Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 77
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً١ۚ وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ١ۚ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ؕ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ١ۚ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى١۫ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قِيْلَ : کہا گیا لَھُمْ : ان کو كُفُّوْٓا : روک لو اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتُوا : اور ادا کرو الزَّكٰوةَ : زکوۃ فَلَمَّا : پھر جب كُتِبَ عَلَيْهِمُ : ان پر فرض ہوا الْقِتَالُ : لڑنا (جہاد) اِذَا : ناگہاں (تو) فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان میں سے يَخْشَوْنَ : ڈرتے ہیں النَّاسَ : لوگ كَخَشْيَةِ : جیسے ڈر اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ خَشْيَةً : ڈر وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِمَ كَتَبْتَ : تونے کیوں لکھا عَلَيْنَا : ہم پر الْقِتَالَ : لڑنا (جہاد) لَوْ : کیوں لَآ اَخَّرْتَنَآ : نہ ہمیں ڈھیل دی اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : مدت قَرِيْبٍ : تھوڑی قُلْ : کہ دیں مَتَاعُ : فائدہ الدُّنْيَا : دنیا قَلِيْلٌ : تھوڑا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت خَيْرٌ : بہتر لِّمَنِ اتَّقٰى : پرہیزگار کے لیے وَ : اور لَا تُظْلَمُوْنَ : نہ تم پر ظلم ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
(کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر لڑائی فرض کردی گئی ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی ؟ کچھ اور مہلت کیوں نہ دی ؟ کہہ دو اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے اور تمہارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہیں ہوگی
اَلَمْ تَرَ اِلٰی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ج فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً ج وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ ج لَوْ لَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ط قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ التَّقٰی قف وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ” کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر لڑائی فرض کردی گئی ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی ؟ کچھ اور مہلت کیوں نہ دی ؟ کہہ دو اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے اور تمہارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ “ (النسآء : 77) اس آیت کا پس منظر اور پیش منظر گزشتہ سے پیوستہ آیت میں ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر نہ صرف قتال فرض فرمایا بلکہ ” مالکم “ کہہ کر اس پر اکسایا بھی اور ایک طرح سے تنبیہ بھی فرمائی کہ تمہارے سامنے اتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے اور تمہارے اپنے دینی بھائیوں کو بری طرح اذیتیں پہنچائی جا رہی ہیں۔ تو ان کی آزادی کے لیے تم قتال کیوں نہیں کرتے۔ اب اس آیت کریمہ میں اس حکم کے پس منظر کی طرف بھی اشارہ ہے اور بعد کی صورتحال کو بھی واضح فرمایا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے قتال کا حکم آنے سے پہلے یقینا مسلمانوں میں ان مظلوموں کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ کیونکہ یہ مظلوم مکہ معظمہ میں ہوں ‘ گرد و نواح کے علاقوں میں یا دور دراز قبیلوں میں ‘ ان کے قرابت دار اور جاننے پہچاننے والے لوگ تھے جو ہجرت کرنے کی طاقت رکھتے تھے وہ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آچکے تھے اور جو لوگ پیچھے اپنی بےبسی اور بےبضاعتی کے باعث اذیتوں کا شکار تھے ان کے حالات سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ پہلے اگر ان سے قرابت اور وطن کا رشتہ تھا تو اب ان رشتوں سے بڑھ کر دینی رشتہ قائم ہوچکا تھا۔ اس لیے جب بھی وہ ان کو یاد کرتے تو دل گرفتہ ہوجاتے۔ اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے اپنے احساسات کا تذکرہ بھی کرتے ہوں۔ اس لحاظ سے ان ظلم رسیدہ لوگوں کا بار بار تذکرہ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں ہوتا ہوگا۔ ان کے لیے دعائیں بھی کی جاتی ہوں گی ‘ دشمنوں کی اذیت رسانی پر غم و غصہ کا اظہار بھی کیا جاتا ہوگا اور کبھی کبھی آنحضرت ﷺ سے یہ درخواست بھی کی جاتی ہوگی کہ آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ اللہ ہمیں قتال کی اجازت دے اور ان غم زدہ مسلمانوں کے غموں کے ازالے کی کوئی صورت پیدا فرمائے۔ مخلص مسلمانوں اور آنحضرت ﷺ کے درمیان اس گفتگو میں منافقین بھی یقینا موجود ہوتے۔ انھیں اپنے نفاق اور اپنے ایمان کی کمزوری کا بخوبی اندازہ تھا اور ساتھ ہی اس بات کی فکر بھی رہتی تھی کہ ہم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے پائے جس سے مسلمانوں کو ہمارے نفاق کا شبہ ہونے لگے۔ چناچہ جیسے ہی ان کی موجودگی میں اس طرح کی باتیں چھڑتیں تو وہ آگے بڑھ کر دشمنوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتے۔ اور دشمن قبیلوں میں مصائب میں گھرے ہوئے مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار بھی کرتے۔ اور جب قتال کی بات ہوتی تو دوسرے لوگوں سے زیادہ جوش و خروش دکھاتے اور بڑھ چڑھ کر مطالبہ کرتے کہ ہمیں پہلی فرصت میں اس ظلم کا ازالہ کرنا چاہیے اور ان مظلوموں کو نجات دلانے کے لیے طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ قتال سے پہلے معنوی ‘ اخلاقی اور روحانی تیاری کے لیے نماز اور روزہ کا حکم آنحضرت ﷺ چوں کہ اللہ کے رسول تھے اس لیے آپ ﷺ کوئی بھی اقدام اللہ کے حکم اور اس کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ بظاہر ان جاں فروشوں کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے کہ تمہارا جوش و جذبہ قابل قدر ہے اور تمہاری حمیت و غیرت میں بھی کوئی شبہ نہیں لیکن جب تک اللہ کی طرف سے حکم نہیں آجاتا ہم کوئی سا بھی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ اور مزید یہ کہ جنگ محض جوش و خروش اور دعو وں سے تو نہیں لڑی جاتی ‘ اس کے لیے تو مناسب تیاری کرنا ہوگی۔ تم سرِ دست اپنے ہاتھوں کو روک کے رکھو یعنی ابھی طاقت کے استعمال کا وقت نہیں آیا۔ یہ تیاری کا مرحلہ ہے۔ تیاری ایک تو وہ ہے جو اسلحہ کی فراہمی اور رسد و کمک کے انتظامات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے لیے سوچنا اور انتظام کرنا تو عمائدین حکومت کی ذمہ داری ہے ‘ لیکن مسلمانوں پر جو تیاری فرض ہے وہ ان کی اپنی زندگیوں کے حوالے سے ہے۔ اور یہ تیاری دوسری تیاری سے بدرجہا ضروری ہے۔ کیونکہ میدانِ جنگ میں یا قوموں کے مقابلے میں فیصلہ کن چیز قوموں کا حوصلہ اور ان کا کردار ہوتا ہے۔ اور اللہ کی راہ میں لڑنے والے تو زیادہ تر اللہ کی ذات اور اپنے کردار پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ ان کی اصل طاقت اللہ پر بےحد مضبوط ایمان ‘ دل میں اس کے ساتھ بےپناہ محبت و عقیدت ‘ ہر طرف سے کٹ کر اسی کے ساتھ وابستگی ‘ زبان پر اس کی حمد کے ترانے ‘ اعضاء وجوارح پر اس کے احکام کا نفاذ اور اسی کے لیے جینے اور مرنے کی تڑپ ‘ یہ ساری چیزیں مل کر اخلاص و للٰہیّت کہلاتی ہیں۔ اسی سے ایک ایسا فردتیار ہوتا ہے جو فی سبیل اللہ جنگ لڑ سکتا ہے۔ اور اس کی جنگ کا مقصد نہ ذاتی شجاعت کا اظہار ہوتا ہے ‘ نہ کسی علاقے پر قبضہ ‘ بلکہ از اول تا آخر صرف اللہ کی رضا مطلوب ہوتی ہے ‘ اسی کے لیے وہ جینا چاہتا ہے اور اسی کے لیے وہ موت سے کھیل جاتا ہے۔ ایسے افراد جب تیار ہوجاتے ہیں۔ تو پھر ان افراد میں مضبوط نظم و اطاعت اور ناقابلِ شکست شیرازہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس سے وہ ایسی سیسہ پلائی دیوار بن جائیں جس میں شیطان یا دشمن کبھی نقب نہ لگا سکے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ ضرورت نماز سے پوری ہوتی ہے۔ دن میں پانچ دفعہ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ دن اور رات کے نوافل آدمی کی اندر للٰہیّت پیدا کرتے ہیں۔ نمازوں میں تسبیح وتحمید ‘ رکوع و سجود ‘ قیام و قعود اور خضوع و خشوع میں استغراق ‘ اخلاص کی تکمیل کرتے ہیں۔ مصروف اوقات سے نکل کر بار بار نماز کی حاضری اللہ سے بےپناہ وابستگی اور قوم میں شیرازہ بندی کو مضبوط بناتی ہے۔ پھر نماز میں قطار بندی اور صفوں کی برابری کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ‘ ہر طرح کے تفاوت کا مٹا دینا ایک امام کی اقتدا میں تمام حاضرین کا حرکت میں آنا ‘ اس کے ایک اشارے پر اٹھنا ‘ جھکنا ‘ بیٹھنا اور سلام پھیرنا ایک ایسی مشق ہے جو فوج کے ڈسپلن کو پیدا کرتی ہے ‘ جس میں جرنیل کے حکم کو آخری حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو جنگ کے لیے افراد کی تیاری میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں اور نماز کی پابندی سے ان میں سے ایک ایک چیز کا پیدا کیا جانا نہایت آسان ہے۔ افراد کی تیاری کے ساتھ ساتھ جنگ کے مصارف بھی بےحد اہمیت رکھتے ہیں۔ جن حکومتوں کے پاس بےپناہ وسائل ہیں وہ تو اپنے وسائل پر جنگی مصارف کا انحصار کرسکتے ہیں۔ لیکن مدینے کی ریاست کے پاس تو وسائل نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ ان کا اللہ کے بعد اگر کوئی وسیلہ تھا تو وہ مسلمانوں کے صدقات ِ واجبہ اور نافلہ تھے۔ اسی سے معمول کی زندگی میں بھی کام چلایا جا رہا تھا اور اسی کی بنیاد پر جنگیں لڑی جاسکتی تھیں۔ مصارفِ جنگ کی تیاری کے لیے اس وسیلہ کی فراہمی کی ایک ہی صورت تھی کہ مسلمانوں میں انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس جذبہ کو پیدا کرنے کا سب سے اہم ذریعہ زکوٰۃ کی ادائیگی کی پختہ عادت ہی بن سکتی تھی۔ اس لیے یہاں فرمایا کہ تم نماز کا اہتمام کرو اور ادائے زکوۃ کو اپنی عادت بنادو۔ جب تمہیں زکوۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کی اصل روح کو سمجھنے کی توفیق ملے گی کہ زکوۃ کوئی بڑا مال نہیں محض اڑھائی فیصد ہے۔ لیکن اس سے یہ تربیت ملتی ہے کہ یہ مال میرا نہیں اللہ کا ہے۔ میرے پاس اس کی امانت ہے۔ عام معمول کی زندگی میں تو میں اڑھائی فیصد ادا کر کے سرخرو ہوجاتا ہوں ‘ لیکن اگر ملک ‘ ملت اور جہاد کی ضرورتوں کو اس سے زیادہ کی ضرورت پڑے تو میں اللہ کی اس امانت کو روکنے کا مجاز نہیں۔ یہی دونوں جذبے امت کی حقیقی روح اور اس کی حقیقی قوت کے ضامن ہیں۔ جس سے جہاد و قتال کی تیاری ممکن ہے۔ جب بھی مسلمانوں کو اللہ کے راستے میں کوئی جنگ درپیش ہو تو اسلحہ جنگ اور رسد و کمک کے انتظامات کے ساتھ ساتھ یہی وہ اصل تیاری ہے جس سے اللہ کے راستے میں جنگ کی جاسکتی ہے۔ اور اگر مادی ضرورتوں کی تیاری تو مکمل ہو لیکن یہ معنوی ‘ اخلاقی اور روحانی تیاری نہ کی جائے تو جہاد فی سبیل اللہ نام کی لڑائی بھی جہاد فی سبیل النفس بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی جنگ کرنے والوں کے سر پر بیشک سبزپھریرا لہرا رہا ہو اور بیشک اس میں اللہ اکبر کے نعرے بھی گونج رہے ہوں لیکن اپنے مقصد اور اپنی روح کے اعتبار سے یہ محض ایک لڑائی ہوگی جہاد فی سبیل اللہ یا قتال فی سبیل اللہ نہیں ہوگا۔ یہ وہ بات تھی جو ان منافقین سے کہی جا رہی تھی۔ لیکن وہ محض اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کے لیے بار بار قتال کی اجازت طلب کر رہے تھے۔ اب جب کہ قتال ان پر فرض کردیا گیا تو زبانی دعوئوں کی حقیقت کھلنے لگی۔ اب وہ مسلمانوں سے منہ چھپانے لگے کیونکہ قتال پکنک منانے کو تو نہیں کہتے ‘ یہ تو جان و تن کی بازی ہے جسے کھیلنا منافقین کا کام نہیں۔ اس میں سر کندھوں سے اترتے ہیں ‘ بازو کٹتے ہیں ‘ جسم زخموں سے چور ہوتا ہے ‘ دنیا اندھیر ہوجاتی ہے ‘ ایسا خطرناک راستہ تو صرف وہ شخص اختیار کرسکتا ہے جو صرف اللہ سے ڈرتا اور صرف اسی سے محبت کرتا ہو۔ اب ان کا حال یہ ہوگیا کہ جنگ کی ہولناکیوں کا تصور انھیں ہراساں کرنے لگا۔ اور وہ اعدائے اسلام سے اس طرح خوف کھانے لگے جس طرح اللہ سے خوف کھانا چاہیے۔ بلکہ اللہ سے بڑھ کر لوگوں سے ڈرنے لگے۔ اگر ان کے دل میں صرف اللہ کا ڈر ہوتا تو دنیا سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف بس جاتا اور وہ لذت آشنائی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں تو انھیں تو دوعالم سے بیگانہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ وہ قوت کے اصل سرچشمے سے آگاہ ہونے کے بعد نام نہاد دنیا کی قوتوں سے کبھی لرزاں و ترساں نہیں ہوتے۔ وہ بادشاہوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح بات کرتے ہیں گویا ان کی نگاہوں میں بادشاہ لکڑی کے کندوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جنھیں تحت پر سجا کے بٹھا دیا گیا ہے۔ لیکن ان منافقین کے دلوں میں چونکہ اللہ کا تعلق پید انھیں ہوسکا اس لیے وہ عجیب بےچینی کا شکار ہیں۔ تنہائی میں ہم کلامی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ الٰہی تو نے یہ قتال ہم پر کیوں فرض کردیا ؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ابھی اس میں مزیدتاخیر کی جاتی۔ کمزور آدمی جب کسی بڑے مقصد کی طرف بلایا جاتا ہے تو اس کی کمزوری کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ مقصد سے انکار کرنے کی بھی جرأت نہیں رکھتا اور نہ اس بلاوے پر لبیک کہنے کی ہمت پاتا ہے۔ تو پھر وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ مجھے آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار نہیں۔ لیکن ابھی میرے حالات سازگار نہیں۔ مجھے ایک مختصر مدت کے لیے مہلت دے دیجیے اس کے بعد میں انشاء اللہ جو آپ کہیں گے کرنے کے لیے حاضر ہوں گا۔ حالانکہ مختصر مدت گزرنے کے بعد بھی نہ اس میں ہمت آئے گی نہ اس کی کمزوری دور ہوگی۔ یہ ایک دفع الوقتی ہے جس سے وہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یہی حال اس وقت منافقین کا تھا۔ منافقین کا اصل روگ لیکن ان کا جو اصل روگ تھا جس کی وجہ سے وہ سراسیمہ ہو رہے تھے قرآن کریم نے اس سے پردہ اٹھایا۔ فرمایا ” قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ج وَ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ التَّقٰی “ (کہہ دیجیے متاع دنیا قلیل ہے اور آخرت اس کے لیے انتہائی بہتر ہے جس شخص کے دل میں اللہ کا خوف ہے) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں جان دینے کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے انسانی ذہن کی ساخت بدلنے کی ضرورت ہے۔ انسانی ذہن کی ساخت جن تصورات کی دیواروں پر قائم ہے ان میں بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا ایک حقیقت ہے اور آخرت محض ایک مفروضہ۔ مذہبی لوگوں نے ایک بہلاوا بنا رکھا ہے جس سے خود بھی بہلتے ہیں اور دوسروں کو بھی بہلاتے ہیں۔ غالب نے ایسے ہی لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا ؎ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے بہلاے کو غالب یہ خیال اچھا ہے آخرت کا چونکہ پوری طرح یقین پیدا نہیں ہوتا اس لیے باز پرس کا بھی خوف پیدا نہیں ہوتا۔ ہزار اس بات کو دہرایا جائے کہ اللہ ایک ایک بات کو جانتا ہے۔ ہمارا نامہ عمل تیار ہو رہا ہے ‘ ہمارے دونوں کندھوں پر دو فرشتے ہماری پوری زندگی کی فائل تیار کرنے میں مصروف ہیں ‘ ہم سے ایک ایک عمل کے بارے میں باز پرس ہوگی ‘ ہمارا ایک ایک احساس مجسم شکل میں ہمارے سامنے لا رکھا جائے گا۔ ان باتوں کو سن لیا جاتا ہے لیکن یہ باتیں حلق سے نیچے نہیں اترتیں۔ دنیا کی حقیقت چونکہ سامنے دکھائی دیتی ہے اس لیے انسان کو اسی کا یقین آتا ہے ‘ اسی کی طلب میں وہ محنت کرتا ہے مشقت اٹھاتا ہے اور جان کھپاتا ہے۔ اسی کی محرومی کو حقیقی محرومی سمجھتا ہے ‘ اسی کے غم کو غم اور اسی کی خوشی کو خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس دنیا کے معمولی فوائد کے لیے دیانت چھوڑ دینا انسان کا روز مرہ ہے۔ اس کی دلچسپیاں انسانی زندگی کا حاصل ہیں۔ اسی کی متاع کو حقیقی اور دیرپا متاع سمجھتا ہے۔ اپنے سامنے جنازے اٹھتے بھی دیکھتا ہے لیکن اسے یقین نہیں آتا کہ میری بھی باری آئے گی۔ اپنے عزیزوں کو اپنے ہاتھ سے لحد میں اتارتا ہے لیکن باہر نکل کر پھر دنیا میں گم ہوجاتا ہے۔ یہ وہ احساسات اور تصورات ہیں جس سے ایک دنیا دار انسان کی ذہنی ساخت تیار ہوتی ہے۔ منافقین سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تم انہی تصورات کے تحت زندگی گزار رہے ہو حالانکہ تمہیں ایمان لانے کے بعد اس بات کا یقین پید اکر لینا چاہیے کہ متاع دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ چند روزہ کھیل ہے جو اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ نہ حکمران باقی رہے ‘ نہ دولت مند ‘ زندگی جس طرح غریب کی گزرتی ہے امیر کی بھی گزرتی ہے۔ زندگی کا سفر ختم ہونے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی جتنی برف کے گھلنے میں یا بلبلے کے ٹوٹنے میں۔ ایک شخص ساری عمر دولت جمع کرتا رہتا ہے۔ اچانک آگ لگ جاتی ہے اور دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ یا خود اس کی زندگی تمام ہوجاتی ہے تو وہ سب کچھ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے چھوڑ جاتا ہے دولت جمع کرنے والا اور دولت ہی کے لیے جینے والا شخص ایک چوکیدار کا فرض انجام دیتا ہے۔ پہرہ داری کرتا رہتا ہے اور دوسروں کے حوالے کر کے چلا جاتا ہے۔ جب تک زندہ رہتا ہے اس بت کو پوجتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے اسی پوجا میں میری زندگی ہے۔ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا : ؎ یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ امر واقعہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا کی حقیقت کو سمجھ لیا ان کے لیے دنیا بےحقیقت ہو کر رہ گئی۔ ان کے وقت میں برکت آگئی ‘ ان کی صلاحیتیں دولت دنیا کو جمع کرنے کی بجائے انسانیت کی خدمت میں صرف ہونے لگیں ‘ وہ اس دھوکے اور فریب سے نکل گئے کہ دنیا کی حقیقت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کے لیے جینا بھی آسان ہوگیا اور مرنا بھی آسان ہوگیا۔ انھیں دولت ملتی ہے تو نہ جانے کس کس کے کام آتی ہے۔ اور اگر نان شبینہ پر گزارہ کرنا پڑتا ہے تو وہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ وہ جانتے ہیں کہ انسان انسانیت سے بلند ہوتا ہے۔ انسانی مفادات کے پتھر اسے ڈبونے کے کام آتے ہیں ‘ سرافراز ہونے میں کوئی مدد نہیں دیتے۔ وہ اپنی ذات کی تعمیر میں لگا رہتا ہے۔ وہ جانتا ہے : تری ذات میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری منافقین کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ متاع دنیا کی خاطر اپنی عاقبت تباہ مت کرو۔ دنیا فانی ہے آخرت باقی ہے۔ متاعِ دنیا قلیل ہے ‘ متاعِ آخرت ابدی اور سرمدی ہے۔ دنیا کی نعمتیں ناقابلِ یقین ہیں آخرت کی نعمتیں یقینی ہیں۔ دنیا ایک فریب نظر ہے آخرت سراسر یقین ہے۔ دنیا تن پروری ہے اور آخرت من کا اجالا ہے ‘ سوزومستی کا عنوان ہے۔ جذب و شوق کا حاصل بھی اور جذب و شوق کا ذریعہ بھی ؎ من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن من کی دنیا ہاتھ آتی ہے تو پھرجاتی نہیں تن کی دنیا چھائوں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن جب تک من کی دنیا آباد نہیں ہوتی یعنی اس میں تقویٰ پیدا نہیں ہوتا اور صرف اللہ سے لو لگا کر آسودگی حاصل نہیں ہوتی اس وقت تک آخرت کا یقین پید انھیں ہوتا۔ منافقین سے کہا جا رہا ہے کہ متاع دنیا کی حرص چھوڑو آخرت کی طلب اور آخرت کی تیاری زندگی کا عنوان بنالو اور ساتھ ہی اس بات کا یقین رکھو کہ اگر تم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے اور تم نے آخرت ہی کو اپنا مقصود بنا لیا اور اسی کے لیے محنت کرنا اور جان لڑانا شروع کردیا تو یاد رکھو تمہیں ایک ایک بات کا ویسے ہی اجر ملے گا جیسے اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ تمہارے ساتھ ذرہ برابر بھی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ تم اپنے اندر تبدیلی پید اکر کے تو دیکھو کس طرح اللہ کی رحمت تم پر قربان ہوتی ہے۔ لیکن تمہاری مشکل یہ ہے کہ تم نے جس طرح متاع دنیا سے جی لگا رکھا ہے اسی طرح تمہیں یہ بھی اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر ہم نے مسلمانوں کی طرح جہاد و قتال میں حصہ لینا شروع کردیا تو اس بات کا کیا بھروسہ ہے کہ ہماری زندگی محفوظ رہے گی۔ متاعِ دنیا اور متاع زندگی دونوں کے لیے عافیت اسی میں ہے کہ کبھی جہاد و قتال کا نام نہ لیا جائے۔
Top