Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 27
وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِؕ
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ : اور دائیں ہاتھ والے مَآ : کیا ہیں اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ : دائیں ہاتھ والے
اور دائیں بازو والے کیا کہنے ہیں دائیں بازو والوں کے
وَاَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ 5 لا مَـآ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ ۔ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ ۔ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ ۔ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ۔ وَّمَـآئٍ مَّسْکُوْبٍ ۔ وَّفَاکِھَۃٍ کَثِیْرَۃٍ ۔ لاَّ مَقْطُوْعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍ ۔ وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ ۔ اِنَّـآ اَنْشَاْنٰـھُنَّ اِنْشَآئً ۔ فَجَعَلْنٰـھُنَّ اَبْـکَارًا۔ عُرُبًا اَتْرَابًا۔ لِّـاَصْحٰبِ الْـیَمِیْنِ ۔ (الواقعۃ : 27 تا 38) (اور دائیں بازو والے کیا کہنے ہیں دائیں بازو والوں کے۔ وہ بےخار بیریوں۔ اور تہ بہ تہ چڑھے ہوئے کیلوں۔ اور پھیلے ہوئے سایوں میں۔ اور بہایا ہوا پانی۔ اور فراواں میوے۔ اور کبھی نہ ختم ہونے والے اور بےروک ٹوک ملنے والے۔ اور اونچے بستر ہوں گے۔ اور ان کی بیویوں کو ہم نے خاص اٹھان پر اٹھایا ہوگا۔ ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں۔ دلربا اور عمر میں ہم سِن۔ یہ نعمتیں دائیں بازو والوں کے لیے ہوں گی۔ ) اصحابُ الیمین کو جنت میں ملنے والی نعمتوں کا ذکر یہاں سے اصحاب الیمین کو جنت میں جو انعامات ملیں گے اور جن نعمتوں سے انھیں نوازا جائے گا، ان کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اوپر جن خوش نصیبوں کا ذکر اصحاب المیمنۃ کے الفاظ سے ہوا ہے ان ہی کا ذکر اب اصحاب الیمین کے الفاظ سے ہورہا ہے۔ ان کی عظمت و شان اور ان کے مقام و مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دائیں بازو والوں کی کیا بات ہے۔ یعنی الفاظ اس کے ذکر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پھر جن پھلوں سے جنت میں ان کی تواضع کی جائے گی ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان کو ایسی بیریوں کے بیر کھانے کو ملیں گے جن کے کانٹے نہیں ہوں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ کوئی آدمی خود سے بیری سے بیر اتار کر کھانا چاہے تو کانٹے اس کے ہاتھوں کو زخمی کردیں۔ اور دنیا میں بھی یہ دیکھا ہے کہ جن بیریوں کے بیر خوش ذائقہ اور خوشبودار ہوتے ہیں ان بیریوں پر کانٹے بہت کم ہوتے ہیں۔ اور مزید یہ بات بھی ہے کہ ہمارے علاقے میں تو بیری کے درخت کی کوئی خاص وقعت نہیں۔ لیکن بعض علاقوں میں اس پھل کو نہایت اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ نہایت لذیذ، خوشبودار اور خوش رنگ ہوتا ہے۔ اس لیے سورة سبا میں جن جنت نشان باغوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں بیری کے درخت بھی تھے جو تباہ ہونے کے بعد جھاڑ بن کر رہ گئے تھے۔ اور سب سے زیادہ جو قابل توجہ بات ہے وہ یہ ہے کہ یہاں جن بیریوں کا ذکر ہے یہ جنت کی بیریاں ہیں جن کی اصل حقیقت جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس درخت کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ اسی وجہ سے وہ درخت جس پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات کی بارش ہوتی ہے اور جسے آنحضرت ﷺ نے عالم ناسوت اور عالم لاہوت کے نقطہ ٔ اتصال پر دیکھا تھا جس کا نام سدرۃ المنتٰہی ہے۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس درخت سے اللہ تعالیٰ کی آواز سنی اور تجلیاتِ الٰہی کا مشاہدہ کیا، کوئی تعجب نہیں کہ وہ بھی بیری ہی کا درخت ہو۔ جنت کے جس دوسرے پھل کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ کیلا ہے۔ اور وہ کیلا بھی ایسا ہوگا جو تہ در تہ ایک دوسرے سے پیوست ہوگا۔ پھلوں کے بعد جنت کی شادابی اور خوبصورتی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہاں کے درخت ایک دوسرے سے متصل اور اس قدر شاداب اور سرسبز ہوں گے کہ ان کے اندر دھوپ کا گزر نہیں ہوگا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر طرف سایہ ہی سایہ ہوگا۔ اور پانی چونکہ وہاں کبھی ختم نہیں ہوگا اس مسلسل پانی کی وجہ سے اس کی شادابی میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ مزید فرمایا کہ اوپر جن پھلوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کا ذکر محض مثال کے طور پر کیا گیا ہے ورنہ وہاں اہل جنت کو بکثرت دوسرے پھل بھی دیئے جائیں گے۔ اور وہ پھل ایسے ہوں گے جو کسی موسم کے بدلنے سے متأثر نہیں ہوں گے۔ بلکہ ہر وقت دستیاب اور سدابہار رہیں گے۔ ایسا بھی نہیں ہوگا کہ کبھی کوئی روکنے والا ان پھلوں سے روکے، یا باغوں پر ایسی افتاد آئے کہ پھل ضائع ہو کے رہ جائے۔ پھر اہل جنت کی نشست گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان کے بیٹھنے کے لیے اونچی نشست گاہیں بنائی جائیں گی۔ آرام کرنے کے لیے اونچے بچھونے ہوں گے۔ اور اسی کی نسبت سے بیویوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم ان کی بیویوں کو نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں خاص اٹھان پر اٹھایا جائے گا۔ حوروں کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وہ بیویاں مراد ہیں جو اپنے ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے جنت کی مستحق ٹھہریں گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں ازسرنو جوان بنا دے گا چاہے ان کا انتقال کسی عمر میں بھی ہوا ہو۔ اور وہ شکل و صورت میں کیسی بھی رہی ہوں انھیں نہایت خوبصورت، کنواری اور باکرہ بنادیا جائے گا۔ اور یہ کیفیت ان کی ہمیشہ رہے گی۔ اور ایسی شکل و صورت ان کو عطا کی جائے گی جنھیں عُرُبٌ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ یہ عُرُوبٌ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں محبوب اور دلربا بیوی، جو بہترین نسوانی خوبیوں کی حامل ہو۔ خوش اطوار اور خوش گفتار ہو، اور شوہر کو دل و جان سے چاہتی ہو اور اس کا شوہر بھی اس پر فدا ہو۔ اور مزید ان کی خوبی یہ ہے کہ انھیں اتراب بنایا جائے گا۔ اتراب، تِرْبٌ کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے ہم سِن اور ہم عمر۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ اپنی شوہروں کی ہم سِن ہوں گی۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ آپس میں ہم سِن ہوں گی۔ یعنی تمام جنتی عورتیں ایک ہی عمر کی ہوں گی اور ہمیشہ اسی عمر کی رہیں گی۔ کوئی بعید نہیں کہ یہ دونوں باتیں ہی بیک وقت صحیح ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کی تشریح میں فرمایا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو دنیا کی زندگی میں اس حال میں مری ہیں کہ وہ بوڑھی پھونس تھیں، آنکھوں میں چیپڑ، سر کے بال سفید۔ اس بڑھاپے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو پھر سے باکرہ پیدا کردے گا۔ حضرت ام سلمہ ( رض) نے پوچھا کہ اگر کسی عورت کے دنیا میں کئی شوہر رہ چکے ہوں اور وہ سب جنت میں جائیں تو وہ ان میں سے کس کو ملے گی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اس کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جسے چاہے چن لے۔ اور وہ اس شخص کو چنے گی جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گی کہ اے رب ! اس کا برتائو میرے ساتھ سب سے اچھا تھا، اس لیے مجھے اس کی بیوی بنا دے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : اے ام سلمہ ( رض) ! حُسنِ اخلاق دنیا اور آخرت کی ساری بھلائی لوٹ لے گیا ہے۔ اس کے بعد پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ یہ ساری نعمتیں جو اوپر یبان ہوئی ہیں اصحاب الیمین کے لیے ہیں۔ یعنی دائیں بازو والے ان نعمتوں سے متمع ہوں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں بیش از بیش شرف عطا فرمائے گا۔
Top