Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 105
وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِيَقُوْلُوْا : اور تاکہ وہ کہیں دَرَسْتَ : تونے پڑھا ہے وَلِنُبَيِّنَهٗ : اور تاکہ ہم واضح کردیں لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
اور اسی طرح ہم اپنی دلیلیں مختلف اسلوبوں سے پیش کرتے ہیں (تاکہ ان پر حجت قائم ہو) اور تاکہ وہ بول اٹھیں کہ تم نے اچھی طرح پڑھ کر سنا دیا اور تاکہ ہم اس کو اچھی طرح واضح کردیں ان لوگوں کیلئے جو جاننا چاہیں
اسی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَلِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَیِّنَہٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ (الانعام : 105) (اور اسی طرح ہم اپنی دلیلیں مختلف اسلوبوں سے پیش کرتے ہیں تاکہ ان پر حجت قائم ہو اور تاکہ وہ بول اٹھیں کہ تم نے اچھی طرح پڑھ کر سنا دیا اور تاکہ ہم اس کو اچھی طرح واضح کردیں ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں ) اللہ تعالیٰ اپنی دلیلیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے یعنی جس طرح ہم نے گزشتہ کئی آیات میں اپنی نشانیاں جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں اور جس کا تعلق انسانی زندگی سے ہے۔ جن میں سے بعض کے رشتے خود انسانی ضمیر کے اندر پیوست ہیں اور بعض ایسی نشانیاں جن سے عقل راہنمائی حاصل کرتی اور دل کو جلا ملتی ہے۔ مختلف پہلوئوں سے پوری طرح کھول کر بیان کی ہیں۔ اسی طرح پورے قرآن کریم میں بار بار ان نشانیوں کو مختلف اسالیب سے بیان کیا گیا مقصود اس سے صرف یہ ہے کہ انسانوں کو اس بات کی شکایت نہ رہے کہ ایمان کو قبول کرنے کے لیے ہمیں وہ آسانیاں فراہم نہ کی گئیں جس سے ہمارے دل و دماغ ہموار ہوتے اور ہماری دماغی اور قلبی الجھنیں دور ہوتیں اور ہم آسانی سے ایمان قبول کرلیتے یعنی اتمام حجت اور انسان کی راہنمائی کے لیے جیسے جیسے دلائل ضروری تھے ہم نے یہاں بھی اور پورے قرآن کریم میں بھی جا بجا ان کی چمن آرائی کی ہے ‘ جو آدمی بھی اس گلستان میں داخل ہوتا ہے اسے یہ شکایت نہیں رہتی کہ میرے مشام جاں کو معطر کرنے کا ساماں نہیں کیا گیا یا یہاں رنگا رنگ پھولوں کی کمی ہے میں نظر افروزی کے اسباب کہاں سے لائوں۔ چناچہ دلائل اور نشانیاں اس فراوانی اور زور دار طریقے سے بیان کی گئی ہیں کہ جو لوگ ایمان قبول نہیں بھی کرتے وہ بھی بالعموم پکار اٹھتے ہیں یا دلوں میں اس بات کے قائل ہوجاتے ہیں چاہے اپنے دوسرے مفادات کی وجہ سے ایمان قبول کرنے کا اعلان نہ کریں کہ واقعی پیغمبر نے اللہ کی کتاب کو سنانے اور دعوت دین پیش کرنے میں کوئی کمی نہیں کی اور اس نے پوری طرح ایک ایک بات ہمیں پڑھ کر سنا دی ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس طرح مختلف طریقوں سے آیات بیان کی ہیں کہ بالآخر یہ لوگ کہہ اٹھیں دَرَسْتَ کہ واقعی اے پیغمبر تو نے اللہ کی کتاب پڑھ کر ہمیں سنا دی۔ چاہے وہ اس بات کا اعتراف اپنی زبان قال سے کریں اور چاہے زبان حال سے۔ ” دَرَسْتَ “ کا مطلب دَرَسْتَ کا یہاں میں نے ترجمہ کیا ہے کہ تو نے پڑھ کے سنا دیا ‘ واقعی ہم اس کے قائل ہوگئے اور ہم تک یہ بات پہنچ گئی حقیقت یہ ہے کہ یہ محض قرآن کا دعویٰ نہیں بلکہ امر واقع ہے۔ پہلی امتوں میں بھی لوگ اس اعتراف پر مجبور ہوتے رہے۔ خود رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جن لوگوں سے آپ کو واسطہ پڑا اور آپ نے جس طرح ان کو اللہ کا دین پہنچایا اور جس طرح کتاب اللہ کی آیتیں بار بار ان کو پڑھ کر سنائیں اور اس کی تعلیمات جس طرح طریقے طریقے سے ان کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کا بدترین دشمن ابوجہل بھی اپنی بےمثل دشمنی کے باوجود اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا حالانکہ اس کی بےمثل دشمنی کا تقاضہ یہ تھا کہ وہ اس بات کا اعتراف کبھی نہ کرتا اور کبھی حضور کی صداقت کی بات زبان پر نہ لاتا کیونکہ اس کی دشمنی تاریخ میں ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ ہر پیغمبر کو اپنے مرتبہ اور مقام کے مطابق دشمنوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بد ترین دشمن فرعون سے واسطہ پڑا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی دشمنی میں ثابت قدم نہ رہ سکا۔ جب موت سامنے نظر آئی اور بحرقلزم میں ڈوبنے لگا تو اس کی زبان پر کلمہ جاری ہوگیا لیکن قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے ایمان کو قبول نہیں کیا گیا بلکہ فرمایا گیا کہ تم اب ایمان لاتے ہو جب کہ اس سے پہلے تم نافرمان رہے ہو اور تم بدترین مفسدین میں سے تھے۔ لیکن ابوجہل جب جنگ بدر میں زخمی ہو کر سکرات الموت میں مبتلا تھا۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود اس کے سر پر پہنچے اسے ملامت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اب تم نے دیکھ لیا اپنا انجام تو وہ نہایت بےفکری سے کہنے لگا کہ کیوں شیخی بگھارتے ہو ایک آدمی کو اس کی قوم نے مار ڈالاتو اس میں شیخی بگھارنے اور بڑھ ہانکنے والی کیا بات ہے اور جب حضرت عبد اللہ ابن مسعود اس کے سینے پر بیٹھ کر اس کی گردن کاٹنے لگے تو کہنے لگا کہ نیچے سے گردن کاٹنا تاکہ لمبی گردن دیکھ کر لوگوں کو اندازہ ہو کہ یہ کسی سردار کی گردن ہے۔ ایسا بدترین دشمن جو مرتے دم تک اپنا رویہ نہ بدلے شاید ہی تاریخ میں کسی نے دیکھا ہو۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے اسے اس امت کا بدترین فرعون قرار دیا۔ لیکن اس کے اعتراف کا حال یہ تھا کہ اپنے ایک ساتھی کے سوال کے جواب میں اس نے ایک دفعہ کہا کہ میں محمد ﷺ کو جھوٹا نہیں کہتا وہ ہمارے سامنے پلا بڑھا اور جوان ہوا اور اب اس کے سر میں سفید بال آگئے ہیں لیکن اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس لیے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ نبوت کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے میں جو اس پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قبیلہ بنو ہاشم کا آدمی ہے اس کی عزت اور اس کی کامیابی بنو ہاشم کی عزت اور کامیابی ہے ہم قبیلوں میں ہمیشہ چشمک جاری رہتی ہے اور ہر قبیلہ دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم مسلسل بنو ہاشم سے مقابلہ کرتے رہے اب جبکہ ہم ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوگئے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی بھی ہے اب اگر ہم اسے بطور نبی قبول کرلیں تو یہ ایک ایسی عزت اور تفوق کی بات ہے جس میں ہم ان کی کبھی ہمسری نہیں کرسکتے۔ اس لحاظ سے بنو ہاشم ہمیشہ کے لیے ہم سے آگے بڑھ جائیں گی۔ اس وجہ سے میں محمد ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ آپ اندازہ فرمایئے کہ رسول اللہ ﷺ کی تبلیغ و دعوت کا یہ اثر ہے کہ بدترین دشمن بھی آپ کی صداقت کا انکار کرنے سے عاجز ہے۔ دَرَسْتَ کا دوسرامعنی ایک اور ہے وہ یہ ہے کہ تم جو ایک حیرت انگیز کلام ہمارے سامنے پیش کر رہے ہو جس کی زبان فصاحت و بلاغت میں اس مقام کو پہنچی ہوئی ہے کہ جس کا مقابلہ کرنا انسانی طاقت سے ماورا ہے اور اس میں جو علوم و معارف بیان کیے جا رہے ہیں ہمارے ماحول میں تو کیا پوری دنیا میں بھی اس کی مثال موجود نہیں۔ اس میں ایسے ایسے تاریخی حقائق ذکر کیے جا رہے ہیں جس سے انسان آج تک بیخبر رہا ہے اور اگر کہیں کوئی پیشگوئی کی جا رہی ہے تو وہ بالآخر نوشتہ دیوار اور پتھر کی لکیر ثابت ہوتی ہے۔ ایسی حیرت انگیز کتاب محمد ﷺ کے بس کی بات تو نہیں ہوسکتی وہ تو ہمارے بھائی کے بیٹے ‘ ہمارے سردار کے پوتے ہیں ‘ اسی ماحول میں ان کی تربیت ہوئی جس میں ہم پلے بڑھے وہ ہماری طرح بالکل امی محض ہیں۔ ان کی معلومات کے ذرائع وہی ہیں جو ہمارے ہیں اور وہ وہی زبان بولتے ہیں جو ہم سب قریش بولتے ہیں۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایسی بےمثال زبان اور ایسے علوم و معارف کی حامل کتاب ہمارے سامنے پیش کردیں جس کی ان سے کسی طرح توقع نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ جب وہ قرآن سے ہٹ کر کوئی بات کہتے ہیں تو اس کی زبان میں اور قرآن کی زبان میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب انھوں نے تو نہیں لکھی البتہ کوئی انھیں سکھاتا پڑھاتا ہے یا لکھ کے دے دیتا ہے اور وہ اسے لا کر لوگوں کو سنا دیتے ہیں۔ چناچہ یہی بات کہی جا رہی ہے کہ تم کہیں سے پڑھ کے آگئے ہو یا تمہیں کسی نے سکھا پڑھا دیا ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس سلسلے میں کسی عجمی غلام کا نام بھی لیا جو مکہ معظمہ میں رہتا تھا لیکن جس کا اصل تعلق کسی عجمی ملک سے تھا۔ وہ وہاں کی چونکہ بعض باتیں ذکر کرتا رہتا تھا اس لیے لوگوں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ حیرت انگیز باتیں وہ حضور کو سکھاتا ہے تو قرآن کریم نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نادانوں وہ ایک عجمی شخص ہے وہ ٹھیک سے عربی بھی نہیں بول سکتا اور یہ قرآن تو عربی مبین میں ہے تو آخر اس نے ایسی فصیح وبلیغ زبان میں کتاب کیسے پیش کردی اور پھر ایک عجمی آدمی بقول تمہارے ایسی کتاب لاسکتا ہے تو تم سارے ِمل کر اس کی مثال کیوں نہیں پیش کرتے۔ آپ جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں مختلف مواقع پر عربوں کو اور باقی ساری دنیا کو بار بار یہ چیلنج دیا کہ تم اس قرآن جیسی کتاب لکھ کے لائو یا اس جیسا کوئی حصہ بنا کرلے آئو اور اس میں جنات سے اگر مدد لے سکتے ہو تو وہ بھی لے لو لیکن صدیاں گزرنے کے بعد بھی آج تک اس چیلنج کا جواب نہ دیاجا سکا مزید فرمایا کہ جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے اور جو اس قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ان کا حال تو یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی بات کے پردے میں اپنی محرومی کو چھپانا چاہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ علم کے طالب ہیں ہم نے مختلف اسالیب میں قرآنی تعلیمات کو ان کے لیے کھول کر بیان کردیا ہے جو لوگ اس سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ان کی تشنگی دور کرنے کا سامان اس میں موجود ہے۔ ان آیات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی دعوت ایک سخت کشمکش کے دور سے گزر رہی ہے۔ قرآن کریم بارش کی طرح نازل ہو رہا ہے۔ دلائل کی روشنی سورج کی کرنوں کی طرح پھیل رہی ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ اس کی قبولیت کے لیے دل کھلیں ‘ مخالفت زور پکڑتی جا رہی ہے اور مخالفین مخالفت میں ہر طرح کا حربہ آزمانے پر تل گئے ہیں۔ وہ آنحضرت کو ناکام کرنے کے لیے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اذیتیں بھی پہنچا رہے ہیں اور نئے سے نئے مطالبوں کے ساتھ الجھانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ فطری بات ہے کہ آنحضرت اور مسلمان اس صورت حال سے متاثر ہو کر پریشان بھی ہوتے ہیں اور بار بار اللہ سے ان کو ایمان دینے کی دعائیں بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں آنحضرت اور مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے :
Top