Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 89
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ١۪ وَ لَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًاۙ
وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں لَوْ تَكْفُرُوْنَ : کاش تم کافر ہو كَمَا : جیسے كَفَرُوْا : وہ کافر ہوئے فَتَكُوْنُوْنَ : تو تم ہوجاؤ سَوَآءً : برابر فَلَا تَتَّخِذُوْا : پس تم نہ بناؤ مِنْھُمْ : ان سے اَوْلِيَآءَ : دوست حَتّٰي : یہانتک کہ يُھَاجِرُوْا : وہ ہجرت کریں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَاِنْ : پھر اگر تم تَوَلَّوْا : منہ موڑیں فَخُذُوْھُمْ : تو ان کو پکڑو وَاقْتُلُوْھُمْ : اور انہیں قتل کرو حَيْثُ : جہاں کہیں وَجَدْتُّمُوْھُمْ : تم انہیں پاؤ وَلَا : اور نہ تَتَّخِذُوْا : بناؤ مِنْھُمْ : ان سے وَلِيًّا : دوست وَّلَا : اور نہ نَصِيْرًا : مددگار
وہ تو یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش تم بھی کافر ہوجائو جیسے وہ کافر ہوئے کہ تم سب برابر ہوجائو۔ پس تم ان میں سے کسی کو اپنا ساتھی نہ بنائو جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔ اگر وہ اس سے اعراض کریں تو ان کو گرفتار کرو اور قتل کرو جہاں کہیں بھی پائو۔ اور ان میں سے کسی کو ساتھی اور مددگار نہ بنائو
وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنَ سَوَآئً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ ص وَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا لا ” وہ تو یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش تم بھی کافر ہوجاؤ جیسے وہ کافر ہوئے کہ تم سب برابر ہوجاؤ۔ پس تم ان میں سے کسی کو اپنا ساتھی نہ بنائو جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔ اگر وہ اس سے اعراض کریں تو ان کو گرفتار کرو اور قتل کرو جہاں کہیں بھی پائو۔ اور ان میں سے کسی کو ساتھی اور مددگار نہ بنائو۔ “ (النسآء : 89) سابقہ آیت کے مضمون کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ تم ان کے ساتھ تعلق رکھنا اور خیر خواہی کرنا چاہتے ہو اور ان کی خواہش یہ ہے کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح وہ تمہیں بھی کافر بنادیں تاکہ تم اور وہ برابر ہوجائیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا ؎ تم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے ان سے تعلق رکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ تو کفر سے نکلنے کے لیے تیار نہیں البتہ تمہیں وہ کفر کی طرف کھینچنے کی ضرور کوشش کریں گے۔ تو اس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خود تو ڈوبے ہیں تمہیں بھی ڈبو دیں گے۔ اس لیے یاد رکھو ان سے کسی طرح کا کوئی تعلق قائم کرنے کی کوشش نہ کرو۔ وہ تمہارے لیے اسی طرح بیگانہ ہیں جس طرح باقی کافر تمہارے لیے بیگانہ ہیں۔ ان سے تعلق کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ اپنے ایمان کی سچائی کا ثبوت دینے کے لیے ہجرت کریں۔ اپنی دنیا کو دین پر قربان کردیں اور دین کی خاطر بالکل یکسو ہوجائیں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور ہجرت کے لیے کسی طرح تیار نہیں تو پھر وہ تمہارے بدترین دشمن ہیں دوسرے کافروں کی طرح انھیں بھی جہاں پائو گرفتار کرو اور قتل کرو۔ اور ان کے ساتھ کسی طرح کی مروت کا تعلق مت رکھو اور ان سے کسی مدد کی امید مت باندھو۔ ہجرت مدار ایمان یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہجرت کو مدار ایمان اور ایمان کی کسوٹی کیوں بنایا جا رہا ہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو اللہ کی طرف بلائیں ‘ اللہ کی بندگی کی دعوت دیں اور ان کو اس بات کا قائل کریں کہ تم ازاول تا آخر اللہ کے بندے ہو اور تمہیں اپنی پوری زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزارنی چاہیے۔ اور جب انسانوں کی ایک معقول تعداد جمع ہوجائے تو پھر ان کے لیے ایک خطہ زمین تلاش کیا جائے جہاں وہ اللہ کی مرضی کے مطابق ایک حکومت قائم کریں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی اس حکومت کی نگرانی میں اللہ کے احکام کے مطابق گزاریں۔ اپنے گھروں کی زندگی اسلام کے دیے ہوئے اصول معاشرت پر قائم کریں اور اجتماعی زندگی کا ایک ایک ادارہ اس آئین اور قانون کے مطابق وجود میں لائیں جس کی ہدایت اسلامی شریعت نے دی ہے۔ اور پھر ہر ادارے کو اسلامی احکام کے مطابق چلانے کی کوشش کریں۔ اس طرح سے جہاں جہاں بھی اللہ اقتدار دیتا جائے وہاں وہاں کی سرزمین کو اللہ کے احکام کی سرزمین بنادیں اور ممکن حد تک اللہ کی زمین پر اس طرح اس کی اطاعت ‘ عبادت اور بندگی عام ہوجائے کہ کہیں شیطان اور طاغوت کی بندگی کا نشان باقی نہ رہے۔ آنحضرت ﷺ نے انہی تصورات کے مطابق اہل مکہ کو دین کی دعوت دی۔ چند سعید روحیں اسلام لے آئیں لیکن بیشتر نے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ایمان لانے والوں کی زندگی بھی دشوار کردی۔ آپ ﷺ نے تیرہ سال تک شب و روز مکہ اور اس کے گرد و نواح کے رہنے والوں کو اسلام کی طرف بلایا ‘ لیکن جب انھوں نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کا رہنا وہاں دوبھر کردیا اور آپ ﷺ کے قتل کے منصوبے باندھنے لگے تو پہلے آپ ﷺ نے مسلمانوں کو وہاں سے نکل کر کسی عافیت کدہ میں جانے کی اجازت دی اور جب اہل مدینہ نے آپ ﷺ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تو آپ ﷺ نے اس کو غنیمت جانا اور مدینے کی طرف ہجرت کر گئے۔ چناچہ جیسے ہی یہ ایک چھوٹا سا شہر اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے میسر آیا تو آپ ﷺ نے ہر جگہ کے مسلمانوں کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ اب تمہیں ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچنا ہوگا ورنہ تمہارے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ تم کافروں میں رہ کر اسلامی زندگی نہیں گزار سکتے۔ اور اسلام کے جو نئے نئے احکام نازل ہو رہے ہیں ان سے باخبر نہیں ہوسکتے۔ اور اسلام کو اپنے تحفظ ‘ بقا اور اپنے دائرے کو پھیلانے کے لیے جس اجتماعی قوت کی ضرورت ہے وہ وجود میں نہیں آسکتی جب تک تمام مسلمان مدینے کو اپنا مرکز نہ بنالیں۔ اس حکم کے بعد ہر وہ شخص جو ایمان لایا اور اس میں اتنی سکت اور طاقت تھی کہ وہ مدینے تک ہجرت کرسکتا تھا تو اس پر ہجرت فرض ہوگئی۔ اور اگر وہ ہجرت کے وسائل رکھتے ہوئے بھی ہجرت کرنے پر آمادہ نہ ہوا تو اسے منافق ٹھہرایا گیا۔ البتہ جو لوگ کمزور اور بےوسیلہ تھے انھیں مستضعفین کہا گیا جن کا آگے ذکر آرہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام نے ہجرت کو مدار ایمان کیوں بنایا۔ کیونکہ اس کے بغیر نہ دین پر عمل کیا جاسکتا تھا نہ دینی احکام سے آگاہی ہوسکتی تھی اور نہ وہ اجتماعی قوت وجود میں آسکتی تھی جس کی بنیاد پر اسلامی ریاست کا تحفظ ہوسکتا تھا اور اس اسلامی انقلاب کو پوری دنیا میں پھیلایا جاسکتا تھا۔ لیکن جب مکہ معظمہ فتح ہوگیا اور جزیرہ عرب کے رہنے والے مسلمانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں اسلامی زندگی گزارنے کی آزادی میسر آگئی تو مدینے کی طرف ہجرت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اس لیے آج مسلمانوں میں ہجرت کا یہ حکم باقی نہیں۔ البتہ دو باتیں ہیں جو قیامت تک باقی رہیں گی۔ ایک یہ بات کہ اگر کوئی آدمی اپنے اسلامی ملک کو چھوڑ کر محض کمانے کی خاطر کسی دار الکفر میں جاتا ہے اور وہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ اسلامی احکام کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں اور قدم قدم پر اس کے بچوں کے بگڑنے کے اسباب موجود ہیں۔ تو ایسی صورت میں اپنے اور اپنے بچوں کے دین اور اخلاق کو بچانے کے لیے دارالکفر میں ٹھہرنا جائز نہیں رہتا۔ اپنے وطن واپس آنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اسے ہم ہجرت تو نہیں کہہ سکتے ‘ کیونکہ یہ کسی دوسرے ملک کی طرف ہجرت نہیں بلکہ اپنے وطن کی طرف مراجعت ہے۔ البتہ اگر اپنا وطن ایسی صورت اختیار کر جائے کہ وہاں اسلامی زندگی مشکل ہوجائے تو پھر اگر کوئی دوسرا ملک اس وطن کے رہنے والوں کے لیے اپنے دروازے کھول دے اور ان کے لیے اسلامی زندگی کے امکانات پید اکر دے تو تب بھی اپنا وطن چھوڑ کر وہاں جانا ضروری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ایک مومن کا حقیقی وطن وہ ہے جہاں اس کی اسلامی زندگی کے امکانات ہیں۔ اور جہاں یہ امکان نہ ہوں وہ وطن ہوتے ہوئے بھی درندوں کا بھٹ ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ وطن سے کسی دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرنے کا حکم تو اب باقی نہیں البتہ گناہوں سے نیکی کی طرف آنا ‘ بری زندگی سے اچھی زندگی کی طرف منتقل ہونا ‘ اس کو بھی حضور ﷺ نے ہجرت فرمایا اور یہ قیامت تک باقی ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ” المہاجر من ہجر ما نہی اللہ عنہ “ (یعنی مہاجر وہ ہے جو ان تمام چیزوں سے پرہیز کرے جن کو اللہ نے حرام کیا ہے) اور یہ ہجرت قیامت تک باقی رہے گی۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : ” لا تنقطع الہجرۃ حتی تنقطع التوبۃ “ (ہجرت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک توبہ کی قبولیت کا وقت باقی رہے گا)
Top