Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 11
اُولٰٓئِكَ الْمُقَرَّبُوْنَۚ
اُولٰٓئِكَ الْمُقَرَّبُوْنَ : یہی نزدیکی حاصل کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ قرب حاصل کرنے والے ہیں
وہی لوگ مقرب ہوں گے
اُوْلٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ۔ ثُلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ ۔ وَقَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ ۔ (الواقعۃ : 11 تا 14) (وہی لوگ مقرب ہوں گے۔ نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔ اگلوں میں سے بہت ہوں گے۔ اور پچھلوں میں تھوڑے ہوں گے۔ ) سابقون کا اعزاز جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کی تائید و نصرت کے لیے سب سے آگے بڑھ کر قربانیاں دیں اور خدمت انجام دی وہی لوگ سب سے آگے بڑھنے والے ہوں گے۔ اور وہی لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہوں گے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جنھیں گل سرسبد اور سرخیلِ قافلہ کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس لیے سب سے پہلے ان کا ذکر فرمایا گیا۔ انھیں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔ قیامت کے دن یہ نعمتوں سے بھرپور باغوں میں قیام پذیر ہوں گے۔ جنت تو ان تمام لوگوں کو ملے گی جو بخشش کے سزاوار ٹھہریں گے۔ لیکن سب کا درجہ برابر نہیں ہوگا اور درجے کے اعتبار سے انعام میں بھی تفاوت ہوگا۔ اس لحاظ سے سب جنتیں یکساں نہیں ہوں گی۔ اور نہ سب کو ایک ہی جنت ملے گی، بلکہ جو مقربینِ بارگاہ ہیں انھیں کئی کئی جنتوں سے نوازا جائے گا۔ ایسے خوش نصیب لوگ اگلوں میں زیادہ ہوں گے اور پچھلوں میں کم۔ ثُلَّۃٌ ویسے تو گروہ اور جماعت کے معنی میں بولا جاتا ہے لیکن یہاں چونکہ اس کے مقابل میں قَلَیْلٌکا لفظ استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے یہاں قرینہ دلیل ہے کہ اس کو گروہ کثیر کے معنی میں لیا جائے۔ اولین و آخرین سے مراد کیا ہے، اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے نبی کریم ﷺ کی بعثت تک جتنی امتیں گزری ہیں وہ اولین ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعد قیامت تک کے لوگ آخرین میں شامل ہیں۔ بعض دیگر اہل علم کا خیال ہے کہ یہاں اولین و آخرین سے مراد نبی کریم ﷺ کی امت کے اولین و آخرین ہیں۔ یعنی آپ کی امت میں ابتدائی دور کے لوگ اولین ہیں جن میں سابقین کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اور بعد کے لوگ آخرین ہیں جن میں سابقین کی تعداد کم ہوگی۔ قرآن کریم کو دیکھتے ہوئے دوسرا مفہوم راجح معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں یہ صراحت فرمائی گئی ہے کہ جن خوش نصیبوں نے فتح مکہ سے پہلے جہاد و انفاق کی سعادت حاصل کی، بعد والوں کے جہاد و انفاق کا درجہ وہ نہیں ہوگا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا وعدہ دونوں ہی سے اچھا ہے۔ یعنی بعد والے اگرچہ من حیث العموم اگلوں کے مرتبے کو تو نہ پہنچیں گے تاہم اپنے اخلاص و حُسنِ عمل سے ان کے لیے اصحاب الیمین میں جگہ حاصل کرنے کی راہ کھلی ہوگی۔ وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا اور جن کو بیش از بیش انعامات سے نوازا جائے گا ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ اگلوں میں بڑی تعداد میں ہوں گے اور پچھلوں میں کم ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو لوگ آنحضرت ﷺ پر ایمان اور آپ کی اطاعت اور راہ خدا میں انفاق میں سبقت کرگئے وہ یقینا مقربین میں شامل ہوں گے۔ لیکن سب کا مقام یکساں نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا تو ثُلَّۃٌکا لفظ استعمال نہ کیا جاتا۔ ان کی اکثریت کو تو یہ مقام ضرور حاصل ہوگا لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اصحاب الیمین میں تو شمار ہوں گے لیکن مقربین کے مقام تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اور اس امت کے پچھلوں میں اگرچہ تھوڑے ہوں گے لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ان میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو اپنی عزیمت اور استقامت کی وجہ سے مقربین میں جگہ پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
Top