Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ
: کیا
مَنْ
: جو
كَانَ مَيْتًا
: مردہ تھا
فَاَحْيَيْنٰهُ
: پھر ہم نے اس کو زندہ کیا
وَجَعَلْنَا
: اور ہم نے بنایا
لَهٗ
: اس کے لیے
نُوْرًا
: نور
يَّمْشِيْ
: وہ چلتا ہے
بِهٖ
: اس سے
فِي
: میں
النَّاسِ
: لوگ
كَمَنْ مَّثَلُهٗ
: اس جیسا۔ جو
فِي
: میں
الظُّلُمٰتِ
: اندھیرے
لَيْسَ
: نہیں
بِخَارِجٍ
: نکلنے والا
مِّنْهَا
: اس سے
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
زُيِّنَ
: زینت دئیے گئے
لِلْكٰفِرِيْنَ
: کافروں کے لیے
مَا
: جو
كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
: وہ کرتے تھے (عمل)
کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس کی شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نکلنے والا نہیں کافروں کیلئے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیئے گئے ہیں
چناچہ ارشادہوتا ہے : اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍٍ مِّنْھَا ط کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْھَا لِیَمْکُرُوْا فِیْھَا ط وَمَا یَمْکُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِھِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ۔ (الانعام : 122۔ 123) (کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس کی شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہے کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیئے گئے ہیں اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں مگر انھیں اس کا شعور نہیں ہے) یہاں اس آیت کریمہ میں موت سے مراد جہالت و بےشعوری کی حالت ہے اور زندگی سے مرد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت ہے جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہ راست کیا ہے وہ طبیعات کے نقطہ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسان کی زندگی میسر نہیں وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے مگر زندہ انسان نہیں۔ زندہ انسان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جسے حق اور باطل ‘ نیکی اور بدی ‘ راستی اور نا راستی کا شعور حاصل ہے۔ زندگی فرائض کی ادائیگی کا نام ہے حقیقت یہ ہے کہ زندگی اور موت ایک تو طبعی چیز ہے کہ جب تک آدمی کے اندر جان ہے ہم اسے زندہ سمجھتے ہیں اور جب اس کے اندر سے جان نکل جاتی ہے تو اسے مردہ قرار دے دیا جاتا ہے لیکن زندگی صرف اسی چیز کا نام نہیں بلکہ حقیقی زندگی اس سے بڑھ کر ایک اور چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے ہر مخلوق کو جبلی طور پر یا شعوری طور پر زندگی کے کچھ نہ کچھ مقاصددے کر پیدا فرمایا ہے چناچہ وہ مخلوق جب تک ان مقاصد کو بروئے کار لاتی اور اپنا یہ فرض ادا کرتی رہتی ہے اس وقت تک اسے زندہ کہا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنا فرض انجام دینا بند کردیتی ہے یا فرض انجام دینے سے عاجز ہوجاتی ہے تو اسے مردہ قرار دے دیا جاتا ہے عام مخلوقات کو دیکھیے زمین کی نباتات ‘ آسمان کے ثوابت ‘ سیارے اور ستارے ‘ پانی ‘ ہوا اور آگ۔ یہ سب اپنی جبلت کے تحت اپنی اپنی زندگی کے فرائض ادا کرتے ہیں اور جب تک یہ فرائض ادا کرتے رہتے ہیں انھیں زندہ سمجھا جاتا ہے درخت جب تک سایہ دیتا یا پھل پیدا کرتا ہے تو اسے باقی رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ زندہ ہے۔ پانی جب تک بہتا ہے اور پیاس بجھانے اور آبیاری کا کام دیتا ہے تو اس کی زندگی باقی رہتی ہے۔ پھول جب تک مہکتا ہے ‘ کلی چٹکتی ہے ‘ آگ جلاتی ہے اور گھاس مخملیں فرش کی طرح بچھ جاتی ہے تو انھیں محنت سے باقی رکھا جاتا ہے لیکن جب یہ اپنے فرائض انجام دینے سے انکار کردیتے ہیں تو انھیں اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے خود انسانوں کو دیکھیے کہ جو انسان کہیں ملازمت کرتا ہے جب تک وہ ملازمت کے فرائض ادا کرتا ہے وقت پر آتا اور جاتا ہے اور مفوضہ ڈیوٹی انجام دیتا ہے تو اسے اس کے کام پر باقی رکھا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا کام سے عاجز ہوجاتا ہے تو اسے اس کام سے فارغ کردیا جاتا ہے اور زندہ ہونے کے باوجود اسے مردہ قرار دے کر نکال دیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی اصل میں مقاصد کو بروئے کارے کار لانے اور فرائض کے انجام دینے کا نام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کا مقصد زندگی کیا ہے اور اس کے فرائض کیا ہیں ؟ جو شخص انسان کو خود رو پودے کی طرح سمجھتا ہے تو وہ یقینا یہ خیال کرتا ہے کہ انسان گھاس پھوس کی طرح خود پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح ایک دن مل دل کے ختم ہوجائے گا اور جو اسے ایک حیوان کی طرح سمجھتا ہے اور ایک انسان ‘ گدھے اور کتے میں کوئی فرق نہیں کرتا تو وہ یقینا یہی سمجھے گا کہ انسان کا کام بھی صرف کھانا پینا ‘ بچے پیدا کرنا ‘ نفسانی خواہشات کو بروئے کار لانا ہے۔ لیکن جس آدمی کو اللہ نے بصیرت عطا کی ہے وہ یقینا انسان کو نباتات و جمادات اور حیوانات سے مختلف سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ باقی ساری مخلوقات اپنی جبلت اور حواس کے تحت زندگی گزار رہی ہیں اور اسی کے مطابق ان کو فرائض بھی دیئے گئے ہیں اور وہ اپنے فرائض ادا کرنے کی اس طرح پابند ہیں کہ اس سے انحراف کرنے کی ان کے اندر طاقت ہی نہیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے جبلت اور حواس کے علاوہ جوہر عقل بھی عطا کیا ہے اور ساتھ ساتھ اختیار کی آزادی بھی دی ہے اور اس کو یہ حق دیا ہے کہ تم اس دنیا میں رہ کر اپنا راستہ طے کرنے کے لیے آزاد ہو چاہے صحیح راستہ اختیار کرو چاہے غلط اور اس پر مزید یہ کہ زندگی کے وہ مسائل جو عقل کی گرفت میں نہیں آتے یا بعض دفعہ عقل اس کے بارے میں غلط فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔ اس کی راہنمائی کے لیے اللہ نے رسول مبعوث کیے ‘ ان پر اپنی کتابیں اتاریں اور اپنے رسولوں کو معصومیت کے ساتھ ساتھ وحی کی راہنمائی بھی بخشی اور انھیں اس بات کا پابند ٹھہرایا کہ وہ انسانی زندگی کی جتنی بھی ضرورتیں ہیں اور انسان کے جتنے مسائل ہیں وحی الٰہی کی روشنی میں انسانوں کے سامنے اس کا حل پیش کریں اور ایسے بنیادی اصول دیں جس سے انسانی زندگی ہمیشہ اکتساب فیض کرتی رہے۔ اس طرح پوری تفصیل کے ساتھ ان کے لیے مقاصد زندگی متعین کردیئے اور انھیں بروئے کار لانے کا طریقہ بھی واضح کردیا۔ مسلمانوں کو ایسی روشنی دی گئی ہے جس سے وہ خود بھی راہ پاتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ دکھاتے ہیں ہم اس سے پہلے یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ چونکہ مقاصد زندگی کو بروئے کار لانا اور اپنے فرائض کو ادا کرنا یہی زندگی ہے تو اسی اصول کے مطابق زندہ انسان وہ ہوگا جو اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مقاصد زندگی اور عائد کردہ فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرے گا اور اللہ کے رسول کی تعلیمات کو حرز جان بنائے گا۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا گیا ہے کہ انسان اللہ کی اس راہنمائی کو قبول کیے بغیر ایسا ہے کہ جیسے ابھی اس کو زندگی نہیں ملی اور وہ حالت عدم میں ہے۔ لیکن جب اس کے سامنے اللہ کی طرف سے کوئی رسول مبعوث ہوتا اور وحی الٰہی اترتی اور کتاب نازل ہوتی ہے تو یہ وہ نور اور روشنی ہے جو اس کی اندھیری رات میں چراغ بن کر چمکتی ہے اور اسے موت کی تاریکیوں سے نکال کر زندگی کا نور عطا کرتی ہے۔ اب اگر وہ اسے قبول کرلیتا ہے تو وہ زندہ انسان ہے لیکن جو اسے قبول نہیں کرتا وہ مردہ ہے کہ اس نے اپنے لیے عدم کو پسند کیا عدم کا رہنے والا ظاہر ہے ہستی کا باسی تو نہیں ہوسکتا۔ یہ مشرکینِ مکہ اور دوسرے لوگ جو اللہ کے رسول کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں یہ دراصل زندگی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور مسلمان چونکہ اس دعوت کو قبول کرچکے ہیں اس لیے وہ زندہ ہیں تو اس طرح سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ تم ان شیاطینِ جن و انس کی غوغا آرائیوں کی پرواہ نہ کرو تم کو اللہ نے زندگی بخشی ہے تو زندگی کا پیام لے کر آگے بڑھو۔ تمہیں جو روشنی عطا ہوئی ہے اس روشنی میں خود بھی چلو اور دوسروں کو بھی روشنی دکھائو اب تمہارے لیے یہ زیبا نہیں کہ اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے والوں کی خرافات پر کان دھرو۔ یہ کافر لوگ چونکہ اپنے اوہام اور اپنی بدعات کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں اور وہ موت کی ان وادیوں سے نکلنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہیں اور وہ دیوانوں کی طرح تاریکیوں میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اور ساتھ ساتھ کیچڑ بھی اچھالتے ہیں تو تمہیں ان کی ہرگز پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے تمہیں ان مردوں جیسا نہیں رکھا بلکہ تمہیں زندگی کی نعمت عطا فرمائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ ان لوگوں کو جو ہم نے نور اور روشنی عطا کی ہے یہ اس کو لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ روشنی گھر میں چھپا کے رکھنے کی چیز نہیں ہوتی اسے تو دیوار کی منڈیر پر رکھا جاتا ہے تاکہ اس کی روشنی گھر میں بھی پھیلے اور دوسرے بھی اس سے فائدہ اٹھائیں اور ساتھ ہی اس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اللہ نے اب جو روشنی قرآن و سنت کی شکل میں مسلمانوں کو دی ہے یہ کسی مسجد ‘ خانقاہ یا کسی حجرے کی چیز نہیں ہے کہ وہیں یہ ٹمٹماتی رہے بلکہ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاں جہاں زندگی کے دوائر موجود ہیں وہاں وہاں وہ اس روشنی کو لے کر پہنچیں اور وہاں وہاں اس روشنی کو پھیلائیں جہاں تاریکیوں نے بسیرا کررکھا ہے کیونکہ ایک مومن کی ذمہ داری دین کی روشنی سے صرف اپنے آپ کو روشن کرلینے اور اپنے دل کو مزین کرلینے سے پوری نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کے گھروں کو معاشرے کی ہر بند گلی کو اور زندگی کے ہر پرپیچ راستے کو روشن کرنا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں ایک مشعل دی گئی ہے اور باقی سب لوگ اس روشنی کے محتاج بھی ہیں اور انتظار میں بھی، ضروری ہے کہ مشعل بردار ہر ضرورت کی جگہ اس مشعل کو لے کر پہنچے اور اگر لوگ محض اس لیے ٹھوکریں کھا کھا کر گرتے رہے