Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 133
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَنِيُّ : بےپروا (بےنیاز) ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَسْتَخْلِفْ : اور جانشین بنا دے مِنْۢ بَعْدِكُمْ : تمہارے بعد مَّا يَشَآءُ : جس کو چاہے كَمَآ : جیسے اَنْشَاَكُمْ : اس نے تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے ذُرِّيَّةِ : اولاد قَوْمٍ : قوم اٰخَرِيْنَ : دوسری
اور تیرا رب ‘ بےنیاز رحمت والا ہے اگر وہ چاہے ‘ تم کو فنا کر دے اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے لائے ‘ جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے
ارشاد فرمایا : وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَۃِ ط اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْم بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآئُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ ۔ (الانعام : 133) (اور تیرا رب ‘ بےنیاز رحمت والا ہے۔ اگر وہ چاہے ‘ تم کو فنا کر دے اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے لائے ‘ جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے ) اللہ غنی اور رحیم ہے آیت کی تشریح سے پہلے آیت کے پہلے جملے کو دیکھیے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے ” تیرا رب غنی رحمت والا ہے “ اس میں رب کی دو صفات بیان ہوئی ہیں ” غنی “ اور ” رحمت والا “ قاعدے کے اعتبار سے غنی کے بعد ’ واو ‘ یعنی حرف عطف آنا چاہیے تھا لیکن یہاں حرف عطف ساقط کردیا گیا اس میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ ایک موصوف میں کئی صفات ہوسکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ تو بیشمار صفات سے متصف ہیں مثلاً ایک آدمی خطیب بھی ہوسکتا ہے ادیب بھی ‘ شاعر بھی ہوسکتا ہے نثر نگار بھی ‘ فلسفی بھی ہوسکتا ہے سائنسدان بھی ‘ لیکن ہر صفت اپنے اپنے وقت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی موصوف کے حوالے سے صرف اس کی صفات کا تذکرہ مقصود ہو یعنی یہ بتلانا مقصود ہو کہ اس میں یہ یہ صفات پائی جاتی ہیں تو ہر صفت کے بعد دوسری صفت کے ساتھ حرف عطف لایاجائے گا۔ لیکن جب کہیں ایک سے زیادہ صفات بغیر حرف عطف کے لائی جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صفات بیک وقت موصوف میں پائی جاتی ہیں ان کا ظہور موصوف سے ایک ہی وقت میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی بتلانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہی وقت میں بےنیا زبھی ہیں اور رحمت والے بھی ہیں۔ ان سے بےنیازی کا ظہور بھی ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ رحمت بھی اپنا عمل جاری رکھتی ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غنی اور بےنیاز ہے یعنی اس کی کوئی غرض کسی سے اٹکی ہوئی نہیں ہے اس کا کوئی مفاد کسی سے وابستہ نہیں وہ اپنی کسی بات میں کسی کا محتاج نہیں اس کی شان اور عظمت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ کسی مثبت یا منفی بات سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ ساری دنیا اس کی حمد وثناء کے ترانے گانے لگے اور دن رات اس کی عبادت اور بندگی میں جتی رہے تو اس کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا اور اگر دنیا کا ایک ایک فرد اس کی بندگی سے انکار کر دے تو اس کی شان اور عظمت میں کوئی کمی نہیں ہوسکتی۔ جس طرح آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ” اگر تم میں سے ہر مسلمان کا دل اس طرح اللہ کی محبت سے بھرپور اور روشن ہوجائے جس طرح محمد ﷺ کا دل ہے تو اللہ کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا اور اگر تم میں سے ہر شخص ابلیس کی طرح نافرمان ہوجائے تو اس کی شان میں کوئی کمی نہیں ہوسکتی “۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے نہ تمہاری نذر و نیاز کا ‘ اپنے بیشمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے لیکن وہ اس کے بدلے میں تم سے کچھ نہیں چاہتا۔ اس کی اصل شان اس کے استغناء میں ہے۔ ہر چیز اس کی محتاج ہے لیکن وہ ہر احتیاج سے پاک ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اپنے بندوں سے ایسا ہی مستغنی ہے تو پھر وہ اپنے بندوں کو راہ راست پر چلانے کے لیے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے بار بار راہنمائی کیوں دیتا ہے اور وہ کیوں اپنے رسولوں کو اس راستے میں مخالفتیں برداشت کرنے اور اذیتیں سہنے پر مجبور کرتا ہے اس کے نافرمان بندے اس کے رسولوں سے جو بھی سلوک کریں اور اس کے دین کا کیسا ہی تمسخر اڑائیں وہ بالعموم برداشت کرتا ہے اور لوگوں کو ڈھیل پر ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اور پھر یہ سلسلہ ایک دو روز کا نہیں بلکہ حضرت آدم سے لے کر خاتم النبین کی بعثت تک یہی سلسلہ جاری رہا ہے اور آج بھی اس کے راستے پر چلنے والے انہی راہوں کو روشن رکھے ہوئے ہیں اور اس کو نہ ماننے والے اپنی اپنی روش پر قائم ہیں۔ اس کے استغناء کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ کبھی لوگوں کے حال پر توجہ نہ دیتا۔ زیادہ سے زیادہ ضابطے کی کارروائی تک اپنے آپ کو محدود رکھتا۔ لیکن جس طرح ان کی اصلاح و ہدایت کے لیے ہمیشہ سے کوششیں ہوتی آئی ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گویا انسانوں کی طرف سے ان کی بندگی اور عبادت کا محتاج ہے کہ اگر یہ ایسا نہیں کریں گے تو اس کی کبریائی میں کوئی کمی آجائے گی اس لیے یہاں بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی اور بےنیاز ہے اسے تمہاری کسی بات کی پرواہ نہیں لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ رحمت والا بھی ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اور یہ اس کی مہربانی اور رحمت کا ظہور یوں تو مختلف شانوں کے ساتھ ہر وقت جاری رہتا ہے لیکن ہدایت کے معاملے میں اس کا ظہور دو طرح سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ وہ انسانوں کو راہ راست پر چلنے کی جو تلقین کرتا ہے اور حقیقتِ نفس الامری کے خلاف طرز عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ تمہاری راست روی سے اس کو کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کو کوئی نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اس راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر تم اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق معاشرت اختیار نہیں کرو گے تو تمہارے گھر اجڑ جائیں گے۔ تمہارا معاشرہ تباہ ہوجائے گا اگر تم اس کی راہنمائی کو نظر انداز کر کے اور اس کے احکام سے سرتابی کر کے کاروبارِزندگی چلائو گے تو تہذیب بھی تباہ ہوگی ‘ تمدن بھی اپنا راستہ بدل لے گا اور زندگی اس طرح غلط رخ پر چل نکلے گی کہ تمہاری اجتماعی زندگی طبقات کا شکار ہو کر تباہی کے راستے پر جا پڑے گی اور اگر تم نے اس کی کبریائی کو تسلیم کر کے اس کے عطا کردہ قانون کی پابندی نہ کی تو تم آمریت کی زد میں آجاؤ گے اور کچھ بعید نہیں کہ تم غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیئے جاؤ۔ ان تمام قباحتوں سے بچانے کے لیے وہ تمہیں صحیح طرز عمل کی تعلیم دیتا ہے اور یہ سراسر اس کی رحمت کا تقاضہ ہے کیونکہ اس کی رحمت تمہارے کسی نقصان ‘ کسی دکھ اور کسی حادثے کو برداشت نہیں کرتی وہ تمہیں ایسے تمام حوادث سے بچانا چاہتی ہے بلکہ جب ہم تدبر کا ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ اس کی رحمت جس طرح انسانوں کو راست روی کی تعلیم دیتی ہے اسی طرح یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ اگر انسان غلط روی سے رکتے نہیں ہیں تو اس کی رحمت کے ظہور کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ انسانوں کی کوتاہیوں پر کبھی جلدی گرفت نہیں کرتا۔ وہ انسانوں کو سزا دینے پر کبھی خوش نہیں ہوتا۔ وہ ہر ممکن طریقے سے انھیں غلط انجام سے روکنا چاہتا ہے اس لیے وہ گرفت میں جلدی کرنے کی بجائے ڈھیل پے ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ تبلیغ و دعوت کے ذریعے ان کی غلطیاں بھی ان پر واضح کرتا ہے تاکہ لوگ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو سمجھ کر صحیح راستے کی طرف پلٹ آئیں اور پھر اس کی رحمت کی انتہاء یہ ہے کہ جس طرح وہ تبلیغ و دعوت کے سلسلے کو بند نہیں کرتا کہ وہ کفار کے کفر اور مشرکین کے شرک اور نافرمانوں کی نافرمانیوں سے ناراض ہو کر اللہ کے نبیوں کا بھیجنا اور کتابوں کا اتارنا بند کر دے اسی طرح وہ ان تمام نافرمانوں کی روزی کبھی نہیں روکتا جس طرح وہ اپنے ماننے والوں کو رزق دیتا ہے اسی طرح نہ ماننے والوں کو بھی دیتا ہے بلکہ بعض دفعہ ان کی آزمائش کے لیے انھیں زیادہ رزق دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کی رحمت کو محسوس کر کے یا تو پلٹ آئیں اور یا کفران نعمت کی انتہاء پر پہنچ کر تباہی کا شکار ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ختم کر کے نئی نسل پیدا کرنے پر قادر ہے اللہ کی رحمت کا یہ طرز عمل بعض دفعہ بگڑے ہوئے انسانوں میں راہ راست کی طرف آنے کی بجائے یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ ہم اللہ کی نافرمانی پہ نافرمانی کرتے ہیں لیکن وہ نہ تو اپنی نعمتیں ہم سے روکتا ہے اور نہ اس کا پیغمبر اپنی کاوشیں ترک کرتا ہے بلکہ اس کی رحمتیں ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ ہمارے انکار اور طغیان کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم پر عذاب کا کوڑا برستا لیکن بجائے عذاب آنے کے اس کا رسول رحمت اللعالمین بن کے آیا اور جو اس پر کتاب اتری ہے اس کی شان بھی یہ ہے کہ وہ بھی اپنے ماننے والوں کے لیے رحمت بن کے آئی ہے اور پھر اس کی کتاب میں بار بار ہمیں ترغیب دے دے کر راہ ہدایت کی طرف لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا پیغمبر نا صرف کہ اپنی شخصیت کی پوری توانائیاں ہمیں ہدایت دینے کے لیے صرف کر رہا ہے بلکہ راتوں کو جاگ جاگ کر ہمارے ایمان کے لیے دعائیں بھی کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جس عذاب اور جس گرفت سے ہمیں ڈرایا جا رہا ہے وہ محض ایک افسانہ ہے اللہ میں ہرگز اس کی قوت نہیں کہ وہ ہمیں سزا دے سکے اگر ایسا ہوتا تو یہ ہمیں ڈھیل پر ڈھیل نہ ملتی شاید اسی وسوسے کے ازالے کے لیے اور اسی غلط سوچ کو دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہیں سزا دینے کی قدرت حاصل نہیں اس کی قدرت کا عالم تو یہ ہے کہ وہ اگر چاہے تو چشم زدن میں تمہیں تباہ و برباد کر دے بلکہ تمہارا نام و نشان مٹا دے کیونکہ یہاں لفظ ہلاکت کا استعمال نہیں ہوا۔ یُذْھِبْکُمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے کہ تمہیں لے جائے یعنی تمہارا نام و نشان تک مٹا دے اور تمہیں ملیامیٹ کر دے اور پھر یہ نہ سمجھو کہ تمہیں تباہ کردینے سے دنیا بےآباد ہوجائے گی اور زمین پر بسنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ فرمایا جس طرح اس میں تمہیں تباہ کرنے کی قدرت ہے اسی طرح دنیا کو آباد کرنے کی بھی اس میں قدرت ہے۔ آخر ایک صدی پہلے جو نسل آج زمین پر آباد ہے ان میں سے کون اس زمین پر آباد تھا یقینا وہ اور لوگ تھے جو تم سے پہلے زمین پر رہتے تھے۔ لیکن آج ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں اس طرح جب وہ تمہیں مٹا دے گا تو تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے آج تک جاری وساری ہے قومیں آتی اور جاتی ہیں لیکن زمین اس کی قدرت سے ہمیشہ آباد رہتی ہے۔ پھر ساتھ ہی ساتھ مَا کا لفظ لا کر ایک اور سوال کا جواب بھی دے دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوع انسانی کا سلسلہ نسل انسانی سے قائم ہے اگر تمام انسان ایک دفعہ مٹا دیئے جائیں تو نئے انسان آخر کس نسل سے وجود میں آئیں گے۔ یہاں مَنْ کی بجائے مَا کا لفظ لا کر اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کیونکہ مَا کا غالب استعمال بےجان چیزوں کے لیے ہوتا ہے اور مَنْ کا استعمال جاندار چیزوں کے لیے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا عالم تو یہ ہے کہ وہ اس بات کا محتاج نہیں کہ وہ انسانوں کو انسانوں ہی سے پیدا کرے وہ جب چاہے انسانوں کو بغیر کسی سبب کے بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی قدرت سے یہ کوئی بعید نہیں کہ وہ اس صحرا کی جس چیز کو چاہے تمہاری جگہ لینے کے لیے کھڑی کر دے۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے ایک جگہ بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کیونکہ بنی اسرائیل بھی قریش کی ہی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونے پر بڑا ناز کرتے تھے اس لیے حضرت مسیح نے ان سے فرمایا کہ تم اس بات پر گھمنڈ نہ کرو کہ تم ابراہیم کی اولاد ہو میرا خداوند چاہے تو ریگستان کے ذروں سے ابراہیم کے لیے اولاد کھڑی کر دے۔ یہاں قریش سے بھی ان کے غرور پر ضرب لگاتے ہوئے یہی فرمایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کی نگاہ میں بےجان مخلوق کی مانند ہو جس طرح صحرا میں خودرو پودے اگتے ہیں تم اس سے بھی زیادہ بےقدر و قیمت ہو اس لیے تم جیسے پودوں کو مسل کر تم سے بہتر پودوں کو اٹھا کھڑا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ حاصل کلام یہ کہ جس ذات والا صفات کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں غنی ہے لیکن بندوں کے معاملات میں وہ رحیم و کریم ہے اور قدرتیں اس کی بےپناہ ہیں جب چاہے اپنے ماننے والوں کو نواز سکتا ہے اور اپنے نافرمانوں کو تباہ کرسکتا ہے اور وہ صاف صاف اپنے پیغمبروں کے ذریعے یہ بات واضح کر رہا ہے کہ نبی آخر الزماں کے آجانے کے بعد تمہاری قسمت میزان میں ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے تم اگر اس دعوت کو قبول کرو گے تو اللہ کی نعمتوں کے مستحق ٹھہرو گے اور قیامت کے دن جنت تمہارے انتظار میں ہوگی اور اگر اس دعوت کو رد کردو گے تو عین ممکن ہے کہ انکار کردینے والی قوموں پر جس طرح عذاب آتا رہا ہے تم پر بھی وہ عذاب آجائے ورنہ قیامت کا آنا تو بہرحال یقینی ہے اور اس دن تمہیں جواب دینا پڑے گا کہ تم نے اس دعوت کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ؟ چناچہ یہی بات اگلی آیت کریمہ میں فرمائی جا رہی ہے۔
Top