Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 81
اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَۙ
اَفَبِھٰذَا الْحَدِيْثِ : کیا بھلا اس بات کے بارے میں اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ : تم معمولی سمجھنے والے ہو۔ انکار کرنے والے ہو
کیا تم اس کلام سے بےاعتنائی برتتے ہو
اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْھِنُوْنَ ۔ وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَـکُمْ اَنَّـکُمْ تُکَذِّبُوْنَ ۔ (الواقعۃ : 81، 82) (کیا تم اس کلام سے بےاعتنائی برتتے ہو۔ اور اپنا حصہ تم یہی لیتے ہو کہ اس کو جھٹلاتے ہو۔ ) قرآن سے بےاعتنائی برتنے والوں کو تنبیہ مُدْھِنُوْنَ ، اِدْھَانٌ سے ہے۔ اس کا معنی ہے کسی چیز سے مداہنت برتنا، اہمیت نہ دینا، اعراض کرنا وغیرہ۔ قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے کے بعد تعجب کی صورت میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ تم نے اچھی طرح یہ بات سن لی کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ انسانی زندگی کی رہنمائی کے لیے اس کے سوا دنیا میں ایسی کوئی کتاب نہیں جو انسان کو مکمل طور پر اعتماد دے سکتی ہو۔ اور جس کا پیش کردہ نظام ہر طرح کی غلطی اور ہر طرح کی تبدیلی سے محفوظ ہو۔ اور جس پر زمانے کے نشیب و فراز کا اثر نہ ہوسکتا ہو۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایسی کتاب تم پر نازل کی گئی ہے اور تم اسے کسی طرح کی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہو۔ بلکہ تم اس بات سے بھی انکاری ہو کہ اس کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اگر یہ تمہاری بدذوقی اور بےبصیرتی ہوتی تو اسے ایک عذر قرار دیا جاسکتا تھا۔ لیکن اُمِّی ہونے کے باوجود دنیوی معاملات میں تمہاری ذہانت و فطانت ایک مسلّم امر ہے۔ تم دراصل حسد کے مارے اور دشمنی میں اندھے لوگ ہو جس نے تم سے بصیرت چھین لی ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے تمہاری زندگیوں کے لیے رزق کی حیثیت سے اتارا تھا۔ جس طرح کوئی شخص غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح تمہاری معنوی، روحانی اور مِلّی زندگی کا دارومدار اس کتاب کی تعلیم پر تھا لیکن تم نے اسے رزق بنانے کی بجائے اپنا حصہ اس سے یہ سمجھا ہے کہ تم بس اس کی مخالفت کرو۔ امامِ رازی کے نزدیک اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم قرآن کی تکذیب اس لیے کر رہے ہو کہ تمہارے خیال میں اس کی تعلیمات تمہاری عیش پرستی کے لیے تو نقصان دہ یقینا ہوگی لیکن تم اسے اپنے کاروبار اور اپنی دولت کے حصول کے لیے بھی نقصان دہ سمجھتے ہو۔ اس لیے اپنی خوش عیشی اور اپنی دولت و رفاہیت کو باقی رکھنے کے لیے تم نے اس کی مخالفت کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
Top