Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ
: اور
لَقَدْ اَرْسَلْنَآ
: تحقیق ہم نے بھیجے (رسول)
اِلٰٓى
: طرف
اُمَمٍ
: امتیں
مِّنْ قَبْلِكَ
: تم سے پہلے
فَاَخَذْنٰهُمْ
: پس ہم نے انہیں پکڑا
بِالْبَاْسَآءِ
: سختی میں
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَضَرَّعُوْنَ
: تاکہ وہ عاجزی کریں
اور ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سی امتوں کے پاس اپنے رسول بھیجے ‘ پس ان کو مالی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا کیا۔ تاکہ وہ خدا کے آگے جھکیں
تمہید سورة انعام میں آغاز سے اب تک مسلسل اساسی اور بنیادی عقائد پر نہایت مدلل انداز کے ساتھ زور دیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مشرکین کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعتراضات اور مطالبات کا بھی جواب دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ آیتوں میں بالخصوص ان کے مطالبہ عذاب کا ذکر کیا گیا اور اس کے نتائج پر ان کو توجہ دلا کر تنبیہ بھی کی گئی۔ بالخصوص آخری دو آیتوں میں ان کے مطالبے ہی کو ایک خوبصورت دلیل کی شکل دے کر ‘ ان پر ایک طرح سے اتمام حجت کردیا گیا ہے۔ لیکن اس رکوع کے آغاز ہی میں ‘ جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے ‘ پروردگار نے اپنے فضل و کرم سے ‘ باوجود اتمام حجت کرنے کے ‘ قوموں پر عذاب نازل ہونے کے پر اسس کو بیان کیا ہے ‘ جس کی حیثیت سنت اللہ کی ہے۔ یعنی وہ اللہ کا ایک ایسا قانون ہے اور ایک ایسی روایت ہے ‘ جس میں کبھی تخلف نہیں ہوتا۔ اس لیے مشرکین مکہ کے سامنے اسے بیان فرما کر انھیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ تم جو بار بار اللہ کے عذاب کا مطالبہ کرتے ہو ‘ تمہیں اس کی اس سنت اور اس کے تدریجی عمل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ‘ تاکہ تمہیں یہ بات سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے کہ اب تک تم پر جو اللہ کا عذاب نہیں آیا تو اس کی حقیقی وجہ کیا ہے اور اگر تم نے اب بھی اپنا رویہ نہ بدلا تو عین ممکن ہے کہ تم اللہ کی اس سنت کی گرفت میں آجاؤ اور مزیدیہ بھی کہ صرف اس سنت اللہ ہی کو بیان نہیں کیا گیا ‘ بلکہ اس پر تاریخی روایت اور تاریخی شہادت کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ تاکہ مشرکین مکہ کو سمجھنے میں مزید آسانی ہو اور وہ ہدایت کا راستہ اختیار کرنا چاہیں تو انھیں کوئی عذر پیش نہ آئے۔ چناچہ ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلیٰٓ اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰھُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ ۔ فَلَوْلَآ اِذْ جَآئَھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (الانعام : 42۔ 43) (اور ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سی امتوں کے پاس اپنے رسول بھیجے ‘ پس ان کو مالی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا کیا۔ تاکہ وہ خدا کے آگے جھکیں تو کیوں جب ان پر ہماری پکڑ آئی تو خدا کی طرف نہ جھکے ‘ بلکہ ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کی نگاہوں میں اسی عمل کو کھبا دیا ‘ جو وہ کرتے رہے) عذاب الٰہی کے تدریجی مراحل ان دونوں آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب کے اس پر اسس اور اس تدریجی عمل کے پہلے حصے کو بیان فرمایا ہے ‘ جس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب کسی بھی قوم پر نازل ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس تاریخی روایت کو بھی بیان کیا ہے ‘ جو اس حقیقت پر شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے تو ہم بعد میں بیان کریں گے ‘ سب سے پہلے اللہ کی اس سنت اور اس پر اسس کو سمجھ لینا چاہیے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے اس زمین پر انسان کو بسایا ہے اور ان کو اس زمین پر خلافت کا تاج بھی پہنایا ہے۔ اس کو بہت ساری مخلوقات پر فضیلت بھی عطا فرمائی ہے۔ اس زمین پر درحقیقت اسی کی فرمانروائی ہے اور وہی اس گلشن ہستی کا گل سر سبد ہے ‘ جس سے اس چمن کو آراستہ کیا گیا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اسے عذاب کا شکار بنایا جائے اور بلاوجہ اسے تباہ کردیا جائے۔ مشرکین بار بار جو عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں ‘ انھوں نے عذاب کو بھی ایک کھیل سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ کسی بھی قوم پر اللہ کا عذاب اس کی مکمل تباہی اور اس کی جڑ کٹ جانے کے مترادف ہے۔ کسی بھی گلشن کا سجانے والا ‘ بلاوجہ کبھی اپنے گلشن کو اجاڑنا پسند نہیں کرتا۔ وہ تو ان لوگوں کو بھی پسند نہیں کرتا ‘ جو اس گلشن کی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے ہمیشہ فساد فی الارض کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ خود وہ اس چمن کو برباد کر دے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس نے قوموں پر عذاب بھیجے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ دراصل کسی بھی قوم پر عذاب اس وقت بھیجتا ہے ‘ جب کہ اس قوم کا وجود اس گلشن کے لیے تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس لیے اس کے یہاں حقیقی ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ وہ انسانوں کے ہر گروہ کو حتی الامکان اس تباہی اور اس عذاب سے بچائے۔ اس لیے اس کی سنت یہ ہے کہ جب بھی کہیں بگاڑ پھیلتا ہے اور انسان گمراہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو وہ ان کی ہدایت اور اصلاح کے لیے اپنے رسول بھیجتا ہے ‘ اپنی کتابیں اتارتا ہے۔ رسول دنیا میں آکر اللہ کی کتاب کی دی ہوئی روشنی کے مطابق بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ‘ خون کے گھونٹ پی پی کر ان کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہیں اور ان کی زندگی سنوارنے میں لگے رہتے ہیں۔ جب تک ان میں خیر کی کوئی امید باقی رہتی ہے اور کسی ایک آدمی کے اصلاح پذیر ہونے کی بھی امید کی جاسکتی ہے ‘ اللہ کے یہ فرستادہ لوگ اللہ کے حکم سے اپنے کام کو جاری رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ قوم ان کی دعوت کے ساتھ نامناسب طرز عمل اختیار کرتی ہے ‘ حتی کہ اپنے ان محسنوں کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں تنبیہ کرنے اور اپنے نبیوں اور رسولوں کی صداقت کو واضح کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً انھیں مصائب میں مبتلا کرتا ہے۔ ان مصائب کے لیے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو لفظ استعمال فرمائے { الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ }۔ بَاْسَآئِ کا معنی ہے ‘ مالی دشواریاں اور مالی مصیبتیں اور ضَرَّآئِ کا معنی ہے ‘ جسمانی عوارض اور جسمانی مصیبتیں یعنی اس قوم کو کبھی تو اس طرح مالی مشکلات میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ ان کے کاروبار میں تعطل پیدا کردیا جاتا ہے۔ تجارتیں نقصان کا شکار ہوتی ہیں ‘ کھیتیاں ویران ہونے لگتی ہیں۔ بعض دفعہ ملک قحط سالی کا شکار ہوجاتا ہے ‘ بارشیں روک دی جاتی ہیں یا بارشوں کی کثرت سے سیلاب کی صورت پیدا کردی جاتی ہے۔ صنعتی اداروں میں باہمی خلفشار کے نتیجے میں پہیہ جام ہونے لگتا ہے۔ ملک سیاسی طور پر سیاسی انارکی کا شکار ہو کر بےاستحکامی کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور کبھی بڑی سے بڑی توانا قوم کو بھی جو اپنے یہاں ایک مضبوط صحت کا نظام رکھتی ہے جسمانی بیماریوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ جب ان کے اخلاق بگڑتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بعض ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن کی نہ تشخیص ہوسکتی ہے ‘ نہ تجویز ممکن ہوتی ہے۔ وبائیں پھیلنے لگتی ہیں ‘ متعدی امراض میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ پہلے بھی ہوتا رہا ‘ آج بھی قدرت بعض دفعہ کہیں کہیں اس کے جھٹکے دیتی ہے۔ مغربی دنیا میں ایڈز کی بیماری کا پھیلنا آج تک ایک لا ینحل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کینسر نے پوری دنیا کو پریشان کر رکھا ہے اور اب مختلف قسم کا یرقان لا علاج ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرح کے مصائب میں اللہ کی ہدایت کا راستہ روکنے والی قوموں اور رسولوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اس لیے مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کریں ‘ اس کی کبریائی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی بندگی کو سمجھیں اور اس کے سامنے فروتنی کا اظہار کرتے ہوئے ‘ اس کی عبادت اور عبودیت کے لیے جھکیں یعنی یہ تکلیفیں اور مصائب محض ان کو پریشان کرنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ یہ بتانے کے لیے ہوتے ہیں کہ تمہارا کوئی آقا ومالک بھی ہے۔ اس زمین کا کوئی نگران بھی ہے۔ تم اگر اس کی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے اور تم نے اس کے ہر حکم کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور اس کے رسولوں سے مسلسل بدسلوکی کر رہے ہو اور زمین کو تم نے فساد سے بھر دیا ہے تو اس طرح کی تکلیفوں میں انھیں مبتلا کر کے بتلایا جاتا ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تم کسی کی گرفت میں نہیں آسکتے ‘ یہی چھوٹی چھوٹی مصیبتیں کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہیں اس لیے اس کی ذات کے سامنے جھکو اور اس کے رسولوں پر ایمان لا کر اس کی اطاعت اور اس کی بندگی اختیار کرو۔ دل کی سختی سے مراد دوسری آیت میں بجائے اس کے کہ یہ بتایا جاتا کہ بگڑی ہوئی قومیں جب اس طرح کی تنبیہات کے بعد بھی راہ راست پر نہیں آتیں تو پھر اللہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ اسی بات کو ایک سوال کی شکل دی گئی ‘ ہے جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ انسانی فطرت لازماً اپنے پروردگار کے احساس سے بہرہ ور ہے۔ جب کبھی اس پر غفلت کے پردے پڑنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب کی صورت میں تنبیہات اس کے پردوں کو چاک کرتی ہیں تو انسان فوراً اپنی فطرت کو پہچانتا ہے اس کی آواز پر کان دھرنے لگتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایمان کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے۔ لیکن جب کوئی قوم حد سے گزر جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس کی فطرت مردہ ہوچکی ہے۔ پھر وہ ان مصائب کی کوئی نہ کوئی تاویل کرتی ہے اور کوئی نہ کوئی عقلی توجیہ کر کے اپنی بےعملی بد عملی بلکہ بےدینی کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ فرمایا ان لوگوں کا بھی یہی حال معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ کی طرف سے مصائب کا ان پر نزول ہوا تو یہ کیوں نہیں اس کے سامنے جھکے۔ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ اس لیے نہیں جھکے کہ یہ اپنی فطرت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کے دل جہاں سے ان کو فطرت کی آواز سنائی دے سکتی ہے ‘ وہ اتنے سخت ہوگئے کہ انھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور انسان کا دل جب سخت ہوجاتا ہے ‘ یعنی اپنے اللہ کی اطاعت سے انکار کردیتا ہے تو پھر اس سے کسی خیر کی توقع نہیں رہتی۔ پھر ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے مصائب کو تنبیہ سمجھ کر اپنی غلطیوں سے توبہ کرنے کی کوشش کریں ‘ وہ کوئی نہ کوئی اس کی توجیہ کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو جن لوگوں سے واسطہ پڑا ‘ ان کو بھی وقتاً فوقتاً ایسے مصائب سے دوچار کیا گیا۔ لیکن قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اس کے نتیجے میں اللہ کے سامنے جھکتے ‘ انھوں نے اس کی تاویلیں کیں اور اپنی روش پر قائم رہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم جن مصائب سے گزر رہے ہیں ‘ یہ غلط بات ہے کہ یہ اللہ کی نافرمانی کا نتیجہ ہے یا اللہ ہمیں اس سے تنبیہ کر رہا ہے۔ بلکہ یہ تو وقت کے وہ انقلابات اور وہ اتفاقی حوادث ہیں ‘ جن سے ہمیشہ انسانوں کو واسطہ پڑتا رہا ہے۔ کہا : قَدْ مَسَّ آبَائَ نَا الضَّرَّائُ وَ السَّرَّآئُ (الاعراف : 95) (اگلے بھی ایسے گرم اور نرم حالات سے دوچار ہوتے رہے ہیں) یہ تو دنیا کی ریت ہے ‘ ہم کوئی پہلی دفعہ اس طرح کے حالات سے دوچار نہیں ہوئے۔ برا وقت بھی اچھے وقت کی طرح گزر جاتا ہے ‘ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ عجیب بات ہے کہ جو بات آج کا دانشور اور ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ایسے حالات میں کہا کرتا ہے ‘ وہی بات ساڑھے چودہ سو سال پہلے کا مشرک بھی کہتا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انسانی فطرت ہر دور میں ایک رہی ہے اور ایک ہی رہے گی۔ اس لیے جب بھی کبھی ایسے حالات پیدا ہوں گے اور اللہ اپنے بندوں پر مہربانی فرماتے ہوئے ان کو یہ چھوٹے چھوٹے مصائب کی صورت میں جھٹکے دے گا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں تو ہمیشہ کی طرح دو طرح کے گروہ پیدا ہوں گے۔ ایک وہ گروہ جو ان مصائب کو واقعی تنبیہات سمجھ کر ایمان کے راستے پر آجائے گا اور ہدایت اختیار کرلے گا اور دوسرا وہ گروہ جو مختلف اسباب کے تحت اپنے بگاڑ میں اور پختہ ہوتا جائے گا۔ اس کا سبب بھی یہاں بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی اللہ کے نبی اور اس کے رسول یا مصلحین دنیا میں اصلاح کا عمل شروع کرتے ہیں تو ابلیس بھی اپنے لأ و لشکر سمیت ان کا راستہ روکنے اور انسانوں کو بگاڑ میں پختہ کرنے کا عمل شروع کردیتا ہے۔ چناچہ اس کا لشکر جس میں زندگی کے ہر طبقے کا نمائندہ موجود ہوتا ہے ‘ وہ ان کو زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا دیتا ہے ‘ تاکہ لوگوں کو اصلاح کے عمل سے متاثرہونے سے روکے اور شیطان کا یہ لشکر سارا زور اس بات پر صرف کرتا ہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو ‘ یہ مت سمجھو کہ اس میں کسی غلطی یا بگاڑ کا شائبہ بھی ہوسکتا ہے۔ تمہارے تمام اعمال اور تمہاری زندگی کے تمام اطوار بالکل ٹھیک جہت پر جا رہے ہیں۔ تمہاری علمی کاوشیں ‘ تمہارے کاروبار کے طریقے ‘ تمہارے تہذیبی و ثقافتی ادارے ‘ تمہارے اجتماعی عوامل ان میں کہیں بھی ٹیڑھ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے تمہیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چناچہ یہ شیطانی لشکر ‘ جب پوری طرح ان کے اعمال کو ان کے سامنے خوبصورت پیرائے میں پیش کر کے ان کو ہر طرح سے مطمئن کردیتا ہے تو یہ وہ موقع ہے جسے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے۔ اب وہ کسی ہدایت کو سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ ان کے اہل ِ علم اپنے علمی پندار کی وجہ سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہماری علمی دریافتوں اور ہمارے علمی رویے کو کون چیلنج کرسکتا ہے ؟ وہ چونکہ کبھی اپنے علمی رویے پر نظر ثانی کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے اس لیے یہ ان کا علمی پندار ان کو بالآخر محرومی کی دلدل میں اتار دیتا ہے۔ اقبال مرحوم نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ” بعض لوگوں کو کنج تنہائی میں بیٹھے بیٹھے ہمہ دانی کا دعویٰ ہونے لگتا ہے “ ظاہر ہے کہ یہ ہمہ دانی کا دعویٰ آدمی میں ایک ایسے پندار کو جنم دیتا ہے ‘ جس پر کسی نصیحت کے اثر کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح دولت کانشہ ‘ دولت مندوں کو کسی کی بات سننے پر کبھی آمادہ نہیں ہونے دیتا۔ بیوروکریٹس میں اقتدار کا خمار کسی بات کے سمجھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ حکمرانوں میں حکومت کا طنطنہ ایک ایسا آہنی پردہ ثابت ہوتا ہے ‘ جس میں کسی صحیح بات کا دخل ممکن نہیں ہوتا۔ یہ دل کی وہ سختی ہے جو انسان کو ہدایت سے محروم کردیتی ہے۔ دل عجیب چیز ہے۔ یہ جب تک نرم ہے تو پھول کی پتی سے بھی زیادہ نرم ہے لیکن جب سخت ہوتا ہے تو پتھروں کی سنگینی بھی اس کے سامنے چھوٹ جاتی ہے۔ پتھر باوجود اس کے کہ ہماری نگاہوں میں اس قدر سخت چیز ہے کہ جس میں کسی چیز کی جوت لگنا ممکن نہیں۔ لیکن قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کا خوف ان میں بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ سورة البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں بعض پتھر ایسے ہیں کہ جو اللہ کے خوف سے پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی رواں ہوجاتا ہے اور بعض پتھر پہاڑ کی بلندی سے اللہ کے خوف کے باعث لڑھک جاتے ہیں۔ لیکن انسان کا دل جو گوشت کا لوتھڑا ہے ‘ وہ اس قدر سخت ہوجاتا ہے کہ اس پر نہ اللہ کا کلام اثر کرتا ہے اور نہ اللہ کے رسول کی معجزبیانی۔ دل کی کیفیت کو پوری تفصیلات سے سمجھنا تو انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔ لیکن ہم اپنے معمولات میں بعض لوگوں کے طرز عمل کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ ضرور سمجھ سکتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بیمار لوگوں میں بھی دو طرح کا طرز عمل پایا جاتا ہے۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے صحیح طرز فکر اور صحیح احساس کے باعث ‘ معمولی سے معمولی بیماری کو بر وقت محسوس کر کے ‘ اسے دور کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن بعض بیمار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انھیں بیماری کا احساس دلانا بھی بجائے خود ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے مسدس میں لکھا ہے کہ کسی شخص نے بقراط سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک مہلک امراض کیا کیا ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ کوئی مرض ایسا نہیں ‘ جس کی دوا اللہ نے پیدا نہ کی ہو۔ لیکن ایک مرض ہے ‘ جو لا علاج ہے اور کوئی بڑے سے بڑا مسیحا بھی اس کا علاج نہیں کرسکتا۔ کہا ؎ مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں سبب یا علامت گر اس کو سجھائیں تو تشخیص میں سو نکالے خطائیں یہ وہ شخص ہے ‘ جس کا اپنے مرض کی جانب سے دل سخت ہوگیا ہے اور اب اس کی یہ کیفیت باقی نہیں رہی کہ وہ اپنے مرض کا صحیح احساس کرسکے۔ بقراط نے کہا کہ ایسے مریض کا دنیا میں کوئی علاج نہیں۔ روح دل اور اخلاق کی بیماریاں بھی جسمانی بیماریوں کی طرح ہی ہیں ‘ صرف ناموں کا فرق ہے۔ جسمانی بیماریوں کو اگر ہم بخار ‘ نزلہ ‘ کینسر اور یرقان وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں تو روحانی بیماریاں اعتقادات ‘ اخلاقیات ‘ اعمال ‘ معاملات اور آداب زندگی کا بگاڑ کہلاتی ہیں۔ جس طرح ایک آدمی اپنی جسمانی بیماریوں سے بےحس ہوجاتا ہے ‘ اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بعض دفعہ آدمی اپنی روحانی اور اخلاقی بیماریوں کو سمجھنے سے عاری ہوجاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے ‘ جس کو یہاں دل کا سخت ہونا کہا گیا ہے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ جسمانی بےحسی پیدا کرنے کے لیے باقاعدہ کوششیں نہیں کی جاتیں ‘ لیکن روحانی بےحسی پیدا کرنے کے لیے تو پورا ایک ابلیسی لشکر ہے جو مختلف صورتوں میں ہر دور میں موجود رہا ہے۔ یہ مشرکینِ مکہ کے اندر بھی تھا جس کے آثار ہمیں ان کی تاریخ میں ملتے ہیں اور قرآن کریم نے بھی کئی جگہ ان کا ذکر کیا ہے اور آج ہمارے گرد و پیش میں بھی موجود ہے۔ اگر آدمی تھوڑی سی گہری نگاہ سے دیکھے تو اسے ہر اجتماعی ادارے میں اس ابلیسی لشکر کے ارکان کام کرتے دکھائی دیں گے۔ آپ یونیورسٹیوں تک میں دیکھیں گے کہ ایسے اساتذہ کرام موجود ہیں ‘ جو مسلمان کہلانے کے باوجود اسلام کے خلاف ایسی بدگمانیاں نوجوانوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس کی امید شاید کسی کافر سے بھی نہ کی جاسکے۔ وہ اس طرح اسلوب بدل بدل کر اور مختلف عنوانات کے تحت بچوں کی برین واشنگ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں یہی بچے بڑے ہو کر اخلاقی مفاسد کا بھی شکار ہوتے ہیں اور زندگی میں ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز ہو کر قومی زندگی کو مسموم بھی کرتے ہیں۔ ہمارے اخبارات کے دامن ایسے کالموں سے بھرپور ہوتے ہیں ‘ جنھوں نے ہمارے قومی کردار اور افکار پر نہایت خطرناک اثرات ڈالے ہیں اور پھر ہمیں شاید معلوم نہیں کہ تمام لادینی قوتوں اور بیرونی ممالک کی جانب سے یہاں ہمیشہ ایک پانچواں کلام کام کرتا ہے ‘ جو بعض دفعہ غیر محسوس طریقے سے ایسے ایسے خیالات کو دل و دماغ میں راسخ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ جب تک گہری نظر سے نہ دیکھا جائے ‘ اس کی سُمیّت کا صحیح انداز کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ آج کل ہمارے اخبارات میں ایسی ہی قوتوں کے زیر اثر بعض ایسے ایسے اسلامی کلام لکھوائے جا رہے ہیں جو عام نگاہوں میں ممکن ہے اسلام کی کوئی خدمت دکھائی دیتی ہو ‘ لیکن حقیقت میں وہ ایسا مخفی زہر ہے جس سے ہماری پوری قومی زندگی متأثر ہو رہی ہے۔ اس طرح کے تمام کالموں میں اسلام کے مبلغ بن کر اور اسلامی قوتوں کے ساتھ قریبی تعلق کا اظہار کرنے کے بعد دینی سیاسی جماعتوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ اگر یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان آپ کو قبول کر کے آپ کو اسمبلی میں پہنچائیں اور وہاں پہنچ کر آپ اسلامی نظام لانے میں کامیاب ہوں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جو چیزیں مسلمان قوم قبول کرچکی ہے ‘ آپ ان کی مخالفت نہ کریں۔ یہ صحیح ہے کہ وہ چیزیں غلط ہیں اور اسلام انھیں قبول نہیں کرتا ‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک تو یہ بات کہ صحیح اور جائز کیا ہے اور ایک یہ کہ آج کے دور میں کیا چل سکتا ہے ؟ اس سلسلے میں ہمیں زیادہ آئیڈیلسٹ نہیں ہونا چاہیے ‘ بلکہ حقیقت پسند بن کر زمینی حقیقتوں کو سمجھ کر معروضی حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلام کی وہ تاویل لوگوں کے سامنے رکھنی چاہیے ‘ جو ان کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہو۔ مثلاً آپ ان کے سامنے فنون لطیفہ کے بارے میں کچھ نہ کہیں ‘ اس لیے کہ یہ فنون ہماری ثقافتی بلکہ تہذیبی زندگی میں رچ بس گئے ہیں اور ہمارے مزاج کا اس طرح حصہ بن گئے ہیں کہ اب ان کی مخالفت کرنا گویا اپنی مخالفت کو دعوت دینا ہے۔ اسی طرح اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ خواتین کی رائے اپنے حق میں کرسکیں تو پھر ضروری ہے کہ آپ حجاب اور نقاب کے مسئلے کو نہ چھیڑیں۔ کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت اب نقاب پہننا اور حجاب میں رہنا پسند نہیں کرتی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک کا کاروباری طبقہ آپ کے بارے میں بدگمان نہ ہو تو پھر سود کے بارے میں آپ کو کچھ نہیں کہنا چاہیے ‘ کیونکہ اس سے یہ غلط فہمی ہونے لگتی ہے کہ آپ ملک کی اقتصادیات کو تلپٹ کر کے رکھ دیں گے اور ظاہر ہے کاروباری طبقہ اس کو ایک لمحے کے لیے بھی گوارا نہیں کرسکتا۔ اسلام میں جہاد کی اہمیت کچھ بھی ہو ‘ آپ کبھی بھول کر بھی اسے زبان پر نہ لایئے۔ ورنہ دہشت گردی کا الزام آپ پر چسپاں ہوجائے گا اور آپ قابل قبول تو کیا ہوں گے ‘ لوگ آپ سے خوف کھانے لگیں گے۔ اندازہ کریں ! بظاہر یہ مشورے کس قدر پسندیدہ ہیں اور کس قدر مصلحت پر مبنی اور حکمت کے آئینہ دار ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ یہ اصول تسلیم کرلیں کہ آپ ہر وہ بات کہیں گے جو سننے والے کے لیے قابل قبول ہو تو پھر آپ بتایئے ! آپ کون سی بات کہیں گے ؟ ایک بےنماز کے لیے نماز قابل قبول نہیں ‘ رشوت لینے والے کے لیے حلال کمائی کا تصور وہشت ناک تصو رہے ‘ سیاست دانوں کو آداب سیاست کا وعظ کہنا بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے ‘ حکمرانوں کو آداب حکومت سمجھانا دشمنی مول لینے والی بات ہے۔ اس کا تو مطلب یہ ہے کہ ہم شاید وہاں پہنچ گئے ہیں ‘ جس کے بارے میں مولانا روم نے ایک مثال دی تھی کہ کوئی آدمی کسی مصور کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا کہ صاحب میرے بازو پر شیر کی تصویر بنادیں۔ اس نے جب تصویر بنانے کے لیے پرکار کی سوئی چبھوئی تو اس نے تکلیف محسوس کر کے پوچھا کہ یہ آپ کیا بنانے لگے ہیں ؟ مصور نے کہا : شیر کی دم بنانے لگا ہوں۔ اس شخص نے کہا : چھوڑیئے ! کیا دم کٹے شیر نہیں ہوتے ؟ کچھ اور بنایئے۔ اس نے پھر سوئی چبھوئی ‘ تکلیف ہوئی تو اس نے پھر پوچھا کہ اب آپ کیا بنانے لگے ہیں ؟ مصور نے کہا : ٹانگیں بنانے لگا ہوں۔ اس نے کہا : یہ رہنے دیجئے ‘ اس شیر نے کہاں چل کر جانا ہے۔ اس نے پھر سوئی چبھوئی تو اس شخص نے پوچھا کہ اب آپ کیا بنا رہے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا پیٹ بنانے لگا ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ یہ کوئی سچ مچ کا شیر تھوڑا ہے ‘ جس نے کچھ کھانا پینا بھی ہے۔ آپ اسے رہنے دیجئے کچھ اور بنایئے۔ مصور نے پرکار زمین پر رکھ دی اور کہا کہ اللہ نے ایسا شیر پیدا نہیں کیا ‘ جس کی نہ ٹانگیں ہوں ‘ نہ پیٹ ہو ‘ نہ دم ہو اور وہ پھر بھی شیر ہو۔ شیطانی قوتوں نے انسانوں کو ایمانی ہدایت سے دور رکھنے اور دل و دماغ کو مسموم کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ہیں اور جس طرح لوگوں کے افکار اور اعمال کو آراستہ کر کے انھیں دکھایا ہے اس کی یہ چند مثالیں ہیں جن کا میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا ہے۔ شیطانی قوتوں کا یہ حربہ ہر دور میں کامیاب رہا ہے اور مشرکین مکہ اسی کی گرفت میں تھے۔ چناچہ قرآن کریم میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ شیطان کی اسی گرفت سے نکالنے کے لیے پروردگار لوگوں کو ان مصائب سے دوچار کرتا ہے کہ شاید وہ اللہ کی طرف رجوع کریں۔ لیکن جب وہ اللہ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیتے ہیں اور ان مصائب کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر کے ‘ اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں تو پھر اللہ کی سنت کا دوسرا مرحلہ سامنے آتا ہے ‘ جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا گیا ہے :
Top