Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس کی شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نکلنے والا نہیں کافروں کیلئے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیئے گئے ہیں
چناچہ ارشادہوتا ہے : اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍٍ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْھَا لِیَمْکُرُوْا فِیْھَا ط وَمَا یَمْکُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِھِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ۔ (الانعام : 122۔ 123) (کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس کی شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہے کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیئے گئے ہیں اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں مگر انھیں اس کا شعور نہیں ہے) یہاں اس آیت کریمہ میں موت سے مراد جہالت و بےشعوری کی حالت ہے اور زندگی سے مرد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت ہے جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہ راست کیا ہے وہ طبیعات کے نقطہ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسان کی زندگی میسر نہیں وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے مگر زندہ انسان نہیں۔ زندہ انسان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جسے حق اور باطل ‘ نیکی اور بدی ‘ راستی اور نا راستی کا شعور حاصل ہے۔ زندگی فرائض کی ادائیگی کا نام ہے حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور موت ایک تو طبعی چیز ہے کہ جب تک آدمی کے اندر جان ہے ہم اسے زندہ سمجھتے ہیں اور جب اس کے اندر سے جان نکل جاتی ہے تو اسے مردہ قرار دے دیا جاتا ہے لیکن زندگی صرف اسی چیز کا نام نہیں بلکہ حقیقی زندگی اس سے بڑھ کر ایک اور چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے ہر مخلوق کو جبلی طور پر یا شعوری طور پر زندگی کے کچھ نہ کچھ مقاصددے کر پیدا فرمایا ہے چناچہ وہ مخلوق جب تک ان مقاصد کو بروئے کار لاتی اور اپنا یہ فرض ادا کرتی رہتی ہے اس وقت تک اسے زندہ کہا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنا فرض انجام دینا بند کردیتی ہے یا فرض انجام دینے سے عاجز ہوجاتی ہے تو اسے مردہ قرار دے دیا جاتا ہے عام مخلوقات کو دیکھیے زمین کی نباتات ‘ آسمان کے ثوابت ‘ سیارے اور ستارے ‘ پانی ‘ ہوا اور آگ۔ یہ سب اپنی جبلت کے تحت اپنی اپنی زندگی کے فرائض ادا کرتے ہیں اور جب تک یہ فرائض ادا کرتے رہتے ہیں انھیں زندہ سمجھا جاتا ہے درخت جب تک سایہ دیتا یا پھل پیدا کرتا ہے تو اسے باقی رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ زندہ ہے۔ پانی جب تک بہتا ہے اور پیاس بجھانے اور آبیاری کا کام دیتا ہے تو اس کی زندگی باقی رہتی ہے۔ پھول جب تک مہکتا ہے ‘ کلی چٹکتی ہے ‘ آگ جلاتی ہے اور گھاس مخملیں فرش کی طرح بچھ جاتی ہے تو انھیں محنت سے باقی رکھا جاتا ہے لیکن جب یہ اپنے فرائض انجام دینے سے انکار کردیتے ہیں تو انھیں اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے خود انسانوں کو دیکھیے کہ جو انسان کہیں ملازمت کرتا ہے جب تک وہ ملازمت کے فرائض ادا کرتا ہے وقت پر آتا اور جاتا ہے اور مفوضہ ڈیوٹی انجام دیتا ہے تو اسے اس کے کام پر باقی رکھا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا کام سے عاجز ہوجاتا ہے تو اسے اس کام سے فارغ کردیا جاتا ہے اور زندہ ہونے کے باوجود اسے مردہ قرار دے کر نکال دیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی اصل میں مقاصد کو بروئے کارے کار لانے اور فرائض کے انجام دینے کا نام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کا مقصد زندگی کیا ہے اور اس کے فرائض کیا ہیں ؟ جو شخص انسان کو خود رو پودے کی طرح سمجھتا ہے تو وہ یقینا یہ خیال کرتا ہے کہ انسان گھاس پھوس کی طرح خود پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح ایک دن مل دل کے ختم ہوجائے گا اور جو اسے ایک حیوان کی طرح سمجھتا ہے اور ایک انسان ‘ گدھے اور کتے میں کوئی فرق نہیں کرتا تو وہ یقینا یہی سمجھے گا کہ انسان کا کام بھی صرف کھانا پینا ‘ بچے پیدا کرنا ‘ نفسانی خواہشات کو بروئے کار لانا ہے۔ لیکن جس آدمی کو اللہ نے بصیرت عطا کی ہے وہ یقینا انسان کو نباتات و جمادات اور حیوانات سے مختلف سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ باقی ساری مخلوقات اپنی جبلت اور حواس کے تحت زندگی گزار رہی ہیں اور اسی کے مطابق ان کو فرائض بھی دیئے گئے ہیں اور وہ اپنے فرائض ادا کرنے کی اس طرح پابند ہیں کہ اس سے انحراف کرنے کی ان کے اندر طاقت ہی نہیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے جبلت اور حواس کے علاوہ جوہر عقل بھی عطا کیا ہے اور ساتھ ساتھ اختیار کی آزادی بھی دی ہے اور اس کو یہ حق دیا ہے کہ تم اس دنیا میں رہ کر اپنا راستہ طے کرنے کے لیے آزاد ہو چاہے صحیح راستہ اختیار کرو چاہے غلط اور اس پر مزید یہ کہ زندگی کے وہ مسائل جو عقل کی گرفت میں نہیں آتے یا بعض دفعہ عقل اس کے بارے میں غلط فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔ اس کی راہنمائی کے لیے اللہ نے رسول مبعوث کیے ‘ ان پر اپنی کتابیں اتاریں اور اپنے رسولوں کو معصومیت کے ساتھ ساتھ وحی کی راہنمائی بھی بخشی اور انھیں اس بات کا پابند ٹھہرایا کہ وہ انسانی زندگی کی جتنی بھی ضرورتیں ہیں اور انسان کے جتنے مسائل ہیں وحی الٰہی کی روشنی میں انسانوں کے سامنے اس کا حل پیش کریں اور ایسے بنیادی اصول دیں جس سے انسانی زندگی ہمیشہ اکتساب فیض کرتی رہے۔ اس طرح پوری تفصیل کے ساتھ ان کے لیے مقاصد زندگی متعین کردیئے اور انھیں بروئے کار لانے کا طریقہ بھی واضح کردیا۔ مسلمانوں کو ایسی روشنی دی گئی ہے جس سے وہ خود بھی راہ پاتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ دکھاتے ہیں ہم اس سے پہلے یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ چونکہ مقاصد زندگی کو بروئے کار لانا اور اپنے فرائض کو ادا کرنا یہی زندگی ہے تو اسی اصول کے مطابق زندہ انسان وہ ہوگا جو اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مقاصد زندگی اور عائد کردہ فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرے گا اور اللہ کے رسول کی تعلیمات کو حرز جان بنائے گا۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا گیا ہے کہ انسان اللہ کی اس راہنمائی کو قبول کیے بغیر ایسا ہے کہ جیسے ابھی اس کو زندگی نہیں ملی اور وہ حالت عدم میں ہے۔ لیکن جب اس کے سامنے اللہ کی طرف سے کوئی رسول مبعوث ہوتا اور وحی الٰہی اترتی اور کتاب نازل ہوتی ہے تو یہ وہ نور اور روشنی ہے جو اس کی اندھیری رات میں چراغ بن کر چمکتی ہے اور اسے موت کی تاریکیوں سے نکال کر زندگی کا نور عطا کرتی ہے۔ اب اگر وہ اسے قبول کرلیتا ہے تو وہ زندہ انسان ہے لیکن جو اسے قبول نہیں کرتا وہ مردہ ہے کہ اس نے اپنے لیے عدم کو پسند کیا عدم کا رہنے والا ظاہر ہے ہستی کا باسی تو نہیں ہوسکتا۔ یہ مشرکینِ مکہ اور دوسرے لوگ جو اللہ کے رسول کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں یہ دراصل زندگی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور مسلمان چونکہ اس دعوت کو قبول کرچکے ہیں اس لیے وہ زندہ ہیں تو اس طرح سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ تم ان شیاطینِ جن و انس کی غوغا آرائیوں کی پرواہ نہ کرو تم کو اللہ نے زندگی بخشی ہے تو زندگی کا پیام لے کر آگے بڑھو۔ تمہیں جو روشنی عطا ہوئی ہے اس روشنی میں خود بھی چلو اور دوسروں کو بھی روشنی دکھائو اب تمہارے لیے یہ زیبا نہیں کہ اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے والوں کی خرافات پر کان دھرو۔ یہ کافر لوگ چونکہ اپنے اوہام اور اپنی بدعات کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں اور وہ موت کی ان وادیوں سے نکلنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہیں اور وہ دیوانوں کی طرح تاریکیوں میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اور ساتھ ساتھ کیچڑ بھی اچھالتے ہیں تو تمہیں ان کی ہرگز پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے تمہیں ان مردوں جیسا نہیں رکھا بلکہ تمہیں زندگی کی نعمت عطا فرمائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ ان لوگوں کو جو ہم نے نور اور روشنی عطا کی ہے یہ اس کو لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ روشنی گھر میں چھپا کے رکھنے کی چیز نہیں ہوتی اسے تو دیوار کی منڈیر پر رکھا جاتا ہے تاکہ اس کی روشنی گھر میں بھی پھیلے اور دوسرے بھی اس سے فائدہ اٹھائیں اور ساتھ ہی اس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اللہ نے اب جو روشنی قرآن و سنت کی شکل میں مسلمانوں کو دی ہے یہ کسی مسجد ‘ خانقاہ یا کسی حجرے کی چیز نہیں ہے کہ وہیں یہ ٹمٹماتی رہے بلکہ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاں جہاں زندگی کے دوائر موجود ہیں وہاں وہاں وہ اس روشنی کو لے کر پہنچیں اور وہاں وہاں اس روشنی کو پھیلائیں جہاں تاریکیوں نے بسیرا کررکھا ہے کیونکہ ایک مومن کی ذمہ داری دین کی روشنی سے صرف اپنے آپ کو روشن کرلینے اور اپنے دل کو مزین کرلینے سے پوری نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کے گھروں کو معاشرے کی ہر بند گلی کو اور زندگی کے ہر پرپیچ راستے کو روشن کرنا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں ایک مشعل دی گئی ہے اور باقی سب لوگ اس روشنی کے محتاج بھی ہیں اور انتظار میں بھی، ضروری ہے کہ مشعل بردار ہر ضرورت کی جگہ اس مشعل کو لے کر پہنچے اور اگر لوگ محض اس لیے ٹھوکریں کھا کھا کر گرتے رہے کہ کسی نے ان کو روشنی نہ دکھائی تو اللہ کے یہاں مسلمانوں سے اس کا سخت حساب لیا جائے گا کہ تم جانتے تھے کہ دنیا قسم قسم کی تاریکیوں میں مبتلا ہے اور تم پر جو روشنی اتاری گئی تھی وہ ان تمام تاریکیوں کو دور کرسکتی تھی لیکن تم صرف اپنی ذات کی حد تک ہی اس روشنی کو لے کر بیٹھے رہے حالانکہ تمہاری ذمہ داری یہ تھی کہ تم اس بات کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے کہ ہم کو بخشی ہیں خدا نے دہری دہری خدمتیں خود سراپا نور بن جانے سے کب چلتا ہے کام خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے ہم کو اس ظلمت کدے میں نور پھیلانا بھی ہے اس آیت کے آخری جملے میں مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جسکا ذکر پہلے بھی مختلف حوالوں سے ہوچکا ہے کہ یہ لوگ جو اس تاریکی میں پڑے رہنے پر بضد ہیں اور اسلام کی دعوت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور اللہ کی عطا کردہ روشنی سے وحشت زدہ ہو رہے ہیں اس سے تمہیں دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ اس نے چونکہ انسان کو اختیار کی آزادی دے رکھی ہے وہ اپنے اختیار سے جس راستے پر چلنا پسند کرتا ہے وہ وہی راستہ اس کے لیے کھول دیتا ہے اور جو چیز اسے مرغوب ہوتی ہے وہی چیز اس پر مسلط کردی جاتی ہے۔ وہ کسی پر جبر نہیں کرتا ہدایت اور ضلالت دونوں میں اس نے انسان کو آزادی دے دی ہے اور دونوں کے اس نے وسائل پیدا فرما دیئے ہیں۔ اب ان میں انتخاب کرنا یہ انسان کا اپنا کام ہے جب وہ صحیح راستے کا انتخاب کرلیتا ہے اور پھر اللہ سے توفیق مانگتا ہے تو اللہ اپنی توفیق سے اسے نواز دیتے ہیں اور اللہ نے مزید آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنے رسول اور کتابیں بھیجیں اور یہ وحی کی روشنی اتاری لیکن جو شخص اس روشنی کے سامنے آنکھیں بند کرلیتا ہے بلکہ روشنی دکھانے والوں کا دشمن ہوجاتا ہے کہ تمہاری روشنی سے میری نیند خراب ہوتی ہے میرے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے۔ میرے برے ارادوں کو بروئے کار آنے میں دشواری پیدا ہوتی ہے تو یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس کو ایسا کرنے دو ۔ وہ قانون قدرت کے تحت ایسا کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو ان باتوں سے اثر لیے بغیر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے کیونکہ مردہ آدمی کی موت سے عبرت تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن زندگی کے سفر میں رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ کفار و مشرکین گمراہیوں کے حصار میں ہیں جس سے وہ نکلنا نہیں چاہتے اس آیت کریمہ میں اللہ کے جس قانون کا ذکر فرمایا گیا ہے اس کے لیے تزیین کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کی ہم نے اگرچہ وضاحت کردی ہے لیکن بہتر ہے کہ اس کو مزید کھول دیا جائے بات یہ ہے کہ ہم اگر اپنی حالت پر غور کریں یا اپنے گرد و پیش میں دیکھیں تو آپ کو ہر آدمی بالخصوص پڑھا لکھا اور علم و دانش رکھنے والا آدمی اس بات کا مریض ملے گا کہ وہ اپنی سوچ ‘ اپنے خیالات اور اپنی بات کے سوا کسی اور کی سوچ اور بات کو مناسب اہمیت دینے کو کبھی تیار نہیں ہوتا بالخصوص کسی دانشور سے بات کر کے دیکھیے تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ بات بات پر اپنی ذات کا حوالہ دیتا ہے کہ میرا یہ خیال ہے ‘ میں یہ سمجھتا ہوں ‘ میرے مطالعے کا حاصل یہ ہے۔ چاہے اس کا مطالعہ یک رخا کیوں نہ ہو اور چاہے وہ اپنی سوچ اور علم میں بہت محدود حیثیت کا مالک کیوں نہ ہو۔ لیکن اسے اپنی نارسائی ‘ اپنی کوتاہ علمی اور اپنی بصیرت میں کمی کا کبھی احساس نہیں ہوتا وہ اس احساس سے کبھی نکلنے نہیں پاتا کہ میرے علاوہ بھی میرے گردو پیش میں بہت سے ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو علم و دانش میں مجھ سے بہت آگے ہیں اور مزید یہ بھی کہ میرا علمی میدان اگر طبیعات تک محدود ہے تو بالکل سیدھی سی بات ہے کہ میں الٰہیات ‘ روحانیات اور آسمانی مذاہب کے بارے میں زیادہ جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا لیکن یہ ایک ایسا گہرا مرض ہے کہ اتنی کھلی اور واضح بات کو بھی سمجھنا اکثر لوگوں کے لیے دشوار ہوجاتا ہے وہ اپنے محدود اور یک رخے علم کے باوجود آپ کو اپنی بات پر ہمیشہ اصرار کرتے دکھائی دیں گے۔ علامہ اقبال نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ” بعض لوگ کنج تنہائی میں بیٹھے بیٹھے ہمہ دانی کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں “ انھوں نے چونکہ اپنی تنہائی کے گوشے یا اپنی چھوٹی سی لائبریری سے باہر کبھی جھانک کے نہیں دیکھا وہ کنویں کے مینڈک کی طرح اسی کو ساری دنیائے علم سمجھتے ہیں نتیجہ ظاہر ہے کہ چونکہ وہ اس کے سوا کچھ اور جانتے نہیں۔ اس لیے جب اپنے علم سے مختلف بات سنتے ہیں تو اس کا تسلیم کرنا انھیں مشکل ہوجاتا ہے پھر وہ اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے گرد علم کے نام سے جو ایک بیخبر ی کا حصار کھینچ رکھا ہے اس سے کبھی نکلنے نہ پائیں۔ مولانا روم نے ٹھیک فرمایا تھا کہ اصلاً آدمی اپنی ذات کا عاشق ہوتا ہے اسے اپنی ذات اور اپنے خیالات ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں وہ ہمیشہ اس آدمی سے پیار کرتا ہے جس میں اسے اپنی ذات کا عکس نظر آتا ہے یا جس سے اسے اپنے خیالات کی تائید ملتی ہے وہ ایک اچھے خطیب ‘ ادیب ‘ قلم کار ‘ مصور یا کھلاڑی کا جو سراپا بنا لیتا ہے بس جو اس سراپا کے مطابق اسے نظر آتا ہے اس سے وہ پیار کرنے لگتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ اپنی ذات سے پیار کرتا ہے بس یہ ایک ایسی فطری بات ہے جو اللہ کے دوسرے قوانین فطرت کی طرح انسانوں میں کارفرما ہے اب جب تک کوئی آدمی اپنے اس حصار کو توڑ کر باہر نہیں نکلتا وہ باہر کی بڑی سے بڑی حقیقت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اللہ کے نبی انہی حقیقتوں کو واشگاف کرنے کے لیے آتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ اللہ کے قوانین فطرت کا علم رکھتے ہیں اس لیے ان قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ یہ مشرکینِ مکہ بھی اسی قانون فطرت کی گرفت میں تھے۔ وہ اپنے اسی حصار میں رہنے پر اصرار کر رہے تھے جس کا ڈھانچہ انھوں نے از خود تیار کیا اور پھر قانون فطرت کے مطابق جب پیار کرتے کرتے اس کے اسیر ہوگئے تو یہ ڈھانچہ ان کے لیے حصار بن گیا جس طرح گھر کی چار دیواری میں سمٹ کے رہنے والا باہر آئی ہوئی بہار سے کبھی فائدہ نہیں اٹھاتا وہ کواڑ بند کر کے جب تک گھر میں سمٹا رہے گا اسے کیا خبر کہ چمن میں کیسے پھول کھلے ہیں ‘ کیسی کلیاں چٹک رہی ہیں ‘ کس طرح گھٹا تلی کھڑی ہے ‘ ہوائیں کس طرح اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی ہیں ‘ زمین نے کس طرح سبز مخمل کا لباس پہن لیا ہے۔ اس باتوں سے وہ تب روشناس ہوگا جب وہ گھر کے حصار سے نکلے گا۔ یہ مشرکینِ مکہ بھی پیغمبر کی دعوت سے اس وقت فائدہ اٹھائیں گے جب وہ اپنے شرک اور کفر کے حصار سے نکل کر اس دعوت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اس سے نکلنے کی کوشش ان کا کام ہے۔ اس کے بعد اس راستے کو آسان کرنا اور راستے کی مشکلات کو دور کرنا یہ اللہ کا کرم ہے جو ہمیشہ وہ اپنے بندوں پر فرماتا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے پہلو سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ اسلامی دعوت کے مقابلے میں اشراف قریش روز بروز اپنی مخالفتوں اور اذیتوں میں تیزی پیدا کرتے جا رہے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی طرح اس روشنی کو بجھا دیں اور اسلام کی اس مشعل کو ہمیشہ کے لیے گل کردیں تو تمہیں اس سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے یہ دنیا کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ جب بھی کسی بستی میں دعوت حق بلند ہوئی ہے تو وہاں کے بڑے بڑے لوگوں میں جن کا باطل سے مفاد وابستہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ یہی رویہ اختیار کرتے ہیں وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اگر یہ دعوت کامیاب ہوگئی تو ہمارے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے اور ہم نے جو لوگوں کو آج تک غلام بنا رکھا ہے اور بھیڑ بکریوں کی طرح انھیں ہمیشہ ہانکتے رہے ‘ جب ان میں آزادی کا شعور پیدا ہوگا تو یہ لوگ غلامی کا جوا اپنی گردن سے اتار پھینکیں گے۔ اور یہ اللہ کے سامنے جھکنے والے کسی اور کے سامنے جھکنے سے انکار کردیں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں سب کے لیے پیدا کی ہیں تو وہ استیصال کرنے والے ہاتھ توڑ ڈالیں گے تو یہ باتیں انھیں ڈرائونے خواب کی طرح بدحواس کردیتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ اسلامی قوت کا راستہ روکنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر وہ طرح طرح سے تدبیریں کرتے ہیں ‘ سازشوں کے جال پھیلاتے ہیں ‘ لوگوں کے جذبات انگیخت کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اس تحریک کو ختم کردیا جائے تو جب ہمیشہ ہر اٹھنے والی صداقت کے ساتھ یہی حادثہ پیش آیا ہے اور یہ اس راستے کی لازمی سنت ہے تو پھر اس سے اثر قبول کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ لوگ تو اسی تاریخی روایت کے مطابق اپنی حرکتیں جاری رکھیں گے اور تمہیں اللہ کے حکم کے مطابق اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں لیکن وہ وقت دور نہیں کہ یہ ان کی سازشیں اور تدبیریں الٹی انہی پر آگریں گی اور یہی لوگ آہستہ آہستہ یا تو اس دعوت کو قبول کر کے اپنی آخرت بنالیں گے اور یا وہ ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بن کے رہ جائیں گے۔ چناچہ مشرکینِ مکہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ انھوں نے اپنی اذیتوں سے اگرچہ مسلمانوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا اور پھر وہاں بھی ان کو اطمینان کا سانس نہیں لینے دیا لیکن ہجرت کے آٹھویں سال ہی میں بالآخر مکہ سرنگوں ہوگیا اور اہل مکہ یا تو مسلمان ہوگئے اور یا ختم ہوگئے۔ ابھی ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین مسلسل اسلامی دعوت کے مقابلے میں آئے دن نئی نئی تدبیر میں سوچتے اور نئی نئی شرارتیں کرتے تھے۔ انہی تدبیروں اور شرارتوں میں سے ایک کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں آرہا ہے۔
Top