Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 71
اَفَرَءَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمُ : کیا پھر دیکھا تم نے النَّارَ : آگ کو الَّتِيْ تُوْرُوْنَ : وہ جو تم سلگاتے ہو
ذرا غور تو کرو اس آگ پر جس کو تم جلاتے ہو
اَفَرَئَ یْتُمُ النَّارَالَّتِیْ تُوْرُوْنَ ۔ ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْ تُمْ شَجَرَتَھَـآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِـُٔوْنَ ۔ نَحْنُ جَعَلْنٰـھَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ ۔ (الواقعۃ : 71 تا 73) (ذرا غور تو کرو اس آگ پر جس کو تم جلاتے ہو۔ اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں۔ ہم نے اس کو یاددہانی اور حاجت مندوں کے لیے سامان زیست بنایا ہے۔ ) آگ جیسی نعمت سے استدلال غذا اور پانی جیسی نعمتوں کے احسانات کا ذکر کرنے کے بعد، اب آگ کی نعمت کا ذکر فرمایا۔ یہ بھی انسان کی غذائی ضرورتوں میں بہت اہم حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ضرورت تو آج کے جدید اور متمدن دور میں بھی کم نہیں ہوئی بلکہ شاید پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ پہلے تو صرف ہاتھ تاپنے اور کھانا پکانے کے کام آتی تھی اور اب تو ہماری صنعت اور ایجاد کا بہت کچھ دارومدار آگ پر ہے۔ پرانے وقتوں میں جبکہ دیاسلائی ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی، آبادیوں میں بھی آگ کو سنبھال کر رکھا جاتا تھا اور صحرا میں سفر کرنے والوں کے لیے تو اس کا حصول بہت بڑی نعمت تھی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے پتھر پیدا فرمائے جن کی رگڑ سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ اور اس سے عجیب تر بات یہ کہ اس نے دو ایسے درخت پیدا کیے جن کی ہری بھری دو ٹہنیوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر آگ بھڑکائی جاسکتی تھی۔ ان کو مرخ اور عفار کہتے ہیں۔ اسی لیے ارشاد فرمایا کہ جن درختوں سے تم آگ نکالتے ہو کیا وہ درخت تم نے پیدا کیے ہیں یا ہم نے پیدا کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے، انسان تو کبھی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ انسان کے لیے یہ بات تعجب خیز ہے کہ جہنم کی آگ میں زقوم کا درخت کیسے پیدا ہوگیا۔ اور کتنے ملحدین ہیں جو اسے اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اے کاش ! وہ کبھی یہ بھی سوچیں کہ جس پروردگار نے ایسے درخت پیدا کیے ہیں جن کی تر شاخوں کے ٹکرانے سے آگ جھڑتی ہے وہ جہنم میں درخت کیوں نہیں پیدا کرسکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ درخت اور آگ دو متصادم چیزیں ہیں جن میں یکجائی نہیں ہوسکتی۔ لیکن اس کا ہمارے پاس کیا جواب ہے کہ یہ کائنات تو متخالف عناصر کی رزم گاہ ہے لیکن وہ آپس میں ٹکرانے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے قانونِ برتر کی اطاعت اور تعمیل میں لگے رہتے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ اس آگ کو ہم نے یاددہانی کا ذریعہ بنایا ہے کہ وہ روشن ہو کر انسان کو یاددلاتی رہے کہ اگر آگ نہ ہوتی تو انسان کی زندگی حیوان کی زندگی سے مختلف نہ ہوتی۔ انسان بھی حیوان کی طرح کچی غذائیں کھا کر پلتا۔ آگ نے ہمارے کھانوں کو پکایا اور ہمارے اندر شائستگی پیدا کی۔ اور پھر اس کے لیے صنعت و ایجاد کے نئے نئے دروازے کھلتے چلے گئے۔ مُقْوِیْنَ کے معنی اہل لغت نے مختلف لکھے ہیں۔ بعض اسے صحرا میں اترے ہوئے مسافروں کے معنی میں لیتے ہیں۔ بعض اس کے معنی بھوکے آدمی کے لیتے ہیں۔ ہر معنی کے لحاظ سے آگ اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جس نے انسانوں کے لیے بیش بہا آسانیاں پیدا کی ہیں۔ انسان اس کی افادیت کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی یاد میں کھو جاتا ہے۔
Top