Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 15
عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍۙ
عَلٰي سُرُرٍ : اوپر تختوں کے ہوں گے مَّوْضُوْنَةٍ : سونے کی تاروں سے بنے ہوئے۔ بنے ہوئے
مرصع تختوں پر
عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ ۔ مُّتَّـکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۔ یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ۔ بِاَکْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ 5 لا وَکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ ۔ لاَّیُصَدَّعُوْنَ عَنْھَا وَلاَ یُنْزِفُوْنَ ۔ وَفَاکِھَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ ۔ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۔ وَحُوْرٌعِیْنٌ۔ کَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُوْنِ ۔ جَزَآئً م بِمَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ ۔ (الواقعۃ : 15 تا 24) (مرصع تختوں پر۔ ٹیک لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ان کی خدمت میں لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ پیالے، جگ اور شراب خالص کے ساغر لیے ہوئے دوڑتے پھرتے ہوں گے۔ جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا اور نہ وہ فتورِعقل میں مبتلا ہوں گے۔ اور میوے ان کی پسند کے۔ اور پرندوں کے گوشت ان کی رغبت کے۔ اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گے۔ چھپا کر رکھے ہوئے موتیوں کی مانند۔ صلہ ان کے اعمال کا جو وہ کرتے رہے۔ ) مقربین کی جنت کی تصویر اللہ تعالیٰ ان مقربین کو جنت میں جن نعمتوں سے نوازے گا اس کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ سب سے پہلے ان کی نشست گاہ اور ان کے اندازِنشست کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ جن تختوں پر تشریف فرما ہوں گے وہ سونے چاندی سے مرصع ہوں گے۔ اور گائو تکیوں سے ٹیک لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ اور بےتکلفی سے آمنے سامنے بیٹھنے کا ذکر اس لیے فرمایا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ لوگ دل کے صاف، کدورت سے دور اور ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ گویا ان کی نشست ایسی ہوگی جیسے دنیا میں شاہانِ عجم کا دربار ہوتا تھا۔ اس کے بعد سامانِ ضیافت کا ذکر فرمایا گیا ہے جس سے مقربین کی تواضع کی جائے گی۔ اور خدمت گزار مختلف عمروں کے لوگ نہیں بلکہ ایسے نوعمر لڑکے ہوں گے جنھیں قرآن کریم نے دوسری جگہ غلمان کے نام سے یاد کیا ہے جو ہمیشہ ایک ہی عمر کے رہیں گے۔ اور وہ ان کی نشستوں میں پیالے، جگ اور شراب خالص کے جام لیے ہوئے ہر وقت چکر لگاتے رہیں گے تاکہ جس کو جس چیز کی اشتہا پیدا ہو وہ اس کے سامنے موجود رہے۔ بلاشبہ خدام کے لیے مستعد اور چست ہونا خدمت کا پہلا زینہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے نوعمری سے بہتر اور کوئی عمر نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں شاید پیدا ہی اس کام کے لیے کیا گیا ہوگا۔ بعض اہل علم نے ان لڑکوں کے بارے میں مختلف باتیں کہیں ہیں کہ یہ کفار کے بچے ہوں گے جو نابالغی میں وفات پا گئے، یا ان مسلمانوں کی اولاد ہوگی کہ جن کے والدین جنت میں نہ جاسکے اور وہ خود نابالغ ہونے کی وجہ سے حساب کتاب سے بچے رہے۔ لیکن صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ لڑکے مقربین کی خدمت ہی کے لیے ایک ہی عمر کے پیدا کیے جائیں گے اور اسی کے مطابق ان کو تربیت دی جائے گی۔ وہ جن برتنوں میں مقربین کو شراب طہور پیش کریں گے ان کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ کسی حد تک وضاحت طلب ہیں۔ اکواب، کو ب کی جمع ہے۔ کو ب اور کپ ایک ہی چیز ہے جو پیالے پر بولا جاتا ہے۔ اباریق، ابریق کی جمع ہے، یہ فارسی کے آب ریز سے معرب معلوم ہوتا ہے۔ کأس ظرف اور مظروف یعنی شراب اور جامِ شراب دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور مَعِین شرابِ خالص کا ایک چشمہ ہے جو جنت میں ہے۔ اس شراب کے بارے میں فرمایا کہ دنیا میں پی جانے والی شراب سے جو مضر اثرات ہوتے ہیں یہ شراب ان تمام مضر اثرات سے پاک ہوگی۔ دنیوی شراب سے جس طرح جسم ٹوٹتا، خمار پیدا ہوتا اور دردسر لاحق ہوتا ہے، جنت کی شراب ایسے تمام مفاسد سے پاک ہوگی۔ دنیوی شراب سے عقل جاتی رہتی ہے لیکن جنت کی شراب اس زہر سے محفوظ ہوگی۔ جنت کے ساتھ جو لوازم مہیا کیے جائیں گے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان کے سامنے بڑی مقدار میں ایسے پھل پیش کیے جائیں گے جو ان کا اپنا انتخاب ہوگا۔ اور اگر وہ گوشت کھانا چاہیں گے تو ان پرندوں کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا جائے گا جو ان کو پسند ہوں گے۔ اور کوئی تعجب نہیں کہ یہ چیزیں غیرمعمولی طریقے سے جنت ہی میں ان کے لیے مہیا کی جائیں۔ یعنی وہاں صرف پیٹ ہی کی غذا مہیا نہیں کی جائے گی بلکہ ہر شخص کے ذوق اور انتخاب کا بھی لحاظ کیا جائے گا۔ اس کے بعد اس نعمت کا ذکر کیا گیا ہے جس کے بغیر ہر شخص کی شخصیت میں خلاء باقی رہ جاتا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو انسان کی شخصیت کو مکمل کرتی اور اس کے لطف و لذت میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ اس سے مراد وہ بیویاں ہیں جو خوبصورت حوروں کی شکل میں انھیں ملیں گی۔ اور وہ اس قدر اچھوتی اور پاکیزہ ہوں گی جیسے دُرِمکنون ہوتا ہے۔ یعنی وہ موتی جسے نگاہوں سے بھی چھپا کے رکھا گیا ہو اور جس کے حسن کا عالم یہ ہو کہ : ہَوا بھی چھو جائے تو رنگ ہو میلا ان ساری نعمتوں کے ذکر کے بعد فرمایا کہ یہ ساری نعمتیں ان کو ان کے اعمال کے صلے میں ملیں گی۔ انھوں نے دنیا میں اپنی اطاعت اور استقامت سے ان نعمتوں کا استحقاق پیدا کیا ہوگا۔ اور رب کریم ان کو حق کے طور پر یہ سب کچھ عطا فرمائے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی کریمی کا جس حد تک بھی شکرادا کیا جائے کم ہے۔ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ یقینا عطا و بخشش سے بھی خوش ہوتا ہے لیکن اسے حقیقی خوشی اس وقت نصیب ہوتی ہے جب اسے کوئی غیرمعمولی چیز حق کے طور پر ملتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کا حال یہ ہے کہ کوئی شخص ہزار کوشش بھی کرے تو اس کا کوئی عمل اس قابل نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی عظیم بارگاہ میں پیش کرنے کے قابل ہو۔ اس لیے اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور فضل کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے کمزور اعمال کو بھی اتنی عزت عطا فرمائے گا کہ اپنی بیش از بیش نعمتوں کو ان کے اعمال کا صلہ قرار دے گا۔
Top