کہ کسی نے ان کو روشنی نہ دکھائی تو اللہ کے یہاں مسلمانوں سے اس کا سخت حساب لیا جائے گا کہ تم جانتے تھے کہ دنیا قسم قسم کی تاریکیوں میں مبتلا ہے اور تم پر جو روشنی اتاری گئی تھی وہ ان تمام تاریکیوں کو دور کرسکتی تھی لیکن تم صرف اپنی ذات کی حد تک ہی اس روشنی کو لے کر بیٹھے رہے حالانکہ تمہاری ذمہ داری یہ تھی کہ تم اس بات کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے کہ ہم کو بخشی ہیں خدا نے دہری دہری خدمتیں خود سراپا نور بن جانے سے کب چلتا ہے کام خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے ہم کو اس ظلمت کدے میں نور پھیلانا بھی ہے اس آیت کے آخری جملے میں مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جسکا ذکر پہلے بھی مختلف حوالوں سے ہوچکا ہے کہ یہ لوگ جو اس تاریکی میں پڑے رہنے پر بضد ہیں اور اسلام کی دعوت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور اللہ کی عطا کردہ روشنی سے وحشت زدہ ہو رہے ہیں اس سے تمہیں دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ اس نے چونکہ انسان کو اختیار کی آزادی دے رکھی ہے وہ اپنے اختیار سے جس راستے پر چلنا پسند کرتا ہے وہ وہی راستہ اس کے لیے کھول دیتا ہے اور جو چیز اسے مرغوب ہوتی ہے وہی چیز اس پر مسلط کردی جاتی ہے۔ وہ کسی پر جبر نہیں کرتا ہدایت اور ضلالت دونوں میں اس نے انسان کو آزادی دے دی ہے اور دونوں کے اس نے وسائل پیدا فرما دیئے ہیں۔ اب ان میں انتخاب کرنا یہ انسان کا اپنا کام ہے جب وہ صحیح راستے کا انتخاب کرلیتا ہے اور پھر اللہ سے توفیق مانگتا ہے تو اللہ اپنی توفیق سے اسے نواز دیتے ہیں اور اللہ نے مزید آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنے رسول اور کتابیں بھیجیں اور یہ وحی کی روشنی اتاری لیکن جو شخص اس روشنی کے سامنے آنکھیں بند کرلیتا ہے بلکہ روشنی دکھانے والوں کا دشمن ہوجاتا ہے کہ تمہاری روشنی سے میری نیند خراب ہوتی ہے میرے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے۔ میرے برے ارادوں کو بروئے کار آنے میں دشواری پیدا ہوتی ہے تو یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس کو ایسا کرنے دو ۔ وہ قانون قدرت کے تحت ایسا کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو ان باتوں سے اثر لیے بغیر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے کیونکہ مردہ آدمی کی موت سے عبرت تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن زندگی کے سفر میں رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ کفار و مشرکین گمراہیوں کے حصار میں ہیں جس سے وہ نکلنا نہیں چاہتے اس آیت کریمہ میں اللہ کے جس قانون کا ذکر فرمایا گیا ہے اس کے لیے تزیین کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کی ہم نے اگرچہ وضاحت کردی ہے لیکن بہتر ہے کہ اس کو مزید کھول دیا جائے بات یہ ہے کہ ہم اگر اپنی حالت پر غور کریں یا اپنے گرد و پیش میں دیکھیں تو آپ کو ہر آدمی بالخصوص پڑھا لکھا اور علم و دانش رکھنے والا آدمی اس بات کا مریض ملے گا کہ وہ اپنی سوچ ‘ اپنے خیالات اور اپنی بات کے سوا کسی اور کی سوچ اور بات کو مناسب اہمیت دینے کو کبھی تیار نہیں ہوتا بالخصوص کسی دانشور سے بات کر کے دیکھیے تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ بات بات پر اپنی ذات کا حوالہ دیتا ہے کہ میرا یہ خیال ہے ‘ میں یہ سمجھتا ہوں ‘ میرے مطالعے کا حاصل یہ ہے۔ چاہے اس کا مطالعہ یک رخا کیوں نہ ہو اور چاہے وہ اپنی سوچ اور علم میں بہت محدود حیثیت کا مالک کیوں نہ ہو۔ لیکن اسے اپنی نارسائی ‘ اپنی کوتاہ علمی اور اپنی بصیرت میں کمی کا کبھی احساس نہیں ہوتا وہ اس احساس سے کبھی نکلنے نہیں پاتا کہ میرے علاوہ بھی میرے گردو پیش میں بہت سے ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو علم و دانش میں مجھ سے بہت آگے ہیں اور مزید یہ بھی کہ میرا علمی میدان اگر طبیعات تک محدود ہے تو بالکل سیدھی سی بات ہے کہ میں الٰہیات ‘ روحانیات اور آسمانی مذاہب کے بارے میں زیادہ جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا لیکن یہ ایک ایسا گہرا مرض ہے کہ اتنی کھلی اور واضح بات کو بھی سمجھنا اکثر لوگوں کے لیے دشوار ہوجاتا ہے وہ اپنے محدود اور یک رخے علم کے باوجود آپ کو اپنی بات پر ہمیشہ اصرار کرتے دکھائی دیں گے۔ علامہ اقبال نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ” بعض لوگ کنج تنہائی میں بیٹھے بیٹھے ہمہ دانی کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں “ انھوں نے چونکہ اپنی تنہائی کے گوشے یا اپنی چھوٹی سی لائبریری سے باہر کبھی جھانک کے نہیں دیکھا وہ کنویں کے مینڈک کی طرح اسی کو ساری دنیائے علم سمجھتے ہیں نتیجہ ظاہر ہے کہ چونکہ وہ اس کے سوا کچھ اور جانتے نہیں۔ اس لیے جب اپنے علم سے مختلف بات سنتے ہیں تو اس کا تسلیم کرنا انھیں مشکل ہوجاتا ہے پھر وہ اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے گرد علم کے نام سے جو ایک بیخبر ی کا حصار کھینچ رکھا ہے اس سے کبھی نکلنے نہ پائیں۔ مولانا روم نے ٹھیک فرمایا تھا کہ اصلاً آدمی اپنی ذات کا عاشق ہوتا ہے اسے اپنی ذات اور اپنے خیالات ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں وہ ہمیشہ اس آدمی سے پیار کرتا ہے جس میں اسے اپنی ذات کا عکس نظر آتا ہے یا جس سے اسے اپنے خیالات کی تائید ملتی ہے وہ ایک اچھے خطیب ‘ ادیب ‘ قلم کار ‘ مصور یا کھلاڑی کا جو سراپا بنا لیتا ہے بس جو اس سراپا کے مطابق اسے نظر آتا ہے اس سے وہ پیار کرنے لگتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ اپنی ذات سے پیار کرتا ہے بس یہ ایک ایسی فطری بات ہے جو اللہ کے دوسرے قوانین فطرت کی طرح انسانوں میں کارفرما ہے اب جب تک کوئی آدمی اپنے اس حصار کو توڑ کر باہر نہیں نکلتا وہ باہر کی بڑی سے بڑی حقیقت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اللہ کے نبی انہی حقیقتوں کو واشگاف کرنے کے لیے آتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ اللہ کے قوانین فطرت کا علم رکھتے ہیں اس لیے ان قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ یہ مشرکینِ مکہ بھی اسی قانون فطرت کی گرفت میں تھے۔ وہ اپنے اسی حصار میں رہنے پر اصرار کر رہے تھے جس کا ڈھانچہ انھوں نے از خود تیار کیا اور پھر قانون فطرت کے مطابق جب پیار کرتے کرتے اس کے اسیر ہوگئے تو یہ ڈھانچہ ان کے لیے حصار بن گیا جس طرح گھر کی چار دیواری میں سمٹ کے رہنے والا باہر آئی ہوئی بہار سے کبھی فائدہ نہیں اٹھاتا وہ کواڑ بند کر کے جب تک گھر میں سمٹا رہے گا اسے کیا خبر کہ چمن میں کیسے پھول کھلے ہیں ‘ کیسی کلیاں چٹک رہی ہیں ‘ کس طرح گھٹا تلی کھڑی ہے ‘ ہوائیں کس طرح اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی ہیں ‘ زمین نے کس طرح سبز مخمل کا لباس پہن لیا ہے۔ اس باتوں سے وہ تب روشناس ہوگا جب وہ گھر کے حصار سے نکلے گا۔ یہ مشرکینِ مکہ بھی پیغمبر کی دعوت سے اس وقت فائدہ اٹھائیں گے جب وہ اپنے شرک اور کفر کے حصار سے نکل کر اس دعوت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اس سے نکلنے کی کوشش ان کا کام ہے۔ اس کے بعد اس راستے کو آسان کرنا اور راستے کی مشکلات کو دور کرنا یہ اللہ کا کرم ہے جو ہمیشہ وہ اپنے بندوں پر فرماتا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے پہلو سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ اسلامی دعوت کے مقابلے میں اشراف قریش روز بروز اپنی مخالفتوں اور اذیتوں میں تیزی پیدا کرتے جا رہے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی طرح اس روشنی کو بجھا دیں اور اسلام کی اس مشعل کو ہمیشہ کے لیے گل کردیں تو تمہیں اس سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے یہ دنیا کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ جب بھی کسی بستی میں دعوت حق بلند ہوئی ہے تو وہاں کے بڑے بڑے لوگوں میں جن کا باطل سے مفاد وابستہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ یہی رویہ اختیار کرتے ہیں وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اگر یہ دعوت کامیاب ہوگئی تو ہمارے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے اور ہم نے جو لوگوں کو آج تک غلام بنا رکھا ہے اور بھیڑ بکریوں کی طرح انھیں ہمیشہ ہانکتے رہے ‘ جب ان میں آزادی کا شعور پیدا ہوگا تو یہ لوگ غلامی کا جوا اپنی گردن سے اتار پھینکیں گے۔ اور یہ اللہ کے سامنے جھکنے والے کسی اور کے سامنے جھکنے سے انکار کردیں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں سب کے لیے پیدا کی ہیں تو وہ استیصال کرنے والے ہاتھ توڑ ڈالیں گے تو یہ باتیں انھیں ڈرائونے خواب کی طرح بدحواس کردیتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ اسلامی قوت کا راستہ روکنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر وہ طرح طرح سے تدبیریں کرتے ہیں ‘ سازشوں کے جال پھیلاتے ہیں ‘ لوگوں کے جذبات انگیخت کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اس تحریک کو ختم کردیا جائے تو جب ہمیشہ ہر اٹھنے والی صداقت کے ساتھ یہی حادثہ پیش آیا ہے اور یہ اس راستے کی لازمی سنت ہے تو پھر اس سے اثر قبول کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ لوگ تو اسی تاریخی روایت کے مطابق اپنی حرکتیں جاری رکھیں گے اور تمہیں اللہ کے حکم کے مطابق اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں لیکن وہ وقت دور نہیں کہ یہ ان کی سازشیں اور تدبیریں الٹی انہی پر آگریں گی اور یہی لوگ آہستہ آہستہ یا تو اس دعوت کو قبول کر کے اپنی آخرت بنالیں گے اور یا وہ ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بن کے رہ جائیں گے۔ چناچہ مشرکینِ مکہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ انھوں نے اپنی اذیتوں سے اگرچہ مسلمانوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا اور پھر وہاں بھی ان کو اطمینان کا سانس نہیں لینے دیا لیکن ہجرت کے آٹھویں سال ہی میں بالآخر مکہ سرنگوں ہوگیا اور اہل مکہ یا تو مسلمان ہوگئے اور یا ختم ہوگئے۔ ابھی ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین مسلسل اسلامی دعوت کے مقابلے میں آئے دن نئی نئی تدبیر میں سوچتے اور نئی نئی شرارتیں کرتے تھے۔ انہی تدبیروں اور شرارتوں میں سے ایک کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں آرہا ہے۔
Top