Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 116
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تُطِعْ : تو کہا مانے اَكْثَرَ : اکثر مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يُضِلُّوْكَ : وہ تجھے بھٹکا دیں گے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اِنْ : نہیں يَّتَّبِعُوْنَ : بیروی کرتے اِلَّا : مگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَخْرُصُوْنَ : اٹکل دوڑاتے ہیں
اور اس زمین والوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ اگر تم نے ان کی بات مانی تو وہ تمہیں خدا کے راستے سے گمراہ کر کے چھوڑیں گے۔ یہ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور اٹکل کے تیر تکے چلاتے ہیں
ارشاد فرمایا : وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ط اِنْ یَّتَََّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُم اِلَّا یَخْرُصُوْنَ ۔ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِہٖ ج وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ ۔ (الانعام : 116۔ 117) (اور اس زمین والوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ اگر تم نے ان کی بات مانی تو وہ تمہیں خدا کے راستے سے گمراہ کر کے چھوڑیں گے۔ یہ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور اٹکل کے تیر تکے چلاتے ہیں۔ بیشک ! تیرا رب خوب جانتا ہے ‘ ان کو ‘ جو اس کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اور خوب جانتا ہے ‘ ان کو ‘ جو ہدایت یاب ہیں ) مسلمانوں کے لیے صرف وحی الٰہی پر مشتمل علم ہی قابل بھروسہ ہے انسانی علم کی کمزوری یہ ہے کہ وہ علم کی افادیت اور اس کی صداقت کا پوری طرح قائل ہے لیکن عجیب بات ہے کہ پوری طرح اس پر بھروسہ نہیں کرتا وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ کسی بڑی سے بڑی حقیقت کو اکثریت قبول نہیں کر رہی تو وہ بجائے حقیقت کا ساتھ دینے کے اکثریت کے ساتھ چلنا شروع کردیتا ہے۔ حالانکہ جب بھی کوئی حقیقت اور صداقت بگڑے ہوئے لوگوں کے سامنے آتی ہے تو وہ نہ صرف کہ اسکا خیر مقدم نہیں کرتے بلکہ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سوسائٹی کے لیڈر اور قوم کے اشرار اس لیے ان کی پشت پناہی کرنے لگتے ہیں کہ اس سے ان کو اپنا مفاد خطرے میں نظر آتا ہے اور عوام اس لیے اس کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ وہ اپنے رسوم و رواج اور اپنے آبائی طریقے کے بندے ہوتے ہیں اس لیے ہر وہ بات انکو بری لگتی ہے جو ان کے اختیار کردہ مذہبی روایات کے خلاف ہوتی ہیں چاہے وہ کتنی بڑی حقیقت کیوں نہ ہو اور اپنی تائید و تصدیق میں اپنی پشت پر کتنی ہی واضح حجتیں رکھتی ہو۔ یہاں قرآن کریم اسی حقیقت کو واشگاف کر رہا ہے کہ کسی صداقت اور حقیقت کو ماننے کے لیے اکثریت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو کہا جا رہا ہے کیا وہ خود صداقت ہے یا نہیں اور کیا سنجیدہ ‘ ذی علم اور صاحب کردار لوگ اس کے حق میں شہادت دیتے ہیں یا نہیں۔ چاہے ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ سقراط کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے بعض ناصحوں نے اس سے کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ سارا ایتھنز تمہارے خیالات سے برہم ہے کیا تم کو ان کی کچھ پرواہ نہیں اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ مجھے صرف اس ایک انسان کی پرواہ ہے جو دانش مند ہو۔ قرآن کریم یہاں صرف دانش مند انسان کی پرواہ کا حکم نہیں دیتا اگرچہ دانش مند انسان کی تائید ایک حیثیت رکھتی ہیں بلکہ وہ علم کے لیے علم کی تائید چاہتا ہے اور علم بھی وہ جس کے پیچھے علم الٰہی ہو یہی وہ علم ہے جو زندگی کا راہنما بن سکتا ہے اور انسانوں کو یہ علم انبیاء کی معرفت اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ وہی جانتا ہے ہدایت اور ضلالت کیا ہے اور کون برسرہدایت ہے اور کون برسرضلالت۔ اس لیے مسلمانوں کو صرف اسی وحی الٰہی کے عطا کردہ علم پر بھروسہ کر کے اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنی چاہیے۔
Top