Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 108
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ١۪ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَ
: اور
لَا تَسُبُّوا
: تم نہ گالی دو
الَّذِيْنَ
: وہ جنہیں
يَدْعُوْنَ
: وہ پکارتے ہیں
مِنْ
: سے
دُوْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
فَيَسُبُّوا
: پس وہ برا کہیں گے
اللّٰهَ
: اللہ
عَدْوًۢا
: گستاخی
بِغَيْرِ عِلْمٍ
: بےسمجھے بوجھے
کَذٰلِكَ
: اسی طرح
زَيَّنَّا لِكُلِّ
: ہم نے بھلا دکھایا ہر ایک
اُمَّةٍ
: فرقہ
عَمَلَهُمْ
: ان کا عمل
ثُمَّ
: پھر
اِلٰى
: طرف
رَبِّهِمْ
: اپنا رب
مَّرْجِعُهُمْ
: ان کو لوٹنا
فَيُنَبِّئُهُمْ
: وہ پھر ان کو جتا دے گا
بِمَا
: جو وہ
كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
: کرتے تھے
اور اللہ کے سوا یہ جن کو پکارتے ہیں ‘ ان کو گالی نہ دیجیو کہ وہ تجاوز کر کے بیخبر انہ اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ اسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نگاہوں میں اس کا عمل کھبا رکھا ہے۔ پھر ان کے رب ہی کی طرف ‘ ان سب کا پلٹنا ہے تو وہ انہیں اس سے آگاہ کرے گا ‘ جو وہ کرتے رہے ہیں
تمہید گزشتہ آیات میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ جہاں تک نبی کریم ﷺ کی دعوت کو سمجھنے اور قبول کرنے کا تعلق ہے اور اس کے فہم اور سہولت کے لیے جس طرح کے دلائل درکار تھے انھیں ایک ایک کر کے اس طرح کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ اب اگر کوئی آدمی اس دعوت کو سمجھنا اور راہ ہدایت اختیار کرنا چاہے تو اس کے لیے کسی چیز کی کمی نہیں بلکہ صاف فرمایا گیا کہ تمہارے رب کی جانب سے بصیرتوں کا وافر سامان اور سوجھ بوجھ کے دلائل کا ایک ذخیرہ نازل کردیا گیا ہے۔ اب بجز اس کے کہ کوئی آدمی آنکھیں بند کرلے اور اندھا بن کر راستہ طے کرنا چاہے تو وہ تو ظاہر ہے کسی نہ کسی کھائی میں گر کر مرے گا ورنہ ان ہدایات اور ان دلائل کے آجانے کے بعد انسانی زندگی کا راستہ طے کرنے میں اب کوئی دشواری باقی نہیں رہی۔ یوں سمجھئے کہ دعوت دین کا ایک چمن ہے جو چاروں طرف کھل گیا ہے اور رنگ و بو کا ایک سیل ہے جو مشام جان کو معطر کرنے کے لیے پوری طرح بروئے کار آرہا ہے اور دلائل کی باد بہاری ہے جو ایک ایک پھول سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی چہل قدمی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اگر کسی کی قوت شامہ جواب دے چکی اور کسی کی بینائی گم ہوچکی ہے تو ایسے ہزاروں چمن بھی اس کے لیے بیکار ہیں۔ اس صورت حال کو واضح کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ تسلی بھی دی جا رہی ہے کہ زندگی کے سفر کے لیے آپ کو جو ہدایات دے دی گئی ہیں آپ نہایت اطمینان سے اس پر سفر جاری رکھیئے اور انسانی اصلاح کا جو طریقہ آپ پر نازل کردیا گیا ہے اس کے مطابق لوگوں کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیئے لیکن اس کے باوجود بھی اگر لوگ ایمان قبول نہ کریں تو آپ ہرگز ان کی فکر نہ فرمائیں اور مخالفت کرنے والوں سے حق تبلیغ ادا کرنے کے بعد بالکل صرف نظر کرلیں۔ اس طرح سے ان آیات میں اتمام حجت ہوتا بھی نظر آتا ہے ایک ترک تعلق اور بےنیازی کے رویے کی بھی تلقین محسوس ہوتی ہے اور مشرکین کے عقائدباطلہ پر تنقید بھی مکمل ہوتی نظر آرہی ہے۔ اور اس صورت حال کے ساتھ ساتھ جب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مشرکین مکہ کی جانب سے مخالفت تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے اور اذیت رسانی کا عمل ظلم کی انتہائوں کو چھونے لگا ہے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں یقینا مسلمانوں کے دلوں اور ان کے دماغوں میں ایک ہیجان کی کیفیت ہوگی اور وہ مشرکین مکہ کے خلاف اپنے جذبات میں ایک آگ لگی ہوئی محسوس کرتے ہوں گے تو یہ ایک فطرت کا اصول ہے کہ جب کبھی معاملہ اشتعال کی حدوں کو چھونے لگے تو پھر صحیح سے صحیح راستے کی دعوت دینے والے لوگ بھی اپنے مخالفوں کے بارے میں احتیاط کے تقاضوں کو پوری طرح بروئے کار لانے سے عاجز ہوجایا کرتے ہیں اور اس بات کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر جذبات میں اعتدال پیدا نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ طریق تخاطب میں تلخی کا زہر نہ پیدا ہوجائے اور تبلیغ و دعوت کا عمل بجائے نفوذ اختیار کرنے کے کھلے مقابلے کی شکل اختیار نہ کر جائے۔ چناچہ ایسے موقع پر انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ اہل دعوت کو اپنے آپ پر قابو رکھنا اور احتیاط سے تقاضوں کو بروئے کار لانے کا حکم دیا جائے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں ایسی ہی حکمت پرور ہدایات دی جا رہی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے : وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَسُبُّوا اللہ َ عَدْوًا م بِغَیْرِ عِلْمٍ ط کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھُمْص ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ مَّرْجِعُھُمْ فَیُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (الانعام : 108) (اور اللہ کے سوا یہ جن کو پکارتے ہیں ‘ ان کو گالی نہ دیجیو کہ وہ تجاوز کر کے بیخبر انہ اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ اسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نگاہوں میں اس کا عمل پیوست کر رکھا ہے۔ پھر ان کے رب ہی کی طرف ‘ ان سب کا پلٹنا ہے تو وہ انھیں اس سے آگاہ کرے گا ‘ جو وہ کرتے رہے ہیں) مسلمانوں کو کفار کے معبودوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے اس آیت کریمہ کا سیاق کلام واضح کرتے ہوئے ہم نے جو گزارشات پیش کی ہیں ان کی تائید ابن جریر کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے اہل تأویل نے اس آیت کے شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابوطالب بیمار پڑے اور اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مرض ‘ مرض الوفات ثابت نہ ہو تو اشراف قریش جو اب اسلام اور مسلمانوں کی اذیت رسانی میں اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے تھے انھوں نے سوچا کہ ہم محمد ﷺ کو ابوطالب کی زندگی میں تو قتل نہ کرسکے۔ لیکن اگر ان کی وفات کے بعد ہم نے یہ اقدام کیا تو تمام عرب اپنی قومی روایات کے مطابق اسے نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے کہ جب تک بنو ہاشم کا سردار زندہ تھا تو تم یہ حرکت نہ کرسکے لیکن اب اس کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد تم نے یہ کیا کمینی حرکت کی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ حضرت ابو طالب کی زندگی ہی میں انہی کے ذریعے اس معاملے کا کوئی تصفیہ کر لیاجائے۔ چناچہ بڑے بڑے اشراف قریش حضرت ابوطالب کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کے بھتیجے نے ہمارے بتوں اور ہمارے دین پر مسلسل تنقید سے جو صورت حال پیدا کردی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم اسے دیر تک برداشت نہیں کرسکتے۔ بجائے اس کے کہ اس کا کوئی خطرناک نتیجہ برآمد ہو آپ اپنے بھتیجے سے ہمارا کوئی تصفیہ کرا دیں ہم نہیں چاہتے کہ یہ معاملہ زیادہ آگے بڑھے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے معبودوں پر تنقید کرنا بند کر دے ہمارے دین کو غلط کہنا چھوڑ دے۔ وہ اس بات پر ہم سے معاہدہ کرلے کہ وہ ہمارے معبودوں کو کچھ نہیں کہے گا اور ہمارے دین کو تنقید کا نشانہ نہیں بنائے گا تو ہم اس کے معبود اور اس کے دین کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے وہ اپنا راستہ اختیار کرے لیکن ہم سے تعرض کرنا چھوڑ دے۔ چناچہ حضرت ابوطالب نے آنحضرت ﷺ کو بلا بھیجا اور کہا کہ دیکھو یہ قریش کے بڑے بڑے سردار آئے ہیں یہ تم سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں اسے غور سے سنو۔ آپ نے براہ راست ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ ہماری خواہش یہ ہے کہ آپ ہمیں اور ہمارے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ برا بھلا نہ کہیں اور ہم آپ کو اور آپ کے معبود کو چھوڑ دیں گے اس طرح باہمی مخالفت ختم ہوجائے گی۔ حضور نے فرمایا کہ اچھایہ بتلائو اگر میں تمہاری یہ بات مان لوں تو کیا تم ایک ایسا کلمہ کہنے کے لیے تیار ہوجاؤ گے جس کے کہنے سے تم سارے عرب کے مالک ہوجاؤ اور عجم کے لوگ تمہارے مطیع فرمان بن جائیں۔ ابو جہل نے کہا کہ ایسا کلمہ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں بتلائو وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا { لا الہ الا اللہ } یہ سنتے ہی وہ لوگ بھڑک اٹھے۔ ابو طالب نے حضور سے کہا کہ میرے بھتیجے اس کلمہ کے سوا کوئی اور بات کہو کیونکہ تمہاری قوم اس کلمہ سے گھبرا گئی ہے۔ آپ نے فرمایا چچا جان میں تو اس کلمہ کے سوا کوئی دوسرا کلمہ نہیں کہہ سکتا۔ اگر یہ لوگ آسمان سے آفتاب اتار کر میرے ہاتھ پر بھی رکھ دیں میں جب بھی اس کلمہ کے سوا کوئی دوسری بات نہیں کہوں گا اس پر یہ لوگ ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ یا تو آپ ہمارے معبودوں کو برا کہنے سے رک جائیں ورنہ ہم آپ کو بھی گالیاں دیں گے اور آپ کے معبود کو بھی۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں بہت سی پر حکمت ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ سب سے پہلی بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا یعنی خطاب مسلمانوں سے ہے نبی کریم ﷺ سے نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کو اللہ نے جس طرح مکارم اخلاق اور تحمل کا پیکر بنایا تھا اس کو دیکھتے ہوئے آپ سے تو اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ ان کی کسی بات کا جواب دیتے ہوئے یا ان کی کسی بات پر مشتعل ہو کر گالی تو دور کی بات ہے کبھی کوئی درشت کلمہ بھی اپنی زبان سے نکالیں گے۔ البتہ مسلمانوں سے یہ اندیشہ کیا جاسکتا تھا کہ جب ان کے سامنے قریش دریدہ دہنی اور بدزبانی کا ارتکاب کریں وہ بھی جواب میں ان کے بتوں یا ان کے دوسرے معبودوں کے بارے میں کوئی سخت جملہ کہہ دیں۔ چناچہ انھیں خطاب کرکے یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ تم اسلام کا ہر اول دستہ ہو۔ اسلامی دعوت اور اسلامی قافلے کا دارومدار تمہاری تبلیغی مساعی پر ہے اور تمہاری تبلیغی مساعی کی کامیابی کا دارومدار تمہارے متحمل اور بردبار رویے پر ہے اگر تم نے مشرکین کے رویے سے مشتعل ہو کر کوئی سخت رویہ اختیار کرلیا اور انہی کی زبان میں جواب دینے لگے تو اس سے مقابلہ تو ممکن ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بات بہت مشکل ہوجائے گی کہ مخالفین میں سے کوئی آدمی اپنے پرانے دین اور پرانے رویے سے کٹ کر آپ کی دعوت کو قبول کرلے۔ اس لیے جس فرد یا جس گروہ کے پیش نظر اپنے نقطہ نگاہ کو لوگوں تک صرف پہنچانا ہی نہیں بلکہ ان کے دل و دماغ میں اتارنا بھی مقصود ہو ‘ اس کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت کو کبھی ذاتیات کا رنگ اختیار نہ کرنے دے۔ مخالفین اسے ہرچند مشتعل کر کے ذاتیات میں الجھانے کی کوشش کریں ‘ لیکن اس کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بات اصول و عقائد ہی تک محدود رہے۔ تنقید ہو تو صرف مخالفین کے خیالات پر لیکن اس کا اسلوب اس قدر نرم اور محبت آمیز ہونا چاہیے جو طبیعتوں پر اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اگر خدانخواستہ تلخ اسلوب اختیار کرلیا جائے اور انہی کی زبان میں جواب دینے کی کوشش کی جائے تو پھر اس بات کا شدید امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ مخالفین میں جذبہ جاہلی بھڑک اٹھے اور وہ بجائے بات قبول کرنے کے اس دعوت کو ختم کرنے کا فیصلہ کرنے لگیں۔ آیت کے دوسرے جملے میں اس کی حکمت واضح کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ انسانی فطرت یہ ہے کہ ہر شخص اور ہر قوم کو اپنی روایات ‘ اپنی رسوم اور اپنے معتقدات حد درجہ عزیز ہوتے ہیں وہ اس پر کبھی کھلی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ وہ ایسی کسی تنقید پر بھی مرنے مارنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ایک مبلغ اور ایک مصلح کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت کے اسلوب سے جذبات میں اشتعال نہ پیدا ہونے دے۔ ایک تو اپنے اعتقادات کے خلاف کسی بات کو قبول کرنا بجائے خود کسی بھی آدمی کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن اگر وہ یہ محسوس کرے کہ میرے اعتقادات کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی جا رہی ہے تو پھر تو وہ اپنے اعتقادات کے خلاف کسی بات پر غور و فکر کرنا تو دور کی بات ہے سننا بھی برداشت نہیں کرتا۔ اس لیے جس شخص یا جس قوم کے پیش نظر یہ مقصد ہو کہ مجھے لوگوں کے غلط خیالات کی اصلاح کر کے صحیح خیالات ان کے دل و دماغ میں اتارنے ہیں۔ وہ کبھی یہ غلطی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے درشت رویہ اختیار کریں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ مکہ معظمہ میں بیت اللہ کے سامنے بیٹھے ہوئے پاکستان کے ایک بڑے عالم دین سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ کل میرے پاس اسلام آباد سے ایک صاحب تشریف لائے۔ انھوں نے مجھے اپنی ایک تصنیف دی کہ میں اسے پڑھ کر اپنی رائے دوں۔ میں نے وہ تصنیف دیکھی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں مولانا مودودی کے خلاف نہایت غیض و غضب کے انداز میں فتوے کی زبان میں بہت درشت باتیں کہی گئیں تھیں۔ دوسرے روز وہ مصنف ان محترم مولانا سے اپنی کتاب کے بارے میں رائے معلوم کرنے کے لیے آئے تو انھوں نے ان سے فرمایا کہ یہ کتاب پڑھ کر مجھے خیال ہوا ہے کہ آپ مولانا مودودی اور ان کی جماعت کو غالباً اولیاء کا گروہ سمجھتے ہیں جو نہایت خدا رسیدہ اور بےنفس لوگ ہیں تو مصنف یہ سن کر نہایت متعجب ہوئے کہنے لگے حضرت میں نے تو انھیں اپنی کتاب میں گمراہ لکھا ہے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں تو یہ محترم مولانا کہنے لگے کہ میرا گمان ہے کہ آپ نے یہ کتاب اس غرض سے لکھی ہے کہ اسے پڑھ کرمولانا اور ان کے متبعین اپنے خیالات کی اصلاح کرلیں اور جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں اسے وہ مان لیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں میں نے یہ کتاب تو اسی مقصد کے لیے لکھی ہے تو یہ مولانا کہنے لگے کہ آپ نے اس مقصد کے لیے جو زبان اختیار کی ہے اس زبان میں کوئی آدمی بھی اپنی مخالفانہ بات کو صرف اسی صورت میں قبول کرسکتا ہے کہ وہ انتہائی بےنفس اور خدا رسیدہ آدمی ہو اسے اپنی مخالفت میں کہی جانے والی بات پر نہ غصہ آئے نہ اشتعال پیدا ہو ورنہ جہاں تک انسانی فطرت کا تعلق ہے وہ تو یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے مالوفات اور اپنے معتقدات اس حد تک عزیز ہوتے ہیں کہ وہ اس کے خلاف بات سننے کا بھی رودارا نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں تبلیغ و دعوت کے کام میں جو ناکامیاں دیکھنے میں آتی ہیں ان کے چند در چند اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم جب مخالف کے غلط خیالات پر تنقید کرتے ہیں تو ہماری تنقید صرف اس کے خیالات تک محدود نہیں رہتی بلکہ مخالف کی ذات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور دوسری یہ بات کہ ہمارا رویہ اس قدر جارحانہ ہوتا ہے کہ مخالف بات کو قبول کرنا تو درکنار ‘ سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتا بلکہ عموماً اس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے اور پھر ایک ایسا تصادم وجود میں آتا ہے جو بعض دفعہ جانبین کی جانیں لے کر بھی ٹلتا نہیں اس لیے یہاں پر فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے ہر امت کے لیے ان کے اعمال کو ان کے دلوں میں کھبا دیا ہے اور یہ ہم نے کیا ہے یعنی یہ اللہ نے جو فطری قوانین بنائے ہیں یہ انہی قوانین فطرت میں سے ہے۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کے بغیر انسانی اجتماعی زندگی میں شیرازہ بندی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہی وہ اپنی روایات اور اپنے مالوفات کے ساتھ گہری وابستگی ہے جو عصبیت کی شکل اختیار کر کے کسی بھی قوم کے اجتماعی وجود کو سہارا دیتی ہے اسی سے خاندان اور قومیں وجود میں آتی ہیں۔ اسی سے وطن کا دفاع کرنا انسان کا جزو ایمان بن جاتا ہے۔ اس لیے جہاں تک اس کی افادیت کا تعلق ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ اس لیے اس کو ختم کرنے کی کوئی کوشش بھی کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مفید عصبیت کو باقی رکھتے ہوئے اور اس فطری اصول کا لحاظ کرتے ہوئے جو غلط چیزیں اس میں شامل ہوگئی ہیں جس نے اس کی فطری افادیت کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے انھیں دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے یہاں مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا کہ قوم کے عقائد و اعمال کی تطہیر تو ضروری ہے لیکن یہ کام نہایت حکمت و دانش کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جارحانہ طریقے سے فطری تصادم شروع ہوتا ہے۔ اس سے بچتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تنقید خیالات کی حد تک رہے۔ ذاتیات اس میں شامل نہ ہونے پائیں اور اسلوب ایسا میٹھا اور دل نشین ہو کہ سننے والا یہ محسوس کرے کہ میرے دل پر شبنم برس رہی ہے۔ اس کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے تئیں کسی بھی تبدیلی کو شاید قبول کرنا گوارا کرلے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر ایک کو صرف اپنا حساب دینا ہے اس آیت کریمہ کے تیسرے جملے میں مسلمانوں کو ایک طرح سے تسلی دی گئی ہے کہ تم نے آنحضرت ﷺ کی رفاقت میں تبلیغ دین اور دعوت الی اللہ کے سلسلے میں جو مساعی انجام دی ہے اور اس راستے میں جس طرح بڑی سے بڑی تکلیفیں برداشت کیں اس کے بعد بھی اگر لوگ دین کے مقابلے میں اپنی معاندانہ روش سے باز نہیں آتے تو یقینا آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور کبھی کبھی طبیعتوں میں اشتعال بھی پیدا ہونے لگتا ہے کہ یہ لوگ آخر اپنی انسانیت کہاں کھو بیٹھے ہیں کہ ہم ان کے سامنے وہ بات رکھ رہے ہیں جو انسانیت کا سرمایہ اور فطرت اور عقل کا تقاضہ ہے اور یہ اس کے مقابلے میں شرک کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور اس پر انھیں اصرار بھی ہے حالانکہ شرک کو نہ عقل قبول کرتی ہے اور نہ فطرت اسے برداشت کرتی ہے اور جہاں تک انسانی شرف کا تعلق ہے یہ کسی طرح اس سے میل نہیں کھاتا لیکن عجیب بات ہے کہ مشرکین کو اس پر پھر بھی اصرا رہے ایسی باتیں سوچ کر یقینا صحابہ کے جذبات میں ایک ہیجان پیدا ہوتا۔ انھیں تسلی دی جا رہی ہے کہ تمہیں اس صورت حال سے اس درجہ متاثر نہیں ہونا چاہیے کہ تم جذباتی ہیجان کا شکارہو جاؤ کیونکہ کہ تم ایک فرض انجام دے رہے ہو اور یہ سمجھ کر انجام دے رہے ہو کہ اسی پر عاقبت میں سرخرو ہونے کا دارومدار ہے اور ان کے بارے میں تم اس لیے متفکر ہو کہ اگر وہ تمہاری دعوت کو قبول نہیں کرتے تو عاقبت میں انھیں سخت انجام سے دوچار ہونا پڑے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ عاقبت سے تمہیں بھی دوچار ہونا ہے اور انھیں بھی اور وہ لوگ اگر اس کی پرواہ نہیں کرتے تو تم ان کے اس رویے کو عاقبت پر چھوڑو۔ اللہ تعالیٰ وہاں ان سے خود پوچھ لے گا کہ وہ دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں۔ تم نے اپنا فرض انجام دے کر اپنی عاقبت سنوار لی اور وہ لوگ اگر اپنی عاقبت کے بگاڑ پر تلے ہوئے ہیں تو تمہارا اس پر مشتعل ہونا یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہر آدمی اپنے اعمال کا اللہ کے سامنے جواب دہ ہے یہ لوگ بھی جب اس کے پاس پہنچیں گے تو اپنے اعمال کا پورا سرمایہ لے کر جائیں گے وہاں انھیں اندازہ ہوجائے گا کہ ہم نے دنیا میں کس قدر خسارے کا سودا کیا۔ جس جائز کام کے کرنے سے مفاسد کا خطرہ ہو اسے چھوڑنا واجب ہوجاتا ہے یہ چند اہم نکات ہیں جو اس آیت کریمہ کی تشریح کے ضمن میں ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کیے ہیں لیکن جب مجموعی طور پر اس آیت کریمہ کی ہدایات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس سے چند مزید سبق حاصل ہوتے ہیں جن کا ذکر کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ سب سے پہلے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت میں اس بات سے روکا گیا ہے کہ یہ مشرکین جن کو معبود کے طور پر پکار رہے ہیں تم انھیں گالی نہ دو کیونکہ ان کے معبود دو طرح کے ہیں ایک کا تعلق تو محض ان کے تصورات سے ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہی تصورات کو انھوں نے محسوس شکل دینے کے لیے ان کے بت بنائے ‘ ان کے مجسمے کھڑے کیے اور ان کی پوجا شروع کردی۔ اور دوسرے وہ ہیں جن کی واقعی شخصیتیں ہیں اور وہ ساتھ ساتھ تقدس اور احترام کا رشتہ بھی رکھتی ہیں مثلاً یہ مشرکین فرشتوں کو پوجتے تھے۔ وہ یقینا قابل احترام ہستیاں ہیں اسی طرح بعض انبیاء کرام کی یہ پوجا کرتے تھے اور ان کے بارے میں مافوق الفطرت احساسات رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس مشرکانہ رویے پر تنقید تو ہوسکتی ہے لیکن جن کو انھوں نے شریک بنا رکھا ہے وہ انبیاء کرام ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے بھی واجب الاحترام ہیں اس لیے ان کو گالیاں دینے یا برا کہنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور دوسری بات جو اس سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ توحید کو مثبت انداز میں ثابت کرنا اور عقل و فطرت کے مطابق ٹھہرانا اور شرک کو بالکل بےثبات و بےبنیاد ثابت کرنا یہ دعوت کا اصل مقصود ہے اور جہاں تک تعلق ہے ان کے معبودوں کو برا کہنے کا اس کو زیادہ سے زیادہ ایک جائز کام کہا جاسکتا ہے لیکن مقصود تو بالکل نہیں کیونکہ ایک مبلغ کے پیش نظر ایک مشرک سے شرک کو چھڑا کر اسے توحید کے راستے پر ڈالنا ہے۔ دل شکنی اور دل آزاری تو کسی طرح بھی ایک مبلغ کے پیش نظر نہیں ہوسکتی ‘ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایسا کوئی عمل جو بظاہر جائز بھی ہو لیکن مقاصد شرعیہ میں شامل نہ ہو لیکن اس سے کچھ مفاسد کے پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ان مفاسد کے پیش نظر اس عمل کو ترک کردینا واجب ہوجاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ایک ارشاد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی نہ دے۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دے آپ نے فرمایا کہ ہاں کوئی انسان خود تو اپنے ماں باپ کو گالی نہیں دیتا لیکن جب وہ کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور اس کے نتیجے میں وہ دوسرا اس کے ماں باپ کو گالی دے تو اس گالی دلوانے کا سبب چونکہ یہ خود بنا ہے اس لیے یوں سمجھو کہ اس نے خود گالی دی۔ ایک دوسری حدیث سے بھی ہمیں اس کی مثال ملتی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) سے فرمایا کہ بیت اللہ زمانہ جاہلیت میں کسی حادثہ میں منہدم ہوگیا تھا تو قریش مکہ نے اپنے وسائل سے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن وسائل کی کمی کے باعث اس کا کچھ حصہ تعمیر سے باہر رکھنا پڑا جسے آج حطیم کہا جاتا ہے اور دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ بیت اللہ کے مشرق اور مغرب میں دو دروازے تھے ایک نکلنے کے لیے تھا اور دوسرا داخل ہونے کے لیے۔ لیکن قریش نے مغربی دروازہ بند کردیا صرف مشرقی دروازہ کھلا رہنے دیا اور مزید انھوں نے یہ کیا کہ دروازے کو بجائے زمین کے برابر رکھنے کے سطح زمین سے خاصہ بلند رکھا تاکہ کوئی شخص بدوں اجازت داخل نہ ہو سکے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بیت اللہ کی موجودہ تعمیر کو منہدم کر کے حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی تعمیر کے مطابق بنا دوں۔ مگر خطرہ یہ ہے کہ تمہاری قوم یعنی عرب نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں بیت اللہ کو منہدم کرنے سے کہیں ان کے دلوں میں کوئی شبہات نہ پیدا ہوجائیں اس لیے میں نے اپنے ارادہ ترک کردیا۔ ظاہر ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کو بنائِ ابراہیمی کے مطابق بنانا ایک کار ثواب تھا مگر اس پر لوگوں کی ناواقفیت کے سبب ایک خطرہ کا ترتب دیکھ کر آپ نے اس ارادہ کو ترک فرما دیا اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر کسی جائز بلکہ ثواب کے کام پر کوئی غلط نتیجہ نکلنے کا اندیشہ ہو تو وہ جائز کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ بہت ضروری ہے کہ کسی فساد اور خرابی کے اندیشے سے ہر کام نہیں چھوڑا جاسکتا بلکہ اس میں تقسیم یہ ہے کہ بعض اسلامی احکام مقاصد شرعیہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو اپنی ذات میں صرف اطاعت ہیں اور ان پر ثواب ملنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ کسی فساد اور خرابی کے اندیشے سے صرف یہ ثواب اور اطاعت کے کام چھوڑے جاسکتے ہیں۔ رہے وہ کام جن کی حقیقت مقاصد شرعیہ کی ہے ان کو کسی طرح چھوڑا نہیں جاسکتا۔ مثلاً اگر جہاد فرض ہوجائے تو جہاد و قتال کو اس خیال سے نہیں چھوڑاجا سکتا کہ اس کے نتیجے میں خونریزی ہوگی آبادیاں برباد ہوں گی ‘ بہت سے بچے یتیم ہوجائیں گے۔ اسی طرح تبلیغ دین ایک فریضہ ہے وہ محض اس خیال سے روکا نہیں جاسکتا کہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں یا اس کے نتیجے میں کوئی حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت حسن بصری اور امام محمد بن سیرین ایک جنازہ کی نماز میں شرکت کے لیے گئے وہاں دیکھا کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اجتماع ہے۔ اس کو دیکھ کر ابن سیرین تو واپس آگئے مگر حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ لوگوں کی غلط روش کی وجہ سے ہم اپنے ضروری کام کیسے چھوڑ دیں۔ نماز جنازہ فرض ہے اس کو کسی دینی نقصان کے اندیشے سے چھوڑا نہیں جاسکتا۔ ہاں اس بات کی کوشش کی جائے کہ کی خرابی باقی نہ رہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل ہیں اگر ان کو کرنے سے کچھ لوگ غلط فہمی یا غلط کاری کا شکار ہوتے ہوں تو ان کاموں کو ہرگز نہ چھوڑا جائے ہاں جو کام مقاصد اسلامیہ میں داخل نہیں اور ان کو ترک کردینے سے کوئی دینی مقصد فوت نہیں ہوتا ‘ ایسے کاموں کو دوسروں کی غلط فہمی یا غلط کاری کے اندیشے کی وجہ سے چھوڑ دینا چاہیے۔ مسلمانوں کو تبلیغ دین اور دعوت الی اللہ کے سلسلے میں نہایت گراں قدر پر از حکمت ہدایات دینے کے بعدروئے سخن پھر مشرکین کی طرف پھر گیا ہے اور اگلی آیت کریمہ میں ان کے مطالبات اور ان کی مشرکانہ روش کو بیان کیا گیا ہے جس کو دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور انسانی فطرت کے بگاڑ کی انتہاء بھی معلوم ہوتی ہے۔
Top