Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 120
وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ
وَذَرُوْا : چھوڑ دو ظَاهِرَ الْاِثْمِ : کھلا گناہ وَبَاطِنَهٗ : اور اس کا چھپا ہوا اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے) ہیں الْاِثْمَ : گناہ سَيُجْزَوْنَ : عنقریب سزا پائیں گے بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : تھے يَقْتَرِفُوْنَ : وہ برے کام کرتے
اور چھوڑو گناہ کے ظاہر کو بھی اور اس کے باطن کو بھی بیشک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں وہ عنقریب اپنی اس کمائی کا بدلہ پائیں گے
ارشاد فرمایا : وَذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ ۔ (الانعام : 120) (اور چھوڑو گناہ کے ظاہر کو بھی اور اس کے باطن کو بھی بیشک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں وہ عنقریب اپنی اس کمائی کا بدلہ پائیں گے) گناہ کو ظاہراً اور باطناً چھوڑ دو اس آیت کریمہ میں ایک حقیقتِ نفسی کو بیان کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ انسان جب اپنی کسی برائی پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے یا اس کے لیے صحیح راہ پر چلنا دشوار ہونے لگتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں اس طرح کا رویہ اختیار کروں کہ جانبین کو خوش رکھ سکوں تو پھر وہ عموماً اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ آپ میری ظاہری حالت پر نہ جایئے آپ جس بات کی دعوت دے رہے ہیں میں اسے دل وجان سے قبول کرتا ہوں اور میرا دل پوری طرح اس پر مطمئن ہے رہی یہ بات کہ میرے عمل میں اس کا اظہار نہیں ہو رہا یا میں اس برائی کے مظاہر سے ابھی تک دامن نہیں چھڑا سکا تو اس کی آپ پرواہ نہ کریں وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوجائے گا۔ قرآن کریم اس کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ ہر برائی کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک اس کا باطنی پہلو اور دوسرا اس کا ظاہری پہلو۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ ہر برائی کی ایک حقیقت ہے جس کا مسکن انسان کا نفس اور اس کا دل ہے۔ دوسرے اس کے وہ مظاہر و اشکال ہیں جن میں انسانی زندگی کے اندر وہ نمایاں ہوتی ہے مثلاً شرک کی ایک تو حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اس کے حقوق میں کسی کو شریک مانا جائے اور دوسرے اس کی ظاہری شکلیں ہیں مثلاً اصنام ‘ انصاب ‘ بحیرہ ‘ سائبۃ ‘ وصیلہ ‘ حام اور اس نوع کی دوسری چیزیں جو کسی شرکیہ عقیدے یا تصور کا عملی مظہر اور نشان ہیں۔ جب تک ان دونوں کا استیصال نہ ہو اور دونوں کو جڑ سے نہ اکھاڑا جائے اس وقت تک برائی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ان دونوں میں بڑا گہرا ربط اور تعلق ہوتا ہے یہ ایک دوسرے کے سہارے سے پروان چڑھتے اور غذا اور قوت حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں حکم دیا جا رہا ہے کہ تم شرک کی جس آلائش میں مبتلا ہو اس کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ تم شرک کو دل سے نکالنے کا دعویٰ کرو اور یہ کہو کہ توحید کو میں نے دل میں بسا لیا ہے اور میں اللہ کی ذات وصفات اور اس کے حقوق میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جن چیزوں کو تم شریک ٹھہراتے رہے ہو مثلاً جن جانوروں کو تم مقدس جان کر ان کی تعظیم بجا لاتے رہے ہو اللہ نے ان کا گوشت اگر حلال کیا ہے اور تم سابقہ تعظیمی تعلق کی وجہ سے اسے کھانے سے احتراز کر رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی جس حقیقت کو تم نے دل سے نکال دیا ہے تم اس کے مظاہر کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔ اس سے ایک ہی بات نکلتی ہے کہ تم اصلاً اپنے دعوے میں سچے نہیں ہو ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ تم شرک کی شکلوں کو توڑنے اور ان کو ختم کرنے سے پس و پیش کرتے۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد شرک کے تمام آثار و مظاہر کو یک قلم ختم کردیا اور جہاں جہاں بھی مشرکین نے بت کھڑے کر رکھے تھے یا قربانی کے لیے آستانے بنا رکھے تھے یا دعائوں کے لیے استھان مقرر کر رکھے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان تمام کا خاتمہ فرما دیا اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسانی اصلاح کے لیے جس طرح قلب و ضمیر کی تصدیق ضروری ہے اسی طرح آدمی کا ظاہر بھی اس کے مطابق بدلنا چاہیے۔ جس برائی کو آدمی دل سے برائی سمجھتا ہے اگر اس کے مطابق عمل جاری ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ برائی سے دامن کشاں نہیں ہونا چاہتا۔ ہم بہت دفعہ اپنی زندگی میں اس دو عملی کو جابجا دیکھتے ہیں۔ آپ کسی لڑکی کو اگر اس حالت میں دیکھیں کہ ننگے سر ‘ کھلے چہرے بازو اور کھلا گریبان لے کر وہ اپنے تعلیمی ادارے میں جاتی یا اپنے دفتر میں یا بازار میں نامحرموں کے ساتھ چلتی پھرتی ہے اور آپ اسے توجہ دلاتے ہوئے کہیں کہ بیٹی تم ایک مسلمان لڑکی ہو ‘ شرم و حیا تمہارا زیور ہے ‘ تم اس طرح نامحرموں میں گھوم رہی ہو یہ تو ہرگز مناسب نہیں تو آپ کو بہت دفعہ یہ جواب سننا پڑے گا کہ صاحب جانے دیجئے پردہ اصل میں دل کا پردہ ہے شرم و حیا کا تعلق دل سے ہے آپ ظاہری باتوں پر نہ جایئے تو یہاں صاف فرمایا جا رہا ہے کہ ظاہری اور باطنی دونوں گناہ چھوڑ دو ۔ جس طرح بےحیائی اور بےشرمی دل میں بری ہے اسی طرح جسم پر اس کا اظہار بھی برا ہے اگر شرم و حیا آپ کا گریبان بند نہیں کرتا اور آپ کی بانھیں نہیں ڈھانپتا اور آپ کے سر پر آنچل نہیں ڈالتا تو دل میں شرم و حیا کے ہونے کا آخر فائدہ کیا ہے اس لیے قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَلَا تَقْرَبُوْا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ (اور بےحیائی کی باتوں کے قریب مت بھٹکو خواہ ظاہری ہوں یا باطنی) تو اس سے معلوم ہوا کہ سیرت و کردار کی تعمیر اور ایمان کی پختگی کے لیے ظاہر و باطن دونوں کی تطہیر ضروری ہے اور دونوں کو ساتھ ساتھ چلنا چاہیے آدمی کی زبان پر نماز کی فرضیت کا ذکر ہو لیکن نماز نہ پڑھے ‘ زبان پر سنت سے محبت کے تذکرے ہوں لیکن وضع قطع ‘ تراش خراش ‘ بود و باش اور تمام تمدنی اظہار کی صورتیں وہ سراسر سنت کے خلاف ہوں تو ہمیں یہ اصول یاد رکھنا چاہیے جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اس کے بعد دھمکی دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو لوگ اس قدر وضاحت و صراحت کے بعد بھی شرک سے تعلق توڑنے کے لیے تیار نہیں اور گناہ ان کی زندگی سے نکل نہیں پاتا۔ چونکہ یہ مکی دور ہے یہاں تو صرف نصیحت ہی کی جاسکتی ہے یا انجام سے ڈرایا جاسکتا ہے اس لیے انھیں ان کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ وقت دور نہیں جب وہ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔ اس سے یا تو آخرت مراد ہے کہ آخرت میں بہرصورت اپنے انجام کو ہر آدمی دیکھے گا اور یا پھر چند ہی سالوں بعد مدینے میں جو ریاست قائم ہونے والی ہے جس کے نتیجے میں اللہ کا دین نافذ ہوجائے گا اور فتح مکہ کے بعد یہ مکہ کے لوگ بھی اس دین کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور اس کے بعد آج جو کچھ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں یا تو اس سے تائب ہوجائیں گے اور یا پھر سزا کے عمل سے گزریں گے۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی مضمون کے ایک اور گوشے کو واضح کیا جا رہا ہے۔
Top