Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 131
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ اَنْ : اس لیے کہ لَّمْ يَكُنْ : نہیں ہے رَّبُّكَ : تیرا رب مُهْلِكَ : ہلاک کر ڈالنے والا الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے (ظلم کی سزا میں) وَّاَهْلُهَا : جبکہ ان کے لوگ غٰفِلُوْنَ : بیخبر ہوں
یہ اس وجہ سے ہے کہ تیرا رب بستیوں کو ان کے ظلم کی پاداش میں ‘ اس حال میں ہلاک کرنے والا نہیں ہے کہ ان کے باشندے بیخبر ہوں
ارشاد فرمایا : ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا غٰفِلُوْنَ ۔ (الانعام : 131) (یہ اس وجہ سے ہے کہ تیرا رب بستیوں کو ان کے ظلم کی پاداش میں ‘ اس حال میں ہلاک کرنے والا نہیں ہے کہ ان کے باشندے بیخبر ہوں) اللہ تعالیٰ بغیر اپنی ہدایت پہنچائے کسی بستی والوں کو ہلاک نہیں کرتا اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوقات بھی پیدا فرمائی ہیں محض اپنے فضل و کرم سے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کی ہے کہ ان تمام کو زندگی گزارنے کا طریقہ میں سکھائوں گا۔ چناچہ آپ تمام حیوانات حتیٰ کہ حشرات الارض تک کو دیکھ لیجئے ان میں سے ہر ذی روح اچھی طرح جانتا ہے کہ مجھے جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس کے مطابق مجھے زندگی کس طرح گزارنی ہے ؟ پرندے کو سکھایا گیا ہے کہ ہوا میں کس طرح اڑنا ہے ‘ مچھلی کو بتایا گیا ہے کہ پانی میں کس طرح تیرنا ہے ‘ جنگل کے جانور پوری طرح اپنی جبلت اور احساسات کے تحت اپنے زندگی کے فرائض ادا کرنے اور زندگی کے وسائل حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ گندگی میں پلنے والا کیڑا بھی خوب جانتا ہے کہ اسے کس طرح زندگی گزارنی ہے کیونکہ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اسکا فیضان جس طرح تخلیقی عمل کی صورت میں جاری ہے اسی طرح ہدایت یعنی زندگی کی رہنمائی کی شکل میں بھی رواں دواں ہے۔ انسان حیوانی مخلوقات کی ایک برتر شکل ہے اس کو حواس کے ساتھ ساتھ جوہر عقل سے بھی نوازا گیا اور پھر چونکہ اسے ایک مکلف مخلوق بنایا گیا اور اس بات کا پابند ٹھہرایا گیا کہ تمہاری زندگی کے مقاصد صرف اس زندگی تک محدود نہیں بلکہ اس کا رشتہ اگلی زندگی سے جڑا ہوا ہے اس لیے تم نے یہ زندگی اس طرح گزارنی ہے جس سے آخرت کی زندگی سدھر جائے۔ آخرت کی زندگی کا سدھار اور کامیابی چونکہ صرف انسانی حواس اور عقل سے ممکن نہیں تھی اس لیے اللہ نے وحی الٰہی کے ذریعے انسانوں کی رہنمائی فرمائی اور جہاں کہیں بھی انسانوں کو پیدا فرمایا وہیں اپنے رسول بھیجے ‘ اپنی کتابیں اتاریں اور پوری طرح انسانوں اور جنوں پر اتمام حجت کردیا تاکہ کل کو وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم سے جن باتوں کا سوال کیا جا رہا ہے ہمیں ان کے بارے میں کوئی راہنمائی نہیں دی گئی تھی کیونکہ اگر انسانوں کو یہ نہ بتایا جاتا کہ تمہاری زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور کن باتوں میں تمہارا پروردگار راضی ہے اور پھر قیامت کے دن ان سے انہی باتوں کا سوال ہوتا اور انہی پر ان کو سزا بھی ملتی تو یقینا یہ ان پر بڑا ظلم ہوتا۔ جس نوکر کو یہ نہ بتایا جائے کہ تمہاری ڈیوٹی کیا ہے لیکن اسے پکڑ کر سزا دے دی جائے تو ہر کوئی یہی کہے گا کہ اس نوکر کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے کہ جب وہ جانتا ہی نہیں کہ مجھے کرنا کیا ہے تو آخر اسے سزا کس بات پر دی جا رہی ہے۔ چناچہ یہاں اللہ تعالیٰ یہی بیان فرما رہے ہیں کہ ہم نے جو انسانوں اور جنوں میں رسول بھیجے اور راہنمائی عطا فرمائی اس کی وجہ یہی ہے کہ تیرا رب رحیم و کریم ہے وہ کسی بستی والوں کو اس طرح سزا نہیں دیتا کہ پہلے ان کو یہ نہ بتایا جائے کہ تمہارا خالق ومالک تم سے کیا چاہتا ہے اگر یہ بعثت انبیاء کا سلسلہ نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ کسی کو بھی دنیا میں اس بات کی خبر نہ ہوسکتی تھی کہ ہم وہ زندگی کس طرح گزاریں جس سے ہمارا اللہ راضی ہو ؟ چناچہ بعثت انبیاء کا حقیقی مقصد یہی اتمام حجت رہا ہے تاکہ کل کو جن و انس میں سے کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو کوئی سمجھانے والا نہیں آیا آخر ہمیں سزا کس بات کی دی جا رہی ہے ؟ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت کی وجہ سے اپنی اس خود عائد کردہ ذمہ داری کو جس طرح پورا فرمایا ہے اس سے زیادہ کا تو کیا اس سے برابر کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ انسانی ہدایت اور اس کی راہنمائی کے لیے یہ بات کافی تھی کہ کسی طرح سے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کا کوئی مجموعہ انسانوں کی ہر بستی میں بھیج دیا جاتا اور انھیں حکم دے دیا جاتا کہ اس کی پابندی کرو اور جو اس سے انکار کرتا اسے تباہ کردیا جاتا لیکن جو طریقہ پروردگار نے اختیار فرمایا کہ اپنے رسول بھیجے ‘ کتابیں اتاریں اور پھر اپنے انبیاء اور رسولوں کو زندگی بھر اس کام پر لگائے رکھا ان کی قوموں نے ہرچند اذیتیں پہنچائیں ‘ رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن ان کی سرکشی کے باوجود بھی اس کام کو روکنے کی کبھی اجازت نہ فرمائی۔ بعض انبیاء شہید ہوئے دنیا کا ہر دکھ رسولوں نے اٹھایا لیکن یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ کبھی کبھی قوموں پر عذاب بھی آئے۔ لیکن عموماً صدیوں تک قوموں کی ہر طرح کی سرکشی کو برداشت کیا لیکن یہ سلسلہ ہدایت کبھی رکنے نہ پایا ‘ اسی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کفر اور شرک پر ابدی عذاب کیوں رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تبلیغ و دعوت کے عمل میں انتہا سے بڑھ کر کوشش فرمائی گئی ہے اور انسانی قافلے کے گلہائے سرسبد اس کے لیے کوشاں رہے ہیں اور اس کوشش کی ہر قیمت ادا بھی کرتے رہے اور انسانوں کے کسی گروہ نے اگر پھر بھی اپنی سرکشی اور بغاوت کا رویہ نہیں چھوڑا اور وہ بھی کسی معمولی حاکم کے مقابلے میں نہیں بلکہ کائنات کے حاکم اعلیٰ کے مقابلے میں تو معمولی عقل کا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسے شدید جرم کی سزا ایسی ہی ہونی چاہیے اور مزید یہ بات کہ اللہ حاکم الحاکمین ہے ‘ شہنشاہِ کائنات ہے۔ بادشاہ جو بھی کرے اسے قانون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن وہ شہنشاہِ کائنات یہ فرما رہا ہے کہ اگر کسی بستی والوں کو ہم بغیر راہنمائی کا حق ادا کیے سزا میں ہلاک کردیتے تو یہ ان پر ظلم ہوتا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی صفت رحمت کا سب سے بڑا تقاضہ اس کی صفت عدل ہے اور یہی وہ صفت ہے جس نے کائنات کے نظام کو ثبات وقرار بخشا ہے اور اور اسی کے نتیجے میں بعثت انبیاء اور ہدایت کا سلسلہ وجود میں آیا اور یہی وہ صفت ہے جنت اور جہنم کا وجود جس کا اظہار ہے اس لیے اس صفت کے بروئے کار لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس حد تک ہم پر احسان فرمایا ہے کہ کسی بڑے سے بڑے مجرم کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا نہیں دی گئی اور کسی چھوٹے مجرم کو بڑے مجرم کے برابر عذاب نہیں دیا گیا اور ہر چھوٹی بڑی نیکی کا الگ الگ پیمانہ رکھا ہے تاکہ کسی کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق شکایت پیدا نہ ہو سکے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے :
Top