Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 65
لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ
لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَجَعَلْنٰهُ : البتہ ہم کردیں اس کو حُطَامًا : ریزہ ریزہ فَظَلْتُمْ : تو رہ جاؤ تم تَفَكَّهُوْنَ : تم باتیں بناتے
ہم چاہیں تو اس کو ریزہ ریزہ کردیں، اور تم باتیں ہی بناتے رہ جائو
لَوْنَشَآئُ لَجَعَلْنٰـہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَـکَّھُوْنَ ۔ اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ۔ (الواقعۃ : 65 تا 67) (ہم چاہیں تو اس کو ریزہ ریزہ کردیں، اور تم باتیں ہی بناتے رہ جاؤ۔ کہ ہم پر تو الٹی چٹی پڑگئی۔ بلکہ ہم تو بالکل ہی محروم رہے۔ ) یعنی اس معاملے میں انسان کی بےبسی کا حال تو یہ ہے کہ وہ جس بیج کو کاشت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور رحمت سے پروان چڑھتا اور کھیتی کی صورت میں لہلہانے لگتا ہے۔ اگر اسے کوئی افتاد پہنچ جائے تو انسان اس کو بچانے پر قادر نہیں۔ اسی لیے ارشاد فرمایا گیا کہ ہم اگر چاہیں تو اس کو ریزہ ریزہ کردیں۔ جس وقت تمہارا یہ حال ہو کہ تم کھیتی کے پک جانے کے بعد اب اس کے توڑنے یا کاٹنے کی فکر میں ہو اور اس کا کھلیان گھر لے جانے کا انتظام کررہے ہو کہ اچانک اللہ تعالیٰ بادِتند بھیج کر یا ژالہ باری کرکے چشم زدن میں بالکل ریزہ ریزہ کرکے رکھ دے تو تم پھر باتیں بناتے ہی رہ جاؤ۔ یعنی تمہاری کسی کی سمجھ میں نہ آئے کہ اس حادثہ کی کیا توجیہ کرے اور اپنے نقصان کا اندازہ دوسروں کو کیا بتائے۔ بلکہ تم تو سرتاپا حسرت بن کر اپنے تباہ ہوجانے کا ماتم کرنے لگو۔ کہ سال بھر کی کمائی لٹ گئی اور ہم تو بالکل ہی محروم رہ گئے۔ جو کچھ لگایا وہ بھی پلے نہ پڑا۔ اس کے بعد ہماری گزربسر کا سامان کیا ہوگا۔
Top