Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 148
سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكْنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰى ذَاقُوْا بَاْسَنَا١ؕ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا١ؕ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ
سَيَقُوْلُ : جلد کہیں گے الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا : جن لوگوں نے شرک کیا (مشرک) لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَآ اَشْرَكْنَا : ہم شرک نہ کرتے وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا : اور نہ حَرَّمْنَا : ہم حرام ٹھہراتے مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز كَذٰلِكَ : اسی طرح كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے حَتّٰي : یہاں تک کہ ذَاقُوْا : انہوں نے چکھا بَاْسَنَا : ہمارا عذاب قُلْ : فرمادیجئے هَلْ : کیا عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ عِلْمٍ : کوئی علم (یقینی بات) فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا : تو اس کو نکالو (ظاہر کرو) ہمارے لیے اِنْ : نہیں تَتَّبِعُوْنَ : تم پیچھے چلتے ہو اِلَّا :إگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ : اور گر (نہیں) اَنْتُمْ : تم اِلَّا : صرف تَخْرُصُوْنَ : اٹکل چلاتے ہو
جنہوں نے شرک کیا ‘ وہ کہیں گے ! اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے ‘ نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرتے۔ اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے بھی ‘ جو ان سے پہلے گزرے ‘ یہاں تک کہ انہوں نے ہمارا عذاب چکھا۔ پوچھو ! تمہارے پاس ہے اس کی کوئی سند کہ تم اس کو ظاہر کرسکو۔ تم محض گمان کی پیروی کر رہے ہو اور محض اٹکل کے تیر تکے چلا رہے ہو
تمہید گزشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ مشرکین عرب نے حلت و حرمت کے حوالے سے جو بدعات ایجاد کی تھیں اور جس طرح اللہ کا یہ حق اپنے لیے اور اپنے نام نہاد شرکاء کے لیے مباح کرلیا تھا پروردگار نے مسلسل اس پر تنقید فرمائی اور اس سلسلے میں جو مشرکین یا اہل کتاب کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے یا اشتباہات پیدا کیے گئے اس کا جواب اس طرح مسکت انداز میں دیا گیا کہ مشرکین تقریباً بےبس ہو کر رہ گئے اور پھر ساتھ ہی ساتھ انھیں تنبیہ بھی کی گئی کہ تم پر جو ابھی تک اللہ کا عذاب نہیں آیا تو اسے اپنے لیے پروانہ اباحت نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے ‘ جو تمہیں دی گئی ہے۔ اب پیش نظر آیت میں مشرکین کی طرف سے آخری معارضہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ایک ایسا بےبس آدمی کیا کرتا ہے کہ جب وہ دلائل سے تہی دامن ہوجاتا ہے۔ لیکن اپنی انا اور ضد سے باز نہیں آتا اور یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے مجھے راہ راست اختیار نہیں کرنا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے : سَیَقُولُ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْشَآئَ اللہ ُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ ط کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ حَتّٰی ذَاقُوْا بَاْسَنَا ط قُلْ ھَلْ عِنْدَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا ط اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ ۔ قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ج فَلَوْ شَآئَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ (الانعام : 148۔ 