Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 135
قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ١ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
قُلْ
: فرمادیں
يٰقَوْمِ
: اے قوم
اعْمَلُوْا
: کام کرتے رہو
عَلٰي
: پر
مَكَانَتِكُمْ
: اپنی جگہ
اِنِّىْ
: میں
عَامِلٌ
: کام کر رہا ہوں
فَسَوْفَ
: پس جلد
تَعْلَمُوْنَ
: تم جان لو گے
مَنْ
: کس
تَكُوْنُ
: ہوتا ہے
لَهٗ
: اس
عَاقِبَةُ
: آخرت
الدَّارِ
: گھر
اِنَّهٗ
: بیشک
لَا يُفْلِحُ
: فلاح نہیں پاتے
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم
کہہ دو ‘ اے میرے ہم قومو ! تم اپنے طریقے پر چلو ‘ میں اپنے طریقے پر چلتا ہوں۔ تم جلد جان لو گے کہ انجام کار کی کامیابی کس کا حصہ ہے۔ یقینا ظالم فلاح پانے والے نہیں ہوسکتے
قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌج فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ لا مَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ ط اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (الانعام : 135) (کہہ دو ‘ اے میرے ہم قومو ! تم اپنے طریقے پر چلو ‘ میں اپنے طریقے پر چلتا ہوں۔ تم جلد جان لو گے کہ انجام کار کی کامیابی کس کا حصہ ہے۔ یقینا ظالم فلاح پانے والے نہیں ہوسکتے) رسول اللہ ﷺ کو فرمایا جا رہا ہے کہ کفار کو کہہ دیں تم اپنے طریقے پر چلو میں اپنے طریقے پر چلتا ہوں اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ تم نے اگر میری دعوت کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور میری کوئی دلیل تم پر اثر انداز نہیں ہو رہی اور تمہارے دل پتھروں سے بڑھ کر سخت ہوگئے ہیں اور تم نے انسانیت سے بالکل ناطہ توڑ لیا ہے اور ترغیب اور ترہیب کا کوئی لہجہ تم پر اثر انداز نہیں ہو رہا تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کا معاملہ اپنی انتہاء کو پہنچ گیا کیونکہ کاوشیں مکمل ہوگئیں ‘ انکار کی روش بھی مکمل ہوگئی یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جس میں اتمام حجت کا اعلان ہوجاتا ہے۔ یہاں آنحضرت ﷺ سے اتمام حجت کرایا جا رہا ہے کہ تم نے اگر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ تم کسی قیمت پر میری دعوت پر کان نہیں دھرو گے تو پھر میں آخری بات کہے دیتا ہوں تم اپنی خو نہ بدلو گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں سبک سر ہو کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے تم خفا کیوں ہو کہ تم اپنے انکار پر قائم رہو اور اپنی اذیت رسانی کے عمل کو جاری رکھو لیکن میں اپنے کام سے نہیں رک سکتا میں تمہاری اذیتوں کے مقابلے میں بھی تمہیں اللہ کے دین کی دعوت دیتا رہوں گا ‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ تمہیں اگر یہ قبول نہیں تو تم مجھے یہ کام دوسروں میں کرنے دو ۔ لیکن یہ کام بہرحال ہوگا کیونکہ تم اگر اپنی جفائیں نہیں چھوڑ سکتے تو میں اپنی وفائیں کیسے چھوڑ دوں۔ مریض اگر کھانا پینا بالکل چھوڑ دے تو تیمار دار آخری دم تک مریض کو کھلانے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ یہ کفر اور شرک کے مریض جب تک آخری ہچکی نہیں لے لیتے پیغمبر اپنے کام سے کبھی فارغ نہیں ہوتا۔ جب تک اسے ہجرت کا حکم نہیں ملتا وہ آخری لمحے تک اپنے کام کو جاری رکھتا ہے اس کا طرز عمل کچھ اس طرح کا ہوتا ہے جفا سے ہٹو تم وفا سے ٹلوں میں نہ یہ بات ہوگی نہ وہ بات ہوگی البتہ ! ایک بات یاد رکھو کہ یہ بات میں تمہیں برملا بتائے دیتا ہوں کہ آج تم بیشک میری دعوت کو قبول نہ کرو لیکن تم عنقریب دیکھ لو گے کہ اچھا انجام کس کو ملتا ہے اور کون برے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ یہاں عَاقِبَۃُ الدَّارِکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یوں تو عاقبت کا معنی صرف انجام ہوتا ہے خواہ نیک انجام ہو یا بد لیکن بعض اوقات یہ مخصوص طور پر خیر و فلاح کے انجام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ قابل ذکر انجام تو وہی ہے جو اس فلاح وسعادت کا حامل ہو کیونکہ یہ فلاح وسعادت ہی کائنات کی تخلیق کا اصل مقصد ہے نا مرادی اور خسران کا انجام وہ تو اس مقصد سے انحراف کا لازمہ ہے۔ چناچہ یہاں بھی یہ لفظ اسی خیر و فلاح کے انجام کے معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔ مشرکینِ مکہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تمہیں عنقریب اندازہ ہوجائے گا کہ یہ خیر و فلاح کس کا مقدر بنتی ہے تم بظاہر دنیا کی خوش عیشیوں میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو کامیاب و کامران سمجھتے ہو لیکن تمہیں اندازہ نہیں کہ تم ہلاکت اور بربادی کے انجام کی طرف بڑھ رہے ہو اور مسلمان جو تمہاری اذیتوں کی وجہ سے زار و نزار ہیں تمہیں معلوم نہیں کہ وہ ایک روشن مستقبل کو سامنے پا رہے ہیں جو عنقریب ان کے انتظار میں ہے اور یہ روشن مستقبل اور یہ خوبصورت انجام دو صورتوں میں ان کا استقبال کرے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ آخرت میں تو بالکل واضح ہے کہ آخرت کی کامیابیاں تو یقینا اہل ایمان کا حصہ ہیں۔ جہاں تک دنیا کی فلاح و کامرانی کا تعلق ہے اس لفظ میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے اسی وجہ سے الدار کو بغیر صفت کے لایا گیا ہے اگر اس سے مراد صرف دار آخرت ہوتا تو پھر الدارالاخرۃ آتا۔ یہاں صرف الدار لا کر اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد دار دنیا اور دار آخرت دونوں ہیں اس لحاظ سے یہ ایک پیش گوئی بھی ہے اور ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب کہ اسلامی دعوت کے پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کے امکانات روز بروز مسدود ہوتے جا رہے تھے اور دشمن یہ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کہ یہ نوزائدہ تحریک چند دنوں تک خود اپنی موت آپ مرجائے گی۔ لیکن یہاں پیش گوئی فرمائی جا رہی ہے کہ اے مشرکین مکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اسلامی دعوت کا انجام کیا ہوتا ہے اور تمہاری اس ہٹ دھرمی کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ چناچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہجرت کے سات سال بعد ہی اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا کہ وہ لوگ جو اسلام کا نام سننے کے روادار نہیں تھے اور جنھوں نے آنحضرت ﷺ کے قتل کے منصوبے بنائے تھے ان میں بڑے بڑے سردار تو جنگ بدر میں قتل کردیئے گئے اور جو باقی بچے وہ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے معافی کے طلبگار تھے اور وہ نہایت لجاجت سے حضور ﷺ سے اپنی جان بخشی کی درخواست کر رہے تھے اس سے انھوں نے بھی اور ساری دنیا نے اس پیش گوئی کی صداقت پورے ہوتے دیکھی کہ کفر کی قسمت میں سوائے ذلت و ندامت کے اور کچھ نہ آیا اور مسلمانوں کو اللہ نے اپنی پیش گوئی کے مطابق ایک روشن اور کامیاب مستقبل سے نوازا اور یہ جو بظاہر کفار مکہ کو زندگی ملی اور پھر وہ اسلام کی دولت سے مشرف ہوئے یہ بھی اس لیے ہوا کہ مکہ میں ہجرت کے بعد بھی اسلام کی قبولیت کا سلسلہ رکا نہیں۔ اندر ہی اندر تبلیغ و دعوت کا یہ سلسلہ جاری رہا اور فرداً فرداً لوگ اسلام قبول کرتے رہے اگر یہ لوگ کہیں بالکل اسلام قبول کرنے سے انکار کردیتے تو اللہ کی سنت کے مطابق آنحضرت کی ہجرت کے بعد اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوجاتا۔ البتہ جن لوگوں کو بالکل اسلام قبول نہ کرنا تھا وہ جنگ بدر اور اس کے بعد کی جنگوں میں اللہ کے عذاب کا شکار ہو کر جہنم واصل ہوئے یہ جو میں نے عرض کیا کہ یہ لوگ اس لیے اجتماعی عذاب سے بچ گئے کہ ان میں قبولیت ایمان کا سلسلہ دھیرے دھیرے جاری رہا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ واقعہ حدیبیہ کے موقع پر جس طرح کی صورت حال پیدا ہوئی اس میں صاف نظر آرہا تھا کہ اب مسلمانوں اور قریش مکہ میں تصادم ہوا ہی چاہتا ہے لیکن اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس تصادم سے جانبین کو محفوظ رکھا اور اس کی وجہ قرآن کریم میں یہ بیان فرمائی گئی کہ مکہ معظمہ میں ایک معتد بہ تعداد نومسلم لوگوں کی تھی جن سے مسلمان بالکل ناواقف تھے اگر یہ تصادم ہوجاتا تو ممکن تھا کہ خود یہ نومسلم مسلمانوں ہی کے ہاتھوں مارے جاتے۔ اللہ کو یہ بات منظور تھی کہ ان کی زندگی بچائی جائے اور ان سے اللہ کے دین کی سربلندی میں کام لیا جائے۔ چناچہ حدیبیہ کے ایک ہی سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ سے جو لوگ چھپتے چھپاتے ساحل سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ان کی تعداد ستر (70) کے قریب تھی اور جو لوگ نہ نکل سکے اور فتح مکہ کے بعد مسلمانوں میں شامل ہو سکے ان کی تعداد ان سے بھی زیادہ تھی۔ یہی وہ قبولیت ایمان کا سلسلہ تھا جس نے اہل مکہ کو اجتماعی عذاب سے محفوظ رکھا۔ چناچہ یہاں آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اسی کامیابی کی پیش گوئی کی گئی ہے جو چند ہی سالوں میں حرف بحرف پوری ہوئی۔ اس آیت کریمہ کے آخری جملے میں اس پوری صورتحال کو سمیٹتے ہوئے ایک اصولی بات فرمائی گئی کہ تم بھی اور قیامت تک آنے والے انسان بھی اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ یہاں فلاح و کامرانی ظالموں کو کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ اگر ظالم کہیں بظاہر کامیاب دکھائی دیتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ جسے کامیابی سمجھا جاتا ہے وہ کامیابی کی صورت ہوتی ہے حقیقت نہیں اور دوسری یہ بات کہ ظالموں کو کامیابی اس وقت ملتی ہے جب مظلوم اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ سے مدد مانگتے ہوئے ظالم کے مقابلے میں اٹھنے سے کمزوری کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں چونکہ ظالم کے سامنے کوئی مقابل قوت نہیں ہوتی تو ایک مختصر وقت کے لیے قدرت ایسے ظالموں کو من مانی کرنے کے لیے چھٹی دے دیتی ہے اور ان سے ان مظلوموں کو سزا دلوانے کو کام لیتی ہے جو ان ظالموں کے خلاف جدوجہد سے انکار کرتے یا تساہل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے کہ قدرت کا یہ بھی قانون ہے کہ وہ ظالموں سے ظالموں کو سزا دلواتا ہے اور جس طرح ایک ڈاکٹر نشتر سے ناسور زدہ حصے کو کاٹنے کا کام لیتا ہے اسی طرح ان ظالموں کو بھی تقدیر کے نشتر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن اصول اپنی جگہ ہے کہ اللہ ظالموں کو کبھی کامیابی عطا نہیں فرماتا۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ظالموں سے کیا مراد ہے ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ ظلم شرک کا دوسرا نام ہے کائنات میں چونکہ اللہ کا تکوینی نظام کارفرما ہے اور یہاں کی ہر چیز اس کی حاکمیت کی پابند ہے۔ چھوٹے بڑے کرے اسی کے حکم کے تحت محو گردش ہیں۔ اس کا ایک قطعی قانون ہے جس کے مطابق پوری کائنات محو سفر ہے اور اسی میں اس کائنات کی زندگی کا راز مضمر ہے جس دن سورج اپنا اصل فرض انجام دینے سے قاصر رہے گا تو وہ بجھ کے رہ جائے گا جو کرہ اپنے مدار سے نکل جائے گا وہ ٹوٹ کر تباہ ہوجائے گا ‘ جو درخت اپنی جڑوں سے اکھڑ جاتا ہے وہ موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی زندگی اللہ کے اس قانون کی پابندی میں ہے۔ جس قانون کا اسے پابند بنایا گیا ہے۔ اسی طرح انسان بھی ایک تکوینی قانون کے ساتھ ساتھ تشریعی قانون کا پابند بنایا گیا ہے۔ اسی کے لیے اللہ نے اپنے رسول بھیجے اور کتابیں اتاری ہیں اور اسی قانون کی پابندی اور اس کے مطابق عمل کرنے میں اس کی فلاح و کامرانی کا راز مضمر ہے اور یہ بتادیا گیا ہے کہ جس طرح پوری کائنات اللہ کی اطاعت میں زندگی گزار رہی ہے اور جس سمت میں اس کا سفر جاری ہے تم بھی اپنی زندگی کا سفر اگر تشریعی نظام کی اطاعت کرتے ہوئے اسی سمت میں جاری رکھو گے تو کامیابی اور کامرانی تمہارا نصیب ہوگی لیکن اگر تم اس کی الٹی سمت چلنے کی کوشش کرو گے تو تباہ و برباد ہوجاؤ گے اور یہ الٹی سمت سفر کرنے کو ہی کفر اور شرک کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور انسانوں پر انسان جو ظلم توڑتے ہیں وہ بھی اس وقت ممکن ہوتا ہے جب انسان اس نظام شریعت سے باغی ہوجاتے ہیں۔ اسی سے آج کی امت مسلمہ کی نامرادی اور بدنصیبی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ آج امت مسلمہ جس طرح قدم قدم پر ناکامیوں اور نامرادیوں سے دوچار ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے اجتماعی ظلم کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس نے ہر قدم پر کفر اور شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ اللہ کے دین اور اس کے احکام کو ماننے سے انکار کرنا یہ کفر ہے اور اللہ کے احکام اور اس کے قانون میں کسی دوسرے قانون کو شریک کرنا اللہ کی کبریائی اور حاکمیت میں کسی دوسرے کی حاکمیت کو دخیل کرنا یہ شرک ہے اور پوری امت مسلمہ آج اس کفر اور شرک کا ارتکاب کر رہی ہے۔ اللہ کا وہ قانون جو قرآن و سنت کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہے تمام ممالک اسلامیہ میں کہیں بھی پوری طرح نافذ نہیں۔ سعودی عرب میں حدود اللہ نافذ ہیں پورا دین نہیں اور باقی کسی ملک میں حدود اللہ بھی نافذ نہیں۔ ہم یا تو اسے قبول کرنے سے انکار کرچکے اور یا ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم مسجد میں جا کر اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور مسجد سے باہر نکل کر باقی تمام شعبہ ہائے زندگی میں دوسرے قوانین کی پیروی کرتے ہیں اور اللہ کے قانون کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ آپ خود اندازہ فرما لیجئے کہ اس صورت حال کو کفر اور شرک کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے اور یہی وہ ظلم ہے جس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ اگلی آیات کریمہ میں مشرکین عرب کے اس ظلم یعنی شرک کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے دور جاہلیت میں جس پر یہ لوگ عامل تھے اللہ کے ساتھ ان کا شرک مختلف انواع پر مشتمل تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ شرک کی ایسی کوئی قسم باقی نہیں رہ گئی تھی جس کا یہ لوگ ارتکاب نہیں کرتے تھے اور ویسے بھی دیکھا جائے تو جس طرح دنیا بھر کے موحدین اپنے نظریہ توحید میں موافقت اور مماثلت رکھتے ہیں اسی طرح مشرکین میں بھی بہت حد تک دنیا بھر میں توافق پایا جاتا ہے کسی بھی علاقہ کے مشرکین کو دیکھ لیجئے شرک کے اظہار کی صورتوں میں تھوڑا بہت اختلاف آپ کو ملے گا لیکن بنیادی مشرکانہ تصورات میں آپ کو مکمل موافقت نظر آئے گی چناچہ ان آیات میں ان کے شرک کی تمام تفصیلات کو ذکر کرنا ممکن نہیں البتہ اس کی اہم تر صورتوں کو ذکر کردیا گیا ہے اور اسی پر باقی کو قیاس کیا جاسکتا ہے ارشاد خداوندی ہے :
Top