Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 244
وَّ كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةًؕ
وَّكُنْتُمْ : اور ہوجاؤ گے تم اَزْوَاجًا : جماعتوں میں۔ گروہوں میں ثَلٰثَةً : تین
اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہوجائو گے
وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً ۔ فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ 5 لا مَـآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۔ وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ 5 لا مَـآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ ۔ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ ۔ (الواقعۃ : 7 تا 10) (اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہوجاؤ گے۔ دائیں بازو والے، تو کیا کہنے ہیں دائیں بازو والوں کے۔ اور بائیں بازو والے، تو کیا حال ہوگا بائیں بازو والوں کا۔ اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔ ) لوگوں کی تقسیم تین گروہوں میں آیت میں خطاب اگرچہ ان لوگوں سے ہے جو اس وقت قرآن کریم کے مخاطب تھے، لیکن حقیقت میں اس کی مخاطب پوری نوع انسانی ہے۔ کیونکہ یہ تین گروہوں کی تقسیم قیامت کے دن ہونے والی ہے جس کی بنیاد ایمان اور اعمالِ صالح ہوگی۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک سب لوگ اس تقسیم میں شریک ہوں گے۔ اس سے پہلے یہ جو فرمایا گیا ہے کہ وہ قیامت گرانے والی اور اٹھانے والی ہوگی، یہ دراصل اسی کی تفصیل ہے۔ اس تقسیم میں سب سے پہلے اصحاب المیمنۃ کا ذکر فرمایا گیا جس کے معنی ہیں سیدھے ہاتھ والے، دائیں بازو والے یا داہنے والے۔ اس کی لغوی بحث میں اسے یمین سے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے اور یمن سے بھی۔ لیکن ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم میں اس کی تصریح موجود ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ سورة الحاقۃ میں ارشاد فرمایا گیا ہے فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَـہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَیَقُوْلُ ہَاؤُمُ اقْرَأُوا کِتَابِیَـہُ ” تو اس دن جس کا اعمال نامہ اس کے دہنے پکڑایا جائے گا وہ لوگوں سے خوش ہو کر کہے گا کہ یہ میرا اعمال نامہ، پڑھو۔ “ اور دوسرے وہ لوگ ہوں گے جنھیں اصحاب المشئمۃ کہا گیا ہے۔ اس کا معنی ہے بائیں بازو والے۔ اس کی بھی لغوی تحقیق کی ضرورت نہیں، قرآن کریم میں اس کی مراد کی صراحت کی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے : وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَـہُ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یَالَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتَابِیَـہُ ” رہا وہ جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا کہ کاش میرا اعمال نامہ مجھ کو نہ ملتا۔ “ تیسرا گروہ وہ ہے جس کو سابقون کہا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دعوت حق کے قبول کرنے میں سبقت کرگئے۔ بھلائی کے ہر کام میں سب سے آگے رہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول کی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہی۔ جہاد کا معاملہ ہو یا انفاق کا، ہمیشہ دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اور اس کے سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا۔ یہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن سب سے آگے رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نعمتیں ان پر نچھاور ہوں گی۔ یہ لوگ وہاں تک پہنچیں گے جو انسانی شرف و فضیلت کا آخری نقطہ ہے۔ اور اس نقطہ کمال کا اندازہ آج کسی کے بس میں نہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب الیمین وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاص اور نیکیوں کی کثرت کی وجہ سے ان کی بخشش کا فیصلہ ہوگا۔ اور اعزاز کے طور پر ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے۔ رہے وہ مسلمان جو اپنے گناہوں کی پاداش میں پکڑے جائیں گے اور سزا جھیلنے کے بعد ایمان پر خاتمے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے گا اور آخر وہ جنت میں بھیج دیئے جائیں گے۔ ان لوگوں کا شمار اصحاب الیمین میں نہیں ہوگا۔ اسی طرح اصحاب المشئمہوہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین سے انکار یا نفاق کی وجہ سے نفرت و کراہت کے سزاوار ٹھہریں گے۔ ان کی بدبختی اور بدانجامی کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا اور الفاظ اس کے بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
Top