Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 32
وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ١ؕ وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَآ : دنیا اِلَّا : مگر (صرف) لَعِبٌ : کھیل وَّلَهْوٌ : اور جی کا بہلاوا وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ : اور آخرت کا گھر خَيْرٌ : بہتر لِّلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو يَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری کرتے ہیں اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : سو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے
دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشہ ہے۔ آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کیلئے بہتر ہے ‘ جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے ؟
قیامت کے انکار کے نتائج اور اس کا انجام ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا جا رہا ہے کہ چونکہ قیامت کا انکار دنیا کی حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اور دنیا سے غائت درجہ محبت کا ثمر ہے اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کی حقیقت واضح کردی جائے۔ اس لیے ارشاد فرمایا : وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَعِبٌوَّ لَھْوٌط وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌلِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ (الانعام : 32) ” دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشہ ہے۔ آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لیے بہتر ہے ‘ جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے ؟ “۔ یعنی یہ دنیا کی زندگی جس نے تمہیں آخرت سے غافل کردیا ہے ‘ سوائے بےنتیجہ لھو و لعب اور چند روزہ دل بہلاوے کے اور کیا ہے ؟ اصل شے تو دار آخرت اور اس کی زندگی ہے جو آخرت سے ڈرنے والوں کے لیے اس دنیا کی زندگی سے کہیں بہتر ہے بس کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ اس آیت کریمہ میں یہ جو فرمایا گیا کہ دنیا کی زندگی تو صرف ایک کھیل اور تماشہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے اور یہ محض کھیل اور تماشے کے طور پر بنائی گئی ہے۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کے مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل اور تفریح میں دل بہلائے اور پھر اصل سنجیدہ کاروبار کی طرف واپس ہوجائے۔ نیز اسے کھیل اور تماشے سے تشبیہ اس لیے بھی دی گئی ہے کہ یہاں حقیقت کے مخفی ہونے کی وجہ سے بےبصیرت اور طاہر پرست انسانوں کے لیے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب موجود ہیں اور ان غلط فہمیوں میں پھنس کر لوگ حقیقت نفس الامری کے خلاف ایسے ایسے عجیب طرز عمل اختیار کرتے ہیں جن کی بدولت ان کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً جو شخص یہاں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اس کی حیثیت حقیقت میں تھیئٹر کے اس مصنوعی بادشاہ سے مختلف نہیں ہوتی جو تاج پہن کر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس طرح حکم چلاتا ہے گویا کہ وہ واقعی بادشاہ ہے حالانکہ حقیقی بادشاہی کی اس کو ہوا تک نہیں لگی ہوتی۔ ڈائریکٹر کے ایک اشارے پر وہ معزول ہوجاتا ہے ‘ قید کیا جاتا ہے اور اس کے قتل تک کا فیصلہ صادر ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی تماشے اس دنیا میں ہر طرف ہو رہے ہیں۔ کہیں کسی ولی یا دیوی کے دربار سے حاجت روائیاں ہو رہی ہیں ‘ حالانکہ وہاں حاجت روائی کی طاقت کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ کہیں کوئی غیب دانی کے کمالات کا مظاہرہ کر رہا ہے ‘ حالانکہ غیب کے علم کا وہاں شائبہ تک نہیں۔ کہیں کوئی لوگوں کا رازق بنا ہوا ہے حالانکہ بیچارہ خود اپنے رزق کے لیے کسی اور کا محتاج ہے۔ کہیں کوئی اپنے آپ کو عزت اور ذلت دینے والا ‘ نفع اور نقصان پہنچانے والا سمجھے بیٹھا ہے اور یوں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجا رہا ہے گویا کہ وہی گرد و پیش کی ساری مخلوق کا خدا ہے ‘ حالانکہ بندگی کی ذلت کا داغ اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے اور قسمت کا ایک ذرا سا جھٹکا اسے کبریائی کے مقام سے گرا کر انہی لوگوں کے قدموں میں پامال کرسکتا ہے ‘ جن پر وہ کل تک خدائی کر رہا تھا۔ یہ سب کھیل جو دنیا کی چند روزہ زندگی میں کھیلے جا رہے ہیں ‘ موت کی ساعت آتے ہی یکلخت ختم ہوجائیں گے اور اس سرحد سے پار ہوتے ہی انسان اس عالم میں پہنچ جائے گا ‘ جہاں سب کچھ عین حقیقت کے مطابق ہوگا اور جہاں دنیوی زندگی کی ساری غلط فہمیوں کے چھلکے اتار کر ہر انسان کو دکھا دیا جائے گا کہ وہ صداقت کا کتنا جوہر اپنے ساتھ لایا ہے جو میزان حق میں کسی وزن اور کسی قدر و قیمت کا حامل ہوسکتا ہو۔ تقویٰ والوں کے لیے آخرت بہتر ہے اس آیت کریمہ میں اگر مزید تدبر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے دو جملے ہیں اور دونوں جملوں میں جو بات کہی گئی ہے ان میں تقابل پایا جاتا ہے پہلے جملے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ زندگی صرف لہو و لعب ہے اور دوسرے جملے میں کہا گیا ہے کہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ جو لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے ان کے لیے تو یہ گھر دارالعذاب ہوگا وہ تو بہتری کا تصور بھی نہیں کرسکتے اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا اور آخرت فی نفسہٖ ایک دوسرے پر فوقیت نہیں رکھتیں ‘ بلکہ دونوں اللہ کی مخلوق ہیں۔ دنیا اللہ نے آخرت کی تیاری کے لیے پیدا فرمائی اور آخرت دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اور ان کی جزا ہے۔ جن لوگوں نے اس دنیا کو درالعمل سمجھ کر لہو و لعب میں زندگی نہیں گزاری۔ یعنی انھوں نے زندگی کے مقاصد کو پہچانا اور پوری دنیوی زندگی ان مقاصد کے حصول کی تگ و دو میں صرف کر ڈالی وہ دنیا کو ایک کھلنڈرے کا کھیل سمجھنے کی بجائے اس کی سنجیدگی کو لیے ہوئے زندگی گزارتے رہے اور ہمیشہ ان کے سامنے آخرت کی منزل رہی۔ زندگی کے ہر مرحلے میں خوف خدا سے ان کا احساس اور ان کا ہر عمل گراں بار رہا۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ زندگی بالکل آخرت ہی کی طرح اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اگر مقصود آخرت ہے تو اس مقصود کو حاصل کرنے کے لیے دنیا کی زندگی کا ہونا ضروری ہے ‘ اگر یہ دنیا کی زندگی نہ ہوتی تو ہم آخرت کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی نہ کرسکتے۔ اہل علم کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ جو چیز محبوب ہوتی ہے اس تک پہنچنے کا ذریعہ بھی محبوب ہوتا ہے جو چیز واجب ہوتی ہے اس کا مقدمہ اور اس کا ذریعہ بھی واجب ہوتا ہے ‘ اس لحاظ سے یہ کہنا چاہیے کہ آخرت بھی صرف اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے بہتر ہے اور دنیا بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے بہتر ہے ‘ جنھوں نے اللہ سے ڈر کر آخرت کی تیاری کی۔ رہی یہ بات کہ اسے پھر لہو و لعب سے تعبیر کیوں کیا گیا ہے تو اس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے کہ اس دنیا میں لہو و لعب کی طرف لے جانے والی چیزیں اس کثرت سے پائی جاتی ہیں اور خود لہو و لعب کے میلانات خواہشات کی صورت میں آدمی کے اندر اس فراوانی سے پائے جاتے ہیں کہ ان سے بچنا صرف اسی آدمی کے لیے ممکن ہے ‘ جس پر آخرت ‘ کی طلب اللہ کی محبت اور اس کی ناراضگی کا خوف غالب رہتا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں براہ راست آنحضرت ﷺ کو خطاب ہے اور مکہ کے ماحول میں جو کچھ آپ کے ساتھ گزر رہی تھی اس پر آپ کو تسلی دی گئی ہے۔
Top