Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 132
وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا١ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے دَرَجٰتٌ : درجے مِّمَّا : اس سے جو عَمِلُوْا : انہوں نے کیا (ان کے اعمال) وَمَا : اور نہیں رَبُّكَ : تمہارا رب بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور ہر ایک کے لییدرجے ہیں ‘ ان کے عمل کے اعتبار سے اور تیرا رب اس چیز سے بیخبر نہیں ہے ‘ جو وہ کرتے رہے ہیں
وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ط وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ ۔ (الانعام : 132) (اور ہر ایک کے لیے درجے ہیں ‘ ان کے عمل کے اعتبار سے اور تیرا رب اس چیز سے بیخبر نہیں ہے ‘ جو وہ کرتے رہے ہیں) اللہ تعالیٰ کفار کو ان کے جرم کی نوعیت کے مطابق درجہ بدرجہ سزا دے گا عدل و انصاف میں انسان انتہائی کوشش بھی کرے تو زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ جس آدمی نے جو جرم کیا ہے اور اس سے جو نقصان پہنچا ہے اسے سامنے رکھ کر سزا تجویز کرے کہ ایک سزا چوری کی ہو اور ایک ڈاکے کی ‘ ایک قتل کی ہو اور ایک مارپیٹ کی ‘ ایک عزت لوٹنے کی ہو اور ایک مال لوٹنے کی ‘ ایک کسی ایک انسان کی جان لینے کی ہو اور ایک کسی بستی اجاڑ دینے کی۔ یہ الگ الگ سزائیں مقرر کرنا یقینا عدل و انصاف کا تقاضہ ہے اور انسان اس پر قدرت بھی رکھتا ہے۔ لیکن اگر انسانوں کا ایک گروہ مل کر کہیں ڈاکہ ڈالتا ہے اس میں عزتیں بھی لٹتی ہیں اور کچھ لوگ مارے بھی جاتے ہیں اگر ڈاکوئوں کا یہ گینگ پکڑا جاتا ہے تو سب کو ایک ہی سزا ملتی ہے یہ متعین کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ صرف مال کس نے لوٹا ہے ‘ عزت کس نے پامال کی اور قتل کس نے کیا اور پھر اس بات کا تعین کہ ان جرائم میں تمام شریک لوگ جرم کے احساس اور شدت میں سب برابر تھے یا ان میں فرق تھا اس کا جاننا تو انسانوں کے لیے ہرگز ممکن نہیں۔ اسی طرح جو آدمی اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے ‘ اس کے دین کی توہین کرتا ہے ‘ اس کے پیغمبر کی بےادبی کرتا ہے ‘ مسلمانوں کی تحقیر کرتا ہے ‘ اس کے احساسات کو جاننا اور اس طرح کے تمام جرائم کرنے والوں کو الگ الگ حیثیتوں میں تقسیم کرنا یہ کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس کے لیے صرف ظاہری نگاہ کافی نہیں بلکہ ایسی نگاہ کی ضرورت ہے جو دلوں کے احساسات کا جائزہ لے سکے ‘ جو جرم کے پس منظر میں جھانک سکے ‘ جو ہر گناہ کی شدت کو ترازو میں تول سکے۔ لیکن پروردگار کے عدل و انصاف پر قربان جایئے اس آیت کریمہ میں بتایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن جب ہم ان کافروں اور مشرکوں کو سزا دیں گے تو سب کی سزا یکساں نہیں ہوگی۔ جس طرح کافر اور منافق کی سزا میں فرق ہوگا اسی طرح ایک عام کافر اور ایک معاند کافر میں بھی فرق ہوگا۔ ایسے لوگ بھی ہوں گے جنھوں نے صرف اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا ہوگا یا اسکا انکار کیا ہوگا لیکن وہ لوگ بھی ہوں گے جنھوں نے اللہ کے دین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہوں گی اللہ کے پیغمبر اور مسلمانوں کو ستایا ہوگا پھر اس بہیمیت اور درندگی میں بھی احساس اور شدت کے مدارج ہوں گے ان تمام کا لحاظ رکھتے ہوئے سب کو یکساں عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ ہر طرح کے کافروں کی الگ الگ کیٹیگریز ہوں گی اور ان کے مطابق نہیں جہنم کی مختلف وادیوں میں بھیجا جائے گا اور اس لیے شاید جہنم کو ایک وادی نہیں رکھا گیا بلکہ اس کو مختلف وادیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر وادی عذاب دہی کی شدت میں دوسری وادی سے مختلف ہے۔ حضور فرماتے ہیں کہ جہنم کی بعض وادیاں ایسی ہیں کہ باقی جہنم اس سے پناہ مانگتا ہے۔ ہم مشرکینِ مکہ کا جب تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابوجہل تو ایک ہی تھا دوسرا کوئی لعین اس کا ہم پلہ نہ تھا اگرچہ مکہ اس وقت مخالفین سے بھرا ہوا تھا لیکن مخالفت میں سب یکساں نہ تھا۔ بعض ایسے لوگ بھی جو بعد میں مسلمان ہوئے ‘ کفر کی حالت میں بھی مسلمانوں سے ہمدردری رکھتے تھے۔ شعب ابی طالب میں بعض کفار درپردہ کچھ نہ کچھ اشیائِ خوردو نوش بھیجتے رہتے تھے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام مجرموں کا جرم ایک سطح کا نہیں ہوتا لیکن انسانی قانون ہمیشہ ان سے ایک طرح کا سلوک کرتا ہے لیکن اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر ایک کے لیے درجات رکھے ہیں یعنی ہر جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں درجے ہیں اور اس کا دارومدار ان کے اعمال کی نوعیت اور حیثیت پر ہے۔ لیکن ان باتوں کا تعین چونکہ انسانی عقل اور انسانی علم سے ماورا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تمہارا رب چونکہ ہر ایک کے عمل سے اور اس کے تہہ منظر سے بھی واقف ہے اس لیے اس کے لیے کوئی دشواری نہیں کہ وہ ان کے اعمال سے اعتبار سے ان میں درجہ بندی کرے اور پھر اس کے مطابق انھیں سزا دے۔ خود آنحضرت ﷺ نے اللہ کے دیئے ہوئے علم کے مطابق فتح مکہ کے موقعہ پر بعض لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا حالانکہ ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو اپنے جرائم کے اعتبار سے قتل کا مستحق نہ ہو لیکن ان میں سے چند ایک کا انتخاب یقینا اس وجہ سے تھا کہ ان کے کفر اور دشمنی کی شدت دوسروں سے کہیں بڑھ کر تھی اور انصاف کا یہی تقاضہ تھا کہ ان کے ساتھ یہی سلوک ہوتا۔ اسی سے اشارۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عذاب میں درجہ بندی ہوگی اس طرح عطا و بخشش میں بھی درجہ بندی ہوگی۔ اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت انسانی بخشش و نجات کا ذریعہ ہے اور یہی دولت انسان کو جنت میں لے جائے گی۔ لیکن جنت بھی ایک درجے کا نام نہیں وہاں اللہ کی بندگی اور اطاعت کرنے والے ‘ اطاعت و بندگی میں اپنے مدارج کے اعتبار سے جنت میں مختلف درجات میں رکھے جائیں گے۔ شہداء جنت کے اس درجے میں ہوں گے جو ان کے لیے مخصوص ہوگا لیکن درجات کا تفاوت ان میں بھی ہوگا کیونکہ شہادت میں جان تو سارے دیتے ہیں لیکن احساسات میں یقینا فرق ہوتا ہے اور اس کا جاننے والا صرف پروردگار ہے۔ وہی جانتا ہے اور وہی اپنے علم کے مطابق درجہ بندی کرے گا۔ یہی حال باقی نیکیوں کا بھی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا علم اپنے انصاف کے مطابق عطا و بخشش کے فیصلے کرے گا اور لوگ اس سے بہرہ ور ہوں گے۔ انسانی سرشت عجیب واقع ہوئی ہے یہ بعض دفعہ خیر سے شر کا مفہوم نکالتی اور بعض دفعہ شر سے خیر کا پہلو اخذ کرتی ہے۔ دناءت پسند طبیعتیں بالعموم احسانات سے متاثر ہونے کی بجائے اور زیادہ اکڑتی اور بگاڑ کا شکار ہوتی ہیں۔ بجائے اپنے محسن کے سامنے جھکنے اور اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے اسی کے خلاف معاندانہ رویہ اپنا لیتی ہیں کفر اور شرک تمام برائیوں کی جڑ ہے جس طبیعت میں یہ دونوں چیزیں جگہ بنا لیتی ہیں وہاں کسی بھی اچھائی اور خوبی کا باقی رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مشرکینِ مکہ اور دیگر کفار کا یہی حال تھا کہ وہ بجائے اس کے کہ اللہ کے آخری نبی کی کاوشوں اور تبلیغ دین کی محنتوں کو اللہ کا احسان جان کر اس کا شکریہ ادا کرتے اور آگے بڑھ کر اسلام کی آغوش میں آجاتے۔ انھوں نے اسے بھی اپنی خست طبع کے باعث غلط معنوں میں لیا اور بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کے اسے تمسخر کا نشانہ بنایا اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ گویا اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت قبول کرنے کے محتاج ہیں کہ اگر یہ لوگ ہدایت قبول نہیں کریں گے تو خدا کی خدائی میں شاید کوئی کمی آجائے گی اور پیغمبر کی پیغمبری شاید ان کے بغیر چل نہ سکے گی۔ چناچہ ان کی اس غلط سوچ اور خست طبع کو نمایاں کرنے اور حقیقت حال کو واضح کرنے کے لیے اگلی آیت کریمہ میں نہایت قیمتی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں جس سے صرف انہی کو راہنمائی دینا مقصود نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ایک مشعل جلانا ہے جس سے وہ ہمیشہ ہدایت و ضلالت کے امور میں آسانی سے فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
Top