Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
(اے ایمان والو ! ہوشیار رہو (اپنے اسلحہ سنبھالو) اور جہاد کے لیے نکلوٹکڑیوں کی صورت میں یا جماعتی شکل میں
یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُـبَاتٍ اَوِانْفِرُوْا جَمِیْعًا (اے ایمان والو ! ہوشیار رہو (اپنے اسلحہ سنبھالو) اور جہاد کے لیے نکلوٹکڑیوں کی صورت میں یا جماعتی شکل میں) (النسآء : 71) آیت کا پس منظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات کریمہ جنگ احد کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کے باعث بظاہر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کے ستر جلیل القدر اور بہادر صحابہ شہید ہوگئے۔ مشرکینِ مکہ اگرچہ اس شکست سے فائدہ نہ اٹھا سکے ‘ لیکن مدینہ کے اطراف و اکناف میں رہنے والے قبائل کے حوصلے ضرور بڑھ گئے۔ اور قریش کو بھی اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ انھوں نے اپنی اس عارضی عزت اور شہرت کو مستحکم کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف اپنی کوششوں کا دائرہ وسیع کردیا۔ جو لوگ مسلمانوں کی طاقت کے خیال سے دبے ہوئے تھے انھوں نے پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ جا بجا مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ جنگ میں شکست کے باعث جو زخم لگے تھے ابھی وہ مندمل نہ ہونے پائے تھے کہ مسلمانوں کے سامنے اپنے وقار کی بحالی اور اسلام کی عزت و حرمت کی بقا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ان ناگفتہ بہ حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قرآن کریم نے ان آیات میں مسلمانوں کو کچھ ہدایات دی ہیں۔ مشکل الفاظ کی تشریح ان ہدایات کو ذکر کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ چند مشکل الفاظ کی تشریح کردی جائے۔ آیت میں ’ ’ حذر “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ” حِذْرٌ و حِذَرٌ“ دونوں ہم معنی ہیں۔ کسی خوفناک چیز سے چوکنا اور ہوشیار رہنے کو حذر کہتے ہیں۔ خُذُوْا حِذْرَکُمْ کا معنی ہوگا کہ اپنی احتیاط اور ہوشیاری کو پوری طرح بروئے کار لائو یعنی ہوشیار رہو۔ بعض اہل علم کے نزدیک حِذرْ کا اطلاق اصلاً تو دفاعی آلات پر ہوتا ہے جیسے زرہ بکتر ‘ سپر اور خود وغیرہ۔ لیکن کثرت استعمال سے اب عام اسلحہ پر بھی اس کا اطلاق ہونے لگا ہے۔ یعنی تمام اسلحہ جو ہر طرح کی جنگی ضرورتوں کے کام آتا ہے مثلاً تیر ‘ تفنگ ‘ تلوار وغیرہ انھیں بھی حِذرْ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے خُذُوْا حِذْرَ کُمْ کا معنی ہے کہ اپنے آپ کو اسلحہ سے مسلح رکھو اور اپنا اسلحہ سنبھال کر تیار رہو۔ دونوں معنوں کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے یہاں دو ہدایات دی گئی ہیں۔ دو ہدایات ایک تو یہ کہ جنگ احد کی شکست نے چونکہ تمہارے دشمن کو دلیر کردیا ہے اور چھوٹے چھوٹے قبائل تمہارے خلاف سازشیں کرنے لگے ہیں تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم کبھی بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو اور ہر وقت بیدار اور ہوشیار رہو۔ دشمن کبھی بھی اچانک تم پر حملہ کرسکتا ہے یا کسی تدبیر سے تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یا بظاہر تم سے محبت کی پینگیں بڑھا کر تمہارے افراد کو گزند پہنچا سکتا ہے۔ تمہارا کام یہ ہے کہ کبھی ان پر اعتماد نہ کرو۔ تبلیغ و دعوت کے کام میں بھی تم میں سے کوئی آدمی اکیلا وکیلا نہ نکلے۔ اور دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ تمہیں ہر وقت مسلح رہنے کی کوشش کرنا چاہیے اور حالات کو دیکھتے ہوئے صورت حال کا جو بھی تقاضا ہو اس سے عہدہ برآ ہونے میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اب اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ تم دشمن کو اس بات کا یقین دلا دو کہ ہم سو نہیں رہے بلکہ پوری طرح بیدار ہیں اور جنگ احد نے ہمارے حوصلوں کو شکست نہیں کیا۔ ہم زخمی شیر کی طرح انگڑائی لے کر اٹھتے ہیں تو پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ کوئی بھی حادثہ ہمیں کمزور نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ہماری قوت صرف اللہ پر اعتماد اور توکل ہے۔ جب تک اس ذات کی تائید ہمیں حاصل ہے ہم بڑے سے بڑے حادثے سے بھی کامیابی سے گذر جائیں گے۔ زندگی کا ثبوت دینے کے لیے تمہیں اگر فوج کے مختلف دستے بھیج کر شب خون مارنا پڑے یا گوریلا جنگ لڑنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرنا۔ اور اگر یہ دیکھو کہ کوئی بڑا قبیلہ یا چند قبائل کا اجتماع تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو پوری جماعتی قوت کے ساتھ ان کا سامنا کرو۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے جنگ کے ان دونوں طریقوں پر پوری احتیاط لیکن انتہائی بیدار مغزی سے عمل کیا۔ آپ ﷺ نے حالات کی تفتیش یا گوریلا جنگ کے لیے چھوٹے چھوٹے فوج کے دستوں کی صورت میں سرایا بھی بھیجے۔ اور بڑی جنگوں کے لیے غزوات بھی روانہ فرمائے جس میں بہ نفس نفیس شرکت فرمائی۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نئے جذبوں سے سرشار اور ان ہدایات سے بہرہ ور ہو کر اللہ پر بےپناہ اعتماد اور توکل کرتے ہوئے اٹھے اور ایک مختصر سے وقت میں جنگ احد سے پیدا ہونے والے اثرات کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ ان سرایا اور غزوات کی تفصیل دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب آنحضرت ﷺ اور مسلمان کوئی نہ کوئی جنگی اقدام کرتے نظر نہیں آتے۔ جاں سپاری اور سرفروشی کے درخشندہ واقعات سے ایک ایک لمحہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں مسلمانوں کو جماعتی حیثیت سے محفوظ اور مضبوط بنانے کے لیے ایک اور ہدایت بھی دی جا رہی ہے اور حالات سے گھونگھٹ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
Top