Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 39
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِ١ؕ مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُ١ؕ وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَ : اور الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات صُمٌّ : بہرے وَّبُكْمٌ : اور گونگے فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے مَنْ : جو۔ جس يَّشَاِ : چاہے اللّٰهُ : اللہ يُضْلِلْهُ : اسے گمراہ کردے وَمَنْ يَّشَاْ : اور جسے چاہے يَجْعَلْهُ : اسے کردے (چلادے) عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا یہ بہرے اور گونگے تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے
ارشاد فرمایا : وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّوَّ بُکْمٌفِی الظُّلُمٰتِ ط مَنْ یَّشَاِ اللہ ُ یُضْلِلْہٗ ط وَمَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْہُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (الانعام : 39) (اور جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا یہ بہرے اور گونگے تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے ‘ اور جسے چاہتا ہے اسے سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے) کچھ لوگوں میں قبول حق کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے یعنی یہ لوگ جو رسول اللہ ﷺ کی انتہائی موثر دعوت اور قرآن کریم کا معجزانہ بیان اور کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی نشانیاں دیکھ کر راہ ہدایت اختیار نہیں کرتے بلکہ ان کا انکار عناد کی صورت اختیار کر گیا ہے ان کی مخالفت دشمنی میں تبدیل ہوگئی ہے اور ہر صحیح اور حق بات انھیں گالی سنائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جن بنیادی صلاحیتوں کی وجہ سے آدمی اپنی غلطی کو سمجھتا یا صحیح بات کو قبول کرتا ہے یہ ان تمام بنیادی صلاحیتوں سے حتیٰ کہ احساسات سے بھی عاری ہوگئے ہیں کیونکہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کی ضرورت ہے۔ پہلی یہ بات کہ جب اسے کوئی صحیح بات سمجھائی جائے تو وہ گوش ہوش سے سنے اور کھلے دل سے قبول کرے۔ لیکن جو آدمی سننے سے ہی انکار کر دے ‘ اسے ظاہر ہے دنیا کی کوئی طاقت ہدایت نہیں دے سکتی۔ دوسری بات جس کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر صحیح بات کی طلب پیدا ہو اور وہ اسے جاننے کے لیے دوسرے سے خودپوچھے یا اسے اگر کوئی بات سمجھائی جائے اور اسے کوئی بات سمجھ نہیں آتی یا اس کے ذہن میں کوئی سوال یا اشتباہ پیدا ہوتا ہے تو اسے دور کرنے کے لیے خود زبان کھولے۔ لیکن جو آدمی نہ خود پوچھے نہ جاننے کی کوشش کرے نہ اس کے اندر اس کی طلب پیدا ہو ظاہر ہے ایسے آدمی کو کون سمجھا سکتا ہے۔ تیسری بات جس کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی جہالت اور تاریکی کے ماحول سے نکل کر روشنی اور علم کے ماحول کو اختیار کرے۔ وہ بجائے تاریکی سے پیار کرنے کے روشنی سے پیار کرے اور جہاں جہاں بھی اے روشنی دکھائی دے یا جہاں سے اسے روشنی مل سکتی ہو ‘ دیوانہ وار اس کی طرف لپکے۔ لیکن اگر اسے روشنی سے نفرت ہوجائے اور وہ تاریکی ہی میں رہنا پسند کرے یعنی علم سے اس کو نفور ہو اور جہالت سے محبت تو ایسے آدمی کو بھی راہ راست دکھانا بہت مشکل کام ہے۔ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کر رہے ہیں اور وہ کسی طرح بھی ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ‘ غور سے دیکھو وہ بہرے ہیں کہ آپ کی دعوت کو سن نہیں سکتے اور گونگے ہیں کہ آپ سے کچھ پوچھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ نہ روشنی کی کوئی کرن ان تک پہنچ سکتی ہے اور نہ وہ خود روشنی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں وہ اگر اللہ کی آیات کی تکذیب کر رہے ہیں اور ہدایت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اے پیغمبر ! آپ ان کے بارے میں ہرگز پریشان نہ ہوں وہ بالکل اس قابل نہیں ہیں کہ وہ آپ کی باتیں سن کر سمجھ سکیں اور پھر اسے قبول کر کے ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوں کیونکہ وہ ان بنیادی صلاحیتوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو کہ آخر وہ اس صورت حال سے دوچار کیوں ہوئے اور کیوں اپنے بنیادی صلاحیتیں کھو بیٹھے ؟ کیا وہ پیدائشی طور پر معذور لوگ تھے یا وہ کسی سبب سے اس انجام کو پہنچے ؟ چناچہ اس حوالے سے اسی آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ اپنی اس سنت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جو قرآن کریم میں متعددمواقع پر ذکر کی گئی ہے۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ اس نے انسان کو حواس خمسہ اور عقل کے جوہر سے نوازا ہے۔ اس کے گرد و پیش میں اور خود اس کی فطرت کے اندر اپنی ذات کے عرفان کے لیے نشانیاں رکھی ہیں تاکہ ان سے کام لے کر آدمی اللہ کی معرفت حاصل کرسکے اور اللہ کے دیئے ہوئے طریقے کو اختیار کرسکے۔ پھر اللہ نے مزید کرم یہ فرمایا کہ صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ انسانی ہدایت اور اس کی راہنمائی کے لیے اپنی کتابیں اتاریں ‘ اپنے رسول بھیجے اور انھوں نے سال ہا سال تک انسانی ہدایت کے لیے جان توڑ کوشش کی۔ جب ان تمام امکانات اور کوششوں کے باوجود ایک آدمی را ہِ راست اختیار نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اسے ایک خاص حد تک ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے مہلت دیتے ہیں۔ آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اسے ان صلاحیتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو دل پر مہر لگانا کہا جاتا ہے اور جو آگے بڑھ کر ان تمام امکانات سے فائدہ اٹھاتا ہے ‘ اللہ کے رسول کی دعوت کو قبول کرتا ہے اللہ اس کے لیے صراط مستقیم کھول دیتے ہیں اور وہ ہدایت کا راستہ پا لیتا ہے۔ یہ اس کی سنت ہے یہ لوگ اس سنت کی گرفت میں ہیں۔ رہی یہ بات کہ ہدایت کی طرف چلنے والے کو اللہ کس طرح توفیق سے نوازتا ہے اور مسلسل انکار کرنے والے کو کس طرح محروم کرتا اور راہ راست سے بھٹکاتا ہے۔ اس کو مختصر طور پر یوں سمجھ لیجئے خدا کا بھٹکانا یہ ہے کہ ایک جہالت پسند انسان کو آیات الٰہی کے مطالعہ کی توفیق نہ بخشی جائے اور ایک متعصب غیر حقیقت پسند طالب علم اگر آیات الٰہی کا مشاہدہ کرے بھی تو حقیقت رسی کے نشانات اس کی آنکھ سے اوجھل رہیں اور غلط فہمیوں میں الجھانے والی چیزیں اسے حق سے دور سے دور تر کھینچتی چلی جائیں۔ بخلاف اس کے اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ ایک طالب حق کو علم کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشی جائے اور اللہ کی آیات میں اسے حقیقت تک پہنچنے کے نشانات ملتے چلے جائیں۔ ان تینوں کیفیتوں کی بکثرت مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ بکثرت انسان ایسے ہیں جن کے سامنے آفاق اور انفس میں اللہ کی بیشمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر وہ جانوروں کی طرح انھیں دیکھتے ہیں اور کوئی سبق حاصل نہیں کرتے اور بہت سے انسان ہیں جو حیوانات (Zoology) ‘ نباتات (Botany) ‘ حیاتیات (Biology) ‘ ارضیات (Geology) ‘ فلکیات (Astronomy) ‘ عضویات (Physiology) ‘ علم التشریح (Anatomy) اور سائنس کی دوسری شاخوں کا مطالعہ کرتے ہیں ‘ تاریخ ‘ آثار قدیمہ اور علوم اجتماع (Social Sciences) کی تحقیق کرتے ہیں اور ایسی ایسی نشانیاں ان کے مشاہدے میں آتی ہیں جو قلب کو ایمان سے لبریز کردیں۔ مگر چونکہ وہ مطالعہ کا آغاز ہی تعصب کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر دنیا اور اس کے فوائد و منافع کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس لیے اس مشاہدہ کے دوران میں ان کو صداقت تک پہنچانے والی کوئی نشانی نہیں ملتی ‘ بلکہ جو نشانی بھی سامنے آتی ہے وہ انھیں الٹی دہریت ‘ الحاد ‘ مادہ پرستی اور نیچریت ہی کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ ان کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی ناپید نہیں ہیں جو آنکھیں کھول کر اس کارگاہِ عالم کو دیکھتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار گزشتہ آیت کریمہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا تھا اور مختلف وقتوں میں وہ قیامت کا مذاق تو اڑاتے ہی رہتے تھے۔ اگلی آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی مطالبے کو ایک خوبصورت دلیل انفسی کی صورت میں توحید کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور ان کی گمراہی کو اس طرح مبرہن کردیا ہے کہ جس کا جواب دینا ان کے لیے ممکن نہیں۔
Top