Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 155
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ
وَھٰذَا : اور یہ كِتٰب : کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے نازل کی مُبٰرَكٌ : برکت والی فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس کی پیروی کرو وَاتَّقُوْا : اور پرہیزگاری اختیار کرو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے تم پر
اور یہ کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے سراپا خیر و برکت تو اس کی پیروی کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے
ملت ابراہیمی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی کتاب کا ذکر فرمایا اور اب آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کا ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو شریعت ابراہیمی یا ملت ابراہیمی کے جو بنیادی احکام دیئے گئے تھے وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کی بنیاد تھے اور انہی بنیادوں پر اسلامی شریعت کو اٹھایا گیا ہے اور وہی احکام عشرہ ابراہیمی صحیفوں کی طرح تورات میں بھی نازل ہوئے اور اب قرآن کریم میں بھی نازل کیے گئے ہیں ‘ اس لیے اگر تم نے ملت ابراہیمی پر عمل کرنا ہے اور تم اس میں مخلص ہو تو پھر تمہیں اس ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو ایک تسلسل کے ساتھ نوع انسانی کی طرف آتی رہی ہے اور جس کی تکمیلی اور آخری شکل قرآن پاک کی صورت میں نازل ہو رہی ہے۔ البتہ یہاں ایک اعتراض ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اور بھی کتابیں اتریں اور پھر آخر میں بنی اسرائیل ہی کی طرف آنے والے آخری رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل نازل ہوئی لیکن یہاں اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا جواب اس کا یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر جو انجیل نازل ہوئی اس میں شریعت نہیں بلکہ حکمت شریعت کو بیان کیا گیا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنی امت کو تورات میں نازل کردہ شریعت پر ہی عمل کرنے کا حکم دیا اور اس سے پہلے آنے والے انبیاء کی امتیں بھی تورات ہی کی شریعت پر عمل کرنے کی پابند تھیں اس لیے تورات اور قرآن کریم کے ذکر کردینے کے بعد باقی کتابوں کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی چناچہ پیش نظر آیات میں اب قرآن کریم کے نزول کی خبر دی گئی ہے اور ساتھ ہی مشرکین عرب کو تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ کتاب تم پر آخری حجت کے طور پر نازل کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں تمہارے وہ تمام عذر بھی ختم ہوجائیں گے جو اس کتاب کے نازل نہ ہونے کی صورت میں تم اللہ کے سامنے پیش کرسکتے تھے اور وہ حجت بھی تمام ہوجائے گی جس کے بعد تمہاری بےدینی اور تمہارے موجودہ رویے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ ارشاد فرمایا جا رہا ہے : وَھٰذَا کِتٰبٌاَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌفَاتَّبِعُوْہٗ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْکِتٰبُ عَلٰی طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا ص وَاِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِھِمْ لَغٰفِلِیْنَ ۔ اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْکِتٰبُ لَکُنَّآ اَھْدٰی مِنْھُمْ ج فَقَدْ جَآئَکُمْ بَیِّنَۃٌمِّنْ رَّبِّکُمْ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌج فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَ صَدَفَ عَنْھَا ط سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْٓئَ العَذَابِ بِمَا کَانُوْا یَصْدِفُوْنَ ۔ (الانعام : 155۔ 156۔ 157) (اور یہ کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے سراپا خیر و برکت تو اس کی پیروی کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔ مبادا تم کہو کہ کتاب بس ان دو گروہوں پر اتاری گئی جو ہم سے پہلے تھے اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے بالکل بیخبر رہے۔ یا کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے سو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح حجت اور ہدایت و رحمت آگئی ہے تو ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائیں اور ان سے دوسروں کو پھیریں جو لوگ ہماری آیات سے اعراض اختیار کر رہے ہیں ہم ان کو اس اعراض کی پاداش میں عنقریب بہت برا عذاب دیں گے) ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول کو تمام نوع انسانی اور خاص طور پر عربوں پر اپنا خاص فضل و کرم قرار دیا ہے اور اس حوالے سے پہلی آیت میں قرآن پاک کے لیے ایک لفظ استعمال کیا گیا ہے جو ہم اپنی زبان میں بھی استعمال کرتے رہتے ہیں وہ لفظ ہے ” مبارک “۔ قرآن پاک کی زبان میں مبارک اس بارش کو کہتے ہیں جو زمین کی سیرابی ‘ روئیدگی اور سرسبزی کا ذریعہ بنتی ‘ اس کے خزانوں اور اس کی برکتوں کو ابھارتی اور اس کے مردہ اور بےآب وگیاہ ہوجانے کے بعد اس کو از سرنو حیات تازہ بخشتی ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے ایک بہت بڑی حقیقت واشگاف ہو رہی ہے وہ یہ کہ اے عرب کے لوگو اور اے باقی نوع انسانی تم اس وقت روئے زمین پر جس طرح کی زندگی گزار رہے ہو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری انسانیت کے چشمے خشک ہور ہے ہیں۔ تمہارے شجر تہذیب کی جڑیں سوکھتی جا رہی ہیں ‘ تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر جہالت کی ایسی خزاں چھائی ہوئی ہے کہ جس کے نتیجے میں تمہارے اخلاق اور تمہاری اقدار کا ایک ایک پتہ جھڑ گیا ہے اور ایک ایک کونپل سوکھتی جا رہی ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کا کوئی مستقبل نہیں تم انفرادی اور معاشرتی زندگی میں اس حد تک درندگی کا شکار ہوچکے ہو کہ تمہارے معاشرے میں رہنے والے کسی فرد کی زندگی سلامت ہے نہ مال اور آبرو۔ تمہاری بظاہر انسانوں کی آبادیوں میں جنگل کا قانون جاری ہے جہاں ہر طاقت ور کمزور کو ہضم کرتا جا رہا ہے جس کے پاس طاقت ہے اس کے لیے کمزوروں کے حقوق غصب کرلینا ایک معمول کی بات بن چکی ہے اور جہاں تک تمہارے نام نہاد متمدن ملکوں کا تعلق ہے ان کی تمام قوتیں ایک دوسروں کو فتح کرنے اور ادھیڑنے میں لگی ہوئی ہے۔ ایرانی اور رومی طاقتیں یعنی قیصر و کسریٰ کی قوتوں نے ایک دوسرے کو فتح کرنے کے لیے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا ہے اور ہزاروں شہر تباہ کر ڈالے ہیں اگر یہ صورتحال جاری رہتی ہے تو خود اندازہ کرو کہ تمہاری بقاء کے کیا امکانات باقی رہ جاتے ہیں۔ اس صورتحال سے تمہیں نجات دینے اور دوبارہ تمہیں انسانیت کے جامے میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی کتاب اتاری ہے جو تمہارے لیے بہار کا پیغام بن کے آئی ہے۔ اگر تم اسے قبول کرلو تو تمہارے خزاں رسیدہ چمن میں پھر سے حیات تازہ کے پھول کھل سکتے ہیں۔ تمہارا معاشرہ اور تمہارا سماج پھر انسانیت کی تصویر بن سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تم اس میں دیئے ہوئے احکام کی پیروی کرو ‘ اس کا بتایا ہوا طرز زندگی اختیار کرو اور زندگی کے ان اصولوں کو قبول کرلو جس کی یہ کتاب دعوت دے رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے بادشاہوں اور اپنے سرداروں سے ڈرنے کی بجائے اللہ کا خوف اپنے دل میں پیدا کرو اسی کے نتیجے میں تمہیں ہر خوف سے آزادی ملے گی اور اسی سے انسانوں کو وہ حقوق مل سکیں گے جس سے انسانیت کو حیات نو نصیب ہوسکتی ہے اور جس کے نتیجے میں اللہ کی رحمت تم پر مہربان ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت کریمہ میں ان کے ایک عذر کو ختم کیا جا رہا ہے جو قیامت کے دن وہ اللہ کے حضور پیش کرسکتے تھے یعنی وہ قیامت کے دن یہ بات کہہ سکتے تھے کہ آپ ہم سے ہماری جس زندگی کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں اور ہماری گمراہیوں پر ہمیں جو سزا دینا چاہتے ہیں آخر ہم اس بگڑی ہوئی زندگی سے کیسے نکل سکتے تھے کیونکہ ہمارے ہاتھوں میں کوئی زندگی کی رہنما کتاب نہیں تھی ‘ کوئی ایسا صحیفہ آسمانی نہیں تھا جس کی روشنی میں ہم زندگی کا سفر خوش اطواری سے طے کرسکتے۔ ہمارے پاس سوائے آبائو اجداد کی چھوڑی ہوئی رسموں کے اور سوائے اپنے جاہلانہ طور اطوار کے اور کچھ بھی نہیں تھا تو ہم آخر اپنی اصلاح کرتے تو کیسے کرتے۔ ہم جس بات کو جانتے ہی نہیں تھے آخر اس پر عمل کیسے کرتے۔ آپ نے ہمارے ہمسائے میں اگرچہ یہودیوں اور عیسائیوں پر کتابیں اتاری تھیں لیکن ہم ان پڑھ لوگ اس کا علم کیسے حاصل کرسکتے تھے اور پھر انھوں نے یہ سمجھ کر کہ ان کتابوں کی رہنمائی صرف بنی اسرائیل کے لیے ہے کبھی اس کی ہدایت سے ہمیں روشناس کرنے کی کوشش نہ کی اور ہمیں خود بھی جہالت کی وجہ سے کبھی ان چیزوں کا پاس نہ رہا تو اس عذر کی موجودگی میں ہم آپ سے رحمت کے طلب گار ہیں ‘ اس لیے آپ ہمیں اس کی سزا نہ دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ کتاب اس لیے تم پر اتاری ہے کہ کل کو تم اپنی بےعلمی اور بیخبر ی کا بہانہ کر کے اور اس کو جواز بنا کر اللہ سے معافی کے طلبگار نہ بن سکو اور اس کے بعد کی آیت میں ان کی مزید ایک بات کا جواب دیا گیا ہے کہ تم قیامت کے دن یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ آپ نے اہل کتاب پر کتابیں اتاریں لیکن انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی پیدا نہیں کی اگر آپ ہم پر کتاب اتارتے تو آپ دیکھتے کہ ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے اور ہم وہ زندگی گزارتے جس کا آج آپ ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں اور آج ہمیں جس صورت حال سے سابقہ ہے ہم کبھی اس سے دوچار نہ ہوتے اس لیے پروردگار فرما رہے ہیں کہ ہم نے یہ کتاب اس لیے تم پر اتاری ہے تاکہ یہ آخری حجت تمام کر دے اور تم قیامت کے دن کوئی بہانہ پیش نہ کرسکو اور ساتھ ہی ساتھ اس میں یہ تنبیہ بھی کی جا رہی ہے کہ اگر اس حجت کاملہ کے بعد تم اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہو تو پھر خود سوچ لو تمہارا انجام کیا ہوگا لیکن اس وارننگ کے ساتھ ساتھ جیسا کہ قرآن کریم کا اسلوب ہے اللہ تعالیٰ دلوں کو نرم کرنے کے لیے نہایت مربیانہ طریقے سے اس کتاب کی ان دو صفات کو بھی ذکر فرما رہے ہیں جو اس کی قبولیت کے لیے ترغیب کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ فرمایا جس طرح یہ کتاب تمہارے لیے ایک بینہ ہے کہ اس کے بعد تمہارے تمام عذر ختم ہوگئے اسی طرح یہ کتاب ہدایت اور رحمت بھی ہے یعنی یہ کتاب صرف اتمام حجت کے لیے نہیں اور نہ چند ظاہری باتوں کے لیے ہے بلکہ یہ زندگی کی رہنما کتاب ہے یہ کتاب ہدایت ہے جس میں تمہاری زندگی گزارنے کا پورا نظام دیا گیا ہے اس میں تمہارے گھر سے لے کر ایوان حکومت تک زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے لیے رہنمائی فراہم نہ کی ہو اور پھر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہ اگر تم اس رہنمائی کو قبول کرلیتے ہو اور اپنی زندگی اس راستے پر ڈال دیتے ہو جس کی طرف یہ کتاب رہنمائی کر رہی ہے تو پھر یہ کتاب تمہارے لیے رحمت کا پیغام ثابت ہوگی۔ تم اس کی رہنمائی میں ایک ایسی زندگی سے آشنا ہوجاؤ گے جس سے تمہاری دنیا تمہارے لیے جنت کا نمونہ بن جائے گی تم زندگی کے ہر مرحلے میں کامیابیوں سے ہمکنار کیے جاؤ گے ‘ تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں شادمانیوں کے وہ پھول کھلیں گے جن کی خوشبو تمہارے مشام جاں کو ہی معطر نہیں کرے گی بلکہ تمہاری عاقبت بھی اس سے سنور جائے گی۔ تم آخرت میں اللہ کی خوشنودی سے سرفراز کیے جاؤ گے اور ایک ایسی ابدی زندگی تمہارا مقدر بنے گی جس میں تم ہر خوف اور ہر حزن سے نجات پاجاؤ گے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یاد رکھو کہ اگر تم نے اس آخری حجت کو جس میں تمہیں رہنمائی اور رحمت مہیا کی گئی ہے قبول نہ کیا بلکہ اس کو ماننے سے انکار کیا اور دوسروں کو بھی اس سے روکتے رہے تو پھر یاد رکھو اللہ کی نگاہ میں تم سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوگا اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ظالموں کو کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ وہ کبھی راہ یاب نہیں ہوتے اور کبھی منزل کی خبر انھیں نہیں ملتی۔ ان کے لیے دنیا میں سوائے ناکامیوں کے دھکوں کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی تلخیوں سے عبارت ہوتی ہے وہ اللہ کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستوں پر ہمیشہ ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ دنیا ان کے لیے ایک ایسا مذبح بن جاتی ہے جس میں ان کے افراد اور ان کی میں ہلاکت سے دوچار ہوتی ہیں۔ قیامت کے دن ان کے اس اعراض کے رویے پر اللہ تعالیٰ ان کو بدترین سزا دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں جو کچھ عربوں کو قرآن کریم کے آخری حجت ہونے کے حوالے سے کہا جا رہا ہے وہ صرف ان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس کا مخاطب ہر دور میں نوع انسانی کا ہر گروہ ہے اور بالخصوص مسلمانوں پر تو اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے جن لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا وہ تو صرف آخرت میں اپنے کفر اور انکار کی سزا بھگتیں گے لیکن دنیا میں انھیں جو مہلت دی جاتی ہے کیونکہ کفر کی پاداش میں بالعموم ان کی گرفت نہیں ہوتی اس کی وجہ سے وہ اسبابِ دنیا کی کشمکش میں اگر اسباب پیدا کرنے میں دوسروں سے آگے نکل گئے تو دنیا میں ان کو دنیوی کامیابیوں سے ہمکنار کیا جائے گا۔ وہ ایک چکاچوند پیدا کرنے والی ترقی سے ہمکنار ہوں گے اور اپنے سے کم ترقی یافتہ قوموں کے لیے ایک خوف کی علامت بن کر زندہ رہیں گے۔ دنیا بظاہر ان کی حیرت انگیز کامیابیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھے گی بلکہ ان کو دوسرے لوگوں کے لیے ایک عذاب بنادیا جائے گا لیکن امت مسلمہ کا مسئلہ اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے انھوں نے بظاہر اس کتاب کی رہنمائی کو قبول کیا لیکن حقیقت میں اس سے انکار کیا وہ برابر اللہ کی اس کتاب کی عظمت کا اقرار کرتے رہے لیکن اس کے دیئے ہوئے قانون اور نظام زندگی کو اپنے ملکوں اور اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ جس کی سزا ان کو یہ ملے گی کہ دنیا میں وہ ذلت کا شکار ہوں گے اور آخرت میں عذاب ان کا مقدر بنے گا اس لیے اس آیت کریمہ میں جو یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے تم پر آخری حجت آچکی ہے تو اس کے مخاطب مسلمان بھی ہیں۔ انھیں اس پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے کہ ہم نے اللہ کی کتاب کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ زبان سے اسے مانا ہے لیکن عمل میں داخل کرنے سے انکار کردیا ہے اور قرآن کریم ہی میں ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بات کہی ہے کہ ایسے نام نہاد ماننے والوں کو ہم نہ دنیا دیتے ہیں نہ آخرت دیتے ہیں بلکہ دنیا میں وہ ذلت کا شکار ہوں گے اور آخرت میں سخت ترین سزا سے دوچار کیے جائیں گے۔ قرآن کریم کی صورت میں اس آخری حجت کے آجانے کے بعد دو لحاظ سے حجت تمام کردی گئی ایک تو اس لحاظ سے کہ اللہ کی جانب سے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے جو رہنمائی آنا تھی وہ آگئی اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی فرما لیا تاکہ زمانے کے نشیب و فراز کے بعد کبھی کوئی قوم یہ نہ کہہ سکے کہ اللہ نے اپنا جو آخری قانون نوع انسانی کے لیے اتارا تھا وہ اب چونکہ محفوظ نہیں رہا اس لیے ہم اس کتاب پر عمل کیسے کرسکتے ہیں اور دوسرا اس لحاظ سے اس کو آخری حجت اور بینہ بنایا گیا ہے کہ قرآن بجائے خود اپنی ذات میں ایک ایسی حجت اور برہان ہے جو کسی خارجی دلیل کی محتاج نہیں اور یہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کے چیلنچ کا جواب کبھی دنیا والے نہ دے سکے اور پھر یہ بات بھی کہ یہ تورات کی طرح صرف احکام و ہدایت کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اپنے ہر دعوے اور ہر تعلیم کے دلائل وبراہین بھی اپنے ساتھ لے کر نازل ہوا ہے اور وہ ایسے مضبوط و مستحکم اور ایسے عقلی اور فطری ہیں کہ انسانوں کے لیے اس کی تردید کرنا کٹ حجتی کے سوا اور کچھ نہیں آدمی کی فطرت یہ ہے کہ اگر وہ اپنے انکار اور اپنے رویے پر اڑ جائے اور کٹ حجتی کرنے لگے تو پھر جیسے کھسیانی بلی کھمبا نوچتی ہے اسی طرح مخالفین بھی عجیب و غریب مطالبات میں اپنی انانیت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں چناچہ قرآن کریم کی دعوت کے سامنے بےبس ہو کر ان لوگوں نے ایسے ہی کچھ مطالبات شروع کردیئے جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں آرہا ہے۔
Top