149) (جنھوں نے شرک کیا ‘ وہ کہیں گے ! اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے ‘ نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرتے۔ اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے بھی ‘ جو ان سے پہلے گزرے ‘ یہاں تک کہ انھوں نے ہمارا عذاب چکھا۔ پوچھو ! تمہارے پاس ہے اس کی کوئی سند کہ تم اس کو ظاہر کرسکو۔ تم محض گمان کی پیروی کر رہے ہو اور محض اٹکل کے تیر تکے چلا رہے ہو۔ کہہ دو کہ اللہ کے لیے تو بس حجت ہے پہنچ جانے والی ‘ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا) مشرکین نے کہا کہ اگر ہمارا اور ہمارے آبا و اجداد کا رویہ اللہ کو ناپسند ہوتا تو وہ ہمیں روک دیتا مشرکین مکہ جب دلائل کے میدان میں بےبس ہوگئے تو آخری بات انھوں نے یہ کہی کہ آپ جو ہمارے مشرکانہ رویے پر اعتراض کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنی طرف سے اللہ کے شرکاء بنا رکھے ہیں اور بہت ساری چیزوں کو ان کی طرف منسوب کر کے انھیں حرام اور حلال کرلیا ہے سوال یہ ہے کہ اگر ہمارا یہ مشرکانہ رویہ اور یہ ہمارا حلال و حرام کرنا غلط ہے تو اللہ ہمیں اس سے روک کیوں نہیں دیتا۔ اس میں یہ طاقت ہے وہ جس کام سے چاہے روک دے اور جو کام چاہے لے لے یہ رویہ ہم نے آج اختیار نہیں کیا بلکہ ہمارے آبائو اجداد بھی ایسا ہی کرتے رہے۔ صدیوں سے ہم یہ طرز عمل اختیار کرچکے ہیں لیکن اللہ نے ہمیں اس سے کبھی نہیں روکا اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری اور ہمارے آبائو اجداد کی یہ روش یقینا اللہ کو پسند ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم ایسا ہی کریں اگر وہ نہ چاہتا تو یا ہمیں اس سے روک دیتا یا ہمیں اس کی سزا دیتا۔ ان کی اس جاہلانہ بات کے سلسلے میں چند باتیں ان آیات میں فرمائی گئی ہیں۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ مشرکین مکہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ جو آج ہمارا رویہ ہے یہی رویہ ہمارے آبائو اجداد کا بھی تھا۔ اللہ نے نہ انھیں روکا نہ ہمیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ایسا ہی چاہتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان سے پہلے شرک کرنے والوں کا رویہ بھی یہی رہا ہے اور وہ اپنے رویے کی تائید میں ایسی ہی بےسروپا باتیں کرتے رہے ‘ جیسی یہ کرتے ہیں۔ لیکن ایک حقیقت ہے جس کو یہ چھپا رہے ہیں اور یا شاید انھیں معلوم نہیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے آبائو اجداد کے رویے نے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ بالآخر نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ وہ اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے اس زمین پر ان کے گردوپیش میں معذب قوموں کی بستیاں پھیلی ہوئی ہیں اور وہی تاریخ میں ان سے پہلے گزرنے والی قومیں ہیں ‘ ان کے کھنڈرات صاف گواہی دے رہے ہیں کہ ان پر اللہ کے رسول آئے اور انھوں نے مسلسل ان کو راہ راست دکھانے کی کوشش کی۔ انھیں شرک سے روکا اور ہر طرح سے ان کو غلطیوں سے بچانا چاہا۔ لیکن جب وہ اپنے طرز عمل سے باز نہ آئے تو بالآخر اللہ کا عذاب ان پر ٹوٹا اور وہ تباہ کردیئے گئے۔ اب بجائے اس کے کہ یہ ان کی تاریخ سے عبرت حاصل کریں اور اپنے رویے کی اصلاح کریں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ یہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے رویے کے ساتھ ساتھ اپنے آبائواجداد کا اس طرح تذکرہ کر رہے ہیں گویا ان کے مشرکانہ رویے نے شاید ان کا کچھ نہیں بگاڑا حالانکہ یہ قوم شعیب ‘ قوم لوط اور قوم عادسب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد کی قومیں ہیں اور انہی کی اولاد میں سے ہیں ان کی طرف انبیاء و رسل آئے اور وہ اپنے زمانے اور اپنے نسب کے اعتبار سے مشرکینِ عرب کے لیے آبائو اجداد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا انجام ان کے سامنے ہے یہ اپنے تجارتی اسفار میں ان کے علاقوں سے گزرتے بھی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ان سے عبرت پکڑتے اور اپنے مشرکانہ رویہ سے توبہ کرتے لیکن جب اللہ کسی کے دل پر مہر لگا دیتا ہے تو اس کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مشرکین سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم کہتے ہو کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں صحیح ہے تو اس کی سند لائو دوسری بات جو اس سلسلے میں فرمائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اے مشرکین مکہ تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ اگر ہمارا مشرکانہ رویہ غلط ہوتا اور شرک کوئی برائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے روک دیتا۔ لیکن اس نے ہمیں اس سے نہیں روکا بلکہ ہم مسلسل شرک کا ارتکاب کرتے چلے آرہے ہیں اور وہ روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی ہمیں اس سے نہیں روک رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم ایسا ہی کریں اور جب وہ ایسا چاہتا ہے تو ہم تو اس کے بےبس بندے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی چاہت کی مخالفت کرسکیں۔ اب اگر شرک کوئی برائی ہے تو پھر ہمارا اس میں کیا قصور ہے کیونکہ ہم نے تو اللہ کے چاہنے سے ایسا کیا اس کے جواب میں یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کس بات کو چاہتا ہے اور کس بات کو نہیں چاہتا۔ اس کے جاننے کا طریقہ یہ نہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ لوگ کیا کر رہے ہیں اور لوگ جس طرح کے اعمال کر رہے ہوں اسے اللہ کی مشیت اور اس کی مرضی سمجھ لیا جائے۔ اگر خدانخواستہ اس کی مشیت اور مرضی کا یہ مفہوم ہے پھر یہ تو ایک ایسی دلیل ہے جو دنیا کی بڑی سے بڑی حماقت کے جواز میں پیش کی جاسکتی ہے۔ ہر ظالم ظلم کرتے ہوئے اور ہر بدمعاش بدمعاشی کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ مجھے ایسا کرنے سے پروردگار نے نہیں روکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ یہی چاہتا ہے کہ میں ایسا ہی کروں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کی یہ زمین برائیوں اور گناہوں سے بھر جائے ‘ ظلم اور فساد یہ سمجھ کے کیا جائے کہ اللہ کی مشیت اور مرضی یہی ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر ! انھیں یہ کہیئے کہ اللہ کی پسند یا ناپسند معلوم کرنے کا ذریعہ تمہاری اپنی زندگی اور تمہارے اپنے اعمال نہیں ہیں کہ تم جو کچھ کر گزرو وہ عند اللہ ثواب بن جائے اس کے لیے کسی علمی سند کی ضرورت ہے اس لیے اگر تمہارے پاس ایسا کوئی علم ہے جس سے معلوم ہو کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے اور یا اللہ اس سے راضی ہے تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو اور ایسے علم کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ نے انسان کو جو عقل سلیم اور فطرت صحیحہ عطا فرمائی ہے وہ اس بات کی گواہی دے کہ واقعی جو کچھ ہم کر رہے ہیں یقینا اللہ اس سے راضی ہے کیونکہ اگر اللہ اس سے راضی نہ ہوتا تو ہماری عقل سلیم اور ہماری فطرت کبھی اس کی تائید نہ کرتی۔ دنیا میں کوئی برائی ایسی نہیں ہے عقل عام جس کا ادراک نہ کرسکے۔ ہاں اگر کسی معاشرے میں برائی کا چلن اس قدر عام ہوجائے کہ نیکی کا وجود آہستہ آہستہ دم توڑ جائے اور اس معاشرے کا رہنے والا ایک ایک فرد بالآخر نیکی کے احساس سے محروم ہو کر برائی ہی کو نیکی سمجھنے لگے تو ایسے معاشرے میں تو یقینا عقل اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھتی ہے ورنہ عام طور پر عقل اور فطرت نیکی کا احساس اور برائی کی شناخت رکھتی ہیں۔ یہاں بھی جو لوگ برائی کے اس خطرناک حملے سے محفوظ رہے ہیں ان کی فطرت اور ان کی عقل سے پوچھا جا رہا ہے کہ ان کے پاس اگر اس مشرکانہ رویے کے جواز کا کوئی علم ہے تو وہ اسے پیش کریں۔ علم کی دوسری صورت یہ ہے کہ جن مقدس شخصیات کو وہ اپنی رہنما یا اللہ کے نبی اور رسول کے طور پر مانتے ہیں۔ ان کے حوالے سے قابل اعتبار ذرائع کے ذریعے یہ ثابت کریں کہ انھوں نے ان کے رویے کے مطابق کوئی اللہ کا حکم ان کے لیے چھوڑا ہو ان کا کوئی صحیفہ ان کے پاس ہو جس سے معلوم ہوتا ہو کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں واقعی اللہ نے اس کی انھیں اجازت دی ہے اور اگر یہ علم کی دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں وہ سوائے اٹکل پچو اور ظن وتخمین کے اور کچھ نہیں۔ یہاں مشرکین مکہ سے یہی کہا جا رہا ہے کہ علم نام کی کسی چیز سے تم واقف نہیں۔ تمہاری زندگی کے تمام فیصلے سراسر ظن وتخمین پر مبنی ہیں۔ خالص ظن تو دنیوی معاملات میں بھی بھروسہ کے لائق نہیں ہوتا دینی معاملات تو اپنے اندر بہت نزاکت رکھتے ہیں۔ اس میں تو کوئی بات محض اندازے سے نہیں کہی جاسکتی۔ ہر بات کے لیے وحی الٰہی کی سند کی ضرورت ہوتی ہے اور مشرکینِ مکہ چونکہ وحی الٰہی سے بالکل بےبہرہ تھے اس لیے وہ دینی معاملات میں بھی ظن وتخمین ہی سے کام لیتے تھے اور یہی ان کی گمراہی کا بڑا سبب تھا۔ تیسری بات یہاں یہ فرمائی جا رہی ہے کہ اے مشرکین مکہ تم تو علمی دنیا سے بالکل بےبہرہ لوگ ہو تمہارے پاس دلیل نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس لیے اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ یہاں چونکہ دلیل ہی کارآمد ہوتی ہے اور اٹکل پچو تو سراسر گمراہی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے جہاں تک دلیل کا تعلق ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے اور وہ دلیل بھی ایسی ہے جو دلوں میں اتر جانے والی ہے۔ یعنی رسول اللہ کے اور قرآن کریم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید اور توحید کے اثبات میں جو کچھ فرمایا ہے ان میں ایک ایک دلیل دلوں میں اتر جانے والی ہے۔ ان میں دلائل آفاق بھی ہیں اور دلائل انفس بھی جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی کیا گیا ہے اور خود ہمارے گردوپیش میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک دلیل ایسی ہے کہ اگر آدمی اپنے قلب و ضمیر کے دروازے اس کے سامنے بند نہ کرے تو وہ دل میں اترے بغیر نہیں رہتی اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ دلیل تو صرف اللہ کے پاس ہے جو اس نے اپنے رسول کے ذریعے بندوں تک پہنچا دی ہے اور مراد اس سے قرآن کریم ہے جو اپنی ذات اور اپنے مندرجات میں دلائل کا ایک ایسا خزانہ ہے کہ جس کی موجودگی میں مزید کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اللہ جبر کا طریقہ اختیار نہیں کرتا چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی جا رہی ہے کہ اللہ کا قانون جو پیچھے کئی دفعہ بیان ہوچکا یہ نہیں کہ وہ لوگوں کو زبردستی کسی راستے پر چلنے کے لیے مجبور کرے بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس نے ہدایت کو بھی کھول کر بیان کردیا ہے اور ضلالت کو بھی۔ صحیح بات کو بھی واضح کردیا گیا ہے اور غلط کو بھی۔ پھر لوگوں کو آزادی دے دی گئی ہے کہ تم چاہو تو ہدایت کا راستہ اختیار کرو اور چاہو تو گمراہی کا۔ جو راستہ بھی اختیار کرو گے ہم اس کے امکانات پیدا کردیں گے اور ایک خاص حد تک ہم تمہیں اس پر چلنے کی اجازت دے دیں گے۔ اگر تم نیکی کا راستہ اختیار کرو گے تو نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے آسانیاں مہیا کریں گے ‘ اپنی تائید و نصرت سے نوازیں گے ‘ دنیا میں بھی سرفراز کریں گے اور آخرت میں بھی سرخرو کریں گے اور اگر برائی اور گمراہی کا راستہ اختیار کرو گے تو اپنی عالمگیر مصلحتوں کا لحاظ کرتے ہوئے ہم جس حد تک مناسب سمجھیں گے اس کے لیے بھی امکانات پیدا کردیں گے۔ لیکن صحیح راستہ اختیار کرنے پر ہم اجر وثواب سے نوازیں گے اور غلط راستہ اختیار کرنے پر دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ اس کا قانون ہے ہدایت و ضلالت کے سلسلے میں جس کے مطابق وہ دنیا میں بندوں سے معاملہ کر رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی غلط راستے پر چل رہا ہے اور اللہ اسے اس راستے پر نہ صرف کہ چلنے سے روکتا نہیں بلکہ اسے چلنے کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اس پر راضی بھی ہے۔ وہ راضی تو انہی باتوں پر ہے جنھیں اس نے اپنے پیغمبروں کے واسطے سے اپنی کتابوں کے ذریعہ واضح کردیا ہے۔ رہی یہ بات کہ برے راستے پر چلنے والے کو وہ روکتا نہیں تو یہ اصلاً اسکا وہ قانون ہے جسے قانونِ مشیت کہہ لیجئے جس کے مطابق اس نے انسانوں کو خیر اور شر کی آزادی دے رکھی ہے اور اسی میں انسانیت کا امتحان ہے۔ لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ جبر اور طاقت سے بندوں کو کسی راستے پر چلنے پر مجبور کرتا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اسے توحید پسند ہے یا شرک ‘ اسے اسلام پسند ہے یا کفر۔ یقینا وہ توحید اور اسلام کو پسند کرتا ہے۔ اس صورت میں اگر اسے جبرہی کرنا تھا تو پھر وہ سب کو اسلام پر چلنے کے لیے مجبور کرتا اور دنیا میں کوئی آدمی مسلمان ہوئے بغیر نہ رہتا۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب بھی اللہ کے پیغمبر دنیا میں اسلام کی دعوت لے کر آئے ہیں انھیں قدم قدم پر دشواریاں پیش آئی ہیں اور آج بھی دنیا میں اسلام کی نسبت کفر کا دائرہ زیادہ وسیع ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ نے کہیں بھی جبر کا طریقہ پسند نہیں فرمایا۔ اس نے انسانوں کو اختیار دے کر ان کا امتحان لیا ہے کہ دیکھتے ہیں وہ کونسا راستہ پسند کرتے ہیں۔ چناچہ اس آیت کے آخری ٹکڑے میں یہی بات فرمائی گئی ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا چونکہ اس نے سب کو ہدایت نہیں دی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زبردستی ہدایت دینا پسند نہیں کرتا تو جب بالجبر اس نے ہدایت دینا پسند نہیں کیا تو وہ تم سے زبردستی شرک کیسے کروا سکتا ہے تو پھر تمہارا یہ کہنا کہ ہم تو اللہ کے جبر کا شکار ہیں۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم شرک کریں اور اس کے طیبات کو حرام کریں۔ اس لیے ہم ایسا کر رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تم محض ایک عذر باطل سے کام لے رہے ہو جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس کے بعد اگلی آیت کریمہ میں اسی سلسلے کی آخری بات فرمائی گئی ہے۔
Top