Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 10
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدِ : اور البتہ اسْتُهْزِئَ : ہنسی کی گئی بِرُسُلٍ : رسولوں کے ساتھ مِّنْ : سے قَبْلِكَ : آپ سے پہلے فَحَاقَ : تو گھیر لیا بِالَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہوں نے سَخِرُوْا : ہنسی کی مِنْهُمْ : ان سے مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : وہ تھے بِهٖ : اس پر يَسْتَهْزِءُوْنَ : ہنسی کرتے
اور تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو جن لوگوں نے ان میں سے مذاق اڑایا ان کو اس چیزنے آن گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے
وَلَقَدِ اسْتُھْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْھُمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ ۔ (اور تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو جن لوگوں نے ان میں سے مذاق اڑایا ان کو اس چیز نے آن گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے) (الانعام : 10) جیسے کہ اس سے پہلے تذکرہ ہوچکا ہے کہ اس سورة کی بیشتر آیات کا نزول مکی زندگی کے آخری دور میں ہوا اور یہ وہ زمانہ ہے ‘ جس میں آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں پر مظالم کی انتہاء ہوگئی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اہل مکہ نے دعوت حق کی طرف سے کان بالکل بند کرلیے ہیں اور اسلامی تحریک جیسے ایک بند گلی میں داخل ہوگئی ہے ‘ جس کا بظاہر کوئی مستقبل نہیں۔ ایسی صورتحال میں رسول اللہ ﷺ پر جو گزرتی ہوگی اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ اس لیے سرکار دو عالم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ اس بات کی بالکل پرواہ نہ کریں کہ یہ لوگ آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ حقیقت میں یہ لوگ آپ کا مذاق نہیں اڑاتے بلکہ اللہ کے دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مزید یہ بات بھی کہ اللہ کے رسول کے ساتھ لوگوں کا یہ رویہ ‘ پہلی دفعہ وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ تو کافروں کی ایک مستقل روایت رہی ہے کہ جب بھی کوئی دنیا میں اللہ کا رسول ‘ اللہ کی طرف سے دعوت حق لے کر آیا ہے تو انھوں نے ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا ‘ اس کو تکلیفیں پہنچائیں اور حتی الامکان کوشش کی کہ اس کی دعوت پھیلنے نہ پائے تو یہ تو ان کا پرانا وطیرہ ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اللہ کے رسولوں نے ہمیشہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے امکانی مساعی سے کبھی دریغ نہیں کیا اور وہ برابر اپنی دعوت میں لگے رہے۔ اس لیے آپ انبیاء کرام اور ان کی قوموں کی اس پوری تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ‘ دل گرفتہ ہونے کی بجائے حوصلہ مندی اور اولوالعزمی کی نئی مثالیں قائم فرمائیں کیونکہ ؎ زمانہ یونہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتا ہے وہ درس صلح دیتے ہیں یہ ان سے جنگ کرتا ہے اس آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں ارشاد فرمایا گیا کہ اے پیغمبر ! آپ یہ بھی نہ سمجھئے کہ یہ لوگ جو تمسخر اڑا رہے ہیں ‘ ان کو ہمیشہ اس کی کھلی چھٹی ملی رہے گی۔ ایسا نہیں ہوگا ‘ بلکہ وہ وقت دور نہیں ‘ جب یہ لوگ اپنے جرائم کی پاداش میں پکڑے جائیں گے اور یہی استہزاء اور یہی ان کی حرکتیں ‘ ان کے لیے وبال جان ثابت ہوں گی اور عذاب کا باعث بن جائیں گی۔
Top