Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 38
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ١ؕ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا : نہ طٰٓئِرٍ : پرندہ يَّطِيْرُ : اڑتا ہے بِجَنَاحَيْهِ : اپنے دو پروں سے اِلَّآ : مگر اُمَمٌ : امتیں (جماعتیں اَمْثَالُكُمْ : تمہاری طرح مَا فَرَّطْنَا : نہیں چھوڑی ہم نے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مِنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب يُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جائیں گے
اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوئوں سے اڑتا ہو مگر یہ سب تمہاری ہی طرح امتیں ہیں اور ہم نے اپنی کتاب میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے پھر یہ سب اپنے پروردگار کے حضور اکٹھے کئے جائیں گے
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌاَمْثَالُکُمْ ط مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیٔئٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ یُحْشَرُوْنَ ۔ (الانعام : 38) (اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوئوں سے اڑتا ہو ‘ مگر یہ سب تمہاری ہی طرح امتیں ہیں۔ اور ہم نے اپنی کتاب میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر یہ سب اپنے پروردگار کے حضور اکٹھے کیے جائیں گے) عقل والوں کے لیے نشانیاں اس آیت کریمہ میں بظاہر صرف جانوروں اور پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اُمَمٌاَمْثَالُکُمْ کہہ کر معلوم ہوتا ہے کہ تمام کائنات کی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے اور توجہ دلائی گئی ہے کہ تم ایک نشانی مانگتے ہو یہ آفاق تو نشانیوں سے بھرپور ہیں۔ صرف دیکھنے والی نگاہ چاہیے۔ آسمان سے لے کر زمین تک کوئی چپہ ایسا نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نشانی دیکھنے والی نگاہ کے لیے موجود نہ ہو ‘ ہر جگہ دل کو کھینچنے ‘ آنکھوں کو بیدار کرنے اور کانوں کو کھولنے کے لیے دل فریب مناظر ‘ بےحجاب جلوے اور شیریں نغمے موجود ہیں۔ باقی کائنات کو تو چھوڑیئے صرف زمین ہی کو دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ کہ اس کی سطح پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی ہے۔ اس کی تہہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں۔ گہرائی سے سونا چاندی نکل رہا ہے۔ سائے کے لیے درخت سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ چلنے پھرنے کے لیے سبزے کا ایک مخملیں فرش بچھا دیا گیا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے سبزے کی چادریں بچھا دی گئی ہیں۔ پھولوں میں رنگ و حسن پیدا کردیا گیا ہے۔ میدانوں کے اکتائے ہوئے لوگوں کے لیے سربفلک پہاڑ اٹھا دیئے ہیں ‘ ان میں آبشاریں ہیں جو سینوں کو مسرت سے بھرے دے رہی ہیں۔ اس میں قسم قسم کے درخت ہیں جن کی حسن افروزی اپنی ایک شان رکھتی ہے۔ پھر باغ و انہار ہیں ‘ سبزیاں ہیں ‘ پھل ہیں ‘ قسم قسم کی بیلیں ہیں ‘ پھر زمین کے چارپائے ‘ فضا کے پرند ‘ پانی کی مچھلیاں ‘ یہ سب کیا ہے ؟ ظاہر ہے یہ ساری چیزیں انسان کی ضرورت کے لیے ضروری نہیں تھیں۔ انسان کے لیے لکڑی کی ضرورت تھی۔ لیکن کیا ضروری تھا کہ درختوں کو چھتریاں بنادیا جاتا ‘ انسان کو غلے کی ضرورت تھی لیکن لہلہاتی فصل کو نقرئی لباس پہنانے کی کیا ضرورت تھی۔ پرندے گوشت کے لیے ضروری سہی لیکن ان کی خوبصورت آوازیں ‘ کوئل کی کو ک ‘ مور کا ناچ ‘ پپی ہے کی پی ‘ چڑیوں کے چہچ ہے اور عام پرندوں کے ترانے یہ تو انسان کی ضرورت نہ تھے اور اگر آسمان کی طرف دیکھا جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم پر ایک چھت تانی گئی ہے۔ لیکن ستاروں کا نظام اور ان کی سیر و گردش ‘ سورج کی روشنی اور اس کی بو قلمونی ‘ چاند کی گردش اور اس کا اتار چڑھائو ‘ فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی نے نیرنگیاں ‘ بارش کا سماں اور اس کے تغیرات یہ سب کیا ہے ؟ سورة النحل کی آیت نمبر 65 تا 69 میں کائنات کی ہم آہنگی کے حوالے سے بعض نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو ہمارے روز مرہ کی چیزیں ہیں۔ اور انسان ہدایت پانا چاہے تو یہ اس کی ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ ہم اس کا ترجمہ نقل کرتے ہیں : ” اللہ ہی نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے خشک ہوجانے کے بعد۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو بات کو سنتے ہیں اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں بڑا سبق ہے۔ ہم ان کے پیٹوں کے اندر کے گوبر اور خون کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں۔ پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے بھی۔ تم ان سے نشہ کی چیزیں بھی بناتے ہو اور کھانے کی اچھی چیزیں بھی۔ بیشک اس کے اندر بڑی نشانی ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر القا کیا کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو چھتیں اٹھاتے ہیں ان میں چھتے بنا ‘ پھر ہر قسم کے پھلوں، پھولوں سے رس چوس ‘ پھر اپنے پروردگار کے ہموار راستوں پر چل۔ اس کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے۔ جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ بیشک اس کے اندر بڑی نشانی ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں “۔ ان آیات میں اس عالم کی ہمہ گیر ہم آہنگی کی طرف اشارات ہیں۔ بادلوں سے پانی برستا ہے ‘ اس سے زمین لہلہا اٹھتی ہے ‘ اس کی نباتات کو چوپائے چرتے ہیں ان سے ان کے اندر دودھ بنتا ہے۔ آلائشوں اور خون کے اندر سے سفید دودھ کی دھاریں نکلتی ہیں اور یہ دودھ پینے والوں کے لیے نہایت لذیذ اور قوت بخش غذا کا کام دیتا ہے پھر اسی بارش کے پرورش کیے ہوئے انگور اور کھجور کے پھلوں سے انسان اپنی لذت اور ضرورت کی طرح طرح کی چیزیں پیدا کرلیتا ہے۔ پھر شہد کی مکھیاں ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں پر ‘ درختوں کی شاخوں پر ‘ انگور کی ٹٹیوں میں اپنا چھتہ بنا لیتی ہیں۔ پھول پھول کے رس چوس کر ان کو جمع کرتی ہیں۔ جن کے رنگ بھی مختلف اور مزے بھی مختلف۔ انسان ان کو نوش جان کرتا ہے۔ ان سے لذت بھی حاصل کرتا ہے اور بیماریوں میں شفا بھی ‘ ان مناظر کو جو شخص بھی دیدہ عبرت سے دیکھے گا کس طرح باور کرسکتا ہے کہ یہ دنیا اور اس کے یہ تمام حیرت انگیز مظاہر بالکل ایک حادثے کی طرح ظہور میں آگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہم ایک فطرت رکھتے ہیں اسی طرح یہ حیوانات بھی ایک مخصوص جبلت رکھتے ہیں۔ جس طرح ہم شعور ‘ ادراک اور جذبات رکھتے ہیں اسی طرح جانور اور حیوانات اپنے جبلی تقاضوں اور اپنے منشاء تقدیر کے اعتبار سے اپنے اندر شعور ‘ ادراک اور جذبات رکھتے ہیں۔ جس طرح ہمارے اجتماعی شعور نے بعض آثار و نتائج کو جنم دیا ہے اور اس سے بعض حیرت انگیز ادارے وجود میں آئے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی زندگی میں بھی ہمیں اس اجتماعی شعور کی جھلک ملتی ہے۔ ان کے ایک سیاسی نظام کا بھی احساس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں ہر فرد اپنا حصہ ادا کر رہا ہے اسے سمجھنا ہو تو چیونٹیوں کی زیر زمین زندگی کو مطالعہ کرنا چاہیے اور اسی طرح مکھی کے اجتماعی تحفظ کے انتظامات کو دیکھنا چاہیے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل کے حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ان کے اندر کیسی پیش بینی پائی جاتی ہے۔ جماعتی فرائض کا کیسا شدید احساس ہے ‘ کیسی اعلیٰ تقسیمِ کار ہے بلکہ بعض دفعہ تو بعض مخلوقات میں ایسی حیرت انگیز صلاحیتوں کا سراغ ملتا ہے جس سے آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سمندر میں یوں تو مچھلیوں کی بیشمار انواع ہیں لیکن ان میں خاص طور پر دو طرح کی مچھلیوں کا سفر بہت حیرت انگیز ہے۔ -1 سامن مچھلی : یہ اگر کسی ندی میں پیدا ہو تو جوان ہونے کے بعد یہ پہلے دریا میں اور وہاں سے سمندر میں چلی جاتی ہے۔ وہاں مدتوں رہتی ہے اور جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی موت قریب آگئی ہے تو وہ واپس چل پڑتی ہے۔ یہ سمندر اور دریا سے ہوتی ہوی ندی کے اس مقام پر جا رکتی ہے جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔ اگر دوران سفر وہ کسی غلط ندی کی طرف مڑ جائے تو اسے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور واپس آجاتی ہے۔ -2 ایل مچھلی : یہ کسی ندی میں ہو یا دریا میں جوان ہونے کے بعد اپنے وطن سے چل پڑتی ہے اور ہزاروں میل دور جزائر برمودہ (اوقیانوس) میں چلی جاتی ہے۔ وہاں بچے دے کر مرجاتی ہے۔ یہ بچے وہاں سے چل کر اپنی ماں کے وطن میں آجاتے ہیں اور وہاں سے پھر جزائر برمودہ میں پہنچ کر پہلے بچے دیتے ہیں بعد ازاں مرجاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ آپ سے آپ وجود میں آگیا ہے اور اپنے ہی بل پر چل رہا ہے یا اس کے پیچھے کوئی خالق و مدبر ہے ؟ اگر اس کے پیچھے کوئی خالق و مدبر ہے تو کیا وہ سب کچھ بنا کر ایک گوشہ میں بےتعلق ہو کر بیٹھ گیا ہے یا براہ راست اس پوری کائنات کی حفاظت فرما رہا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ کسی اندھی بہری قوت قاہرہ کا ظہور ہے یا کسی قدیر وقیوم ‘ علیم و حکیم اور رحمان و رحیم ہستی کی قدرت و رحمت کا فیضان ہے ؟ کیا یہ مختلف ارادوں ‘ متضاد قوتوں اور بیشمار دیویوں دیوتائوں کی ایک رزم گاہ ہے یا ایک ہی خدائے وحدہٗ لا شریک کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و ربوبیت کی ایک جلوہ گاہ ہے ؟ کیا یہ سارا کارخانہ بالکل بےمقصد ‘ بےغایت اور بےانجام نظر آتا ہے یا اس کی ایک ایک چیز پکار پکار کر شہادت دے رہی ہے کہ اس کے پیچھے ایک عظیم غایت ہے جس کا ظہور قطعی اور یقینی ہے ؟ کیا اس کے ظاہر و باطن سے یہ شہادت مل رہی ہے کہ انسان اس کے اندر شتر بےمہار بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ کھائے پیئے ‘ عیش کرے اور ایک دن ختم ہوجائے یا اس سے یہ شہادت مل رہی ہے کہ جس قادرنے یہ دنیا بنائی ہے ‘ جس حکیم نے اس کے ایک ایک ذرے میں اپنی حکمت کی شان دکھائی ہے ‘ جس رحیم نے اپنی ربوبیت و رحمت کے یہ خوان نعمت بچھائے ہیں ‘ وہ ایک دن سب کو ضرور اکٹھا کرے گا اور ہر ایک کی نیکی ‘ بدی کو ضرور تولے گا اور پھر اس کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرے گا ؟ انسان کی فطرت اگر مسخ اور اس کی عقل اگر مفلوج نہ ہوگئی ہو تو وہ اس اعتراف پر مجبور ہے کہ ان سب باتوں میں سے دوسری ہی بات صحیح ہے۔ اگر یہی صحیح ہے اور بدیہی طور پر یہی صحیح ہے تو قرآن اسی کو ماننے کی دعوت دے رہا ہے۔ پھر اس کو ماننے کے لیے کسی معجزے کی کیا ضرورت ہے۔ اس حقیقت کی شہادت تو اس کائنات کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔ زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضا میں اڑنے والا ہر پرندہ اس کا گواہ ہے۔ اگر انسان اپنے وجود کے اندر کی شہادتوں سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے تو باہر کی ان نشانیوں ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھ لے جو نیچے بھی موجود ہیں اور اوپر بھی۔ اس آیت کریمہ کے آخری دو جملوں میں مزید دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح یہ صحیفہ کائنات مختلف لانواع نشانیوں سے لبریز ہے جس میں مشاہداتی نشانیاں بھی ہیں ‘ علمی بھی ‘ آفاقی بھی ہیں ‘ انفسی بھی ‘ تاثراتی بھی ہیں ‘ انفعالی بھی ‘ ذہنی بھی ہیں اور ذوقی بھی۔ ہر طرح کا فرد اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اسی طرح کتاب خداوندی یعنی قرآن کریم بھی ہر طرح کے دلائل اور ہر طرح کی نشانیوں سے بھرپور ہے۔ اللہ کے وجود اس کی وحدانیت انسان کی اصل حیثیت اور اس کی عبدیت ‘ کائنات سے انسان کا رشتہ ‘ خود پروردگار سے اس کے رشتے کی نزاکت ‘ شریعت بطور انسانی ضرورت اور اللہ کی ہدایت اور راہنمائی کی طلب اور حاجت ان میں سے کوئی بات ایسی نہیں جس پر قرآن کریم نے مختلف اسالیب کے ساتھ اور مختلف انداز میں دلائل کا ایک انبار نہ لگایا ہو۔ اسی کے بارے میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے کتاب میں یعنی قرآن کریم میں دلائل کی حد تک کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ لیکن جن لوگوں نے خود کشی کا ارادہ کرلیا ہے اور ہدایت سے منہ موڑ کر محرومی اپنا مقدر بنا چکے ہیں ان کو نہ صحیفہ کائنات کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ صحیفہ قرآن۔ اس لیے اے پیغمبر یہ لوگ اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو آپ زیادہ پریشان نہ ہوں۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ چونکہ ہر طرح کی نشانی سے آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ہدایت سے محروم کرچکے ہیں۔ اب تو ایک ہی بات کہی جاسکتی ہے کہ جب یہ اپنے رب کی طرف لے جائے جائیں گے اور قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں ان کی حاضری ہوگی۔ تب ان کی آنکھیں کھلیں گی کہ دنیا میں مسلسل ہدایت سے منہ پھیر کر ہم نے کس طرح اپنی تباہی کو دعوت دی اور آج وہ تباہی ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ لیکن اس وقت ان کا آنکھیں کھولنا اور اپنے کیے پر پچھتانا ان کے کسی کام نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ وہ تو دار الجزاء ہے دارالعمل کا دور تو بیت گیا۔ اگلی آیت کریمہ میں ان کی اس محرومی اور بدنصیبی کا سبب بیان کیا گیا ہے۔
Top