Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 58
اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمْ : کیا بھلا دیکھا تم نے مَّا تُمْنُوْنَ : جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو
کیا تم نے غور کیا ہے اس چیز پر جو تم ٹپکا دیتے ہو
اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ ۔ ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَـہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ ۔ (الواقعۃ : 58، 59) (کیا تم نے غور کیا ہے اس چیز پر جو تم ٹپکا دیتے ہو۔ اس سے بچہ تم پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔ ) انسان کی اپنی خلقت سے قیامت پر دلیل اس میں انسان سے خود اس کی خلقت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے۔ مقصود یہ نہیں کہ وہ جواب دے بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ اس پر غور کرے اور دیکھے کہ انسان کی تخلیق میں خود انسان کا کتنا حصہ ہے۔ اور پھر کیا اس میں قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار ہوتا ہے یا نہیں۔ جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ پانی کی ایک بوند عورت کے رحم میں ٹپکا کر الگ ہوجاتا ہے۔ اس بوند میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں۔ اور نہ یہ صلاحیت ہے کہ جو کچھ پیدا ہو وہ انسان ہی کا بچہ ہو۔ اور نہ اس میں کسی اور قوت کا دخل ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو اس بوند کو تہ بہ تہ تاریکیوں کے اندر گوناگوں مراحل سے گزار کر ایک بھلے چنگے بچہ کی صورت میں عورت کے پیٹ سے باہر لاتی ہے اور پھر اس کو بچپن، بلوغ، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزار کر نوع انسانی کا گل سرسبد بنا دیتی ہے۔ اس کی تفصیلات میں آدمی جتنا اترتا چلا جائے اتنا ہی حیرت میں ڈوبتا جاتا ہے کہ پانی کی یہ بوند پہلے ایک کیڑے کی شکل اختیار کرتی ہے جو طاقتور خوردبین کے بغیر نظر تک نہیں آسکتا۔ پھر یہ کیڑا عورت کے جسم کی تاریکیوں میں کسی وقت اس نسوانی انڈے سے جا ملتا ہے جو اسی کی طرح ایک حقیر سا خوردبینی وجود ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ (Cell) بن جاتا ہے جو حیات انسانی کا نقطہ آغاز ہے۔ پھر اس کے بعد جو اس میں تبدیلیاں آتی ہیں اور درجہ بدرجہ جس طرح یہ خلیہ بچے کی صورت اختیار کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔ تو جس شخص کی نگاہوں میں خلقت انسانی کا یہ پورا سلسلہ موجود ہو وہ کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ اس کی خلقت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی کارفرمائی بھی شامل ہے۔ اور یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں بھی یہ قدرت ہے کہ وہ ایسا حیرت انگیز کارنامہ وجود میں لاسکے۔
Top