسلمانوں کو بنظر حقارت دیکھنے کی وجہ ان کی یہ گمراہی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی فرد یا کسی قوم کی عظمت اور بڑائی کا سبب اس فرد یا اس قوم کی خوشحالی ہے جس کے پاس درہم و دینار اور سیم و زر کی بہتات ہے ان کی نگاہ میں وہ آدمی عزت والا اور بڑا ہے اور جس بیچارے کو نان شبینہ کے سوا کچھ میسر نہیں اور وہ زندگی کی گاڑی کو بڑی مشکل سے گھسیٹ رہا ہے وہ چاہے اپنے سیرت و کردار کے اعتبار سے کیسا بھی عظیم کیوں نہ ہو ان کے نزدیک وہ ایک معمولی اور ناقابل ذکر آدمی ہے۔ عزت اور ذلت ‘ عظمت اور نکبت کے انھوں نے یہ جو معیارات بنا رکھے تھے انہی کی وجہ سے وہ ان گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ وہ یہ بات کسی طرح سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ دولت آدمی کے لیے عزت کی علامت نہیں اور غربت آدمی کی ذلت کا نشان نہیں۔ یہ تو دنیا کی ضروریات ہیں اس سے عزت اور ذلت کا کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ لیکن انھوں نے اسی کو حقیقی معیار سمجھ کر اپنی تمام فلاسفی کی عمارت تعمیر کی تھی۔ اور یہی وہ بنیادی خرابی تھی جس نے مکہ کے معاشرے کو طبقات میں تقسیم کردیا تھا۔ قرآن کریم ان کی اس گمراہی کا ذکر کرتے ہوئے اس حقیقت کو منکشف فرما رہا ہے کہ امارت اور غربت، عزت اور ذلت کی علامتیں نہیں بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔ امیر اس لیے امیر نہیں کہ وہ اس کا حقدار ہے اور غریب اس لیے غریب نہیں کہ وہ اس کا سزاوار ہے بلکہ اللہ کی مشیت دونوں حوالوں سے کارفرما ہے وہ جس کو امیر بناتا ہے تو اس کی امارت اس کے لیے آزمائش ہوتی ہے اور جسے غربت سے دوچار کرتا ہے اسے غربت کے ذریعے آزماتا ہے۔ امیر کو مال و دولت دے کر آزمایا جاتا ہے کہ وہ اللہ کی بخشی ہوئی نعمت پا کر اس کا شکر گزار ‘ متواضع اور فرمانبردار بندہ بنتا ہے یا مغرور اور متکبر ہو کر اکڑنے والا ‘ اترانے والا ‘ غریبوں کو دھتکارنے والا اور خدائی نعمتوں کا اجارہ دار بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح ایک غریب آدمی کو جب وہ غربت دیتا ہے تو یہ دیکھنے کے لیے دیتا ہے کہ کیا وہ اپنی غربت پر صابر اور اپنی نان جویں پر قانع ‘ اپنی تقدیر پر راضی اور اپنے فقر میں خوددار ہے یا مایوس و دل شکستہ ہو کر پست ہمت ‘ بےحوصلہ ‘ تقدیر سے شاکی ‘ خدا سے برہم اور ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہ امتحان ہے جس میں امیر اور غریب دونوں کو مبتلا کیا جاتا ہے۔ جو اس امتحان میں پورا اترتا ہے وہ اللہ کے یہاں عزت پاتا ہے اور جو ناکام ہوتا ہے وہ ذلیل ہوجاتا ہے۔ رہی مال و دولت اس کا عزت اور ذلت سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا یہ تو ایک آزمائش ہے۔ اس آزمائش کے نتیجے میں جس نے تقویٰ کو پا لیا وہ عزت کا مستحق بن جاتا ہے اور جس نے تقویٰ کے برعکس زندگی گزاری اور ایمان و عمل کی بجائے درہم و دینار کی غلامی اختیار کرلی۔ دنیا چاہے اس کے بارے میں کچھ بھی سمجھے اللہ کی نگاہ میں وہ کسی طرح کی عزت کا مستحق نہیں ہوتا۔ آنحضرت ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں نہایت زور دار انداز میں فرمایا تھا کہ اے قریش کے لوگو ! تمہاری عزت و سطوت کے تمام جھوٹے دعوے آج میں اپنے قدموں تلے روندتا ہوں۔ آج کے بعد کسی عجمی کو کسی عربی پر ‘ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں ‘ سوائے تقویٰ کے۔ یہ ایک ایسا زلزلہ آسا اعلان تھا جس نے پوری انسانی تہذیب و ثقافت کو متاثر کیا۔ امراء نے اس حقیقت کو جان کر دولت کو اللہ کی امانت سمجھا۔ اس پر بھروسہ کرنے کی بجائے اسے خلق خدا کی خدمت اور مکارمِ اخلاق کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اور اپنی ذات کی کمزوریوں کو درہم و دینار کی اوٹ میں چھپانے کی بجائے اللہ کے تقویٰ سے آراستہ غریب اور پسے ہوئے طبقے اس نوید جاں فزا کے بعد نئی قوت سے سرشار ہو کر اٹھے اور انھوں نے اقدار انسانیت کو راہنما بنا کر دنیا میں ایک ایسی تاریخ مرتب کی جس پر قیامت تک اسلام اور مسلمان فخر کرتے رہیں گے۔ قریش کی جس گمراہی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا اثر یہیں تک محدود نہیں رہا کہ انھوں نے دولت دنیا کو صرف عزت و ذلت کا معیار سمجھا ہو بلکہ آگے بڑھ کر وہ ایک اور خباثت اور غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ کسی کے پاس سیم و زر کی بہتات اور دولت کی ریل پیل یہ اللہ کی نگاہ میں اس کے مقبول ہونے کی علامت ہے ‘ جب اللہ کسی سے خوش ہوتا ہے تو وہ اسے خوشحال کردیتا ہے اور جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اسے بدحال بنا کر دنیا کی تلخیوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی سمجھنے لگے کہ دولت دنیا چونکہ اللہ کی پسندیدگی کی علامت ہے اس لیے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہر خیر اور بھلائی کی بات وہ اللہ کی طرف سے جب عطا ہوتی ہے تو دولت مندوں کو ہوتی ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن اگر اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور اپنی نعمتوں سے کسی کو نوازے گا تو وہ اس کے وہ بندے ہوں گے جن کو اس نے دنیا میں خوشحالی عطا فرمائی تھی۔ رہے وہ لوگ جو دنیا میں تنگی اور ترشی سے گزارا کرتے رہے وہ آخرت میں بھی اسی سلوک کے مستحق سمجھے جائیں گے اور دنیا میں بھی کسی خیر اور بھلائی سے کبھی ان کا تعلق نہیں ہوسکتا۔ چناچہ اپنے اسی فرسودہ فلسفے سے استدلال کرتے ہوئے وہ مسلمانوں پر طعن توڑتے تھے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں اللہ نے جن پر احسان فرمایا ہے یعنی ان کو اپنے دین کی دولت سے نوازا ہے اور آخرت میں یہی لوگ کامیاب و کامران ہوں گے اور جنت کی نعمتیں ان کو عطا کی جائیں گی۔ اگر یہ لوگ کسی قابل ہوتے تو دنیا میں اللہ تعالیٰ ان کو اس طرح برے حالوں میں کیوں رکھتا۔ ان کی جسارتوں کا عالم یہ تھا وہ نبی کریم ﷺ سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کو بھی استہزاء کا نشانہ بناتے اور یہ کہتے کہ نبوت تو اللہ کا ایک بہت بڑا منصب ہے یہ تو کسی چھوٹے معمولی آدمی کو کبھی عطا ہونے والا نہیں اگر اللہ کی جانب سے نبوت آنا ہوتی تو یقینا مکہ کے رئوسا یا طائف کے امراء کو ملتی۔ تم ایک یتیم ‘ نادار اور غریب آدمی ہو تمہیں نبوت کیسے مل سکتی ہے۔ اصل بیماری وہی ہے کہ انھوں نے دنیا اور دولت دنیا کو عزت اور اللہ کی خوشنودی کا معیار سمجھا اور پھر اس سے نتائج نکالتے چلے گئے۔ پروردگار نے ان کی اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرمایا : اَلَیْسَ اللہ ُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ کیا اللہ تعالیٰ شکرگزار بندوں سے اچھی طرح واقف نہیں۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم نے دین کو دنیا پر قیاس کر کے یہ سمجھا ہے کہ جسے دنیا ملی ہے ظاہر ہے دین کا مستحق بھی وہی ہے حالانکہ خدا کا دین سونا ‘ چاندی یا ریشم اور مخمل نہیں ‘ جس کی کاٹھی اور جس کے جھول گدھوں ‘ خچروں ‘ گھوڑوں اور اونٹوں پر بھی نظر آجاتے ہیں۔ یہ تو آسمانی نعمت اور یزدانی رحمت ہے یہ صرف ان کا حصہ ہے جو ہرحال میں اپنے رب کے شکر گزار ہیں۔ جنھوں نے اللہ کی نعمتوں کی قدر کی ‘ جنھوں نے اپنی صلاحیتوں کا حق ادا کیا ‘ جنھوں نے اپنے کان کھلے رکھے ‘ جنھوں نے اپنی آنکھوں پر غرور کی پٹی نہیں باندھی اور جنھوں نے اپنے دلوں کو مردہ نہیں ہونے دیا۔ رہے وہ نابکار اور ناشکرے لوگ جنھوں نے خدا کی بخشی ہوئی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو اللہ ہی کے خلاف استعمال کیا ان کے لیے اس نعمت میں کوئی حصہ نہیں۔ دنیا نیک و بد دونوں کو مل جاتی ہے۔ یہ تو خزف ریزے ہیں جو کسی کے نصیب میں بھی ہوسکتے ہیں لیکن دین کی نعمت صرف انہی کو ملتی ہے جو اللہ کے شکرگزار بندے ہیں اور جن کا ظرف اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔ جن کی زندگی صرف کھانے پینے ‘ نائو نوش ‘ اوڑھنے پہننے اور ضروریاتِ زندگی تک محدود ہے اور ان کی ساری اولوالعزمیاں عزت اور لذت کے حصول میں صرف ہوتی ہیں وہ بہتر حیوانی زندگی کو مقصد انسانیت سمجھتے ہیں۔ انھیں دنیا تو مل سکتی ہے لیکن ایسے انسانیت سے بیخبر لوگوں کو دین نصیب نہیں ہوتا۔ دین کے لیے حیوانی زندگی سے ہاتھ اٹھانا ‘ حیوانی خصائص سے ارفع و اعلیٰ ہونا ‘ حرص و ہوا سے ایثار و استغنا کی منزل تک پہنچنا ‘ دنیا اور دولت دنیا کو منتہا اور مقصود سمجھنے کی بجائے اللہ کی رضا کو اور خدمت انسانیت کو مقصود بنانا یہ وہ چند باتیں ہیں جن کے بغیر دین نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو اس کے مقاصدنصیب نہیں ہوتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں یہاں شکرگزار کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔ صحابہ کے پاس دولت دنیا نہ سہی ‘ ٹھاٹھ باٹھ اور کروفر نہ سہی ‘ انسانیت کے یہ جواہر ان کی گردنوں میں آویزاں تھے اور خوشنودیٔ مولیٰ ان کی پیشانی کا جھومر تھی یہ وجہ ہے کہ اشراف قریش کی نگاہ میں وہ کچھ بھی نہیں تھے اس لیے کہ یہ بصیرت سے محروم لوگ تھے۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں وہ انسانیت کا گل سر سبد تھے اور پوری اللہ کی زمین پر یہی وہ لوگ تھے جس کی وجہ سے اللہ کی دھرتی قائم تھی اور انسانیت جن پر فخر کرتی تھی۔ ظاہر ہے اس وقت کی تاریخ کے اتنے بڑے لوگوں کو اگر انھوں نے طعنوں اور حقارت بھرے طرز عمل سے پریشان و مغموم کیا ہے جس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے تو کیسے ممکن تھا کہ اللہ کی طرف سے ان کی اشک شوئی نہ ہوتی اور ان کے مرتبہ و مقام کے مطابق پروردگار کی رحمت ان پر نہ برستی۔ اس لیے آنحضرت ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے :
Top