Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو اپنے پیچھے اگر کمزور بچے چھوڑتے ہیں تو ان کے معاملے میں بہت اندیشہ ناک ہوتے ہیں، پس انھیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی بات کہیں
وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰـفًا خَافُوْا عَلَیْھِمْ ص فَلْیَتَّقُوا اللّٰہَ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا (ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو اپنے پیچھے اگر کمزور بچے چھوڑتے ہیں تو ان کے معاملے میں بہت اندیشہ ناک ہوتے ہیں، پس انھیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی بات کہیں) (النسآء : 9) گزشتہ آیات میں یتیموں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی ادائیگی کے سلسلے میں احکام بھی دیئے گئے اور نصیحتیں بھی فرمائی گئی ہیں۔ یتیموں کے حقوق کی اہمیت کے پیش نظر یہاں تک نصیحت فرمائی گئی کہ اگر وہ وارثوں میں شامل نہ بھی ہوں لیکن وراثت کی تقسیم کے وقت کسی طرح پہنچ جائیں تو اپنی طرف سے کچھ ہدیہ دے کر ان کی دل داری کی کوشش ضرور کرنا اور ان سے گفتگو کرتے ہوئے ایسا لب و لہجہ اختیار نہ کرنا، جس سے ان کی دل آزاری ہو۔ پیش نظر آیت میں اسی سلسلہ میں مزید تاکید فرمائی گئی ہے اور اس میں نفسیاتی حوالے سے نصیحت کو مزید موثر بنادیا گیا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ یتیموں کے سرپرست ہیں یا وہ لوگ جنھیں مال وراثت میں سے حصہ ملا ہے لیکن کچھ دوسرے یتیم بچے وارث نہ ہونے کی وجہ سے حصہ نہ پاسکے تو سرپرستوں اور مال وراثت میں حصہ پانے والوں کو ان بچوں کے ساتھ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ہمیں موت آجاتی اور ہم اپنے پیچھے انھیں کی طرح بےبس یتیم بچے چھوڑ جاتے اور ان کے ساتھ کوئی سخت طرز عمل اختیار کرتا یا گفتگو میں نامناسب الفاظ استعمال کرتا تو ان بچوں پر کیا قیامت ٹوٹتی۔ اس لیے دوسروں کے یتیم بچوں کو بھی اپنے ہی بچے سمجھو اور ان سے معاملہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ذہن میں لائو۔ تاکہ تمہارے دلوں میں ان کے لیے جذبہ رحمت بیدار ہو اور اس رویے کو متعین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا فَلْیَتَّقُواللّٰہَ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ اللہ سے ڈریں کیونکہ اللہ ہر عمل کو دیکھتا بھی ہے اور طرز عمل کو پہچانتا بھی ہے۔ اور اس کے پس منظر میں جو محرکات کام کرتے ہیں ان سے بھی بخوبی واقف ہے۔ اگر اللہ کے حوالے سے یہ احساسات دلوں میں زندہ ہوں گے تو پھر یتیموں پر ظلم نہیں ہوسکتا۔ مزید فرمایا کہ عمل تو بعد کی بات ہے فوری واسطہ تو زبان سے پڑتا ہے۔ اس لیے ان یتیموں سے بات کرتے ہوئے زبان کو نرم رکھو۔ نہ تو کوئی سخت بات کہو اور نہ پرپیچ بات۔ بلکہ ایسی سیدھی سادھی بات کرو جسے بچے آسانی سے سمجھیں اور راحت محسوس کریں۔ آدمی کی طبیعت دو طرح کی باتوں سے متاثر ہوتی ہے۔ کبھی ترغیب سے اور کبھی ترہیب سے۔ اس آیت کریمہ میں ترغیب سے کام لیا گیا ہے اور اگلی آیت میں ترہیب سے کام لیتے ہوئے اس مضمون کی آخری بات کہی جارہی ہے۔ ارشاد فرمایا : اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا ع (جو لوگ ظلم وناانصافی سے یتیموں کا مال کھا رہے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں وہ انجام کار دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے) (النسآء : 10) یتیموں کے مال کھانے والوں کو تہدید جو لوگ یتیموں کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے ان کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یا زبردستی اور ظلم سے ان کے مال پر قبضہ کرلیتے ہیں وہ ممکن ہے اس کو مالی فتوحات میں شمار کرتے ہوں اور اسے اپنے لیے بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہوں لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا بھی ہے۔ وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ یتیموں کا مال چاہے کسی صورت میں بھی ہو حقیقت میں جہنم کے انگارے ہیں۔ جو قیامت کے دن اپنی اصل شکل میں بھڑک اٹھیں گے۔ اکثر اہل علم اسے مجاز اور کنایہ کہتے ہیں۔ لیکن بعض اہل تحقیق ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ مجاز یا کنایہ نہیں بلکہ حقیقت ہے یہ الگ بات ہے کہ آج ہمیں وہ آگ دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن قیامت کے دن جب ہر چیز اپنی اصل شکل میں سامنے آجائے گی تو تب پتہ چلے گا کہ یہ آگ ہی تھی جو یتیموں کے مال کی صورت میں ہم نے ہتھیائی تھی۔ اس کو مثال کے طور پریوں سمجھنا چاہیے کہ دیا سلائی کو جلنے سے پہلے آگ نہیں کہا جاتالیکن اس کے آگ ہونے میں کیا شبہ ہے۔ سنکھئے کو کھانے سے پہلے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ موت ہے۔ لیکن جس کی نگاہ اس کے اثر اور نتیجے پر ہے وہ یقین سے جانتا ہے کہ وہ موت ہی کا باعث ہے۔ آج اگر کسی کمرے میں سوئی گیس بھر جائے تو بدبو سونگھ کر ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کمرے میں سوئی گیس بھر گیا ہے لیکن ایک شعلہ جلنے کی دیر ہے جب بھک سے آگ بھڑکے گی تب پتہ چلے گا کہ جسے ہم سوئی گیس کہہ رہے تھے وہ تو آگ تھی۔ اسی طرح یتیموں کا مال بھی درحقیقت آگ ہی ہے اور آنحضرت ﷺ نے قیامت کے دن دئیے جانے والے عذاب کی ایسی ہی خبریں دی ہیں۔ جن میں اس تعبیر کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ یتیم کا مال ناحق کھانے والا قیامت کے روز اس حالت میں اٹھایاجائے گا کہ پیٹ کے اندر کی آگ کی لپٹیں اس کے منہ ناک اور کانوں اور آنکھوں سے نکل رہی ہوں گی۔ ایک اور حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک قوم قیامت کے دن اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے منہ سے آگ بھڑک رہی ہوگی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ یہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : تم نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا اَلَّذِیْنَ یَاکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا۔ الخ یتیموں کے ساتھ عموماً مال وراثت کے حوالے سے ظلم ہوتا ہے اور ویسے بھی یہاں سے وراثت کے مسائل شروع ہورہے ہیں اور ان تین آیتوں میں احکامِ میراث کی تمہید ہی اٹھائی گئی ہے۔ اس لیے احکامِ میراث کو شروع کرنے سے پہلے ہم چند مسائل کا ذکر کرتے ہیں جو وراثت کی تقسیم یا یتیموں کے حقوق میں پیش آتے ہیں اور بیخبر ی یا لاپرواہی کے باعث اس میں غلطیاں روا ررکھی جاتی ہیں۔ ہم ان مسائل کو ” معارف القرآن “ سے نقل کررہے ہیں۔ مسئلہ : میت کے بدن کے کپڑے بھی ترکہ میں شامل ہوتے ہیں ان کو حساب میں لگائے بغیر یونہی صدقہ کردیتے ہیں۔ بعض علاقوں میں تانبے، پیتل کے برتن مال کو تقسیم کیے بغیر فقیروں کو دیدیتے ہیں۔ حالانکہ ان سب میں نابالغوں اور غیر حاضر وارثوں کا بھی حق ہوتا ہے۔ پہلے مال بانٹ لیں جس میں مرنے والے کی اولاد، بیوی، والدین، بہنیں، جس جس کو شرعاً حصہ پہنچتا ہو اس کو دیدیں، اس کے بعد اپنی خوشی سے جو شخص چاہے مرنے والے کی طرف سے خیرات کرے یا مل کر کریں تو صرف بالغین کریں نابالغ کی اجازت کا بھی اعتبار نہیں اور جو وارث غیر حاضر ہو اس کے حصہ میں اس کی اجازت کے بغیر بھی تصرف درست نہیں۔ مسئلہ : میت کو قبرستان لے جاتے وقت جو چادر جنازہ پر ڈالی جاتی ہے وہ کفن میں شامل نہیں ہے۔ اس کو میت کے مال سے خریدنا جائز نہیں بلکہ وہ مال مشترک ہے کوئی شخص اپنی طرف سے خرچ کردے تو جائز ہے بعض علاقوں میں نماز جنازہ پڑھانیوالے امام کے لیے کفن ہی کے کپڑے میں سے مصلّٰی تیار کیا جاتا ہے اور پھر یہ مصلّٰی امام کو دیدیا جاتا ہے۔ یہ خرچ بھی کفن کی ضرورت سے فاضل ہے ورثہ کے مشترک مال میں سے اس کا خریدنا جائز نہیں۔ مسئلہ : بعض جگہ میت کے غسل کے لیے نئے برتن خریدے جاتے ہیں پھر ان کو توڑ دیا جاتا ہے۔ اول تو نئے خریدنے کی ضرورت نہیں کیونکہ گھر کے موجودہ برتنوں سے غسل دیا جاسکتا ہے اور اگر خریدنے کی ضرورت پڑجائے تو توڑنا جائز نہیں۔ اول تو اس میں مال ضائع کرنا ہے اور پھر ان سے یتیموں کا اور غائب وارثوں کا حق وابستہ ہے۔ مسئلہ : ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس میں سے مہمانوں کی خاطر تواضع اور صدقہ و خیرات کچھ جائز نہیں۔ اس طرح کے صدقہ خیرات کرنے سے مردے کو کوئی ثواب نہیں پہنچتا بلکہ ثواب سمجھ کردینا اور بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔ اس لیے مورث کے مرنے کے بعد اب یہ سب مال تمام وارثوں کا حق ہے اور ان میں یتیم بھی ہوتے ہیں۔ اس مشترک مال میں سے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کا مال چرا کرمیت کے حق میں صدقہ کردیاجائے۔ پہلے مال تقسیم کردیا جائے اس کے بعد اگر وہ وارث اپنے مال میں سے اپنی مرضی سے میت کے حق میں صدقہ خیرات کریں تو ان کو ختیار ہے۔ تقسیم سے پہلے بھی وارثوں سے اجازت لے کر مشترک ترکہ میں سے صدقہ خیرات نہ کریں اس لیے کہ جو ان میں یتیم ہیں ان کی اجازت تو معتبر ہی نہیں اور جو بالغین ہیں وہ بھی ضروری نہیں کہ خوش دلی سے اجازت دیں ہوسکتا ہے وہ لحاظ کی وجہ سے اجازت دینے پر مجبور ہوں یا لوگوں کے طعنوں کے خوف سے کہ اپنے مردہ کے حق میں دو پیسے تک خرچ نہ کیے۔ اس عار سے بچنے کے لیے بادل نخواستہ ہامی بھر لیں حالانکہ شریعت میں صرف وہ مال حلال ہے جب کہ دینے والا طیب خاطر سے دے رہاہو۔ یہاں ہم ایک بزرگ کا واقعہ نقل کرتے ہیں، جس سے مسئلہ اور زیادہ واضح ہوجائے گا۔ یہ بزرگ ایک مسلمان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تھوڑی دیر مریض کے پاس بیٹھے تھے کہ اس کی روح پرواز کرگئی۔ اس موقع پر جو چراغ جل رہا تھا انھوں نے فوراً اسے بجھادیا اور اپنے پاس سے پیسے دے کر تیل منگایا اور روشنی کی لوگوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا جب تک یہ شخص زندہ تھا یہ چراغ اس کی ملکیت تھی اور اس کی روشنی استعمال کرنا درست تھا۔ اب یہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا تو اس کی ہر چیز میں وارثوں کا حق ہوگیا۔ لہٰذا سب وارثوں کی اجازت ہی سے ہم یہ چراغ استعمال کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اپنے پیسوں سے تیل منگوا کر روشنی کی۔ “ یہ تو وہ مسائل تھے جن کا تعلق تقسیم میراث یا یتیموں کے حقوق سے تھا۔ اب ہم چند ایسے امور کا ذکر کرتے ہیں جنھیں تقسیم میراث سے پہلے انجام دینا ضروری ہے۔ جن کا تعلق مرحوم کے ترکہ سے ہے یا مرحوم کی ذات سے ہے۔ مسائل سے بیخبر ی کے باعث عموماً ایسے امور میں غلطیاں ہوتی ہیں ان غلطیوں کا تعلق چونکہ ہمارے دین سے ہے اور اس کا ہماری عاقبت پر اثر بھی پڑ سکتا ہے اس لیے بہت ضروری ہے کہ ان امور میں شرعی احکام کو سمجھ لیاجائے۔ 1 سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مرنے والے کے کفن دفن کی ذمہ داری اس کے وارثوں پر ہوتی ہے۔ اگر مرنے والے نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تو پھر تو وارث اس کے ذمہ دار ہیں کہ تکفین اور تدفین پر اپنی طرف سے خرچ کریں۔ لیکن اگر مرنے والے نے اتنا ترکہ چھوڑا ہے جس سے تکفین اور تدفین کے اخراجات ادا کیئے جاسکتے ہیں تو پھر وارثوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ مجموعی مال میراث سے مرنے والے کی تکفین اور تدفین کے اخراجات کریں لیکن یہ اخراجات کرتے ہوئے بیحد ضروری ہے کہ نہ کنجوسی سے کام لیا جائے اور نہ فضول خرچی کی جائے۔ مرحوم کی مالی حیثیت اور اسلوبِ زندگی کے مطابق تکفین اور تدفین پر خرچ ہونا چاہیے۔ بہت مہنگا کفن خریدنا کسی طرح بھی مناسب نہیں اور قبر کو پختہ کرنا اور پھر اس پر کسی عمارت کا اٹھانا سراسر سنت رسول ﷺ کے خلاف ہے۔ 2 تکفین و تدفین کے بعد عموماً تین دن سوگ کے ہوتے ہیں۔ انہی دنوں میں ایصالِ ثواب کے لیے عموماً مرحوم کے مجموعی ترکہ میں سے خرچ کرنے کا معمول لوگوں نے بنالیا ہے۔ یہ سراسر ناجائز ہے۔ مرحوم کے ورثا اگر کچھ خیرات کرنا چاہتے ہیں یا ایصالِ ثواب کے نام سے کچھ رسمیں ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے نہات ضروری ہے کہ مال میراث میں سے کچھ لینے سے احتراز کریں۔ کیونکہ عموماً وارثوں میں نابالغ بچے بھی ہوتے ہیں۔ اگر ایصالِ ثواب کے لیے ان سے اجازت لے بھی لی جائے (نابالغ ہونے کی وجہ سے چونکہ ان کی اجازت معتبر نہیں) تب بھی ان کے مال کو خرچ کرنا جائز نہیں۔ البتہ بالغ ورثا اگر آپس میں مشورے سے ایصالِ ثواب کرنا چاہیں، تو کرسکتے ہیں۔ لیکن اس میں تشویش کی بات یہ ہے کہ ہوسکتا ہے ان وارثوں میں سے کسی نے بجائے خوشدلی سے اجازت دینے کے محض بدنامی سے بچنے کے لیے اجازت دی ہو جبکہ شریعت نے بہ طیب خاطر یعنی خوشدلی سے اجازت دینے کی شرط رکھی ہے۔ اگر شبہ بھی ہو تو ایسے مال سے ایصالِ ثواب نہیں ہوتا اس لیے اس معاملے میں بےحداحتیاط کی ضرورت ہے۔ 3 تقسیمِ میراث سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ مرحوم کے ذمہ کوئی قرض تو نہیں اور اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہے تو سب سے پہلے قرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ اگر یہ قرض اتنا ہے کہ تمام مال میراث اس میں صرف ہوجاتا ہے اور وارثوں کے لیے کچھ بھی نہیں بچتاتو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ قرض کا ادا کرنا بہرحال فرض ہے، ورنہ قیامت کے دن مرنے والے سے جب اس کا مطالبہ کیا جائے گا تو یہ چیز اس کے لیے سخت ندامت اور عذاب کا باعث ہوگی 4 اگر مرنے والا شوہر ہو اور اس کی بیوی زندہ ہو تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس نے بیوی کا حق مہر ادا کیا تھا یا نہیں اور اگر اس نے ادا نہیں کیا تھا اور بیوی نے معاف بھی نہیں کیا تو یہ حق مہر شوہر کے ذمہ قرض ہے اس لیے تقسیمِ میراث سے پہلے یہ قرض بیوی کو دلایا جائے گا۔ 5 قرض نہ ہونے کی صورت میں یا قرض کی ادائیگی کے بعد اگر مرنے والے نے کوئی وصیت چھوڑی ہو تو پھر دیکھا جائے گا کہ یہ وصیت کسی گناہ کی وصیت تو نہیں۔ یعنی ایسے کسی کام کو سرانجام دینے کی اس نے وصیت کی ہو جس کی شریعت میں اجازت نہیں۔ مثلاً وہ یہ وصیت چھوڑ جائے کہ میرے مال سے کوئی بےحیائی کا مرکز بنایا جائے، کوئی ایسا ریس گرائونڈ بنایا جائے جس میں ریس کے گھوڑے دوڑائے جائیں، کوئی قحبہ خانہ کھولا جائے، یا ایسا کوئی تعلیمی ادارہ جس میں اسلامی اقدار کو تباہ کرنے کی کوشش کی جائے، اسلامی ثقافت کو جس سے کوئی نقصان پہنچے یا کوئی ایسا مرکز جس میں اللہ کے دین، امت اسلامیہ یا ملک کے خلاف کام ہو۔ علیٰ ھذا القیاس ایسی کوئی وصیت جو گناہ کو غذا بہم پہنچانے والی ہو، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا جائے گا کہ مرنے والے نے جو وراثت چھوڑی ہے یہ وصیت مجموعی وراثت کے تہائی سے زیادہ تو نہیں اور اگر تہائی سے زیادہ ہو تو صرف تہائی میں وصیت نافذ ہوگی باقی کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ مرنے والے نے محض وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے تو وصیت نہیں کی کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرحوم اپنے وارثوں سے خوش نہیں ہوتا اس لیے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں ایسی کوئی وصیت کرجاؤں جس سے وارثوں کے حصے میں نامناسب کمی واقع ہو۔ ان تمام احتیاطوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے اس کے بغیر میراث کی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب وارثوں کے حصے مقرر فرمادئیے تو پھر مرنے والے کو وصیت کا حق دینے کا کیا مطلب ؟ اس لیے اس سلسلے میں چند باتیں ذہن نشین کرلینی چاہییں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ شریعت نے وارثوں میں سے کسی کے لیے وصیت کرنے کی اجازت نہیں دی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : لاَوَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ” وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں “ ، کیونکہ اگر وارث کے لیے وصیت کرنے کا اختیار دیا جاتا تو پھر احکامِ میراث بےمعنی ہو کر رہ جاتے اور اسکا مفہوم یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو پوری طرح اس بات کا شعور نہیں کہ وراثت میں کن کن لوگوں کو حصہ ملنا چاہیے اور کتنا ملنا چاہیے۔ وارث کو اس لیے وصیت کا اختیار دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ حصوں میں جو کوئی کمی بیشی ہوگئی ہے وہ اپنی طرف سے اس کا تدارک کردے، ظاہر ہے ایسا سوچنا بھی کفر ہے۔ البتہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وراثت کے احکام اگرچہ نہائیت حکیمانہ اصولوں پر مبنی ہیں، لیکن انسانوں پر آنے والی ناگہانی آفات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ضروریات اور رشتوں کے گوناں گوں مصالح اور ملت کے رفاہی، تہذیبی، اور تمدنی تقاضے اپنی جگہ ایک حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تمام کو اصول میراث میں سمونا ممکن نہیں، اس لیے ضروری تھا کہ ان تمام ضرورتوں کی بجا آوری کے لیے مرنے والے کو وصیت کا حق دیا جاتا اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی کی حد مقرر کردی جاتی تاکہ وہ اپنی طرف سے اس ضرورت کو پورا کرسکے۔ مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ اسلام میں تقسیمِ میراث کا یہ اصول ٹھہرایا گیا ہے کہ میراث کی تقسیم ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ رشتے میں قربت کی بنیاد پر ہوگی۔ کوئی شخص قرابت داروں میں زیادہ ضرورت مند ہے، لیکن رشتے میں اس سے زیادہ دوسرا شخص قریب ہے، تو وراثت اقرب کو ملے گی، زیادہ محتاج کو نہیں ملے گی۔ مثال کے طور پر ایک شخص مرگیا اور اپنے پیچھے بیٹے اور پوتے چھوڑ گیا۔ پوتے نابالغ اور یتیم ہونے کے باعث زیادہ ضرورت مند ہیں۔ لیکن مرنے والے سے زیادہ قریب کا رشتہ بیٹوں کا ہے پوتوں کا نہیں اس لیے وراثت میں حصہ بیٹوں کو ملے گا پوتوں کو نہیں ملے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پوتے اس گھر کا اثاثہ ہیں، اسلامی معاشرے کی ذمہ داری ہیں، انھیں بےسہارا نہیں چھوڑا جاسکتا، اس طرح تو ان کے ضائع ہوجانے یا بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اسلام نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مرنے والے کو ایک تہائی تک وراثت کی اجازت دی۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پوتوں کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔ فرض کیجیے مرنے والے نے اپنے پیچھے دو بیٹے اور ایک پوتا چھوڑا۔ اور اس کا مال میراث تین لاکھ روپے پر مشتمل ہے۔ مرنے والے کو چونکہ ایک تہائی کے لیے وصیت کرنے کی اجازت ہے اس لیے وہ ایک لاکھ کی وصیت کرسکتا ہے۔ جب وراثت تقسیم ہوگی تو دو بیٹوں کو ایک ایک لاکھ ملے گا کیونکہ تہائی نکال کردو لاکھ باقی بچے گا اور ایک تہائی وصیت کے مطابق پوتے کو مل جائے گا۔ اس طرح سے اسلام نے احکامِ میراث کو مضبوط بنیادوں پر اٹھایا ہے، لیکن ساتھ ہی مزید پیدا ہونے والی ضرورتوں کے لیے بھی ایک راستہ دے دیا ہے۔
Top