Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ
: اور ڈراویں
بِهِ
: اس سے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
يَخَافُوْنَ
: خوف رکھتے ہیں
اَنْ
: کہ
يُّحْشَرُوْٓا
: کہ وہ جمع کیے جائیں گے
اِلٰى
: طرف (سامنے)
رَبِّهِمْ
: اپنا رب
لَيْسَ
: نہیں
لَهُمْ
: انکے لیے
مِّنْ
: کوئی
دُوْنِهٖ
: اس کے سوا
وَلِيٌّ
: کوئی حمایتی
وَّلَا
: اور نہ
شَفِيْعٌ
: سفارش کرنیوالا
لَّعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَّقُوْنَ
: بچتے رہیں
اور تم اسی کے ذریعے سے خبردار کرو ان لوگوں کو جو ڈر رکھتے ہیں اس بات کا کہ وہ اپنے رب کے پاس اکٹھے کئے جائیں گے ‘ اس حال میں کہ اس کے سامنے نہ ان کا کوئی حامی ہوگا نہ شفیع تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں
تمہید گزشتہ آیات میں ہم مشرکینِ مکہ کی جانب سے مختلف قسم کے مطالبات پڑھ چکے ہیں۔ وہ ایک سے ایک بڑی نشانی مانگتے رہے۔ بالآخر انھوں نے عذاب کا مطالبہ بھی کر ڈالا کہ اگر تم واقعی اللہ کے نبی ہو اور جو کچھ تم کہتے ہو وہ اللہ کی جانب سے کہتے ہو تو پھر یا تو اس پر کوئی بہت بڑی نشانی لائو تاکہ ہم ماننے پر مجبور ہوجائیں ‘ یا جس طرح تم بار بار کہتے ہو کہ جن قوموں میں اللہ کے رسول آئے انھوں نے جب مسلسل ان کی تکذیب کی تو آخر ان پر اللہ کا عذاب آگیا تم بھی ہم پر عذاب کیوں نہیں لے آتے یا عذاب کا کوئی حصہ کیوں نہیں لے آتے تاکہ ہمیں تمہاری نبوت اور تمہاری صداقت کا یقین ہوجائے۔ قرآن کریم اس وقت پیش نظر آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ ان کے مطالبات پر نہ جایئے اگر بقول ان کے انھیں کوئی بہت بڑی نشانی دکھا بھی دی جائے جس سے وہ ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں تو مجبوری کا ایمان تو اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایمان تو دراصل انسان کے شعور ‘ اس کی قوت تمیز اور اس کی قوت اختیار کا امتحان ہے اور اگر انھیں ایمان لانے پر مجبور کردیا جائے تو یہ پھر اختیار کا امتحان نہ ہوا بلکہ یہ تو جبر ہوا اور اللہ تعالیٰ کسی کو بھی جبر کے ذریعے صاحب ایمان نہیں بناتا۔ ایمان لانے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا : وَاَنْذِرْبِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْٓا اِلٰی رَبِّھِمْ لَیْسَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّوَّلَا شَفِیْعٌلَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ ۔ (الانعام : 51) (اور تم اسی کے ذریعے سے خبردار کرو ‘ ان لوگوں کو ‘ جو ڈر رکھتے ہیں اس بات کا ‘ کہ وہ اپنے رب کے پاس اکٹھے کیے جائیں گے ‘ اس حال میں کہ اس کے سامنے نہ ان کا کوئی حامی ہوگا ‘ نہ شفیع تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں) قیامت کے دن نہ کوئی حامی ہوگا نہ شفیع ہوگا نیک عمل ہی کام آئیں گے یعنی مشرکینِ مکہ میں سے ان لوگوں پر جو مختلف قسم کی نشانیوں یا عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں ان پر وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ یہ درحقیقت اس صلاحیت سے محروم ہیں جس کی موجودگی کے بغیر آدمی اللہ پر ایمان لانا تو درکنار اللہ اور اس کے دین کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس آیت کریمہ میں اس صلاحیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ اس قرآن کریم کے ذریعے (کیونکہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں جو دین آپ لے کر آئے ہیں اس کی پوری دعوت پیش کی گئی ہے اور جو شریعتِ اسلامی آپ اللہ کے بندوں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ اسی کتاب کے اندر موجود ہے) سے ان لوگوں کو خبردار کیجئے۔ جن کے اندر اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ یہ زندگی بہرحال ختم ہونی ہے ہر شخص کو ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور لمبی برزخی زندگی گزارنے کے بعد بالآخر قیامت کے دن اللہ کے حضور پیشی ہونی ہے وہاں پوری زندگی کے بارے میں بازپرس ہوگی ایک ایک عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا جس آدمی کو اللہ کے سامنے اس جواب دہی کا احساس ہوگا وہ یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ اگر میں نے یہ زندگی اس طرح نہ گزاری جس طرح اللہ کا حکم ہے اور جسے بتانے کے لیے اس نے اپنی کتابیں اتاری ہیں ‘ اپنے رسول بھیجے ہیں تو میں اللہ کے سامنے کھڑا ہو کر کیا جواب دے سکوں گا۔ احساس کا پہلا لمحہ اسے سوچنے پر مجبور کرے گا اور اگر یہ لمحہ رائیگاں نہ گیا تو یقینا وہ شخص اس حقیقت کی تلاش میں نکلے گا اور بالآخر ایمان کی دولت سے ہمکنار ہوجائے گا۔ اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو یہ توجہ دلائی جا رہی ہے کہ آپ ان انسانوں میں سے ایسے لوگوں کو تلاش کریں جن کے اندر قیامت کے آنے اور دوسری زندگی سے دوچار ہونے کا اگر یقین نہیں تو کم از کم اس کا تصور تو موجود ہو کیونکہ یہی تصور انھیں بالآخر صحیح فیصلے پر پہنچائے گا اور ساتھ ہی دوسری بات یہ فرمائی کہ جب انھیں اس بات کا بھی یقین ہوگا کہ میں جب اللہ کے روبرو حاضر ہوں گا تو وہاں اللہ کے سوا میرا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا نہیں ہوگا میں تن تنہا بارگاہ حق میں کھڑا ہوں گا میرا نامہ اعمال میرے ہاتھ میں ہوگا ‘ جلال خداوندی برس رہا ہوگا ‘ میں اپنے پسینے میں ڈوبا ہوا ہوں گا اور جب مجھ سے ایک ایک بات کا حساب مانگا جائے گا تو میرا چونکہ دامن یکسر ایمان اور اعمال صالحہ سے خالی ہوگا تو ظاہر ہے میں کسی بات کا جواب نہیں دے پائوں گا تو پھر میرے ساتھ کیا گزرے گی۔ اس آیت کریمہ میں بطور خاص اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہاں ان کے لیے نہ کوئی حمایتی ہوگا نہ کوئی مددگار اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پر ایمان نہ لانے کا جہاں ایک سبب ہے آدمی کا قیامت کو نہ ماننا اور دوسری زندگی کو محض ایک واہمہ سمجھنا۔ اسی طرح دوسرا سبب اس کا یہ ہے کہ بعض لوگ قیامت کے آنے کو تسلیم کرتے تھے لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی یقین رکھتے تھے کہ ہم نے اللہ کے جو مختلف شرکاء بنا رکھے ہیں تو اگر قیامت کے دن ہم سے باز پرس ہوئی بھی تو وہ یقینا ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ مشرکینِ مکہ بتوں کے ساتھ ساتھ فرشتوں کو بھی اللہ کا شریک مانتے تھے بلکہ انھیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ جب پروردگار ہماری گرفت فرمائے گا اور قیامت کے دن ہمیں عذاب دینا چاہے گا تو اس کی یہ بیٹیاں اپنے باپ کو مجبور کردیں گی کہ وہ ہمیں چھوڑ دے بالآخر باپ اپنی بیٹیوں کی بات مان کر ہمیں چھوڑ دے گا۔ چناچہ اس تصور نے ان کو اپنی اصلاح کی فکر اور شرعی پابندیوں سے بالکل آزاد کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ میں دو گروہ تھے۔ ایک قیامت کا نہ ماننے والا اور دوسرا شفاعت باطل کے اس تصور کی وجہ سے قیامت کے دن کی بازپرس کو ایک بےفائدہ مشق سمجھنے والا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو یہ دونوں گروہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ اگر کوئی لڑکا کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ امتحان نہیں ہوگا اور یا اگر امتحان ہوا بھی تو ایگزامینر میرا پر چہ خود حل کردیں گے یا پی پر دیکھنے والے میرے سفارشیوں کے کہنے پر مجھے پاس کردیں گے تو ایسے لڑکے کو آپ کبھی امتحان کی تیاری پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ آپ اسے امتحان کی تیاری کا کہیں گے تو وہ آپ کا مذاق اڑائے گا کہ جب امتحان ہونا ہی نہیں تو تیاری کس بات کی۔ اگر آپ اسے فیل ہونے سے ڈرائیں گے تو وہ ہنس کر کہے گا کہ مجھے معلوم ہے کہ میں پی پر دوں یا نہ دوں یا پیپروں میں کچھ بھی لکھوں مجھے بہرحال کسی کے کہنے پر پاس کردیا جائے گا تو دونوں صورتوں میں وہ کبھی بھی امتحان کی تیاری میں سنجیدہ نہیں ہوسکتا زندگی بھی ایک امتحان ہے ‘ اس میں کامیابی کے لیے اللہ اور رسول پر ایمان لانا اس کے نازل کردہ شرعی احکام کو تسلیم کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری امور ہیں۔ ظاہر ہے یہ تیاری وہی کرے گا جسے امتحان کا یقین ہو اور ساتھ ہی وہ یہ سمجھتا ہو کہ امتحان میں میری کامیابی یا ناکامی کا دارومدار میری تیاری اور امتحان میں میرے پی پر حل کرنے پر ہے۔ یہی بات اس آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے کہ اے پیغمبر اس وقت دنیا میں آپ کی ذات اور قرآن کریم ہدایت کے دو سرچشمے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو اللہ کے سامنے جواب دہی کا یقین ہو اور دوسرے اس بات کا یقین کہ قیامت کے دن سرخروئی اور کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ آدمی شفاعت باطل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے ایمان و عمل اور اللہ کے فضل پر بھروسہ رکھے اور ساتھ ہی یہ تصور بھی کہ اگر شریعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کے باوجود کوئی کمی بیشی رہ گئی تو اللہ کی اجازت سے رسول اللہ ﷺ کی شفاعت بھی میسر آسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ کے رسول اور قرآن کی دعوت سے فائدہ اٹھانے کے لیے جن دو بنیادی تصورات کو مدار بنایا گیا ہے یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ کہیں بھی انسانی زندگی میں اس کے خلاف ہوتا نظر نہیں آتا مشرکینِ مکہ تو ان دو باتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ایمان کی دولت سے محروم رہے اور آج امت مسلمہ کی مجموعی زندگی انہی دونوں باتوں میں کمزوری کے باعث شریعت اسلامی کی مکمل پابندی سے محروم ہے۔ باوجود اس کے کہ ہم قیامت کے آنے کا علم رکھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ قیامت کے دن ایمان و عمل ہی کام آئیں گے لیکن چونکہ ان دونوں باتوں کا ہمیں پوری طرح یقین نہیں ہے۔ اس لیے زندگی میں بیشمار مواقع ایسے آتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ اس بارے میں اللہ اور رسول کے احکامات کیا ہیں۔ خوشی کے لمحات ہوں یا غم کے ‘ عہدہ و منصب کے حصول کا ہیجان ہو یا کسی عہدہ و منصب کے چھن جانے کا اندیشہ۔ کسی بھی کاروبار میں منفعت کی امید ہو یا نقصان کا خوف تو ہم سب سے پہلے اسلامی شریعت سے اپنا تعلق توڑتے ہیں اور ایسے موقع پر جو کچھ ہمارے جی میں آتا ہے یا جدھر حالات کا بہائو ہمیں لے جاتا ہے یا جس طرف امیدوں کا پلڑا جھکنے لگتا ہے ہم اسی کے مطابق اپنے عمل کو متعین کرتے ہیں ‘ اور اسی کی مطابقت سے اپنی کاوشوں کے لیے ایک جہت طے کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ اپنی منزل اور نصب العین تک بدلنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آتی کہ اگر مجھے اس بات کا یقین ہو کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں یا کروں گا اسے میرا خدا دیکھ رہا ہے اور میرے ہر عمل کو محفوظ کیا جا رہا ہے اور قیامت کی اچھی بری زندگی کا دارومدار میرے انہی اعمال پر ہے اس یقین کے ہوتے ہوئے میں پھر بھی اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اسلامی شریعت کے احکام کو توڑوں یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ ہماری زندگیوں میں جو بڑے بڑے خلا اور جھول واقع ہوگئے ہیں ‘ ہمیں مان لینا چاہیے کہ وہ صرف اس لیے ہیں کہ ہم قیامت کو مانتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں ‘ لیکن اس کا یقین ہمارے دل و دماغ کا حصہ نہیں ‘ جب تک اس یقین سے ہمارا دل و دماغ روشن نہیں ہے اس وقت تک ہماری زندگی اس دو عملی سے خالی نہیں ہوگی۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کو جو یہ بنیادی ہدایت دی جا رہی ہے اس کی کس حد تک اہمیت ہے۔ جب بھی کسی فرد کو قیامت کا یقین نہیں ہوتا یا شفاعت باطل کے تصور سے وہ قیامت کے دن کی باز پرس سے پریشان نہیں ہوتا اس وقت تک جس طرح وہ ایمان لانے سے گریز کرتا ہے ‘ اسی طرح وہ ایمان نہ لانے کے حوالے سے بہانے بھی تراشتا ہے۔ چناچہ انہی بہانوں میں سے یہ بھی ایک بہانہ ہے جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا جا رہا ہے۔
Top