Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 141
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ٘ وَ لَا تُسْرِفُوْا١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ
وَهُوَ
: اور وہ
الَّذِيْٓ
: جس نے
اَنْشَاَ
: پیدا کیے
جَنّٰتٍ
: باغات
مَّعْرُوْشٰتٍ
: چڑھائے ہوئے
وَّ
: اور
غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ
: نہ چڑھائے ہوئے
وَّالنَّخْلَ
: اور کھجور
وَالزَّرْعَ
: اور کھیتی
مُخْتَلِفًا
: مختلف
اُكُلُهٗ
: اس کے پھل
وَالزَّيْتُوْنَ
: اور زیتون
وَالرُّمَّانَ
: اور انار
مُتَشَابِهًا
: مشابہ (ملتے جلتے)
وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ
: اور غیر مشابہ (جدا جدا)
كُلُوْا
: کھاؤ
مِنْ
: سے
ثَمَرِهٖٓ
: اس کے پھل
اِذَآ
: جب
اَثْمَرَ
: وہ پھل لائے
وَاٰتُوْا
: اور ادا کرو
حَقَّهٗ
: اس کا حق
يَوْمَ حَصَادِهٖ
: اس کے کاٹنے کے دن
وَلَا تُسْرِفُوْا
: اور بیجا خرچ نہ کرو
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
لَا يُحِبُّ
: پسند نہیں کرتا
الْمُسْرِفِيْنَ
: بیجا خرچ کرنے والے
اور وہی خدا ہے جس نے باغ پیدا کئے کچھ ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور کچھ نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور اور کھیتی پیدا کی مختلف النوع پیداوار کی اور زیتون اور انار باہم دگر ملتے جلتے بھی اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ ان کے پھلوں سے فائدہ اٹھائو جب وہ پھلیں اور اس کی کٹائی کے وقت اس کے حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو ‘ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
تمہید گزشتہ پانچ آیتوں میں مشرکین عرب نے اللہ کے پیدا کردہ جانوروں اور اس کی نعمتوں میں جس طرح مشرکانہ تصورات اختیار کرلیے تھے اور قدم قدم پر مشرکانہ اعمال کا اتکارب کر رہے تھے ‘ اس کی تفصیل بیان کی گئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ ان کے مشرکانہ رویہ کا جو نتیجہ دنیا اور آخرت میں نکل سکتا تھا ‘ اس کا ذکر فرمایا گیا تھا۔ اب پیش نظر رکوع میں عقلی اور نقلی انداز میں ان کے مشرکانہ رویہ پر تنقید فرمائی گئی ہے اور نہایت جامع اور مسکت دلائل کے ساتھ ان کے تصورات کی غلطیوں اور ان کے عقائد کی خرابیوں کو واضح فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَجَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُہ وَالزَّیْتُوَنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِھًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِہٍ ط کُلُوْا مِنً ثَمَرِہٓ اِذَآ اَثْمَرَوَاٰتُوْا حَقَّہ یَوْمَ حَصَادِہ زصلے وَلاَ تُسْرِفُوْا ط اِنَّہ لاَ یُحِبُّ الًمُسْرِفِیْنَ ۔ وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَۃً وَّفَرْشًا ط کُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہ لَکُمْ عَدُوُّ مُّبِیْنُ ۔ (الانعام : 141۔ 142) (اور وہی خدا ہے جس نے باغ پیدا کیے کچھ ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور کچھ نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور اور کھیتی پیدا کی مختلف النوع پیداوار کی اور زیتون اور انار باہم دگر ملتے جلتے بھی اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ ان کے پھلوں سے فائدہ اٹھائو جب وہ پھلیں اور اس کی کٹائی کے وقت اس کے حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو ‘ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور اس نے چوپایوں میں بڑے قد کے بھی پیدا کیے اور چھوٹے قد کے بھی۔ تو اللہ نے جو کچھ تمہیں بخشا ہے ‘ اس سے فائدہ اٹھائو اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔ بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے) حرام و حلال اور حصے مقرر کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے ان آیات کریمہ میں بہت سارے حقائق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن میں سے چند ایک کی طرف ہم ایک ترتیب سے اشارہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ تم نے اللہ کی نعمتوں اور خاص طور پر اس کے پیدا کردہ جانوروں میں اپنی مرضی سے جو قانون سازی کی ہے اور جس طرح حلت و حرمت کا اختیار استعمال کیا ہے کہ جس کو چاہا حلال کردیا اور جسے چاہا حرام بنا ڈالا اور پھر اس کے کھانے کی اجازت جس کسی کو چاہا دی اور جس کو نہ چاہا ‘ نہ دی اور پھر جس طرح تم نے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ احکام مخصوص کیے۔ اس قانون سازی سے صاف نظر آتا ہے کہ تمہارے مذہبی رہنمائوں نے گویا یہ سمجھ لیا ہے کہ تمام انسان ان کے محکوم ہیں ‘ وہ ان پر غیر معمولی اختیارات کے مالک ہیں اور انھیں یہ حق حاصل ہے کہ جس کے لیے جو چاہیں حدود مقرر کردیں اور جس جانور کے بارے میں جیسے چاہیں حلت و حرمت کا اختیار استعمال کریں۔ یہ غیر مشروط قانون سازی اس بات کی غماز ہے کہ وہ اپنے آپ کو مطاع مطلق جانتے ہیں اور انھیں غیر محدو داختیارات حاصل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ حیثیت انھوں نے کس دلیل کی بنیاد پر حاصل کی ؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح تم اللہ کی مخلوق ہو ‘ تمہارے مذہبی رہنما بھی اللہ ہی کی مخلوق ہیں اور جنھیں انھوں نے اللہ کی ذات یا اس کی صفات میں شریک بنا رکھا ہے وہ بھی اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ تو ایک مخلوق کو یہ بات کسی طرح زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنی جیسی مخلوق پر غیر مشروط حاکمانہ اقتدار کا دعویٰ کرے اور مطلقاً قانون سازی کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لے اور پھر جو اس قانون کی فرمانبرداری نہ کرے اسے دنیا اور آخرت میں قابل تعزیر ٹھہرائے کیونکہ یہ لامحدود اختیارات تو صرف اسے حاصل ہوسکتے ہیں جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ‘ جو انسانوں کا خالق ہونے کے ساتھ ساتھ مالک بھی ہے ‘ رازق بھی ہے اور حاکم حقیقی بھی۔ اس نے چونکہ انسانوں کو پیدا کیا اور انھیں رزق دیتا ہے تو اسے بجا طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مخلوق پر جیسے چاہے احکام نازل کرے اور جس طرح کی پابندیاں مناسب سمجھے لگائے اور جو اس کے احکام کی اطاعت کرے انھیں وہ نیک جزا دے اور جو مخالفت اور نافرمانی کرے اسے سزا دے کیونکہ خالق ومالک ہونے کی حیثیت سے اطاعت صرف اسی کو زیب دیتی یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ مشرکین عرب کو یہ بات تسلیم تھی کہ ہمارا پیدا کرنے والا بھی اللہ ہے اور ہمارے زیرتصرف جتنی بھی نعمتیں ہیں ان سب کا پیدا کرنے والا بھی وہی ہے۔ اس لیے ان کے مسلمہ عقیدے کو بنیاد بنا کر دلیل کی یہ عمارت اٹھائی جا رہی ہے کہ دیکھو ! اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے قسم قسم کے باغات پیدا فرمائے اور پھر عربوں میں چونکہ دو قسم کے باغات پائے جاتے تھے ‘ بطورخاص ان کا ذکر فرمایا کہ ایک تو وہ باغات ہیں کہ جن کی بیلوں کو ٹٹیوں پر چڑھایا جاتا ہے یعنی وہ درختوں کی طرح اپنے تنوں پر کھڑے نہیں ہوتے بلکہ وہ بیلوں کی طرح پھیلتے ہیں اور وہ بیلیں بھی ایسی ہیں کہ انھیں زمین پر پھیلایا نہیں جاسکتا کیونکہ ان کو اگر زمین پر کھلا چھوڑ دیا جائے تو نہ انھیں پھل لگتا ہے اور نہ وہ پھل پھول سکتی ہیں بلکہ سڑ جاتی ہیں اور اگر انھیں پھل لگ بھی جائے تو بڑھنے اور پکنے نہیں پاتا۔ اس کی سب سے عمدہ مثال انگور ہے جو عربوں کو بہت مرغوب تھا ‘ اس کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی تھیں تب وہ پھل دیتی تھیں اور لذت ِکام و دہن کا کام دیتی تھیں اور دوسرے باغات ایسی بیلوں پر مشتمل تھے جن کی بیلیں زمین پر کھلی چھوڑ دی جاتی تھیں اور وہ مٹی کی آلودگی کے ساتھ بڑھتی اور پھیلتی تھیں اور اگر انھیں کسی چیز پر چڑھا دیا جائے تو پوری نشو و نما سے محروم ہوجاتیں۔ اولاً تو ان پر پھل نہ آتا اور اگر آتا بھی تو بڑھنے اور پکنے نہ پاتا۔ اس کی مثال خربوزہ ‘ ککڑی اور تربوز جیسے پھل ہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے اپنے کھیتوں میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ اس کے بعد ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو پودوں کی طرح اپنے تنوں پر کھڑی ہوتی تھیں اور ان میں سے بعض قد آور درختوں کی شکل اختیار کرلیتی تھیں۔ اس کی بہترین مثال کھجور کا درخت ہے اور جو تنے پر کھڑی ہو کر صرف ایک پودا بنتی اور بہار دیتی ہے ‘ اس کی کئی قسمیں ہیں جن میں گندم اور جو زیادہ معروف ہیں۔ ان مختلف قسم کی نعمتوں کا تصور فرمائیے ‘ یہ بیک وقت غذا بھی ہیں اور لذت کام و دہن کا سامان بھی۔ آدمی زندہ رہنے کے لیے غذا کا محتاج ہے اور ذوق کی سیرابی کے لیے پھل کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ چناچہ یہاں جن نعمتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ‘ وہ ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں بلکہ ان میں بعض نعمتیں تو ایسی ہیں کہ وہ ایک ایک ہو کر بھی دونوں ضرورتوں کے لیے کفایت کرتی ہیں اور عرب چونکہ کھانے پینے کے معاملے میں خوش ذوق ہونے کے ساتھ ساتھ کفایت پسند بھی تھے ان کے لیے اپنی مشکل اور مہماتی زندگی میں ایسی نعمتیں قوت کا سامان تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں کھجور کی نعمت ہے ‘ یہ بیک وقت غذا بھی ہے اور پھل بھی۔ ہم چونکہ اپنی مخصوص عادات کے باعث گندم یا چاول سے ہٹ کر غذائی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اس لیے ہمارے لیے اس کو سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔ لیکن عربوں کی عادت یہی تھی کہ وہ صرف کھجور پر گذارہ کرسکتے تھے۔ اسی سے پیٹ بھرتے اور اسی سے لذت کام و دہن کا کام لیتے اور جنگوں میں ان کے تیز رفتار حملوں کا یہ بھی ایک سبب تھا کہ انھیں اپنے ساتھ رسد کے طور پر کسی بڑے غذائی ذخیرے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہر سپاہی کھجوروں کا ایک تھیلا اپنے گھوڑے کی پشت یا اپنی پشت پر اٹھا سکتا تھا اور یہی ان کی کئی دنوں کی ضرورت کے لیے کافی ہوتا تھا اور کبھی حملوں میں وقفہ ہوتا تو باربرداری یا سواری کے لیے جو اونٹ ساتھ رکھتے تھے ‘ ان کو ذبح کر کے گوشت کو پر تکلف دعوت کے طور پر استعمال کرتے تھے اور ایک اونٹ سو آدمیوں کی ضرورت کے لیے کافی ہوتا تھا۔ پھلوں کے فوائد دوسری بات جس کی طرف توجہ فرمائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ ذرا ان نعمتوں کو دیکھو کہ ہم نے کس طرح ان کی پیداوار اور ان کی لذت میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھا ہے۔ ایک ہی زمین ہے اور ایک طرح کے پودے ‘ ایک ہی طرح کی بارش کا پانی انھیں سیراب کرتا ہے ‘ ایک جیسی ہوا ان کو لوریاں دیتی ہے ‘ سورج کی کرنیں یکساں طور پر ان پر برستی ہیں ‘ چاند اپنی حلاوت کے خزانے سب پر لٹاتا ہے۔ بایں ! ہمہ ان کی پیداوار اور ان کی لطف و لذت میں کھانے والے فرق محسوس کرتے ہیں۔ آج بھی عرب میں اور عرب سے باہر بھی اگر دیکھا جائے تو یہ بات حقیقت نظر آتی ہے کہ بیسیوں قسم کی کھجوریں کاشت کی جا رہی ہیں جو اپنی پیداوار میں اور اپنی لطف و لذت میں باہم دگر مختلف ہیں۔ اسی طرح یہ ایک ہی زمین مختلف قسم کے غلوں سے گراں بار ہے جو اپنی تاثیر ‘ اپنی غذائیت اور اپنی افادیت میں باہم دگر نہایت صحت مندانہ اختلاف رکھتے ہیں۔ اس خالق ومالک کی نعمتوں کا کیا کہنا جس نے ایک ایک نعمت میں یہ تنوع اور یہ حسن رکھا ہے اور پھر انہی نعمتوں میں پروردگار نے عربوں کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے زیتون اور انار کا بھی ذکر فرمایا۔ زیتون بیک وقت عربوں کے لیے غذا بھی تھا اور پھل بھی اور انار تو ان کے نہایت پسندیدہ پھلوں میں شامل تھا۔ ان دونوں پھلوں کو دیکھیے تو یہ اللہ کی صنعت ‘ اس کی قدرت اور اس کی رحمت کا مظہر نظر آتے ہیں۔ غلے کا پودا ہو یا پھل کا درخت ‘ اسے مناسب پانی نہ ملے اور دھوپ مسلسل اس کو جلاتی رہے تو یہ عموماً نقصان کا شکار ہوجاتا ہے۔ لیکن زیتون عجیب درخت ہے جتنا اسے سایہ سے بچا کر رکھیے اور جتنی تیز دھوپ اس پر پڑے اتنا ہی اس کا تیل زیادہ شفاف اور روشنی دینے والا ہوتا ہے۔ چناچہ اس کا تیل جس طرح صاف شفاف روشنی کے لیے (جو ہر طرح کے دھویں کی آلودگی سے پاک ہو) استعمال ہوتا تھا ‘ اسی طرح اس کا پھل کھانے کے کام بھی آتا تھا۔ آج بھی عرب دونوں ضرورتوں کے لیے اس کو استعمال کرتے ہیں۔ بجلی آجانے کے بعد تیل کو جلانے کی ضرورت تو نہیں رہی لیکن گھی کی جگہ اس کا استعمال پوری دنیا میں سب سے زیادہ مفید سمجھا جاتا ہے چونکہ اس کی پیداوار باقی دنیا میں زیادہ نہیں ہوتی اور یا اس پر زرعی ماہرین نے بعض دوسرے علاقوں میں کامیاب تجربے نہیں کیے اس لیے اس کے تیل کا استعمال مہنگا ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں ہو پا رہا۔ اگر کہیں تجربات کے نتیجہ میں اس کی پیدوار اتنی بڑھ جائے کہ عام ضرورت کے لیے کفایت کرسکے تو یہ اللہ کی ایسی پاکیزہ نعمت ہے کہ دوسرے تمام تیل اس کے سامنے نہ صرف غیر مقبول ہوجائیں بلکہ ڈاکٹر اسے صحت کی ضرورت کے طور پر استعمال کرنے پر زور دیں۔ اسی طرح اس کے عام ہونے کے ساتھ جس طرح آج اس کا پھل جو شکل و صورت میں جامن کی طرح ہوتا ہے ‘ عربوں کے ناشتے کا حصہ ہے ‘ باقی لوگوں میں بھی مقبول ہوجائے اور اچار کے طور پر استعمال ہونے لگے اور جہاں تک انار کا تعلق ہے ‘ اس کی افادیت اور بعض بیماریوں میں علاج کی ضرورت کے طور پر اطباء میں ہمیشہ قابل تسلیم رہی ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ یونانی طب کے زوال اور مغربی طب کے عروج کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت اور اہمیت کی طرف چنداں توجہ نہیں دی جا رہی ‘ ورنہ یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہ پھل بہت سی بیماریوں میں تریاق کی حیثیت رکھتا ہے اور جہاں تک اس کی خوبصورتی کا تعلق ہے ‘ اس کے کھلنے کے ساتھ ہی آدمی یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ کہ ایک ترتیب کے ساتھ لگے ہوئے دانے اپنی خوش رنگی اور لطف و لذت کے ساتھ ساتھ جمالیاتی ذوق کو اس طرح اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ اللہ کی قدرت یاد آتی ہے۔ ایک چھوٹا سا ظرف ہے جس کے اندر اللہ نے غذائیت ‘ افادیت ‘ صحت و توانائی اور حسن آرائی کا ایک خزانہ جمع کردیا ہے۔ سمندر کو کو زے میں بند کرنے کی مثال صحیح طور پر اسی پر صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہم پر احسانات اس کے بعد ایک اور حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ ہم نے تمہیں یہ نعمتیں اس لیے عطا فرمائی ہیں کہ تم ان نعمتوں کو اپنی غذائی ضرورتوں اور لذت کام و دہن کے لیے اپنے استعمال میں لائو اور جب تمہاری شدید بھوک اس سے مٹے اور بھوک کی آگ ٹھنڈی ہو اور تمہاری لطف و لذت کی ضرورت اس سے پوری ہو تو تمہارے اندر ان نعمتوں کے دینے والے کی احسان شناسی کا جذبہ ابھرے اور یہی وہ جوہر ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ میرے اللہ نے سب سے پہلے تو یہ دولت عطا فرمائی کہ مجھے بھوک کا احساس بخشا۔ ہم چونکہ عقل رکھتے ہوئے بھی کوتاہی فکر کا شکار رہتے ہیں اور بہت ساری سامنے کی باتوں کو بھی سمجھنے سے عاجز رہ جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اللہ کی بعض نعمتوں کا بھی پوری طرح ادراک نہیں ہو پاتا ‘ انہی میں سے ایک یہ نعمت بھی ہے جسے بھوک کا احساس کہتے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ بھوک کا احساس نہ ہونا یہ ایک بیماری ہے اور جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں ‘ ان سے پوچھئے وہ اپنے اندر کتنا بڑا خلا محسوس کرتے ہیں۔ آپ ان کو کیسی ہی بڑی سے بڑی نعمت کھلا دیجئے ‘ وہ اس کے حقیقی لطف سے ہمیشہ محروم رہیں گے کیونکہ کسی بھی نعمت کا حقیقی مزہ اس وقت آتا ہے جب آدمی اس کی طلب محسوس کرتا ہے۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ بغیر بھوک کے مرغ مسلم بھی بےمزہ معلوم ہوتا ہے اور شدید بھوک میں خشک روٹی بھی مزہ دے جاتی ہے۔ تو سب سے پہلی تو یہ نعمت ہے جو اللہ اپنی مخلوق کو عطا فرماتا ہے لیکن یہ نعمت اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مزید نعمتوں کی طالب ہوتی ہے اگر آدمی کو وہ نعمتیں میسر آجائیں تو اس کے اندر خود بخود ایک احساس ابھرتا ہے جسے احسان شناسی کہتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ میری اس بھوک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تو صرف یہ بات کافی تھی کہ سادہ اور سپاٹ طریقے سے کوئی سی نعمت بھی عطا کردی جاتی جس سے میرا پیٹ بھر جاتا لیکن یہ کیا بات ہے کہ مجھے صرف گندم ہی نہیں دی گئی بلکہ اس کے لیے ایسے پودوں کے کھیت اٹھائے گئے جنھیں دیکھ کر یوں احساس ہوتا ہے جیسے زمین نے اپنے اندر سے سونا اگل دیا ہو۔ مجھے ضرورت تھی چلچلاتی دھوپ سے بچنے کے لیے سائے کی ‘ اس کے لیے سایہ دیوار کافی تھا لیکن میرے لیے چھتریوں والے درخت کھڑے کر دئیے گئے۔ مجھے اپنی بھوک مٹانے کے لیے کوئی ایک غلہ کفایت کرسکتا تھا لیکن یہ رنگارنگ متنوع قسم کے غلے کیوں پیدا کر دئیے گئے۔ پانی میری پیاس بجھانے کے لیے کافی تھا لیکن اس کی کیا ضرورت تھی کہ چشمے ابالے جاتے ‘ آبشاریں گرائی جاتیں ‘ دریا بہائے جاتے ‘ پہاڑوں پر برف جمائی جاتی ‘ گھٹائیں جھوم جھوم کر اٹھتیں اور رم جھم سے لے کر موسلا دھار بارشیں تک برستیں۔ یہ قسم قسم کی نعمتوں کی بہار ‘ آخر ان کی کیا ضرورت تھی ؟ چناچہ آدمی جب ان چیزوں پر غور کرتا ہے تو اسے صاف محسوس ہوتا ہے کہ میرا رب صرف رازق ہی نہیں ‘ وہ محسن بھی ہے۔ وہ نہایت جواد ‘ کریم اور مہربان بھی ہے۔ اس کی بخشش اور اس کی عطائیں بےحد و بیشمار ہیں۔ اس نے بغیر میرے کسی استحقاق کے میرے لیے یہ تنوعات ‘ یہ بوقلمونیوں ‘ یہ رنگ آرائیوں اور رعنائیوں پر مشتمل جو دسترخوان بچھایا ہے ‘ وہ یقینا اس کے انعامات اور اس کی فیاضیوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ احساس جیسے جیسے توانا ہوتا جاتا ہے ‘ ویسے ویسے آدمی اپنے اللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے اور اس کے دل میں یہ خیال مچلنے لگتا ہے کہ جس محسن نے یہ بیشمار احسانات کیے ہیں ‘ یقینا اس نے مجھ پر ذمہ داریاں بھی ڈالی ہوں گی۔ پھر وہ ان ذمہ داریوں کے حوالے سے ضرور مجھ سے ایک دن بازپرس بھی کرے گا۔ اللہ کا قرب اللہ کی نعمتوں کے صحیح استعمال سے حاصل ہوتا ہے اگر میں نے ان نعمتوں کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کو پہچانا اور اس کے احکام کی پیروی کی اور وہ زندگی گزاری جس پر وہ راضی ہے اور اس کی وفاداری کا حق ادا کیا تو وہ یقینا مجھے بہتر سے بہتر جزا سے نوازے گا۔ لیکن اگر میں نے نعمتوں کو استعمال تو کیا لیکن اپنے محسن کو پہچاننے سے انکار کردیا اور زندگی کفران نعمت کرتے ہوئے گزاری تو یقینا مجھے ایک دن اس کی سزا ملے گی اور میں ہمیشہ کی نامرادی کا شکار ہوجاؤں گا۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کو کھائو اور استعمال کرو۔ لیکن ان نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس غلط تصور کی گرفت میں نہ آجانا جس میں دوسرے مذاہب کے لوگ آئے۔ بدھ مت کے ماننے والوں نے اللہ کے قرب کا ذریعہ بھکشو ازم کو سمجھا ہندوئوں نے جوگی پن کو اور عیسائیوں نے رہبانیت کو۔ یہ سب اس غلطی کا شکار ہوئے کہ اللہ کا تقرب اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ ہم دنیا اور اس کی نعمتوں سے دور رہیں گویا ان کے نزدیک ترک لذات اور دنیوی نعمتوں سے پرہیز سے انسان کو وہ پاکیزگی ملتی ہے جس کے نتیجے میں اللہ کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دنیا تو ایک گندگی ہے اگر ہم نے اسے اختیار کرلیا تو ہماری زندگی گندگی سے آلودہ ہوجائے گی اور ہم اللہ کے قرب سے محروم ہوجائیں گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ انہی تینوں مذاہب کے ماننے والے اور ان کے مذہبی رہنما آج تک اس تصور کو ایک حقیقت سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا اجتماعی رویہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک محدود اقلیت کو چھوڑ کر ان مذاہب کے ماننے والے ترک لذات تو دور کی بات ہے ترک محرمات کے لیے بھی تیار نہیں۔ مذہبی طور پر وہ قرب الہٰی کے لیے دنیا چھوڑنا ضروری سمجھتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کے لیے انھوں نے نہ صرف دنیا بلکہ دنیا کے ہر گناہ کو اپنے لیے ضروری سمجھ لیا ہے۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ان کے اس مذہبی تصور کو دنیا نے قبول کرنے سے انکار کردیا ورنہ نوع انسانی کا قافلہ بہت پہلے ختم ہوچکا ہوتا۔ نہ انسانی سلسلہ آگے چلتا نہ تہذیب پیدا ہوتی نہ تمدن کو کارکن ملتے۔ اجتماعی زندگی کا تصور بالکل ختم ہو کر رہ جاتا اسی لیے پروردگار یہاں حکم دے رہا ہے کہ کہیں تم اس تصور کو قبول نہ کرلینا ‘ اللہ کا قرب اللہ کی نعمتوں کو چھوڑ کر نہیں ملتا بلکہ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر منعم حقیقی کو پہچاننے سے نصیب ہوتا ہے۔ نعمتوں کا صحیح استعمال ‘ ان کا صحیح تصور ‘ ان کے بارے میں اللہ کے احکامات اور ان کی پابندی اور ان کے بارے میں آنحضرت کا طرز عمل اللہ کے قرب کے ضامن ہیں اس لیے فرمایا کہ تم ان نعمتوں کو استعمال کرو لیکن ساتھ ہی ساتھ ان نعمتوں کا اور اللہ کا حق ادا کرو۔ حقہ میں ضمیر کا مرجع ایک ایک نعمت بھی ہے اور اللہ کی ذات بھی۔ دونوں سے مراد ایک ہی ہے کہ ان نعمتوں کو خود بھی استعمال کرو اور اس پر شکر ادا کرو اور ان نعمتوں میں جو ان لوگوں کا حق ہے جو ان نعمتوں سے محروم ہیں ‘ ان کا حق بھی ادا کرو۔ ان نعمتوں میں غریبوں کا حصہ رہی یہ بات کہ غریبوں کا حق صاحب نعمت اور صاحب استطاعت لوگوں کے مال و دولت میں کیا ہے یہاں اس کی تفیصل بیان نہیں فرمائی گئی کیونکہ یہ مکی سورة ہے اور اور مکی زندگی میں بالعموم احکام کا نزول نہیں ہوا اس لیے اس سے زکوٰۃ مراد لینا مشکل ہے البتہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اللہ نے تمہیں جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ‘ ان میں سے غریبوں کے لیے خیرات کرو۔ لیکن بعض اہل علم نے اس سے زکوٰۃ مراد لی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مکی زندگی ہی میں زکوٰۃ فرض ہوگئی تھی اور اس آیت میں زمین کی زکوٰۃ یعنی عشر مراد ہے۔ زکوٰۃ کا نصاب البتہ ! جہاں تک زکوٰۃ کی تفصیلات یعنی مقدار زکوٰۃ نصاب کا تعین اور مصارف وغیرہ کا تعلق ہے اس کے احکام مدینہ طیبہ میں آئے۔ اس لیے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنی کھیتی کاٹیں یا پھل توڑیں تو جو محتاج لوگ وہاں جمع ہوجائیں ‘ جو ان کی استطاعت میں ہو ان کو دے دیں لیکن کوئی مقدار معین نہیں کی گئی البتہ مدینہ طیبہ میں جا کر اس کے تفصیلی احکام آئے اور مقدار بھی مقرر ہوئی۔ پھر جس طرح دوسرے اموال کے نصاب اور مقدار زکوٰۃ کی تفصیلات آنحضرت نے بیان فرمائیں اسی طرح زمین کی زکوٰۃ کی تفصیلات بھی بیان فرمائیں۔ حضرت معاذ بن جبل ﷺ ‘ حضرت عبداللہ بن عمر ( رض) اور حضرت جابر بن عبداللہ ( رض) جیسے صحابہ سے ان تفصیلات پر مشتمل روایات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بارانی زمینوں میں جہاں بارش پر پیداوار کا دارومدار ہے ‘ پیداوار کا دسواں حصہ اور جو زمینیں کنوں اور نہروں سے سیراب ہوتی ہیں ‘ ان میں پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہے۔ اسلام نے دراصل اصول یہ اختیار کیا ہے کہ جس پیداوار میں محنت اور خرچ کم ہے اس میں زکوٰۃ کی مقدار زیادہ ہے اور جس میں محنت اور خرچ زیادہ ہے اس میں زکوٰۃ کی مقدار زیادہ ہے۔ مثلاً اگر کسی زمین سے کوئی قدیم خزانہ یا کوئی کان نکل آئے تو اس کا پانچواں حصہ بطور زکوٰۃ کے ادا کرنا لازم ہے اور جیسا کہ عرض کیا بارانی زمینوں میں دسواں حصہ اور کنویں یا نہری پانی سے سیراب ہونے والی زمینوں سے بیسواں حصہ لازمی ہے اور سونا یا چاندی یعنی روپیہ پیسہ میں خرچ زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس کی زکوٰۃ میں چالیسواں حصہ ادا کیا جاتا ہے اور مویشیوں میں سو بکریوں سے کم میں اور اونٹوں میں پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے لیکن زمین کی پیداوار میں کوئی نصاب مقرر نہیں کیا گیا۔ زمین کی پیداوار چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ ‘ دسواں یا بیسواں حصہ نکالنا ضروری ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ کی نعمتوں کو استعمال تو کرو لیکن اس میں اسراف یعنی فضول خرچی مت کرنا۔ نہ بےجا خرچ کرنا نہ بےضرورت خرچ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اسراف سے منع کرتا ہے اب سوال یہ ہے کہ یہاں اسراف سے کیا مفہوم ہے ؟ بعض اہل علم نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ یہاں چونکہ نعمتوں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ اس کے کوئی مقدار مقرر نہیں فرمائی گئی تو ممکن تھا کوئی صاحب اس کا یہ مطلب سمجھتے کہ آدمی کے پاس جو کچھ آئے ‘ وہ اللہ کی راہ میں دے دینا ضروری ہے۔ چناچہ یہاں اسی کو اسراف سے تعبیر فرمایا گیا ہے کہ سب کچھ اللہ کی راہ میں نہ دے دینا اگر ایسا کرو گے تو تم پر جو حقوق عائد کیے گئے ہیں ‘ ان کی ادائیگی کیسے کرسکو گے۔ مثلاً ایک باپ اپنے اوپر اپنی بیوی ‘ اپنے بچوں اور والدین زندہ ہیں تو ان کے بھی حقوق رکھتا ہے جو اس کے فرائض ہیں۔ اگر یہ اپنے گھر کا سارا اثاثہ اٹھا کر اللہ کی راہ میں دے دے تو یہ حقوق کیسے ادا ہوں گے اور اللہ کے یہاں جب اس کی بازپرس ہوگی تو یہ کیا عذر کرے گا۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک زمیندار اپنی زمین کی ساری پیداوار حکومت کے کارندوں کو دے دے لیکن مالیہ ادا نہ کرے ‘ ظاہر ہے وہ گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔ یہی حال ایک مسلمان کا بھی ہے ‘ وہ اپنے اہل خانہ ‘ اپنے والدین ‘ اپنے اقربا ‘ اپنے پڑوسی اور ملک و ملت کے لحاظ سے اپنے ذمہ جو فرائض رکھتا ہے ‘ ان کے ادا نہ کرنے کے جرم میں ماخوذ ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک صحابی نے مرض الوفات میں حضور سے پوچھا کہ میں اپنا سارا مال اللہ کے راستے میں دے دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔ انھوں نے پوچھا : نصف دے دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔ انھوں نے پوچھا : ایک تہائی دے دوں ؟ فرمایا : ہاں ! ایک تہائی دے دو اور مزید فرمایا کہ اپنے وارثوں کو کھاتا پیتا چھوڑ کر جاؤ ‘ بجائے اس کے وہ ناداری کا زخم اٹھائیں۔ البتہ ! یہ بات کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی زکوٰۃ ادا نہیں فرمائی اور نہ شاید حضرت صدیق اکبر ( رض) نے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ کبھی اپنے پاس کوئی مال نہ رکھا۔ حضور کے پاس ہزاروں لاکھوں آتے لیکن اس پر ایک رات نہ گزرتی کہ آپ انھیں لوگوں کی ضرویات پر خرچ کردیتے حتیٰ کہ مرض الوفات میں آپ نے حکم دیا کہ گھر میں چند اشرفیاں پڑی ہیں ‘ انھیں خیرات کردو۔ دوسرے دن پتہ چلا کہ ازواجِ مطہرات بھول گئیں اور انھیں خیرات نہ کرسکیں۔ آپ نے اسی وقت انھیں خیرات کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ کیا محمد ﷺ اپنے اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ دنیا کا مال اس کے گھر میں پڑا ہوگا ؟ اس بارے آپ کا طرز عمل یہ تھا جس کی تصویر ظفر علی خان نے کھینچی ہے ؎ قدموں میں ڈھیر اشرفیوں کا لگا ہوا اور تین دن سے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا ہیں دوسروں کے واسطے سیم و زر و گہر اور اپنا یہ حال کہ ہے چولہا بجھا ہوا صدیق اکبر ( رض) آنحضرت ﷺ کی اسی سنت کے امین تھے۔ آغازِ اسلام میں نہایت مالدار تھے لیکن مدینہ طیبہ میں ڈھب کے کپڑے پہننے کو بھی میسر نہ تھے۔ جنگ تبوک میں گھر کا سارا اثاثہ لا کر حضور کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ انھیں چونکہ آنحضرت کا جانشین بننا تھا ‘ اس لیے وہ ہوبہو آنحضرت کی سیرت و کردار کا عکس تھے اور مزید یہ بات کہ جب اسلام اور مسلمانوں کو ایک ایک پائی کی ضرورت لاحق ہو تو پھر سب کچھ دے دینا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہے اس لیے حضرت صدیق اکبر کا عمل اسی پر تھا جو ان کے اپنے مقام و مرتبہ کے عین مطابق تھا۔ اسراف نہ کرنے کا دوسرا مفہوم یہ ہے جو زیادہ طبیعت کو لگتا ہے کہ ایک طرف اللہ کے راستے میں مسلمانوں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی اسراف سے روکا جا رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جو آدمی اپنی ذاتی زندگی میں جائز ضرورتوں سے بڑھ کر تکلفات ‘ پھر تعیشات اور اللے تللوں اڑا دینے کی عادت رکھتا ہے ‘ اس کے اندر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا کبھی ذوق پیدا نہیں ہوتا اور نہ وہ اپنی تعیشات سے اتنی گنجائش رکھتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر خرچ کرنے کے لیے مال بچا سکے۔ ان کے کتوں پر آپ کو مخملی جھول دکھائی دیں گے لیکن ان کے ہمسائے میں بےکفن کو کفن دینے کی ان کو گنجائش نہیں ہوگی۔ ان کے شکاری جانور گوشت اور پھلوں سے پالے جائیں گے لیکن ان کے دروازے سے سائل ہمیشہ خالی ہاتھ واپس جائے گا کیونکہ ان کے ذوق میں ان تعیشات نے اللہ کے حق یا مسلمانوں کی ضرورتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ چناچہ یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کا حق اسی صورت ادا کرسکو گے جب کہ تم اسراف اور فضول خرچی سے بچو۔ چناچہ قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ اس بات کو صراحتاً بھی ذکر فرمایا۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 26 اور 27 میں فرمایا گیا ہے : ” اور قرابت دار ‘ مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے “۔ یعنی ان حقوق کی ادائیگی کا انحصار اس بات پر ہے کہ تم اپنی ضروریات اور خواہشات کے معاملے میں معتدل ‘ کفایت شعار اور میانہ رو بنو کیونکہ اگر تم مسرف اور فضول خرچ بنو گے تو پھر تمہارے یہاں ان حقوق کے ادا کرنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکے گی۔ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو انسان کی ضرورتوں کے لیے پیدا کیا اگلی آیت کریمہ میں بھی زیر بحث آیت کریمہ کی طرح بنائے استدلال نعمتوں کو بناتے ہوئے دو نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ متذکرہ نعمتوں کا تعلق غلے اور پھلوں سے تھا اور اس آیت میں جن نعمتوں کا بیان ہو رہا ہے ان کا تعلق مویشیوں اور چارپایوں سے ہے۔ ارشاد فرمایا کہ وہی خدا ہے جس نے چارپایوں میں سے دو طرح کے جانور پیدا فرمائے اور ان کے لیے حمولۃ اور فرش کے الفاظ استعمال کیے۔ حمولہ ‘ فعولہ کے وزن پر اس چارپائے کو کہتے ہیں جو سواری اور باربرداری کے لیے موزوں ہو جیسے اونٹ ‘ گھوڑے اور خچر وغیرہ اور فرش کا استعمال تین چیزوں پر ہوتا ہے : 1) ایسا قطعہ زمین جہاں نباتات کی کثرت ہو ‘ 2) اس کھیتی کو بھی کہتے ہیں جو ابھی اپنے ڈھنٹھلوں پر کھڑی نہ ہوئی ہو ‘ 3) وہ چارپائے اور حیوانات جو سواری اور باربرداری کی بجائے صرف گوشت کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پالے جاتے ہیں اور جو اپنے قد و قامت میں سواری اور باربرداری کے جانوروں سے چھوٹے ہیں جیسے بھیڑ بکریاں وغیرہ۔ اس آیت کریمہ میں یہی مراد ہے۔ جس طرح سابقہ آیت میں انسان کی دو ضرورتوں کے حوالے سے دو دو نعمتوں کا ذکر فرمایا یعنی غذا کی ضرورت اور لذت کام و دہن کے لیے یہاں بھی دو ضرورتوں کے حوالے سے دو طرح کے جانوروں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے ایک طرح کے وہ جانور جو سواری اور باربرداری کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جانور جو گوشت خوری اور دوسری ضرورتوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کر کے یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ کوئی ضرورت ایسی نہیں جس سے اللہ جیسے کریم نے تعافل فرمایا ہو یا صرف نظر کیا ہو بلکہ اس نے تو ایسی ایسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں بلکہ ایک ایک نعمت میں غذائیت کے اعتبار سے ایسا تنوع رکھا ہے کہ انسان کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے اور ہرحال میں انسانی ضرورتوں کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ انسان جس طرح غذائیت اور لذت کام دہن کے لیے مختلف قسم کی ضرورتیں رکھتا ہے ‘ اسی طرح سواری کے لیے بھی مختلف جانوروں کا محتاج ہے۔ اور مزید کہ غذا میں صرف غلہ اور لذت کام و دہن میں صرف پھل انسانی ضرورت کے لیے کافی تو ہیں لیکن انسانی ذوق کی تسکین کے لیے کافی نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے غلے اور پھلوں کے ساتھ ساتھ گوشت بھی عطا فرمایا تاکہ انسان کی غذائیت کو مکمل کیا جائے اور ساتھ ساتھ اس کے ذوق کی تسکین کا سامان بھی ہو سکے۔ سواری کی ضرورت بھی کسی ایک جانور کی تخلیق کے ساتھ پوری ہوسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک جانور کی تخلیق پر اکتفا نہیں فرمایا مختلف قسم کے چھوٹے بڑے جانور گھوڑے اور خچروں سے لے کر اونٹوں اور ہاتھیوں تک مختلف رفتار کے حامل مختلف انداز سے چلنے والے کوئی پتھریلے علاقے کا چلنے والا اور کوئی ریت کے صحرا پر کامیابی سے دوڑنے والا ‘ کوئی مختصر سفر کے لیے مفید اور کوئی لمبے سفر کی صعوبتیں اٹھانے کے لائق ہر طرح کا جانور پیدا کر کے انسانی سفر کو آسان فرمایا اور ایک جگہ قرآن کریم میں مزید یہ بھی فرمایا کہ ہم نے یہ یہ جانور تمہارے لیے پیدا کیے ہیں لیکن آئندہ چل کر وہ تمہارے لیے کیا کیا پیدا کرے گا تم آج اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے چناچہ آج ہم جن تیز رفتار سواریوں کے ذریعے برق رفتاری سے اڑے پھرتے ہیں اور دنوں کا سفر گھنٹوں اور منٹوں میں طے کرتے ہیں شاید اسی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ ان نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد پھر وہی بات فرمائی جس کا ذکر سابقہ آیت میں ہوا تھا کہ اللہ کی یہ نعمتیں تمہیں اس لیے دی گئی ہیں کہ تم انھیں اللہ کا رزق سمجھ کر ان سے فائدہ اٹھائو یہ اللہ کے تقرب کے راستے میں حائل ہونے والی نعمتیں نہیں ہیں بشرطیکہ تم انھیں استعمال کرتے ہوئے ذہن سے یہ بات فراموش نہ ہونے دو کہ ان نعمتوں کا پیدا کرنے والے نہ تم خود ہو نہ تمہارے نام نہاد شرکاء بلکہ اللہ نے انھیں پیدا کیا ہے اور پھر ان کے استعمال کے طریقے بھی اس نے تمہیں بتائے ہیں اگر تم انھیں اسی کی عنایت اور بخشش سمجھ کر اس کے احکام کے مطابق استعمال کرو تو بجائے اس کے کہ یہ تمہارے اور اللہ کے درمیان ایک رکاوٹ بن جائیں یہ اللہ کی معرفت اور خود تمہاری اپنی معرفت کا وسیلہ ثابت ہوں گے۔ شیطان کے وسوسوں اور فتنوں سے بچنا چاہیے جیسے جیسے تم ان سے فائدہ اٹھائو گے ویسے ویسے اللہ کے احسانات کی حقیقت تم پر کھلے گی اور تم مسلسل اپنے آپ کو اللہ کے احسانات تلے دبتا ہوا محسوس کرو گے اسی سے تمہیں بندگی کا سراغ ملے گا اور اسی سے اللہ کی کبریائی ذہنوں میں راسخ ہوتی چلی جائے گی اور یہی وہ دو تصور ہیں یعنی اپنی عاجزی اور عبدیت اور اللہ کی کبریائی اور اس کی الوہیت جو انسان اور بندے کے درمیان حقیقی تعلق کی بنیاد ہیں اور اسی پر تقرب الی اللہ کی عمارت اٹھائی جاسکتی ہے لیکن اس میں خرابی اس وقت پڑتی ہے جب آدمی اس سفر میں شیطانی وسوسوں کا شکار ہو کر ان تصورات کو قبول کرنے لگتا ہے جو شیطان انسان کے دل میں ڈالنا چاہتا ہے کبھی تو وہ انسان کو اس نسیان کا شکار کرتا ہے کہ تم بھی خود رو پودوں کی طرح اس زمین پر پیدا ہوئے ہو اور یہ نعمتیں بھی اسی طرح اپنے آپ پیداہو گئی ہیں کسی خدا کا کوئی وجود نہیں تم خود اپنی قسمت اور اپنی زندگی کے ذمہ دارہو یہ چند روزہ زندگی اپنی خواہشات کے حوالے سے اسی طرح گزارو کہ جس میں ہر طرف خوشیوں کے ترانے بج رہے ہوں اور آنے والے وقت کا اندیشہ کبھی تمہارے قریب بھی نہ بھٹکنے پائے اور یہ یقین رکھو کہ تمہیں کسی کے سامنے جواب دہی کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ چند روزہ زندگی یہی زندگی ہے اس کے بعد ہمیشہ کی موت ہے اور کبھی انسان کے دل میں شیطان شرک کا بیج ڈالتا ہے اور آہستہ آہستہ انسان کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ کردیتا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہی شہنشاہِ کائنات ہے لیکن اتنی وسیع و عریض کائنات کا انتظام و انصرام ایک ذات کے بس کی بات نہیں ہے یقینا اس نے بہت سے لوگوں کو اپنے اختیارات میں شریک کر رکھا ہے اور اپنے کائنات کے مختلف حصے ان کے سپرد کر رکھے ہیں اس لیے اگر ہم اپنی زندگی میں اللہ کے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس نے جن قوتوں کو اپنے اختیارات میں شریک کر رکھا ہے انھیں خوش کرنے کی کوشش کریں چناچہ اسی تصور سے بت پرستی دیوتائوں اور اوتاروں کی پرستش ‘ جنات اور فرشتوں سے استعانت جیسے مشرکانہ توہمات پیدا ہوتے ہیں۔ چناچہ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ شیطان کے فتنوں سے ہوشیار رہنا اور اس کے نقوش قدم کی کبھی پیروی نہ کرنا کیونکہ تمہارے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کرنے کے باعث جب شیطان کو وہاں سے دھتکار کے نکالا گیا تو اس نے اپنے اللہ سے قیامت تک کے لیے زندگی کی مہلت مانگی تھی اور ساتھ ہی اس نے صاف صاف اس بات کا اعلان کیا تھا بلکہ ایک طرح سے الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ آدم کی اولاد کو اپنے مقدور کی حد تک فتنوں میں ڈالے گا ‘ اپنی طرف سے ان کے لیے حلال و حرام ٹھہرائے گا اور خدا کے بخشے ہوئے چوپایوں میں بتوں کے نام پر نیاز اور قربانی ان سے دلوائے گا چناچہ سورة النساء میں اس کا قول نقل کیا گیا ہے کہ اس نے کہا : وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا وَّ لَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَ لَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ (النساء : 119) (اور شیطان نے کہا میں تیرے بندوں میں سے ایک متعین حصہ ہتھیا کے رہوں گا اور میں ان کو گمراہ کروں گا ان کو آرزوئوں کے سبز باغ دکھائوں گا اور ان کو سجھائوں گا تو وہ چوپایوں کے کان کاٹیں گے) شیطان کے اس الٹی میٹم سے اس کی دشمنی پوری طرح نمایاں ہو رہی ہے اور وہ یہ تہیہ کیے بیٹھا ہے کہ جس پر اس کا بس چلے گا اس کو وہ کبھی اللہ کے بتائے ہوئے صحیح راستے پر چلنے نہیں دے گا بلکہ ہر ممکن طریقے سے اس کے دل و دماغ میں وسوسہ اندازی کرے گا اور اس کی عاقبت تباہ کر دے گا۔ اس لیے اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے کہ اس نے اپنی دشمنی کو چھپایا نہیں بلکہ پہلے ہی دن صاف صاف اس کا اعلان کیا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ تم اسی دشمن سے راہنمائی لیتے ہو اور اللہ جو تمہارا محسن ہے جس نے تمہیں ہزاروں قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے ‘ جس نے تمہیں زندگی اور زندگی کے امکانات دے کر نجانے کیسی کیسی صلاحیتوں سے گراں بار کر رکھا ہے لیکن تم اپنے اس محسن کو بھول جاتے ہو اور اس دشمن کے ساتھ اس کی راہنمائی میں چلنا پسند کرتے ہو یہ غیر اللہ کو اللہ کی صفات میں شریک کرنا یہ شیطان کا سب سے بڑا فتنہ ہے جس میں اس نے تمہیں مبتلا کر رکھا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی شیطانی فتنے کو اس طرح کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے اور جانوروں میں مشرکین عرب میں جس طرح مشرکانہ تصورات اختیار کر رکھے تھے اور جن کا سابقہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے ان پر اس وضاحت اور سلاست کے ساتھ تنقید فرمائی گئی ہے کہ تسہیل مطالب کے لیے اس سے زیادہ آسان اسلوب کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
Top