Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 158
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ١ؕ یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا١ؕ قُلِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ
هَلْ يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ انتظار کررہے ہیں اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ تَاْتِيَهُمُ : ان کے پاس آئیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ يَاْتِيَ : یا آئے رَبُّكَ : تمہارا رب اَوْ يَاْتِيَ : یا آئے بَعْضُ : کچھ اٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّكَ : تمہارا رب يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْ : آئی بَعْضُ : کوئی اٰيٰتِ : نشانی رَبِّكَ : تمہارا رب لَا يَنْفَعُ : نہ کام آئے گا نَفْسًا : کسی کو اِيْمَانُهَا : اس کا ایمان لَمْ تَكُنْ : نہ تھا اٰمَنَتْ : ایمان لایا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے اَوْ : یا كَسَبَتْ : کمائی فِيْٓ اِيْمَانِهَا : اپنے ایمان میں خَيْرًا : کوئی بھلائی قُلِ : فرمادیں انْتَظِرُوْٓا : انتظار کرو تم اِنَّا : ہم مُنْتَظِرُوْنَ : منتظر ہیں
وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یاتیرا رب آئے یا تیرے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ظاہر ہو جس دن تیرے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ظاہر ہوگی تو کسی ایسے نفس کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان میں نیکی نہ کمائی ہو ‘ کہہ دو تم انتظار کرو ہم بھی منتظر ہی ہیں
ارشاد فرمایا : ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ط یَوْمَ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْ اِیْمَانِھَا خَیْرًا ط قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ۔ (الانعام : 158) (وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا رب آئے یا تیرے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ظاہر ہو جس دن تیرے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ظاہر ہوگی تو کسی ایسے نفس کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان میں نیکی نہ کمائی ہو ‘ کہہ دو تم انتظار کرو ہم بھی منتظر ہی ہیں) اس آیت کریمہ کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یہ دلائل کا سامنا کرنے سے چونکہ عاجز ہوگئے ہیں اس لیے انھوں نے ہٹ دھرم لوگوں کی طرح کچھ مطالبات شروع کردیئے ہیں اور ان مطالبات کا ذکر قرآن کریم نے متعدد جگہوں پر کیا ہے جن میں سے اکثر وہ اس طرح کی باتوں کا مطالبہ کرتے تھے کہ اگر کوئی فرشتہ قرآن لے کر محمد ﷺ پر اتر سکتا ہے اور وہ روز ان سے ملاقات کرتا ہے تو آخر ہم سے وہ کیوں نہیں ملتا اگر ہم خود اپنی آنکھوں سے فرشتوں کو دیکھیں اور وہ ہمیں آکر بتائیں کہ دیکھو ہم یہ کتاب لے کر محمد ﷺ پر نازل ہوتے ہیں اس لیے تم اس کو مانو تو پھر ہوسکتا ہے ہم اس کو مان لیں لیکن محض محمد ﷺ کے کہنے پر کہ مجھ پر ایک فرشتہ یہ کتاب لے کر اترتا ہے یا اور بھی فرشتے وقتاً فوقتاً میں دیکھتا ہوں ہم اس کو کیسے تسلیم کرلیں اور کبھی وہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کہتے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے احکام کی تعمیل کروانا چاہتا ہے تو وہ ہمیں اپنا دیدار کیوں نہیں کرواتا ‘ وہ کیوں نہیں ایسی صورتحال پیدا کردیتا کہ ہم خود اپنی آنکھوں سے اسے دیکھیں اور کبھی وہ یہ کہتے کہ تم ہمیں جو بار بار ڈراتے ہو کہ اگر تم نے میری دعوت کو قبول نہ کیا اور قرآن پر ایمان نہ لائے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ کے عذاب کی کوئی ایسی شکل ہمارے سامنے آجائے کہ جس کا انکار کرنا ہمارے لیے مشکل ہوجائے اور ہم مجبور ہو کر اسے تسلیم کرلیں۔ یا اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی اور اپنے مشرکانہ رویے میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ انھیں نہ اللہ کے نبی کی دعوت ہدایت دے سکتی ہے اور نہ قرآن کریم جیسی معجزانہ کتاب ان کو راہ راست کی طرف لاسکتی ہے اب تو شاید انھیں ہدایت کا نہیں بلکہ اس بات کا انتظار ہے کہ موت کے فرشتے آکر ان کا گلا دبوچیں اور جب وہ اپنی آنکھوں سے ان فرشتوں کو دیکھیں گے جو ان کی جان نکالنے کے لیے آئیں گے تو انھیں یقین آجائے گا کہ واقعی فرشتوں کا بھی کوئی وجود ہے اور ہم آج تک جو فرشتوں کا مذاق اڑاتے رہے اور آنحضرت پر ان کے نزول کا تمسخر اڑاتے رہے وہ غلط تھا اور یا شاید وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اگر واقعی قیامت آنی ہے تو ٹھیک ہے قیامت آجائے اور یہ جو کہا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ مسند عدالت پر فائز ہوں گے اور وہی ہمارے بارے میں فیصلہ فرمائیں گے تو ٹھیک ہے اللہ کو بھی آنے دو جو فیصلہ ہونا ہے سو ہوجائے اور یا شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے چند نشانیاں بھی ظاہر ہوں گی جس سے آدمی کو ایمان لانا ضروری ہوجائے گا تو چلیئے وہ نشانیاں بھی آجائیں یا کوئی نشانی آجائے تو پھر ہم بھی ایمان لے آئیں گے۔ دونوں صورتوں میں انجام ایک ہی رہتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم کی ہدایت قبول کرنے سے محروم ہوگئے ہیں۔ اب تو ان کو ایسی ہی باتوں کا انتظار ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فرما رہے ہیں کہ نادانو ! اگر تم عالم غیب کی وہ چیزیں دیکھ لو جن پر تمہیں ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے تو اس صورت میں تو تم مشاہدے پر ایمان لائو گے تو مشاہدے پر تو ہر کوئی ایمان لے آتا ہے۔ اپنی دیکھی ہوئی بات کا کون انکار کرسکتا ہے ‘ ایمان تو وہ معتبر ہے جو غیب میں رہ کر لایا جائے کہ تم عالم غیب کی ان تمام باتوں کو مانو جنھیں تم اپنے حواس اور عقل کی مدد سے جان نہیں سکتے لیکن صرف اس لیے ان پر ایمان لے آئو کہ اللہ کے رسول نے ان کی خبر دی ہے یہ تمہاری عقل اور شعور کا امتحان ہے اس میں جو آدمی پاس ہوتا ہے اسی کا ایمان معتبر ہوتا ہے اور یا تم عذاب کی کوئی صورت دیکھ کر کلمہ پڑھنے لگو تو یہ ایمان بھی قابل اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ ایمان معتبر صرف وہ ہے جو آنکھ ‘ کان ‘ دل ‘ دماغ اور عقل کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے لایا جائے نہ کہ عذاب الٰہی کا ڈنڈا دیکھ کر۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی ایمان تو لایا لیکن اس نے ایمان کے مقتضیات پر عمل کرتے ہوئے اس نے اطاعت کی زندگی اختیار نہیں کی بلکہ فسق و فجور میں غرق رہا اور جب عذاب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھی تو اب اگر وہ اپنے فسق سے توبہ کرتا ہے تو جس طرح ایسی صورت میں کافر کا ایمان معتبر نہیں ہوتا اسی طرح فاسق کی فسق و فجور کی توبہ بھی قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ اس آیت کریمہ میں آیت کا یہ ٹکڑا یَوْمَ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ کا ایک مفہوم تو ہم نے یہ بیان کیا کہ اللہ کے عذاب کی کوئی شکل سامنے آجائے جس سے انکار کرنا مشکل ہوجائے۔ لیکن حدیث سے اس کا ایک اور مفہوم بھی ثابت ہوتا ہے۔ صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ ( رض) کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک یہ واقعہ پیش نہ آجائے کہ آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع ہو جب لوگ یہ نشانی دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے یہی وہ وقت ہوگا جس کے لیے قرآن کریم میں یہ ارشاد ہے کہ اس وقت کسی نفس کا ایمان لانا نفع نہیں دے گا “۔ صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ بن اسید کی ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام علامات قیامت کا تذکرہ آپس میں کر رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اس وقت آپ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ -1 آفتاب کا جانبِ مغرب سے نکلنا ‘ -2 ایک خاص قسم کا دھواں ‘ -3 دابۃ الارض ‘ -4 یاجوج ماجوج کا نکلنا ‘ -5 عیسیٰ (علیہ السلام) کا نازل ہونا ‘ -6 دجال کا نکلنا ‘ -9-8-7 تین جگہوں میں زمین کا دھنس جانا ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک جزیرۃ العرب میں ‘ -10 ایک آگ جو عدن کے قعر سے نکلے گی اور لوگوں کو آگے آگے ہنکا لے جائے گی “۔ حدیث کی روشنی میں علماء کا خیال ہے کہ ان نشانیوں میں سے آخری نشانی آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا ہوگا۔ اس لیے حضرت ابوہریرہ ( رض) کی حدیث میں بطور خاص اس نشانی کا ذکر کیا گیا ہے اور حافظ ابن حجر نے شرح بخاری میں بروایت حضرت عبد اللہ ابن عمر ( رض) یہ بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس واقعہ یعنی مغرب کی طرف سے آفتاب طلوع ہونے کے بعد ایک سو بیس سال تک دنیا قائم رہے گی۔ یہ نشانیاں تو اللہ بہتر جانتا ہے کب ظاہر ہوں گی لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے اور قرآن کریم نے ہمیں اس کی خبر دی ہے کہ جب آدمی پر آخری وقت آتا ہے یعنی اس پر سکرات الموت طاری ہوتے ہیں تو اس وقت اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ قرآن پاک کی ایک آیت کی تشریح میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ تَوْبَۃً لَعَبْدِ تُقْبَلُ مَا لَمْ یُغَرْغَرْ (بندہ کی توبہ اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک اس کی روح حلق میں آکر غرغرہ موت کی صورت پیدا نہ کر دے) کیونکہ اس آخری وقت میں موت کے فرشتے آدمی کو نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر وہ نیک آدمی ہے تو جنت کے فرشتے اس کو خوش آمدید کہنے کے لیے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ اسی لیے بعض نیک لوگ ان فرشتوں کو دیکھ کر مسکرانے لگتے ہیں۔ اقبال مرحوم نے اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا ؎ نشانِ مردِ مومن باتو گویم چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست کہ میں تمہیں مرد مومن کی نشانی بتائوں جب اس کا آخری وقت آتا ہے تو اس کے لب پر تبسم کھیلتا ہے یہ موت کا وقت تو کسی آدمی سے بھی دور نہیں اس لیے ہر آدمی کو توبہ میں کبھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے وہ عمر کے کسی حصے میں بھی آسکتی ہے۔ جس طرح نیک آدمی کو خوش آمدید کہنے کے لیے فرشتے آتے ہیں اسی طرح بدکردار اور بدچلن آدمی کو لینے کے لیے بھی عذاب کے فرشتے آتے ہیں وہ ان کو دیکھ کر آخری وقت میں چیختا ہے یا حواس کھو دیتا ہے وہ انھیں اسے دنیا کی سرحد سے ادھر پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم نے زندگی میں کبھی اسلام پر کان نہ دھرا اب ہم تمہیں بتائیں گے کہ تمہارے ساتھ کیا گزرتی ہے۔ اس کے بعد کی آیات کریمہ میں صاف طور پر آنحضرت ﷺ کو یہ بتادیا گیا ہے کہ آپ ان کی روش سے پریشان نہ ہوں۔ افہام و تفہیم کے لیے جس قدر دلائل درکار تھے اور اس سلسلے میں جس حد تک تبلیغ و دعوت مطلوب تھی وہ ہوچکی یہ لوگ اگر اب بھی انہی مختلف راہوں کے مسافر رہتے ہیں جو انھوں نے حق کے رستے کے مقابلے میں خود سے نکال رکھی ہیں تو آپ ان کی طرف سے یکسو ہوجایئے۔ آپ کا رویہ کیا ہونا چاہیے اور آپ کی زندگی کس چیز کی تصویر ہونی چاہیے اور مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ان آیات میں اس کی پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے۔
Top