Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 38
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ١ؕ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ
وَمَا
: اور نہیں
مِنْ
: کوئی
دَآبَّةٍ
: چلنے والا
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَ
: اور
لَا
: نہ
طٰٓئِرٍ
: پرندہ
يَّطِيْرُ
: اڑتا ہے
بِجَنَاحَيْهِ
: اپنے دو پروں سے
اِلَّآ
: مگر
اُمَمٌ
: امتیں (جماعتیں
اَمْثَالُكُمْ
: تمہاری طرح
مَا فَرَّطْنَا
: نہیں چھوڑی ہم نے
فِي الْكِتٰبِ
: کتاب میں
مِنْ
: کوئی
شَيْءٍ
: چیز
ثُمَّ
: پھر
اِلٰى
: طرف
رَبِّهِمْ
: اپنا رب
يُحْشَرُوْنَ
: جمع کیے جائیں گے
اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوئوں سے اڑتا ہو مگر یہ سب تمہاری ہی طرح امتیں ہیں اور ہم نے اپنی کتاب میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے پھر یہ سب اپنے پروردگار کے حضور اکٹھے کئے جائیں گے
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌاَمْثَالُکُمْ ط مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیٔئٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ یُحْشَرُوْنَ ۔ (الانعام : 38) (اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوئوں سے اڑتا ہو ‘ مگر یہ سب تمہاری ہی طرح امتیں ہیں۔ اور ہم نے اپنی کتاب میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر یہ سب اپنے پروردگار کے حضور اکٹھے کیے جائیں گے) عقل والوں کے لیے نشانیاں اس آیت کریمہ میں بظاہر صرف جانوروں اور پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اُمَمٌاَمْثَالُکُمْ کہہ کر معلوم ہوتا ہے کہ تمام کائنات کی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے اور توجہ دلائی گئی ہے کہ تم ایک نشانی مانگتے ہو یہ آفاق تو نشانیوں سے بھرپور ہیں۔ صرف دیکھنے والی نگاہ چاہیے۔ آسمان سے لے کر زمین تک کوئی چپہ ایسا نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نشانی دیکھنے والی نگاہ کے لیے موجود نہ ہو ‘ ہر جگہ دل کو کھینچنے ‘ آنکھوں کو بیدار کرنے اور کانوں کو کھولنے کے لیے دل فریب مناظر ‘ بےحجاب جلوے اور شیریں نغمے موجود ہیں۔ باقی کائنات کو تو چھوڑیئے صرف زمین ہی کو دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ کہ اس کی سطح پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی ہے۔ اس کی تہہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں۔ گہرائی سے سونا چاندی نکل رہا ہے۔ سائے کے لیے درخت سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ چلنے پھرنے کے لیے سبزے کا ایک مخملیں فرش بچھا دیا گیا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے سبزے کی چادریں بچھا دی گئی ہیں۔ پھولوں میں رنگ و حسن پیدا کردیا گیا ہے۔ میدانوں کے اکتائے ہوئے لوگوں کے لیے سربفلک پہاڑ اٹھا دیئے ہیں ‘ ان میں آبشاریں ہیں جو سینوں کو مسرت سے بھرے دے رہی ہیں۔ اس میں قسم قسم کے درخت ہیں جن کی حسن افروزی اپنی ایک شان رکھتی ہے۔ پھر باغ و انہار ہیں ‘ سبزیاں ہیں ‘ پھل ہیں ‘ قسم قسم کی بیلیں ہیں ‘ پھر زمین کے چارپائے ‘ فضا کے پرند ‘ پانی کی مچھلیاں ‘ یہ سب کیا ہے ؟ ظاہر ہے یہ ساری چیزیں انسان کی ضرورت کے لیے ضروری نہیں تھیں۔ انسان کے لیے لکڑی کی ضرورت تھی۔ لیکن کیا ضروری تھا کہ درختوں کو چھتریاں بنادیا جاتا ‘ انسان کو غلے کی ضرورت تھی لیکن لہلہاتی فصل کو نقرئی لباس پہنانے کی کیا ضرورت تھی۔ پرندے گوشت کے لیے ضروری سہی لیکن ان کی خوبصورت آوازیں ‘ کوئل کی کو ک ‘ مور کا ناچ ‘ پپی ہے کی پی ‘ چڑیوں کے چہچ ہے اور عام پرندوں کے ترانے یہ تو انسان کی ضرورت نہ تھے اور اگر آسمان کی طرف دیکھا جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم پر ایک چھت تانی گئی ہے۔ لیکن ستاروں کا نظام اور ان کی سیر و گردش ‘ سورج کی روشنی اور اس کی بو قلمونی ‘ چاند کی گردش اور اس کا اتار چڑھائو ‘ فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی نے نیرنگیاں ‘ بارش کا سماں اور اس کے تغیرات یہ سب کیا ہے ؟ سورة النحل کی آیت نمبر 65 تا 69 میں کائنات کی ہم آہنگی کے حوالے سے بعض نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو ہمارے روز مرہ کی چیزیں ہیں۔ اور انسان ہدایت پانا چاہے تو یہ اس کی ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ ہم اس کا ترجمہ نقل کرتے ہیں : ” اللہ ہی نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے خشک ہوجانے کے بعد۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو بات کو سنتے ہیں اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں بڑا سبق ہے۔ ہم ان کے پیٹوں کے اندر کے گوبر اور خون کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں۔ پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے بھی۔ تم ان سے نشہ کی چیزیں بھی بناتے ہو اور کھانے کی اچھی چیزیں بھی۔ بیشک اس کے اندر بڑی نشانی ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر القا کیا کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو چھتیں اٹھاتے ہیں ان میں چھتے بنا ‘ پھر ہر قسم کے پھلوں، پھولوں سے رس چوس ‘ پھر اپنے پروردگار کے ہموار راستوں پر چل۔ اس کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے۔ جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ بیشک اس کے اندر بڑی نشانی ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں “۔ ان آیات میں اس عالم کی ہمہ گیر ہم آہنگی کی طرف اشارات ہیں۔ بادلوں سے پانی برستا ہے ‘ اس سے زمین لہلہا اٹھتی ہے ‘ اس کی نباتات کو چوپائے چرتے ہیں ان سے ان کے اندر دودھ بنتا ہے۔ آلائشوں اور خون کے اندر سے سفید دودھ کی دھاریں نکلتی ہیں اور یہ دودھ پینے والوں کے لیے نہایت لذیذ اور قوت بخش غذا کا کام دیتا ہے پھر اسی بارش کے پرورش کیے ہوئے انگور اور کھجور کے پھلوں سے انسان اپنی لذت اور ضرورت کی طرح طرح کی چیزیں پیدا کرلیتا ہے۔ پھر شہد کی مکھیاں ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں پر ‘ درختوں کی شاخوں پر ‘ انگور کی ٹٹیوں میں اپنا چھتہ بنا لیتی ہیں۔ پھول پھول کے رس چوس کر ان کو جمع کرتی ہیں۔ جن کے رنگ بھی مختلف اور مزے بھی مختلف۔ انسان ان کو نوش جان کرتا ہے۔ ان سے لذت بھی حاصل کرتا ہے اور بیماریوں میں شفا بھی ‘ ان مناظر کو جو شخص بھی دیدہ عبرت سے دیکھے گا کس طرح باور کرسکتا ہے کہ یہ دنیا اور اس کے یہ تمام حیرت انگیز مظاہر بالکل ایک حادثے کی طرح ظہور میں آگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہم ایک فطرت رکھتے ہیں اسی طرح یہ حیوانات بھی ایک مخصوص جبلت رکھتے ہیں۔ جس طرح ہم شعور ‘ ادراک اور جذبات رکھتے ہیں اسی طرح جانور اور حیوانات اپنے جبلی تقاضوں اور اپنے منشاء تقدیر کے اعتبار سے اپنے اندر شعور ‘ ادراک اور جذبات رکھتے ہیں۔ جس طرح ہمارے اجتماعی شعور نے بعض آثار و نتائج کو جنم دیا ہے اور اس سے بعض حیرت انگیز ادارے وجود میں آئے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی زندگی میں بھی ہمیں اس اجتماعی شعور کی جھلک ملتی ہے۔ ان کے ایک سیاسی نظام کا بھی احساس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں ہر فرد اپنا حصہ ادا کر رہا ہے اسے سمجھنا ہو تو چیونٹیوں کی زیر زمین زندگی کو مطالعہ کرنا چاہیے اور اسی طرح مکھی کے اجتماعی تحفظ کے انتظامات کو دیکھنا چاہیے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل کے حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ان کے اندر کیسی پیش بینی پائی جاتی ہے۔ جماعتی فرائض کا کیسا شدید احساس ہے ‘ کیسی اعلیٰ تقسیمِ کار ہے بلکہ بعض دفعہ تو بعض مخلوقات میں ایسی حیرت انگیز صلاحیتوں کا سراغ ملتا ہے جس سے آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سمندر میں یوں تو مچھلیوں کی بیشمار انواع ہیں لیکن ان میں خاص طور پر دو طرح کی مچھلیوں کا سفر بہت حیرت انگیز ہے۔ -1 سامن مچھلی : یہ اگر کسی ندی میں پیدا ہو تو جوان ہونے کے بعد یہ پہلے دریا میں اور وہاں سے سمندر میں چلی جاتی ہے۔ وہاں مدتوں رہتی ہے اور جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی موت قریب آگئی ہے تو وہ واپس چل پڑتی ہے۔ یہ سمندر اور دریا سے ہوتی ہوی ندی کے اس مقام پر جا رکتی ہے جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔ اگر دوران سفر وہ کسی غلط ندی کی طرف مڑ جائے تو اسے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور واپس آجاتی ہے۔ -2 ایل مچھلی : یہ کسی ندی میں ہو یا دریا میں جوان ہونے کے بعد اپنے وطن سے چل پڑتی ہے اور ہزاروں میل دور جزائر برمودہ (اوقیانوس) میں چلی جاتی ہے۔ وہاں بچے دے کر مرجاتی ہے۔ یہ بچے وہاں سے چل کر اپنی ماں کے وطن میں آجاتے ہیں اور وہاں سے پھر جزائر برمودہ میں پہنچ کر پہلے بچے دیتے ہیں بعد ازاں مرجاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ آپ سے آپ وجود میں آگیا ہے اور اپنے ہی بل پر چل رہا ہے یا اس کے پیچھے کوئی خالق و مدبر ہے ؟ اگر اس کے پیچھے کوئی خالق و مدبر ہے تو کیا وہ سب کچھ بنا کر ایک گوشہ میں بےتعلق ہو کر بیٹھ گیا ہے یا براہ راست اس پوری کائنات کی حفاظت فرما رہا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ کسی اندھی بہری قوت قاہرہ کا ظہور ہے یا کسی قدیر وقیوم ‘ علیم و حکیم اور رحمان و رحیم ہستی کی قدرت و رحمت کا فیضان ہے ؟ کیا یہ مختلف ارادوں ‘ متضاد قوتوں اور بیشمار دیویوں دیوتائوں کی ایک رزم گاہ ہے یا ایک ہی خدائے وحدہٗ لا شریک کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و ربوبیت کی ایک جلوہ گاہ ہے ؟ کیا یہ سارا کارخانہ بالکل بےمقصد ‘ بےغایت اور بےانجام نظر آتا ہے یا اس کی ایک ایک چیز پکار پکار کر شہادت دے رہی ہے کہ اس کے پیچھے ایک عظیم غایت ہے جس کا ظہور قطعی اور یقینی ہے ؟ کیا اس کے ظاہر و باطن سے یہ شہادت مل رہی ہے کہ انسان اس کے اندر شتر بےمہار بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ کھائے پیئے ‘ عیش کرے اور ایک دن ختم ہوجائے یا اس سے یہ شہادت مل رہی ہے کہ جس قادرنے یہ دنیا بنائی ہے ‘ جس حکیم نے اس کے ایک ایک ذرے میں اپنی حکمت کی شان دکھائی ہے ‘ جس رحیم نے اپنی ربوبیت و رحمت کے یہ خوان نعمت بچھائے ہیں ‘ وہ ایک دن سب کو ضرور اکٹھا کرے گا اور ہر ایک کی نیکی ‘ بدی کو ضرور تولے گا اور پھر اس کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرے گا ؟ انسان کی فطرت اگر مسخ اور اس کی عقل اگر مفلوج نہ ہوگئی ہو تو وہ اس اعتراف پر مجبور ہے کہ ان سب باتوں میں سے دوسری ہی بات صحیح ہے۔ اگر یہی صحیح ہے اور بدیہی طور پر یہی صحیح ہے تو قرآن اسی کو ماننے کی دعوت دے رہا ہے۔ پھر اس کو ماننے کے لیے کسی معجزے کی کیا ضرورت ہے۔ اس حقیقت کی شہادت تو اس کائنات کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔ زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضا میں اڑنے والا ہر پرندہ اس کا گواہ ہے۔ اگر انسان اپنے وجود کے اندر کی شہادتوں سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے تو باہر کی ان نشانیوں ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھ لے جو نیچے بھی موجود ہیں اور اوپر بھی۔ اس آیت کریمہ کے آخری دو جملوں میں مزید دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح یہ صحیفہ کائنات مختلف لانواع نشانیوں سے لبریز ہے جس میں مشاہداتی نشانیاں بھی ہیں ‘ علمی بھی ‘ آفاقی بھی ہیں ‘ انفسی بھی ‘ تاثراتی بھی ہیں ‘ انفعالی بھی ‘ ذہنی بھی ہیں اور ذوقی بھی۔ ہر طرح کا فرد اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اسی طرح کتاب خداوندی یعنی قرآن کریم بھی ہر طرح کے دلائل اور ہر طرح کی نشانیوں سے بھرپور ہے۔ اللہ کے وجود اس کی وحدانیت انسان کی اصل حیثیت اور اس کی عبدیت ‘ کائنات سے انسان کا رشتہ ‘ خود پروردگار سے اس کے رشتے کی نزاکت ‘ شریعت بطور انسانی ضرورت اور اللہ کی ہدایت اور راہنمائی کی طلب اور حاجت ان میں سے کوئی بات ایسی نہیں جس پر قرآن کریم نے مختلف اسالیب کے ساتھ اور مختلف انداز میں دلائل کا ایک انبار نہ لگایا ہو۔ اسی کے بارے میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے کتاب میں یعنی قرآن کریم میں دلائل کی حد تک کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ لیکن جن لوگوں نے خود کشی کا ارادہ کرلیا ہے اور ہدایت سے منہ موڑ کر محرومی اپنا مقدر بنا چکے ہیں ان کو نہ صحیفہ کائنات کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ صحیفہ قرآن۔ اس لیے اے پیغمبر یہ لوگ اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو آپ زیادہ پریشان نہ ہوں۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ چونکہ ہر طرح کی نشانی سے آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ہدایت سے محروم کرچکے ہیں۔ اب تو ایک ہی بات کہی جاسکتی ہے کہ جب یہ اپنے رب کی طرف لے جائے جائیں گے اور قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں ان کی حاضری ہوگی۔ تب ان کی آنکھیں کھلیں گی کہ دنیا میں مسلسل ہدایت سے منہ پھیر کر ہم نے کس طرح اپنی تباہی کو دعوت دی اور آج وہ تباہی ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ لیکن اس وقت ان کا آنکھیں کھولنا اور اپنے کیے پر پچھتانا ان کے کسی کام نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ وہ تو دار الجزاء ہے دارالعمل کا دور تو بیت گیا۔ اگلی آیت کریمہ میں ان کی اس محرومی اور بدنصیبی کا سبب بیان کیا گیا ہے۔
Top