Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 79
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ١٘ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ١ؕ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا
مَآ
: جو
اَصَابَكَ
: تجھے پہنچے
مِنْ حَسَنَةٍ
: کوئی بھلائی
فَمِنَ اللّٰهِ
: سو اللہ سے
وَمَآ
: اور جو
اَصَابَكَ
: تجھے پہنچے
مِنْ سَيِّئَةٍ
: کوئی برائی
فَمِنْ نَّفْسِكَ
: تو تیرے نفس سے
وَاَرْسَلْنٰكَ
: اور ہم نے تمہیں بھیجا
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
رَسُوْلًا
: رسول
وَكَفٰى
: اور کافی ہے
بِاللّٰهِ
: اللہ
شَهِيْدًا
: گواہ
تمہیں جو سکھ بھی پہنچتا ہے خدا کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو دکھ پہنچتا ہے وہ تمہارے اپنے نفس کی طرف سے پہنچتا ہے۔ اور اے رسول ﷺ ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔
مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ز وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ط وَاَرْسَلْنٰـکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا ط ” تمہیں جو سکھ بھی پہنچتا ہے خدا کی طرف سے پہنچتا ہے اور جو دکھ پہنچتا ہے وہ تمہارے اپنے نفس کی طرف سے پہنچتا ہے۔ اور اے رسول ﷺ ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔ اور جو رسول کی اطاعت کرتا ہے اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے اس پر تم کو نگران مقرر نہیں کیا۔ “ (النسآء : 79 تا 80) آیت میں بیان کردہ چند حقائق اس آیت کریمہ میں نہایت مربوط انداز میں کئی حقائق کو منکشف فرمایا گیا ہے۔ ہم ایک ترتیب سے ان حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1 سابقہ آیت کریمہ میں منافقین سے خطاب کر کے فرمایا گیا تھا کہ اگر انھیں کوئی بھلائی ملتی ہے اور فائدہ پہنچتا ہے تو وہ اسے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی تکلیف آتی یا کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس کی نسبت آنحضرت ﷺ کی طرف کرتے ہیں۔ اس طرح سے وہ اپنی حماقت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی بارگاہ میں بےادبی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ حماقت تو یہ ہے کہ اللہ جو ساری کائنات میں متصرف کامل اور مالک کل ہے اور دنیا میں کوئی کام اس کی مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا ‘ یہ حسنہ اور سیئہ کے انتساب میں فرق کر کے اس حماقت کا ثبوت دے رہے ہیں کہ یہ کائنات دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک میں اللہ کی مشیت کارفرما ہے اور دوسرا حصہ اس کی مشیت سے آزاد ہے۔ اور بارگاہِ رسالت میں بےادبی کا ارتکاب اس طرح سے کر رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ کا رسول ماننے کے باوجود ان کے ہر کام کو اللہ کے حکم کے مطابق اور اس کی تائید سے مؤید نہیں سمجھتے۔ اس طرح سے وہ رسالت کے تصور میں حماقت کا ثبوت بھی دے رہے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی ذات کی طرف برائی کا انتساب کر کے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ آپ چونکہ اپنی مرضی سے جو چاہتے ہیں سو کرتے ہیں اس طرح سے جو نقصان ہوتا ہے وہ آپ کی بےتدبیری سے ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس سے بڑھ کر بےادبی یا گستاخی نہیں ہوسکتی۔ اس سیاق کلام میں جب ہم پیش نظر آیت کریمہ کو دیکھتے ہیں کہ منافقین سے خطاب ختم کر کے اچانک آنحضرت ﷺ سے خطاب فرمایا جا رہا ہے۔ تو یہ بات بالکل صاف دکھائی دیتی ہے کہ منافقین سے بےالتفاتی کا سبب ان کی متذکرہ بالا دو باتیں ہیں ایک ان کی حماقت اور دوسرا ان کی گستاخی۔ کہ چونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقام کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو ایسے احمقوں سے خطاب کا کیا فائدہ ؟ اور مزید یہ کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں گستاخی کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ اس لیے اب وہ اس قابل نہیں رہے کہ ان کی طرف پروردگار التفات فرمائیں اور انھیں خطاب کا مستحق سمجھیں۔ اور مزید یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ خطاب چونکہ دراصل آنحضرت ﷺ کا ہی استحقاق ہے ‘ ان کے طفیل اور ان کی برکت سے مسلمان اس خطاب سے نوازے گئے اور منافقین کو اسلام ہی کے بارے میں یکسو کرنے کے لیے خطاب کی ضرورت محسوس کی گئی اور یا ان پر اتمام حجت کے لیے خطاب فرمایا گیا۔ جب ان میں سے کوئی بات بھی باقی نہ رہی تو پھر آنحضرت ﷺ کی ذات جو اصل اس کی مستحق ہے انھیں سے خطاب فرما کر اس حقیقت کو منکشف فرمایا گیا ہے جس میں منافقین الجھ کر رہ گئے تھے۔ 2 گزشتہ آیت کریمہ میں ان کی بات کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا تھا کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ اب اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ جو سکھ یا دکھ ‘ اچھائی یا برائی ‘ راحت یا مصیبت آپ کو پہنچتی ہے اس میں اچھائی اور راحت تو اللہ کی جانب سے ہے ‘ لیکن جو مصیبت آپ کو پہنچتی ہے وہ آپ کے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔ یہ بات بظاہر گزشتہ آیت کریمہ میں کہی ہوئی بات کے مخالف نظر آتی ہے۔ لیکن درحقیقت ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے چند مقدمات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ چند مقدمات الف۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا فاعل چاہے انسان ہو یا کوئی اور وہ اللہ کی مشیت سے وجود میں آرہا ہے۔ انسان ہی کو دیکھ لیجیے وہ چاہے کسی اچھائی کا ارتکاب کرے یا برائی کا اس کے ہر عمل کے پیچھے جو قوت ‘ ذہانت اور صلاحیت کارفرما ہے وہ اس کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ کا عطیہ ہے۔ خود اس کا جسم و جان اللہ کی عنایت ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اس کے مالک نے پیدا کیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اللہ کی دی ہوئی قوت ‘ صلاحیت اور ذہانت سے کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان کے ہر عمل کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بظاہر اس کا فاعل انسان ہے لیکن حقیقت میں اس کا فاعل اللہ ہے۔ کیونکہ وہ اس کے لیے وسائل فراہم نہ کرتا یا اس کو بروئے کار آنے کی مہلت نہ دیتا تو یہ فعل کبھی وجود میں نہ آسکتا۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ب۔ انسان کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے وسائل پیدا فرما دیتے ہیں اور کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے اسباب پیدا کردیے جاتے ہیں۔ لیکن جب انسان نیکی کرتا ہے تو اللہ خوش ہوتا ہے اور اپنی خوشنودی سے نوازتا ہے کیونکہ یہ اس کی رحمت کا اقتضاء ہے۔ لیکن جب انسان برائی کرتا ہے اگرچہ اس کے اسباب اللہ ہی کے پیدا کردہ ہیں اور وہ اللہ کی دی ہوئی مہلت سے برائی کرنے کے قابل ہوتا ہے ‘ لیکن اس پر اللہ ناراض ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نیکی پر جزاء دے گا اور برائی پر سزا دے گا۔ ج۔ نیکی چونکہ اس کی رحمت سے وجود میں آتی اور اس کی خوشنودی کا سبب بنتی ہے اس لیے اس کا انتساب اللہ کی طرف ہوتا ہے اور اس پر اللہ کی طرف سے عنایات کا نزول ہوتا ہے۔ برائی اگرچہ اس کی مہلت سے وجود میں آتی ہے لیکن وہ اس کی رحمت کا اقتضاء نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ صرف اس کے اس فیصلے کا نتیجہ ہے کہ اس نے انسان کو ایک آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے وہ اس کے لیے اسباب فراہم کر دے گا۔ اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔ اس لیے وہ نیکی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور برائی کو برائی کرنے والے کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ انسان کی کوشش اور اس کے فیصلے سے وجود میں آئی ہے۔ اللہ کی رحمت کا اقتضاء اس کی تائید میں نہیں تھا۔ لیکن روکا اس لیے نہیں گیا کہ روکنے سے اس کی آزادی سلب ہوجاتی اور جزا اور سزا کا ترتب خلاف حقیقت ٹھہرتا۔ ان مقدمات پر اگر غور کرلیا جائے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ یہ بات کیوں کہی جاتی ہے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہوتا ہے اور پھر اچھائی کہ جس کی نسبت اللہ کی طرف اور برائی کی نسبت نفس انسانی کی طرف کیوں کی جاتی ہے۔ ان اصولوں کو سمجھ لینے سے یہ بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ جب اللہ کی رحمت اترتی ہے تو اس پر شکر ادا کرنے اور اپنی بندگی کے عمل میں اضافہ کرنے سے اس کی رحمت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اس لیے انسان اسی کی طرف متوجہ رہ کر مانگنے کا عمل جاری رکھتا ہے لیکن جب برائی اور بدعملی کے نتیجے میں دنیا میں کوئی سزا ملتی ہے تو آدمی اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس سے سزا کی شکایت کرتا ہے تو اسے توجہ اس کے اپنے نفس اور اپنی ذات کی طرف دلائی جاتی ہے۔ کہ تم ہم سے شکایت نہ کرو بلکہ اپنے آپ سے شکایت کرو۔ کیونکہ اس طرح کی سزائیں تمہاری اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ اکبر نے ٹھیک کہا : ؎ جب میں کہتا ہوں کہ یا اللہ میرا حال دیکھ حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ آنحضرت ﷺ کی رسالت پر اللہ کی گواہی وَ اَرْسَلْنٰـکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا آیتِ کریمہ کے اس حصے میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے اور منافقین کی طرف سے رخ پھیر کر ایک حقیقت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تسلی کی صورت یہ ہے کہ آپ سے کہا جا رہا ہے کہ کافر اگر آپ پر ایمان نہیں لاتے یا منافق اپنے نفاق سے تائب نہیں ہوتے اور آپ کی نصیحتیں ان پر اثر انداز نہیں ہو رہیں تو آپ کو ہرگز پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے آپ کو رسول بنا کے بھیجا ہے۔ رسول کا کام اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانا ‘ ان کے دل و دماغ کو اس پیغام کی قبولیت کے لیے مقدور بھر آمادہ کرنا اور ان کی طرف سے آنے والے سوالات کا جواب دینا ہے۔ اور اگر وہ مخالفت کے طوفان اٹھائیں تو انھیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہے۔ آپ نے نہایت حسن و خوبی سے ان میں سے ایک ایک فریضہ انجام دیا ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو آپ ہرگز دل گرفتہ نہ ہوں۔ ان کا ماننا یا نہ ماننا آپ کی رسالت کی گواہی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آپ کی رسالت کے برحق ہونے اور آپ کے سچے رسول ہونے کے لیے کسی انسان کی نہیں اللہ کی گواہی کافی ہے۔ کسی شہنشاہ کی طرف سے اگر کوئی وائسرائے یا گورنر متعین ہو کر کسی علاقے میں پہنچتا ہے تو اس کے عہدہ و منصب کے لیے صرف یہ گواہی کافی ہے کہ اس کے پاس شہنشاہ کا فرمانِ تقرر موجود ہے۔ اس کے وائسرائے یا گورنر ہونے کے لیے لوگوں کے ماننے یا نہ ماننے کا کوئی تعلق نہیں۔ رہی یہ بات کہ پیغمبر کے لیے اللہ کی طرف سے اس کے منصب کی گواہی کیا ہوتی ہے ؟ اگر دیدہ بینا اور قلب سلیم میسر ہو تو اس گواہی کو دیکھنا اور سمجھنا نہایت آسان ہے۔ پیغمبر کی سب سے پہلی گواہی اس کی اپنی شخصیت ہے۔ دل میں اتر جانے والی شکل و صورت ‘ آنکھوں میں بس جانے والی دل آویز شخصیت ‘ دل و دماغ کو جھکا دینے والا سیرت و کردار ‘ پتھروں کے ڈھیر میں ہیرے کی مانند چمکنے والی درخشاں زندگی ‘ خود اپنی ذات میں ایک مستقل گواہی ہے۔ مزید برآں آپ پر اترنے والی کتاب اپنی فصاحت و بلاغت ‘ اپنی وسعت و جامعیت اور اپنے مفہوم و معنیٰ کے اعتبار سے بےمثل اور بےبدل ‘ اپنے دیے ہوئے نظام شریعت کے اعتبار سے جامع و مانع اور اپنے علم اور مضامین کے تنوع کے اعتبار سے دماغوں کو حیرت میں ڈال دینے والی ‘ اور دنیا کو اپنی مثال کا چیلنج دیکر گنگ کردینے والی اور اپنی ہر حیثیت سے منفرد شان کی حامل کتاب سے بڑھ کر اور گواہی کیا ہوسکتی ہے۔ یہ کتاب شہنشاہِ کائنات کا فرمان ہے جس نے آپ ﷺ کے پیغمبر اور نبی ہونے کی شہادت دی ہے۔ علاوہ ازیں آپ ﷺ کی دعوت پر آپ ﷺ کی استقامت ‘ بپھرے ہوئے حالات کے مقابلے میں آپ ﷺ کا اطمینان اور صبر ‘ اپنے جانی دشمنوں کے لیے ہدایت کی دعائیں اور چند ہی سالوں میں ایک کامیاب حیرت انگیز انقلاب ‘ ان میں سے کون سی چیز ہے جو آپ ﷺ کی شہادت کی کے لیے کافی نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے آپ ﷺ کی رسالت چونکہ ایک حقیقتِ ثابتہ ہے کہ جس کا انکار اہل کتاب جیسے دشمنوں سے بھی ممکن نہ ہوا۔ بدترین مخالف بھی آپ کا اعتراف کرنے پر مجبور رہے۔ اس لیے منافقین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یوں تو ہر رسول ہی دنیا میں اطاعت کرانے کے لیے آتا ہے لیکن یہ اللہ کا آخری اور عظیم رسول تو اس قدر شان کا مالک ہے کہ اس کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ اور صاف فرمایا کہ جس نے اس رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے اس کی اطاعت سے روگردانی کی تو اے پیغمبر ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کے نہیں بھیجا کہ آپ یہ دیکھتے پھریں کہ کون آپ کی اطاعت کرتا ہے اور کون نہیں۔ آپ کی اطاعت چونکہ اللہ کی اطاعت ہے اس لیے یہ دیکھنا ہمارا کام ہے کہ ہمارے رسول کی کون اطاعت کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ یہاں پہنچ کر خود بخود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت ٹھہرایا ہے اور اس پر اپنے رسول کو نہیں خود اپنے آپ کو نگران بنادیا ہے تو اس کی نگرانی کے نتیجے میں جو لوگ عدم اطاعت میں پکڑے جائیں گے ان کو جس طرح کا عذاب ہوگا اس کے تصور سے بھی کپکپی چھوٹ جاتی ہے۔ منافقین کو درحقیقت اسی انجام کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ تم اپنے رویے کو درست کرو ورنہ اس انجام کے لیے تیار رہو۔
Top